اقبالیات (اردو) رئیسِ ادارت محمد سہیل عمر مجلسِ ادارت رفیع الدین ہاشمی طاہر حمید تنولی ارشاد الرحمن اقبال اکادمی پاکستان مقالات کے مندرجات کی ذمہ داری مقالہ نگار حضرات پر ہے۔ مقالہ نگار کی رائے اقبال اکادمی پاکستان کی رائے تصور نہ کی جائے۔ یہ رسالہ اقبال کی زندگی ، شاعری اور فکر پر علمی تحقیق کے لیے وقف ہے اور اس میں علوم و فنون کے ان تمام شعبہ جات کا تنقیدی مطالعہ شائع ہوتا ہے جن سے انھیں دلچسپی تھی ، مثلاً: اسلامیات ، فلسفہ ، تاریخ، عمرانیات ، مذہب ، ادب ، آثاریات وغیرہ ۔ سالانہ : دو شمارے اقبالیات (جنوری ، جولائی) دو شمارے Iqbal Review(اپریل ، اکتوبر) بدل اشتراک پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : -؍۳۰ روپے سالانہ : -؍۱۰۰ روپے بیرون پاکستان (مع محصول ڈاک) فی شمارہ : ۶ امریکی ڈالر سالانہ : ۲۰ امریکی ڈالر ٭٭٭ تمام مقالات اس پتے پر بھجوائیں اقبال اکادمی پاکستان (حکومت پاکستان، وزارت ثقافت) چھٹی منزل ، اکادمی بلاک ، ایوان اقبال ، ایجرٹن روڈ ، لاہور Tel:92-42-6314510 Fax:92-42-6314496 Email:director@iap.gov.pk Website:www.allamaiqbal.com مندرجات خ نظریۂ پاکستان اور زمینی حقائق ڈاکٹر جاوید اقبال ۱ خ اقبال اور مسلم ہندی قوم پرستوں کے تحفظات ڈاکٹر ایوب صابر ۱۳ خ اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو(ایک علمی نشست کی روداد) ڈاکٹر زاہد منیر عامر ۳۹ خ علامہ اقبال کے ایک ناقد: ڈاکٹر اختر حسین راے پوری ڈاکٹر خالد ندیم ۵۹ خ کلامِ اقبال کا استعاراتی نظام ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ۷۵ خ اقبال اور اُردو زبان ڈاکٹر سعید اختر درانی ۹۹ خ اقبال اور معراج النبی ا محمد شفیع بلوچ ۱۰۹ خ اقبال کی سوانح پر نئی روشنی (دوسری قسط) خرم علی شفیق ۱۱۹ خ اقبال اور مولانا رومی ڈاکٹر علی رضا طاہر ۱۳۳ بحث و نظر خ استفسارات احمد جاوید ۱۴۵ اقبالیاتی ادب خ علامہ اقبال کے یادگاری ’’ڈاک ٹکٹ‘‘ فہیم احمد خان ۱۵۵ خ اشاریہ ششماہی اقبال ریویو حیدرآباد سمیع الرحمن ۱۶۱ خ علمی مجلات کے مقالات کا تعارف ادارہ ۱۸۷ قلمی معاونین ڈاکٹر جاوید اقبال ۶۱؍بی، مین گلبرگ، لاہور ڈاکٹر ایوب صابر ۷۷۵،گلی نمبر۷۲،آئی ایٹ تھری، اسلام آباد ڈاکٹر زاہد منیر عامر استاد زائر مسند اردو و مطالعہ پاکستان، جامعہ الازہر، قاہرہ مصر ڈاکٹر خالد ندیم استاد شعبہ اردو، یونی ورسٹی آف سرگودھا ڈاکٹر بصیرہ عنبرین استاد شعبہ اردو، اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ڈاکٹر سعید اختر درانی ۳،سیلی کلوز، سیلی پارک، بی ۲۹، ۷ جے جی، برمنگھم، انگلستان محمد شفیع بلوچ موضع درگاہی شاہ، ڈاک خانہ ۱۸ ہزاری، تحصیل و ضلع جھنگ ڈاکٹر علی رضا طاہر استاد شعبۂ فلسفہ، پنجاب یونی ورسٹی، قائد اعظم کیمپس، لاہور خرم علی شفق رفیق علمی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور سمیع الرحمن رکن مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹جے ، ماڈل ٹائون لاہور فہیم احمد خان ……… احمد جاوید نائب ناظم، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نظریۂ پاکستان اور زمینی حقائق ڈاکٹر جاوید اقبال برصغیر میں مسلم امت کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے جن تحریکوں نے کام کیا، ان میں تحریک مجاہدین اور تحریک خلافت دو نمایاں تحریکیں ہیں۔بدقسمتی سے ان دونوں تحریکوں کی مساعی نتیجہ خیز نہ ہو سکیں اور یہ تحریکیںنا کامی سے دو چار ہوئیں۔ا ن کے بعد تحریکِ پاکستان ایک ایسی تحریک تھی جو کامیاب بھی ہوئی اور اس کے اثرات بھی پوری دنیا پر محسوس کیے گئے۔دراصل پہلی دو تحریکوں اور بعد کی تحریک کے طریقۂ کار میں جوہری فرق تھا۔ پہلی دونوں تحریکوں نے وقت کے بدلے ہوئے تقاضوں سے بے توجہی برتی،تقلیدی اجتہادات پر انحصار کیا اور محض جوش جذبے پر عمل کی بنیاد رکھی جبکہ تحریکِ پاکستان نے ان دونوں کی روش کے برعکس راستہ اختیار کیا اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے نتیجے میں پاکستان قائم ہو گیا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان آج تک اپنے اس بنیادی نظریے کی تطبیق اور نفاذ سے محروم چلا آ رہا ہے جس کے سبب ملک میںکوئی مستحکم نظام قائم نہیں ہو سکااور ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔ تحریک پاکستان سے پیشتر برصغیر میں دو تحریکیں ’’اسلام‘‘ کے نام پر چلیں۔ پہلی تحریک ’’وہابی تحریک‘‘ کہلائی جس نے اس اجتہاد پر عمل کیا کہ برصغیر انگریزوں کے تسلط کے بعد ’’دارالاسلام‘‘ نہیں رہا بلکہ ’’دارالحرب‘‘ بن چکا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں: یہاں سے کسی مسلم ملک کی طرف ’’ہجرت‘‘ کرجائیں یا ’’جہاد‘‘ کے ذریعے اپنا کھویا ہوا سیاسی اقتدار حاصل کریں۔ ’’ہجرت‘‘ ممکن نہ تھی،لہٰذا ’’جہاد‘‘ کیا گیا لیکن شکست کھائی۔ مسلمانوں پر غدر کا الزام لگا۔ ۱۸۷۰ء میں ’’جہادیوں‘‘ کے ٹرایل ہوئے۔ بعضوں کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا، باقی جزائر انڈیمان میں ہمیشہ کے لیے ملک بدر کردیے گئے۔ یوں یہ تحریک اپنے انجام کو پہنچی۔ دوسری تحریک ’’خلافت تحریک‘‘ کہلائی جس نے اس اجتہاد پر عمل کیا کہ چونکہ برطانوی حکمرانوں نے ترکی خلافت کو بروئے کار لانے کا جو وعدہ مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا پورا نہیں کیا، اس لیے مسلمان برصغیر سے ’’ہجرت‘‘ کرکے کسی ہمسایہ مسلم ملک میں چلے جائیں۔ چنانچہ پنجاب اور سندھ کے مسلم کاشتکاروں نے اپنی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ ہندو ساہوکاروں کو بیچ کر اہل و عیال سمیت افغانستان کا رخ کیا۔ افغان حکومت نے اپنے ملک میں اُن کا داخلہ بند کردیا۔ نتیجے میں واپسی پر ان مظلوموں پر جو گزری بیان کرسکنا مشکل ہے۔ دوسری طرف ترکوں نے خود ہی اپنی خلافت منسوخ کردی۔ ہندوؤں کے ساتھ اتحاد بار آور ثابت نہ ہوا۔ لہٰذا یہ تحریک اپنی موت آپ مرگئی۔ دونوں تحریکوں نے برصغیر میں ’’اسلام‘‘ کے وجود کا احساس پیدا کیا، اگرچہ دونوں ناکام ہوئیں۔ ’’تحریک پاکستان‘‘ بھی ’’اسلام‘‘ کے نام پر چلی اور اپنے مقاصد کی تحصیل میں کامیاب ہوئی۔ کیوں؟ دونوں گزشتہ تحریکوں کی ناکامی کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں: (ا) وقت کے بدلے ہوئے تقاضوں سے بے توجہی (ب) تقلیدی اجتہادات پر انحصار (ج) محض جوش و جذبے پر عمل کی بنیاد رکھی گئی۔ ہماری اجتماعی سوچ میں دراصل ’’جدیدیت‘‘ کی ابتدا سرسید احمد خان کے افکار سے ہوتی ہے۔ اُن کی تعلیمی اصلاحات اور سیاسی نظریات پر قدامت پسندوں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے۔ تعلیم کے میدان میں اُن کی اصلاحات راجہ رام موہن رائے کی اصلاحات سے ایک صدی بعد نافذالعمل ہوئیں، جس کے سبب مسلمان ہندوؤں سے جدید تعلیم کے حصول میں ایک سوبرس پیچھے رہ گئے تھے۔ سرسید کے علاوہ حالی، شبلی اور اکبر الٰہ آبادی کو اسی طرح جدید یین قرار دیا جاسکتا ہے جیسے سید جمال الدین افغانی اور اُن کے ترکی، مصری یا ایرانی ہمعصر مفکروں اور سیاسی مدبروں کو جدیدیین کہا جاتا ہے۔ اِنھی شخصیتوں نے مسلمانوں میں قومی شاعری اور قومی فکر کی بنیاد رکھی جسے اقبال نے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اقبال دراصل اُصول حرکت، عقل استقرائی اور عقل اختباری کی روشنی میں اسلامی تمدن اور اسلامی عقاید کو از سر نو متعین کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے سرسید، حالی، شبلی، اکبر اور دیگر مسلم اہل فکر نے اس صورت حال کو اس طرح نہیں سمجھا تھا، جیسے اقبال نے سمجھا۔ جدید معنوں میں ’’دوقومی نظریہ‘‘ کے اصل بانی سرسید ہی تھے، کیونکہ اُنھوں نے مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے سے منع کیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ برصغیر میں ہندو اور مسلم دو مذہبوں کی بنیاد پر ’’دو قومیں‘‘ آباد ہیں۔ لہٰذا اِس سرزمین میں اگر جمہوریت کے اُصول نافذ کیے گئے تو مسلم قوم تب تک خسارے میں رہے گی جب تک سیاسی اقتدار دونوں قومیں آپس میں برابر برابر بانٹ نہیں لیتیں۔ مگر ہندو بحیثیت مجموعی اکثریت میں ہیں، اس لیے وہ ایسا کبھی قبول نہ کریں گے۔ سرسید کے اسی خدشے پر اقبال نے اظہار خیال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ برصغیر کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے کم از کم وہاں تو وہ اپنا حقِ خود ارادیت استعمال کرتے ہوئے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اب ہمارے بعض دانشور فرماتے ہیں کہ خطبہ الٰہ آباد میں تو علامہ نے ہندوستان کے اندر مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا تھا۔ یہ دانشور یا تو کسی سیاسی انداز فکر کی حالات کے پیش نظر بتدریج ارتقاء کے قائل نہیں یا اُنھوں نے اقبال کے خطوط بنام جناح (جو قائداعظم نے خود شائع کیے) پڑھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ اسی طرح وہ قائداعظم کے کیبنٹ مشن پلان قبول کرنے کو پاکستان کے نصب العین کے موقف سے اُن کا انحراف کرنا قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسے اقدام کو سیاسی سٹریٹجی تصور کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ بعدازاں وہ پاکستان کی تحصیل کی خاطر قائداعظم کے اعلانِ راست اقدام کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں۔ ایسی تحقیق بہرصورت بے مقصد ہے کیونکہ پاکستان وجود میں آچکا ہے اور اگر واقعی بامقصد ہے تو اُسے کنفیوژن پھیلانے کے لیے ہی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ بقول ڈاکٹر فضل الرحمن سرسید تاریخ اسلام کے سب سے بڑے نکتہ چین تھے اور ان کے بعد اقبال۔ بلکہ بقول سید نذیر نیازی قاہرہ کے علما کو باقاعدہ درخواست دی گئی کہ اقبال کے پیش کردہ نظریات کو اسی طرح مردود قرار دیا جائے جیسے ان سے پیشتر سرسید کے خیالات کو کفریات قرار دیا گیا تھا۔ مسلم قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے قیام پر اقبال کی زندگی میں اُن کا جو ’’مناظرہ‘‘ (قومیں اوطان سے بنتی ہیں یا عقاید سے) مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوا تھا اس کے سبب علماے ہند نے اقبال کو کبھی معاف نہیں کیا۔ مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی کتاب جو علامہ کی وفات کے بعد علماشائع ہوئی میں ارشاد فرما رکھا ہے کہ اقبال ساری عمر غلط فہمیوں کا شکار رہے اور ’’ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا۔‘‘ یعنی انگریز حاکموں کی ایما پر ہندوستان کے ٹکڑے کرانا چاہتے تھے۔ غالباً اسی بنا پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (مصنف وقائع اقبال) تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کی نادر شخصیت میں بعض ایسی خامیاں تھیں جن سے نجات حاصل کرسکنے کا انھیں موقع نہ ملا۔ معلوم ہوتا ہے ان سب حضرات کا اقبال پر نکتہ چینی کا سبب دراصل مسلم قومیت کی بنا پر ان کا تصور جدید اسلامی ریاست تھا۔ راقم کے اس خیال کی تائید مولانا نجم الدین اصلاحی کے ارشاد سے ہوتی ہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو ایک شاعر اور فلسفی سے زیادہ اہمیت دینے کو شرعی جرم سمجھتے ہیں اور یہ کہ پاکستان میں قانون سازی کا اُصول فکر اقبال کی روشنی میں تو ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان جس ’’اسلام‘‘ کے نام پر بنا ہے وہ مرحوم ہی کے فلسفہ کا دوسرا نام ہے۔ قائداعظم نے ’’دوقومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر جب تحریک پاکستان شروع کی تو اُنھیں بھی علماے ہند کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں ’’کافر اعظم‘‘ کا خطاب دیا گیا اور پاکستان قائم ہوجانے کے بعد تو بعض حلقوں نے برملا اعلان کیا کہ ہم اس گناہ میں شریک نہیں ہوئے جس کی بنا پر پاکستان وجود میں آیا۔ غالباً اسی پس منظر میں قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں ارشاد فرمایا تھا کہ ان کی مسلم لیگ نے مسلمانوں کو تین منفی قوتوں سے نجات دلائی ہے، یعنی انگریز حاکموں، ہندوؤں اور مولوی اور مولانا صاحبان سے۔ یہ درست ہے کہ علما حضرات کی اکثریت نے جب محسوس کیا کہ پاکستان اب وجود میں آہی جائے گا تو وہ تحریک میں شامل ہوگئے۔ ’’دوقومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر علیحدہ مسلم ریاست کا قیام ایک جدید تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانان برصغیر کی ’’قومیت‘‘ اسلام سے وابستہ ہے۔ یعنی نسل، رنگ، زبان یا علاقہ کے بجائے ان کی ’’قومیت‘‘ ایک مشترکہ روحانی سرچشمے سے ماخوذ ہے۔ اپنی شناخت کے اس شعور نے بالآخر تخلیق پاکستان کے لیے ایک اُصول کی شکل اختیار کرلی۔ یوں اسلام برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جدید معنوں میں قوم سازی کا محرک بنا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس تصور کے ذریعے روایتی اسلامی اقدار کو جدید لبرل افکار سے ہم آہنگ کیا گیا۔ اس مرحلے پر ایک وضاحت کی ضرورت ہے۔ اقبال ’’قدیم‘‘ اور ’’جدید‘‘ کی بحث کو غیرضروری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب ’’قدیم‘‘ کی تعبیر نو اس طرح کی جائے کہ وہ وقت کے نئے تقاضوں کے عین مطابق ہو تو وہی ’’جدید‘‘ ہے۔ گویا ’’جدید‘‘ ’’قدیم‘‘ سے منقطع نہیں بلکہ ملحق ہے۔ یا حرکت کے اُصول کے تحت ہر انسانی عمل گزشتہ سے پیوستہ ہے۔ وہ اس تسلسل ہی کو ارتقا کا نام دیتے ہیں۔ یہی ’’اقبالی تصورِ جدید‘‘ ہے۔ اُس کے مقابلے میں ’’انقلابی تصورِ جدید‘‘ یہ ہے کہ ’’قدیم‘‘ کو بالکل منہدم کرکے ہی ’’جدید‘‘ وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ یعنی نقوشِ کہن کو کلی طور پر مٹا کر ہی ’’نئے صبح و شام‘‘ پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قائداعظم نے اصطلاح ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کبھی استعمال نہیں کی۔ یہ تصور بعد کی اختراع ہے۔ اگر ایسا ہے تو اُن کی تقریروں میں ’’مسلم آئیڈیالوجی‘‘ اور ’’اسلامک سوشلزم‘‘ کی اصطلاحات سے کیا مراد لی جائے؟ کیا ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ قائداعظم کے نزدیک تحریک پاکستان کی بنیاد مسلم قومیت کا اُصول اور پاکستان کا قیام مسلمانوں کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے؟ قائداعظم کی زیرقیادت تحریک پاکستان کیوں کامیاب ہوئی جبکہ اس سے پیشتر اسلام کے نام پر مسلمانوں کی سیاسی تحریکیں ناکام رہیں؟ اس لیے کہ یہ تحریک: (ا) وقت کے بدلے ہوئے تقاضوں کے مطابق تھی۔ (ب) مسلم قوم کے لیے ریاست کی جستجو، گویا ایک نئے اجتہاد پر انحصار کیا گیا۔ (ج) محض جوش و جذبہ کے بجائے عقلی حکمت عملی کے مطابق عمل کیا گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگرچہ عہد نبوی میں قرآنی احکام کی تعبیر سے ریاست کے بارے میں چند اُصول متعین ہوگئے تھے لیکن سیاسی اعتبار سے ریاست کو کبھی ایک مکمل چیز نہیں سمجھا گیا۔ آنحضور صلعم کی وفات کے بعد جب خلفاے راشدین کا دور آیا تو حکمرانی کے لیے آئینی طور پر مختلف تجربے کیے گئے۔ مثلاً انتخاب، نامزدگی، انتخاب بذریعہ محدود حلقہ انتخاب، استصواب رائے اور بالآخر غصبِ اقتدار جس نے ۶۶۱ عیسوی سے لے کر ۱۹۲۴ عیسوی تک موروثی مطلق العنان ملوکیت کی مختلف شکلیں اختیار کیں۔ روایتی فقہا نے ریاست کے سیاسی نظام اور قانونی نظام کے درمیان خط امتیاز کھینچا ہے۔ اسی امتیاز کی بنا پر اکثر فقہا کی رائے میں ایک غاصب کی حکمرانی کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں اگر وہ مسلمانوں کے دینی فرائض کی انجام دہی میں مداخلت نہ کرے اور شریعت نافذ کرنے کا مدعی ہو۔ تاریخ اسلام میں سیاسی نظام نے تو کئی شکلیں بدلیں اور اسی طرح قانونی نظام بھی قرآن و سنت کے احکام کی کسی ایک تعبیر پر مبنی نہیں رہا، بلکہ اربابِ اقتدار اپنے مطلق العنانانہ مزاج کے تحت ایسے شاہی فرامین صادر کرکے فرماں روائی کرتے رہے جو شرعی قوانین کے ماورا اور بسااوقات اُن سے متصادم ہوتے تھے۔ ریاست کے تینوں وظیفوں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی آزادی کو تو خلفاے راشدین کے عہد سے تسلیم کیا جاتا تھا مگر بعدازاں مطلق العنان حکمرانوں کی گرفت ان تینوں وظیفوں پر مضبوط ہوگئی۔ خصوصی طور پر ’’شوریٰ‘‘ جس کا تعلق مقننہ سے تھا صاحبان اقتدار کے لیے محض ایک ’’مجلس مشاورت‘‘ کی حیثیت اختیار کرگئی۔ جس کے اراکین فرماںروا اپنی مرضی کے مطابق چنتے اور جو انتظامیہ سے متعلق ہونے کی وجہ سے، یعنی وزیر و کبیر ہونے کے سبب ان کے وفادار ہوتے۔ اسی طرح تاریخ اسلام کے آخری ادوار میں عدلیہ کے قاضیوں اور مفتیوں کی آزادی بھی ختم کردی گئی۔ وہ وہی فیصلے یا فتوے دیتے جو فرماںروا کو قبول ہوتے۔ فرماںرواؤں کی مطلق العنانی کے سبب بالآخر ترکی کے عثمانی خلفا کے عہد میں انقلابی صورت حالات پیدا ہوگئی۔ خلافتِ ترکی کی بقا کی خاطر سید جمال الدین افغانی نے ’’آئینی خلافت‘‘ (ایسی خلافت جو ملکی آئین کی پابند ہو) کی تجویز پیش کی، جس پر ترکی کے شیخ الاسلام نے فتویٰ صادر کیا کہ قرآنی حکم کے تحت اولوالامر کی اطاعت فرض ہے۔ لہٰذا جو کوئی خلیفہ کے اختیارات کو محدود یا آئین کا پابند کرے وہ سرکش اور کافر ہے۔ نتیجے میں خلافت کی تنسیخ عمل میں آئی، خلیفہ کے تمام اختیارات ترکی کی منتخب اسمبلی کو منتقل ہوئے اور ترکی میں ’’سیکولرڈیماکریسی‘‘ قائم کی گئی۔ اقبال کے نزدیک خلیفہ یا امام کے تمام اختیارات جمہوری طور پر منتخب مسلم اسمبلی کو منتقل کردینا درست اقدام تھا۔ ان کی رائے میں اگر ’’شوریٰ‘‘ کو موقع فراہم کیا جاتا تو وہ ’’مشاورتی ادارہ‘‘ بننے کے بجائے جدید پارلیمنٹ کی طرح ایک مقتدر ادارہ بن سکتا تھا۔ اقبال نے ’’ترکی سیکولرزم‘‘ کو رد کرتے ہوئے منتخب مسلم اسمبلی کو اسلامی امور پر قانون سازی کے معاملے میں ’’اجتہادِ مطلق‘‘ کا اختیار دے دیا۔ پس بانیان پاکستان، بالخصوص اقبال کو احساس ہوگیا تھا کہ شرعی قوانین کی تعبیرنو کے لیے پاکستان میں اجتہاد کا طریقِ کار استعمال کرنا پڑے گا۔ قائداعظم جناح کو پختہ یقین تھا کہ وفاقی پارلیمانی نظامِ جمہوریت جو انسانی حقوق کی ضمانت دے، تمام شہریوں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرے اور قانون کی بالادستی کا علم بردار ہو، اسلامی احکام کے منافی نہیں بلکہ عین مطابق ہے۔ بالفاظ دیگر اقبال اور قائداعظم دونوں نے روایت کو جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرلیا اور یوں ایک جمہوری اسلامی ریاست میں ہم عصر وفاقی پارلیمانی طرزِ حکومت قائم کرنے کا جواز پیدا ہوگیا۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد اُسے اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دے دیا گیا۔ قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں منظور ہوئی جو بعدازاں ۱۹۵۶ئ، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں دیباچہ کے طور پر شامل کی گئی۔ مستقبل میں پاکستان میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کی خواہش کا اظہار ان دساتیر کے ابواب متعلقہ اُصول سرکاری پالیسی اور ان اسلامی دفعات سے ہوتا ہے جن کے تحت اسمبلیوں میں اسلامی قانون سازی میں مشورہ دینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل وجود میں لائی گئی۔ لیکن آج تک اس ادارے سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان کو ابتدا ہی سے ایسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن کا بانیان پاکستان نے تصور تک نہ کیا تھا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے سال بعد قائداعظم فوت ہوگئے۔ بعدازاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ سیاسی قیادت میں خلا پیدا ہوجانے کے سبب ایسے بیوروکریٹ سامنے آگئے جن کا تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پاکستان کے قیام کے تقریباً دس برس بعد یعنی ۱۹۵۶ء میں پہلا آئین بنا، جسے دوسال بعد سکندر مرزا نے بحیثیت صدر منسوخ کردیا۔ بالآخر ۱۹۵۹ء میں جنرل ایوب خان نے عسکری استیلا کے ذریعے سکندر مرزا کو فارغ کرکے ملک میں نام نہاد جمہوری نظام کا خاتمہ کردیا۔ ۱۹۶۲ء میں جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کی بنیاد پر صدارتی طرز کا آئین نافذ کیامگر اس کے اپنے زوال کے بعد جنرل یحییٰ خان نے وہ آئین منسوخ کردیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ شفاف انتخابات جنرل یحییٰ خان کے دور میں ہوئے، جن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے مجیب الرحمن کی پارٹی اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ کیے جانے کے سبب اور سیاسی قائدین کی آپس میں چپقلش کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ قائداعظم کے قائم کردہ پاکستان کے حامیوں کے لیے یہ نہایت مایوسی اور بے بسی کا مقام تھا، کیونکہ پاکستان کی علاقائی، لسانی اور نسلی قوتوں نے مسلم قومیت کی روح کو پامال کردیا تھا۔ اگرچہ اندرا گاندھی نے دعویٰ کیا کہ بنگالیوں نے ’’دوقومی نظریہ‘‘ کو خلیج بنگال میں ڈبودیا، لیکن بنگلہ دیش نے مغربی بنگال (بھارت) میں مدغم نہ ہوکر ثابت کردیا کہ ’’دوقومی نظریہ‘‘ کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ بدستور زندہ ہے۔ مگر ہمارے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ محض اسلام پاکستان کی قومی یک جہتی کو مستقل طور پر قائم رکھنے کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ چند اور لوازمات مثلاً سماجی انصاف، معاشی خوشحالی وغیرہ بھی ہیں جنھیں دھیان میں رکھنا ہمارے سیاسی رہنماؤں کے لیے ضروری ہے۔ بہرحال ماحول یا گرد و نواح نے ’’وجدانی‘‘ طور پر پاکستانیوں کے المیے کو محسوس کرتے ہوئے اس صورت حال کا باعث بننے والوں کو ان کی کارکردگی پر کڑی سزادی۔ اگرچہ باقی ماندہ پاکستان کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۳ء میں وفاقی پارلیمانی جمہوری طرز کا آئین نافذ کیا، مگر اس میں اپنی منشا کے مطابق تبدیلیاں کرکے اس کا حلیہ بدل دیا۔ بالآخر اپنی لڑکھڑاتی ہوئی حکومت کو بچانے کی خاطر قدامت پسند مذہبی عناصر کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور شہریوں کی معاشی بہتری کے لیے نہیں، بلکہ نام نہاد ’’ظواہر‘‘ پر مشتمل ان کی اسلامی اصلاحات قبول کرلیں۔ اتوار کے بجائے جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل قرار دے دیا گیا۔ شراب کی خرید و فروخت اور پینے پلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ گھڑدوڑ پر قمار بازی کی ممانعت ہوگئی اور ’’احمدی‘‘ فرقہ کو اقلیت قرار دے دیا گیا۔ پس یوں قیام پاکستان کے تقریباً تیس برس بعد پہلی مرتبہ ’’اسلام‘‘ نافذ کیا گیا۔ لیکن بھٹو کے حریف اُن کی اِن اسلامی اصلاحات کے نفاذ پر بھی مطمئن نہ ہوئے، کیونکہ اُن کا اصل مقصد اسلام کا نفاذ نہیں بلکہ بھٹو سے چھٹکارا پانا تھا۔ چنانچہ انھیں کامیابی تب حاصل ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے بذریعہ غصب سیاسی اقتدار پر قبضہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی تقلید میں اسلام کی سیاست کاری اور فوری نوعیت کے سیاسی مفادات کی خاطر مذہبی حلقوں سے سودابازی کی تنگ نظر پالیسی اختیار کی، جس کے نتیجے میں ۱۹۷۷ء سے اہل پاکستان میں اسلامی انتہاپسندی یا فرقہ واریت کا زہر پھیلتا چلا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد میں نفاذِ اسلام کے لیے کئی اقدام اُٹھائے گئے۔ مثلاً ۱۹۷۳ء کے آئین میں ایسی ترمیم کی گئی جس کے تحت تمام اہم ذاتی دستاویزات یعنی شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ، میں مسلم اور غیرمسلم کے الفاظ کے استعمال سے ان کے آپس میں امتیاز کی نشان دہی کی جاسکے۔ پاکستان کے ضابطۂ تعزیرات میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اسلامی ’’حدود‘‘ کو اس میں شامل کرلیا گیا۔ احمدیوں پر اسلامی طریق عبادت استعمال کرنے کی پابندی لگادی گئی۔ قانون ناموس رسالتؐ نافذ کیا گیا اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانونی طریقِ کار میں جو اصلاحات ضروری تھیں، وہ علما حضرات کے دباؤ کے سبب کی گئیں۔ اس قانون نے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جو پہلے ہی امتیازی سلوک کی شاکی تھیں۔ اسی طرح قانون شہادت میں ایک کے بجائے دو عورتوں کی گواہی جیسی تبدیلیاں لائی گئیں جو آج کے زمانے کے مطابق نہ تھیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں قرار دادمقاصد کو دیباچہ کے بجائے آئین کا مستقل حصہ بنادیا گیا اور اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب قرار پایا۔ اسلامی ’’حدود‘‘ کی سماعت کے لیے محدود اختیار کے ساتھ ایک خصوصی فیڈرل شریعت کورٹ کو وجود میں لایا گیا جس کے جج صاحبان جنرل ضیاء الحق کی مرضی سے مقرر کیے اور ہٹائے جاسکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی ’’اسلامائزیشن‘‘ درحقیقت بعض علما حضرات کی شرعی قوانین کے بارے میں قدامت پسندانہ تعبیر پر مبنی تھی جو کبھی پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ یا ’’اجتہاد‘‘ کے مرحلے سے نہ گزری۔ مثلاً بجائے اس کے کہ اسلامی قوانین کے ذریعے مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ اور دیگر معاشی و معاشرتی مسائل حل کیے جائیں، زیادہ تر زور تعزیرات کے نفاذ پر دیا گیا۔ زکوٰۃ و عشر کی وصولی کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ حکام کی بدعنوانی کے سبب ناکام ہوا اور مستحق افراد اِن فلاحی تدابیر سے مستفید نہ ہوسکے۔ اسلامی تعزیراتی قانون سازی بھی محض تبرکاً، آرایشی یا دکھاوے کی تھی کیونکہ حدود کے قوانین کے تحت متعین سزائیں عملی طور پر نہ دی جاسکتی تھیں اور نہ دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں امن و امان یا لاء اینڈ آرڈر کی ابتر صورتِ حال میں بہتری نہ آسکی۔ ان قوانین کے سبب خصوصی طور پر پاکستان کی دیہاتی یا اَن پڑھ خواتین کی حالتِ زار اور بھی تشویش ناک ہوگئی جنھیں ان قوانین کے ناجائز استعمال کے تحت ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ مختصراً جنرل ضیاء الحق نے اسلامائزیشن کی جو شکل متعارف کرائی وہ اسلام کی اُس تعبیر و تشریح کے بالکل برعکس تھی جو بانیانِ پاکستان کے اذہان میں تھی۔ اس کے باعث نارواداری اور فرقہ واریت میں اس حد تک شدت پیدا ہوئی کہ فرقہ پرست دہشت گردوں کے حریف گروہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا، بلکہ ایسے اوقات میں جب وہ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کررہے ہوتے۔ بانیانِ پاکستان نے اس کا تصور بھی نہ کیا تھا کہ جدید اور کمزور اسلامی جمہوریہ پر قدامت پسند مذہبی عناصر کے زیراثر اسلامائزیشن ہی کا دباؤ نہ پڑے گا بلکہ ناپختہ اور بصیرت سے عاری سیاسی قیادت باربار جرنیلوں کے غضب کا شکار ہوتی چلی جائے گی۔ پاکستان میں جمہوریت کو بے شمار الجھنوں اور دشواریوں سے گزرنا پڑا ہے۔ کسی منتخب حکومت کو اپنی میعاد پوری کرسکنے کا موقع نہ ملا۔ سیاسی جماعتوں کے بجائے سیاسی شخصیتیں ملکی سیاست پر حاوی رہیں۔ ان کی جاگیردارانہ ذہنیت کے سبب آپس میں رقابت اور تصادم یا باربار فوجی مداخلت کے نتیجے میں یہ بے معنی سوال اُٹھایا جاتا رہا کہ صدر اور وزیراعظم کے اختیارات کے مابین توازن قائم نہیں کیا جاسکا، حالانکہ وفاقی پارلیمانی طرزحکومت میں صدر صرف وفاق کی علامت ہوتا ہے جبکہ تمام انتظامی اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے خود اس کی نظیر قائم کردی تھی۔ انھوں نے بحیثیت گورنر جنرل کبھی وزیراعظم لیاقت علی خان کے انتظامی اختیارات میں مداخلت نہ کی۔ تاہم ۱۹۵۶ء کا آئین اس لیے منسوخ ہوا کہ اس کے تحت صدر کو وہ اختیارات تفویض نہ کیے گئے تھے جو ملک غلام محمد یا سکندر مرزا اپنے لیے چاہتے تھے۔ بعد میں ۱۹۶۲ء کے آئین کے تحت صدارتی نظام حکومت کا تجربہ کیا گیا جو جنرل ایوب خان نے اپنی ضروریات کے مطابق وضع کرایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ۱۹۷۳ء کے آئین کے نفاذ کے ذریعے صحیح طور پر وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہوا، جس کے تحت صدر وفاق کی علامت اور وزیراعظم بھٹو مقتدر کل بن گئے۔ لیکن غصب کے ذریعے بھٹو حکومت کے خاتمہ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۷۳ء کے آئین میں دفعہ ۵۸(۲) (بی) کا اضافہ کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اس دفعہ کی رو سے ایک بالواسطہ منتخب صدر کو ایسے اختیارات تفویض کردیے گئے کہ وہ براہِ راست منتخب وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو برخاست اور قومی اسمبلی کو کالعدم قرار دے سکتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی انتخابی کامیابیوں کے باعث دو دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیربھٹو نے سنبھالا۔ دونوں لیڈروں کی سیاسی رقابت نے دشمنی کی صورت اختیار کرلی۔ دونوں فریقوں کے درمیان خوب کیچڑ اچھلا۔ دونوں کو آئین کی دفعہ ۵۸(۲) (بی) کے تحت سول نوعیت کے صدروں یعنی غلام اسحاق خان اور فاروق احمد لغاری نے اقتدار سے علیحدہ کیا۔ بہرحال میاں نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں اسمبلی کے ایک متفق الرائے فیصلے کے تحت آئین میں ترمیم کے ذریعے دفعہ ۵۸(۲)(بی) خارج کروادی۔یوں وفاقی پارلیمانی جمہوریت پھر بحال ہوگئی۔ مگر ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے بذریعہ غصب فارغ کرکے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔ میاں نوازشریف تو جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں بھٹو کے انجام کے پیش نظر اپنے آپ پر عاید کردہ الزامات کے سلسلہ میں فوجی حکومت سے اپنی جان چھڑاکر سعودی عرب چلے گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو خود ہی ترک وطن کرکے دبئی جاآباد ہوئیں۔ جنرل پرویز مشرف کے چوتھے فوجی غصب کے دوران ۱۹۷۳ء کے آئین میں متعدد ترامیم کے ساتھ دفعہ ۵۸(۲) (بی) نہ صرف بحال کردی گئی بلکہ صدر کے اس اختیار کے ساتھ ایک نئے فورم مسمّٰی ’’نیشنل سیکیورٹی کونسل‘‘ کا اضافہ کردیا گیا جو دیگر سول ارکان کے علاوہ چاروں فوجی سربراہان پر مشتمل ہے۔ یعنی آئین میں اس فورم کے ذریعے ملک کے سیاسی نظام میں فوج کو مستقل کردار ادا کرنے کی غرض سے ایک ادارے کی صورت دے دی گئی ہے۔ میاں نوازشریف کے ہٹائے جانے سے پیشتر حکومت پاکستان کی افغان پالیسی افغانستان میں سابق سویت روس کے اقتدار کے خاتمے کی خاطر تیار کردہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ دوستی پر قائم تھی۔ شاید اس پالیسی کی حکمت عملی ان کے اثرو رسوخ کو افغانستان کی سرحدوں تک محدود رکھنا تھا۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے دباؤ پر اس پالیسی کو ختم کرکے اُن کے خلاف محاذ کھول دیا۔ امریکہ کے نزدیک چونکہ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن میں تباہ کن دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار اسامہ بن لادن اور افغانستان پر قابض طالبان تھے، اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ملکوں نے عراق کے علاوہ افغانستان پر بھی تسلط کے لیے حملہ کردیا۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان نے کود کر نہ صرف امریکہ کی طفیلی ریاست بننا قبول کرلیا بلکہ پاکستان دہشت گردی اور خودکش بمباروں کی زد میں آگیا۔ اور اس کا شمار دنیا بھر کے انتہائی غیرمحفوظ اور خطرناک ترین ملکوں میں ہونے لگا۔ جنرل پرویزمشرف اپنی غلط پالیسیوں کے سبب پاکستان کی ناپسندیدہ ترین شخصیت سمجھے جانے لگے۔ بالآخر وکلا، سول سوسائٹی، ذرائع ابلاغ، عوام و خواص کے ساتھ مغربی ممالک کے شدید دباؤ پر اُنھیں نہ صرف جرنیل کی وردی اتارنی پڑی بلکہ ملک میں انتخابات کا اعلان بھی کرنا پڑا۔ انھی حالات میں پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے قائدنوازشریف کو پاکستان واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع بھی فراہم کیا گیا، مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت یا بہیمانہ ٹارگٹ قتل کا معمہ ابھی تک حل نہیں کیا جاسکا۔ فروری۲۰۰۸ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ دوسرے درجے پر مسلم لیگ (ن) رہی۔ آخر کار جنرل پرویزمشرف رضاکارانہ طور پر صدر کے عہدے سے علیحدہ ہوگئے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ نیشنل اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد ختم ہوچکا ہے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضاگیلانی ہیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں جو ناجائز ترامیم جنرل پرویزمشرف نے کی تھیں، اُسی طرح برقرار ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں، خصوصی طور پر سوات اور وزیرستان میں حکومت کا اختیار قریب قریب ختم ہوچکا ہے۔ ان علاقوں میں حاکموں کی کرپشن، بنیادی سہولتوں کے فقدان اور معاشی بدحالی کے سبب عسکریت پسند طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا ہے اور اب مؤثر سیاسی قیادت کی عدم موجودگی میں نسلی، فرقہ وارانہ اور سیاسی قتلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بلکہ اسلامی شدت پسندی کے فروغ کے سبب خوف کے مارے یہاں کے باشندے بھی طالبان طرز کی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو پاکستان کے دیگر علاقوں میں، مثلاً سارا صوبہ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ، جہاں طالبان پہلے ہی سے خاصی تعداد میں موجود ہیں، اُن کی یلغار کا خدشہ ہے۔ بلکہ بلوچستان میں شرپسندوں کی کارگزاری کے پیش نظر پاکستان کے ٹوٹنے کا بھی خطرہ ہے۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں پاکستانی قوم کو غور کرنا چاہیے کہ نظریہ پاکستان باقی ہے بھی کہ گزشتہ ساٹھ برس کی مدت میں ہمارے قائدین (فوجی و سیاسی) اُسے دفناکر بغیر کسی نئے مقصد کے اِدھر اُدھر مٹرگشت کررہے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے تین بنیادی اُصول یہی تھے اور کہنے کو اب بھی ہیں: (ا) اسلام ہماری قومیت ہے۔ (ب) جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ (ج) فلاحی ریاست ہمارا نصب العین ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام نے ’’دوقومی نظریہ‘‘ زندہ رکھتے ہوئے ہمیں سبق سکھلایا تھا کہ ’’اسلام‘‘ کا لفظ پاکستان کی قومی یک جہتی کو مستقل طور پر قائم نہیں رکھ سکتا جب تک کہ وفاق کے ہر صوبے کے ساتھ عملی طور پر مساوات اور معاشی انصاف ایسے سلوک کو روانہ رکھا جائے۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے یہ سبق سیکھ کر اُس پر عمل کیا؟ اگر عمل کیا ہوتا تو بلوچستان میں واویلے کا سبب کیا ہے؟ سوات میں بندوق کی نوک پر یا امن کی خاطر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانونی نظام سے ہٹ کر کس نوع کے نظام عدل یا شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟ اگر پاکستان کے صوبوں کے مختلف علاقوں میں جو چاہے گا دھڑلے سے اپنی نوعیت کی شریعت یا نظام عدل نافذ کرنے لگے گا تو نظریاتی طور پر پاکستان کے مستقبل کی ضمانت، بطور ایک مقتدر قومی ریاست، کیسے دی جاسکے گی؟ پاکستان کی گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ سے ظاہر ہے کہ غریب عوام میں تعلیم کے فقدان اور جاگیردارانہ ذہنیت رکھنے والی موروثی نوعیت کی ناپختہ اور بصیرت سے عاری سیاسی قیادت کے آپس میں دست و گریبان ہونے کے سبب یہاں فوجی جرنیل بار بار مداخلت کرکے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں مستقل طور پر جمہوری نظام قائم نہیں کیا جاسکا۔ چنانچہ اب بھی حالات موافق نہیں۔ وہی پرانی جانی پہچانی سیاسی شخصیتیں ہیں جو غیر مستحکم سیاسی جماعتوں میں متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ علاوہ اس کے اب تو جرنیلوں کی سیاسی طور پر پے بہ پے ناکامیوں کے سبب فوج بھی اقتدار سنبھالنے کے معاملے میں خاصی بددل ہوگئی ہے۔ اگر حاضر یا منتظر سیاسی قیادت سے پاکستان کے حالیہ مسائل حل کرسکنے کے بارے میں مایوسی ہے تو نظریاتی طور پر پاکستان کے مستقبل کی ضمانت، بطور ایک جمہوری ریاست کیسے دی جاسکتی ہے؟ خصوصی طور پر جب جمہوریت کو کفر قرار دینے والے موجود ہوں۔ اب رہ گیا مسئلہ فلاحی ریاست قائم کرنے کے نصب العین کا۔ سب جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کا سب سے اہم مقصد مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ حل کرنا تھا۔ اس کے لیے پہلا قدم ’’لینڈ ریفارمز‘‘ کے ذریعے جاگیردارانہ نظام و ذہنیت کا قلع قمع کرنا تھا۔ لیکن جنرل ایوب خان اور بعدازاں وزیراعظم بھٹو کے ادوار میں جو ’’لینڈ ریفارمز‘‘ کی گئیں وہ بنیادی طور پر منافقانہ تھیں جن کے باعث نہ جاگیرداری کا خاتمہ ہوا اور نہ جاگیردارانہ ذہنیت سے نجات ملی۔ صنعت و حرفت کے کارخانوں کے فروغ کے سلسلہ میں پاکستان کے ابتدائی دور میں حکومتی کنٹرول کے شانہ بشانہ پرائیویٹ انٹرپرائز کی شمولیت سے جو تھوڑی بہت ترقی کے امکانات پیدا ہوئے تھے، وہ وزیراعظم بھٹو کی بے وقت سوشلائزیشن کی نذر ہوگئے اور بیشتر سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل ہوگیا۔ معاشی طور پر پاکستان کی اب جو کیفیت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ جاگیردارانہ اور کارخانہ دارانہ قیادت آزمائی جاچکی۔ جب تک محنت کش پاکستان کی قیادت سنبھالنے کے قابل نہیں ہوجاتے یہاں فلاحی ریاست کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ جب پاکستان کی اسلامی ری پبلک میں ایک قانون کے بجائے اُس کے مختلف علاقوں میں اپنی اپنی قسم کی شریعت نافذ ہونے لگے، جب پاکستان میں جمہوریت کا تجربہ باربار کیا جائے اور ناکام رہے، اور جب پاکستان کے مفلس اور نادار مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے ایسے حالات پیدا کردیے جائیں کہ لوگ اپنے بچے بیچنے یا خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ نظریہ پاکستان ہے اور زندہ ہے یا زندہ رہے گا؟ اقبال نے غالباً اسی موقع کے لیے درست کہا ہے: وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے، ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں ئ……ئ……ء اقبال اور مسلم ہندی قوم پرستوں کے تحفظات ڈاکٹر ایوب صابر بیسویں صدی میں اسلامیانِ ہند کے رہنمائوں میں تین نام بہت نمایاں ہیں:علامہ محمد اقبال، محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد۔ ان تینوں شخصیات نے اپنے اپنے نقطۂ، نگاہ کے مطابق مسلم امت کی رہنمائی کی۔ مسلم قومیت کے حوالے سے ان کے نقطہ ہائے نگاہ میںاختلاف تو رہا لیکن تینوں ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رہے۔ اس عرصے کی جدوجہد میںمولانا ظفر علی خاں اور مولانا حسین احمد مدنی بھی اقبال سے مختلف نقطۂ نگاہ رکھتے ہوئے شریک رہے، لیکن اس اختلاف میں جذبات کا دخل زیادہ رہا۔ اقبال کے ساتھ ان شخصیات کا اختلاف کس حد تک درست تھا حالات نے اس کا فیصلہ اقبال کے حق میں دیا۔ لیکن افسوس ہے کہ اس فیصلے کے بعد بھی اقبال پر اعتراضات کا سلسلہ بند نہ ہوا، اقبال کے موقف کو غلط ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے تراشے گئے۔ علامہ اقبال، محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کے آسمان پر طلوع ہونے والے اسلامیانِ ہند کے درخشندہ ترین ستارے تھے۔ اقبال نے ۱۹۱۱ء میں امتِ مسلمہ کے موضوع پر علی گڑھ کالج میں خطبہ پڑھا۔۱؎ وہ اپنی بے مثل شاعری سے زوال و جمود کا شکار مسلم قوم کو بیدار کررہے تھے۔ محمد علی جوہر نے ۱۹۱۰ء میں کامریڈ نکالا۔ ابوالکلام کے الہلال کا آغاز ۱۹۱۲ء سے ہوا۔ محمد علی نے ۱۹۱۹ء میں خلافت تحریک شروع کی جو بہت بڑی تحریک تھی۔ ابوالکلام آزاد اس میں پوری طرح شریک تھے۔ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریکیں ساتھ ساتھ چلیں۔ دونوں کی مجموعی قیادت گاندھی کے ہاتھ میں تھی۔ اس دوران انگریز دشمنی کے جذبات کو فروغ حاصل ہوا اور ہندومسلم اتحاد کی گہری روایت قائم ہوئی۔ ۱۹۲۲ء میں گاندھی نے تحریک کے خاتمے کا اعلان کردیا۔۲؎ جس سے مسلمان بہت مایوس ہوئے اور ہندومسلم فسادات کے باعث اتحاد کا تصور بھی گہنا گیا۔ محمد علی اور ابوالکلام کے راستے بھی جدا ہونے لگے۔ ابوالکلام نے ۱۹۱۳ء میں ’حزب اللہ‘ قائم کی تھی اور تب سے ان کی امامت پر بیعت کا سلسلہ جاری تھا۔۳؎ وہ ’امام الہند‘ بننا چاہتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ محمد علی جوہر ان کے سب سے بڑے حریف تھے۔۴؎ آزاد نے امامت کا خیال ترک کرکے خالص سیاسی راستہ اپنا لیا اور کانگرس کے چوٹی کے رہنماؤں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ انھوں نے جب پہلی مرتبہ کانگرس کے اجلاس کی صدارت کی تو ان کی عمر صرف ۳۵ سال تھی۔۵؎ علامہ اقبال نے تحریکِ خلافت میں سرگرم حصہ نہ لیا اور ترکِ موالات کو مضر تصور کیا۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کے حامی لیکن متحدہ ہندی قومیت کے مخالف تھے۔ خلافت اور ترکِ موالات کی متحدہ تحریک متحدہ ہندی قومیت کی داغ بیل ڈال رہی تھی۔ علی گڑھ تحریک انگریز دوستی کا مظہر تھی لیکن حسرت موہانی اور محمد علی جیسے بت شکن علی گڑھ ہی کے پروردہ تھے۔ ترکِ موالات کی رو میں محمد علی نے علی گڑھ کے مقابلے پر جامعہ ملیہ قائم کی جس کے مقاصد میں ہندوستانی متحدہ قومیت شامل تھی۔۶؎ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرح جمعیت العلمائے ہند بھی اسی دور میں قائم ہوئی اور متحدہ ہندی قومیت کی علمبردار بنی۔ الگ مسلم قومیت کا تصور اقبال نے اپنی منظومات بعنوان ’وطنیت‘، ’ترانہ ملّی‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ نیز خطبۂ علی گڑھ اور رموزِ بے خودی میں پیش کیا تھا۔ اقبال نے وضاحت کی کہ مسلم قومیت کا انحصار وطن، نسل یا اقتصادی اغراض پر نہیں ہے، خود اسلام پر ہے۔ یہ آواز منفرد اور ممتاز تھی اور اس نے مسلم سیاست کا رخ متعین کردیا۔ ہندی اُردو نزاع کے باعث سرسید نے بھی مسلم قوم کو ہندوقوم سے الگ تصور کیا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ علی گڑھ یونی ورسٹی مسلم قومیت کی علمبردار اور تحریکِ پاکستان کا مرکز جبکہ جامعہ ملیہ متحدہ ہندی قومیت کا محور بنی۔ قومیت کے مسئلے پر محمد علی نے اقبال پر تنقید کی۔ محمد علی اسلامی قومیت اور ہندی قومیت دونوں کے علمبردار تھے۔ مسئلہ قومیت پر مولانا مدنی اور اقبال کے مابین زبردست معرکہ آرائی ہوئی۔ ابوالکلام اور اقبال کا براہِ راست ٹکراؤ نہ ہوا۔ دونوں بڑوں نے اس سے پہلو تہی کی۔۷؎ حالانکہ خالص ہندوستانی قومیت کے سب سے بڑے علمبردار ابوالکلام ہی تھے۔ انھوں نے وحدتِ ادیان کا موقف اختیار کیا اور اس سے متحدہ ہندی قومیت کے تصور کو تقویت پہنچائی۔ مولانا مدنی اتنا آگے نہیں جاسکتے تھے۔ انھوں نے اسلامی حوالہ تلاش کیا اور ’میثاقِ مدینہ‘ کو متحدہ قومیت کا جواز بناکر پیش کیا۔۸؎ اسلام بہرحال ان کی زندگی پر حاوی تھا۔ مولانا محمد علی کی شیفتگیِ اسلام بھی کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ تاہم وہ دو دائروں کے اسیر تھے، ایک اسلامی اور دوسرا ہندوستانی۔ انھوں نے اپنی آخری تقریر [۱۹۳۰ئ] میں یہی بات، زور دے کر کہی۔۹؎ ابوالکلام آزاد بھی اس طرح کی باتیں کرتے تھے لیکن ان کی سیاست ان کے مذہب پر حاوی ہوچکی تھی۔ انھوں نے درحقیقت تصورِ قومیت کو غیر دینی بنیادوں پر استوار کیا اور سب سے بڑے نیشنلسٹ مسلمان رہ نما کے طور پر نمایاں ہوئے۔ ان کے ایک پیروکار مشیر الحسن لکھتے ہیں: ابتدائی دنوں میں ان کا تناظر قرآن، حدیث اور اسلام کی عظیم روایات سے متعین ہوا تھا۔ بعد میں یہ صورت نہیں رہی۔ اب انھوں نے یہ استعداد پیدا کرلی کہ خالص سیاسی مسائل پر غور یا گفتگو کرتے ہوئے غیر ضروری مذہبی مصالح سے قطع نظر کرلیں۔ رفتہ رفتہ وہ غیر دینی قومیت کی نظریاتی بنیادوں کی طرف بڑھتے چلے گئے اور مسلمانوں میں اس کے سب سے اہم ترجمان بن گئے۔۱۰؎ ۲ ابوالکلام آزاد نے ہندو مسلم اتحاد کی تلقین الہلال کے پہلے پرچے میں بھی کی تھی۔۱۱؎ تاہم وہ دوقوموں کے اتحاد کی بات تھی جو بہرحال ’ہندو مسلم متحدہ قومیت‘ سے مختلف ہے۔ تب ابوالکلام مقامی وطنی نقطۂ نظر کے خلاف تھے اور عالمگیر اسلامی تحریک کے حامی تھے۔ چنانچہ الہلال کے اجرا کے تھوڑے عرصے بعد، خواجہ حسن نظامی کو، ایک خط میں لکھتے ہیں: آج کوئی وطنی یا مقامی تحریک مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔۔۔۔ جب تک تمام دنیائے اسلام میں ایک بین الاقوامی اور عالمگیر تحریک نہیں ہوگی، زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔۱۲؎ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۴ء کے اجلاسِ عام، بمقام کلکتہ، میں خطاب کرتے ہوئے ابوالکلام نے کہا: یہ برادری [مسلم قوم یا ملتِ اسلامیہ] خدا کی قائم کی ہوئی ہے۔ ہر انسان جس نے کلمۂ لا الٰہ الا اللّٰہ کا اقرار کیا، اس برادری میں شامل ہوگیا۔ خواہ مصری ہو، خواہ نائجیریا کا وحشی ہو، خواہ قسطنطنیہ کا تعلیم یافتہ ترک۔ لیکن اگر وہ مسلم ہے تو اس ایک خاندانِ توحید کا عضو ہے جس کا گھرانا کسی خاص وطن اور مقام سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ تمام دنیا اس کا وطن اور تمام قومیں اس کی عزیز ہیں۔۱۳؎ آگے چل کر ابوالکلام نے وطنی مقامی نقطۂ نظر اختیار کرلیا۔ خدا کی قائم کی ہوئی اسلامی برادری کے بجائے ہندوستانی قومیت کو قدرت کا اٹل فیصلہ قرار دے دیا۔ یہ تبدیلی گاندھی سے ملاقات [۱۹۲۰ئ] کے بعد آئی۔ ۱۹۴۰ء میں کانگرس کے صدر کی حیثیت سے اپنے خطبے میں کہا: ہماری ہزار برس کی مشترک زندگی نے ایک متحدہ قومیت کا سانچا ڈھال دیا ہے۔ ایسے سانچے بنائے نہیں جاسکتے۔ وہ قدرت کے مخفی ہاتھوں سے خودبخود بناکرتے ہیں۔ اب یہ سانچا ڈھل چکا اور قسمت کی مہر اس پر لگ چکی۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں مگر اب ہم ایک ہندوستانی قوم بن چکے ہیں۔ علیحدگی کا کوئی بناوٹی تخیل ہمارے اس ایک ہونے کو دو نہیں بناسکتا۔ ہمیں قدرت کے فیصلے پر رضامند ہونا چاہیے۔۱۴؎ ہندو اور مسلمان ہزار برس کی مشترک زندگی کے باوجود الگ الگ قومیں تھیں۔ ابوالکلام کا موقف درست نہیں تھا۔ درست نظریہ وہی تھا جسے اقبال نے پیش کیا اور ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء تک مسلسل اس کی آبیاری کی۔ علامہ اقبال کا یہ کارنامہ ہے کہ ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے اکابر نیشنلسٹ علما کا سحر توڑ دیا۔ ہندی مسلمانوں نے اُن کی بات رد کردی اور اقبال کے نظریے کو اپنالیا۔ پاکستان کی تجویز جب کانگرس نے بھی مان لی تو ابوالکلام بہت مایوس ہوئے اور جب ان کے آخری سہارے، گاندھی نے بھی اس تجویز سے اتفاق کرلیا تو ان کے صدمے کی انتہا نہ رہی۔۱۵؎ ’خاندانِ توحید‘ کے لیے اپنی جملہ توانائیاں صرف کرکے ابوالکلام ’امام الہند‘ بن سکتے تھے لیکن وہ اسلام کی متحد کرنے والی قوت ہی کا انکار کرنے لگے تھے۔۱۶؎ شیخ محمد اکرام نے ابوالکلام کے وسیع مطالعے، تیز نظر، ذہانت اور مذہبی جوش کی تعریف کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان میں مذہبی تجدید کی ساری صلاحیتیں موجود تھیں لیکن انھیں انتہائی بلندی پر پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ وہ شاہ ولی اللہ جیسا مقام حاصل نہ کرسکے۔ اس کی وجہ شیخ محمد اکرام نے خود ابوالکلام کی زبانی بیان کی ہے۔ وہ یہ کہ’’سیاسی زندگی کی شورشیں اور علمی زندگی کی جمعیتیں ایک زندگی میں جمع نہیں ہوسکتیں۔‘‘ ۱۷؎ ابوالکلام کی بات درست ہے تاہم اس المیے کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ ابوالکلام عالمگیر اسلامی قومیت کا تصور ترک کرکے وطنی قومیت پر فدا ہوگئے اور ان کے نقطۂ نظر نے عملاً سیکولرازم کا راستہ ہموار کیا۔۱۸؎ اسلامی احیا کے لیے اپنی استعداد کو وقف کرکے وہ شاہ ولی اللہ کا سا مقام حاصل کرسکتے تھے لیکن اپنی معروف سیاست اور اسلامی فکر میں تنزل کے باعث ان کے دینی مرتبے کو ضعف پہنچا، یہاں تک کہ کلکتہ کے مسلمانوں نے ان کی امامت میں نمازعید پڑھنا ترک کردیا تھا۔۱۹؎ علامہ اقبال نے، براہِ راست، کبھی ابوالکلام کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا تھا، نہ ابوالکلام نے کبھی ایسا کیا۔ محمد علی جوہر اقبال کے مداح اور ارادت مند تھے لیکن پوری طرح اقبال کی پیروی نہ کی بلکہ وطنی قومیت کے جوش میں اقبال کے خلاف، یکے بعد دیگرے، پانچ مضامین لکھ کر شائع کردیے۔ جامعہ ملیہ کے اہلِ علم و دانش نے محمد علی کی روایت کو، ایک حد تک، زندہ رکھا ہوا ہے اور اقبال پر اعتراضات کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ مولانا مدنی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے علامہ اقبال کے خلاف ایک رسالہ بعنوان متحدہ قومیت اور اسلام تصنیف کیا جس میں ’’متحدہ قومیت‘‘ کے لیے اسلامی دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے ’معرکۂ دین و وطن‘ کا آغاز ہوچکا تھا۔ دیوبندی مسلک کے وہ علما جو مولانا مدنی سے ارادت مندی کے باعث قیامِ پاکستان کی مخالفت کو بھی روا رکھتے ہیں، علامہ اقبال کو سخت تنقید و اعتراضات کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ ابوالکلام کے اثرات علما سمیت ہندی قوم پرست مسلمانوں بلکہ ہندوؤں تک وسیع ہیں۔ ان کا بھارت کی تاریخ میں بھی ایک مقام ہے، اگرچہ وہ صدر یا وزیرِ اعظم نہ بنائے گئے البتہ جس طرح علامہ اقبال کا مقبرہ شاہی مسجد لاہور کے پہلو میں ہے، اسی طرح ابوالکلام کا مزار جامع مسجد دہلی کے سامنے واقع ہے۔ ہندی قوم پرست مسلمان رہ نما کی حیثیت سے ان کا کردار مرکزی تھا۔ ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر اور مولانا حسین احمد مدنی کے اثرات برابر کام کررہے ہیں۔ ہندی وطنی قومیت کی حمایت اور علامہ اقبال کے خلاف مہم جاری ہے۔ متحدہ قومیت کے حامی، پاکستانی علما کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ دراصل ان کا بنیادی مسئلہ مولانا مدنی کا دفاع ہے۔، اقبال شکنی کی مہم اسی وجہ سے جاری ہے البتہ بھارت میں قوم پرست علما اور دا نش ور ہندی قوم پرستی کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ اقبال پر ان کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ اقبال نے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی تشکیل کا ذہن بنایا۔۲۰؎ ۳ مولانا محمد علی بہت جذباتی انسان تھے۔ بقول مولوی عبدالحق وہ مختلف، متضاد اور غیرمعمولی اوصاف کا مجموعہ تھے۔ وہ بہت محبت اور ایثار کرنے والے تھے لیکن بعض اوقات ذرا سی بات پر اس قدر آگ بگولا ہوجاتے تھے کہ دوستی اور محبت طاق پر دھری رہ جاتی تھی۔۲۱؎ علامہ اقبال کو اپنا استاد مانتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے لیکن ترکِ موالات، مسئلہ قومیت اور سائمن کمیشن کے مقاطعے کے ضمن میں اقبال کو تند و تیز اعتراضات کا ہدف بنایا۔ محمد علی جس راستے پر چلے اس کی منزل مایوسی اور خواری تھی۔ اسی لیے انھیں اپنا رویہ تبدیل بھی کرنا پڑا۔ صرف علامہ اقبال ہی کی بصیرت تھی جو درحقیقت مسلمانوں کے کام آئی۔ انھوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے بغیر ہندوؤں سے اتحاد و تعاون کی حمایت کبھی نہ کی۔ اسلامی شخصیت اور اسلامی قومیت ان کے بنیادی نظریات تھے جن کی اقبال نے زندگی بھر آبیاری کی۔ وہ مغرب کی غالب اقوام کی ذہنیت سے خوب واقف تھے۔ مارچ ۱۹۲۰ء میں جب محمد علی خلافت کا وفد لے کر یورپ گئے تو علامہ اقبال نے خلافت کی گدائی کو تاریخ سے آگہی کا فقدان قرار دیا۔۲۲؎ چنانچہ سات ماہ کی ناکام کوشش کے بعد وفد واپس آگیا۔ مسلمانوں کے لیے تحریکِ خلافت مذہبی مسئلہ تھی لیکن اس کی قیادت گاندھی کے ہاتھ میں آگئی۔ اس طرح مسلم عوام گاندھی اور کانگرس کے قریب ہوئے۔ گاندھی نے اس تحریک میں شامل ہوکر وہ فائدہ اُٹھایا جو کسی اور طرح حاصل نہ ہوسکتا تھا۔۲۳؎ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریکیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ مولانا محمد علی، ترکِ موالات کے سلسلے میں، علی گڑھ مہم سرکرکے لاہور پہنچے تاکہ اسلامیہ کالج کو بند کرایا جائے لیکن علامہ اقبال مزاحم ہوئے اور ترکِ موالات کو ٹال دیا۔۲۴؎ اس رویے پر محمد علی شدت سے معترض ہوئے اور اقبال کو ’بے عمل‘ قرار دیا۔۲۵؎ محمد علی دو سال کی قید گزار رہے تھے کہ فروری ۱۹۲۲ء میں گاندھی نے، تحریکِ ترکِ موالات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ ہندی قوم پرست مسلمان سخت الجھن میں پڑگئے۔ محمد علی سزا کاٹ کر جیل سے باہر آئے تو ۱۹۲۴ء میں کانگرس سیشن کی صدارت کی۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کا عروج تھا۔۲۶؎ لیکن ہندو مسلم اتحاد کمزور پڑجانے سے ان کا زوال شروع ہوچکا تھا۔ ۱۹۲۴ء میں ترکوں نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کردیا، اس سے محمد علی کی حیثیت مزید متاثر ہوئی۔ بقول عظیم الشان صدیقی ’’اس رشتے کے کمزور ہوتے ہی محمد علی کی سیاسی حیثیت بھی اس حد تک کمزور ہونے لگی کہ لوگ ان سے چندے کا حساب مانگنے لگے۔‘‘۲۷؎ ترکِ موالات کے خاتمے کے بعد ہندومسلم فسادات شروع ہوگئے۔ لاہور کے مئی ۱۹۲۷ء کے فسادات کے بعد علامہ اقبال نے مسلمانوں کو بار بار صبر و تحمل کی تلقین کی۔ محمد علی نے اس کی تعریف کی لیکن جب علامہ اقبال نے انتظامی عہدوں پر ہندوستانیوں کے بجائے انگریز افسروں کی تقرری کا مطالبہ کیا تو محمدعلی کی نیند حرام ہوگئی۔ ’قوم پروری‘ [ہندی قوم پرستی] کے جوش میں علامہ اقبال کے خلاف ہمدردمیں یکے بعد دیگرے، پانچ مضامین شائع کیے۔ ان مضامین میں اقبال پر انگریز دوستی کا الزام عاید کیا گیا۔۲۸؎ اقبال نے ان مضامین کا کوئی جواب نہ دیا لیکن ۶؍دسمبر ۱۹۲۸ء کو اسلامیہ کالج لاہور میں ایک بڑا جلسہ ہوا جس میں اسلام کی حقانیت پر محمد علی نے ایک پُرتاثیر تقریر کی۔ اس اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ ان کا مختصر صدارتی خطبہ، ایک اعتبار سے، محمد علی کی ہندی قوم پرستی کا جواب تھا۔ اقبال نے کہا کہ اسلام نے اتحاد کی بنیاد رومانی رشتے پر رکھی ہے۔ میری رائے میں اس وقت اسلام کی قوتِ اتحاد و ارتباط کے لیے سب سے بڑی مزاحم قوت جغرافیائی قومیت ہے۔ اس لیے انسانیت کے سچے خادموں کا فرض ہے کہ وہ جغرافیائی قومیت کی مزاحمت کو دور کریں۔۲۹؎ نہرو رپورٹ تیار ہوئی تو مسلمان لیڈروں کے ایک گروہ نے اس کی مکمل حمایت کی۔ ابوالکلام اس گروہ میں شامل تھے۔ دوسرے گروہ نے ترامیم منظور کرانا چاہیں۔ جناح اس گروہ میں تھے۔ تیسرا گروہ رپورٹ کا مخالف تھا۔ اقبال اس میں شامل تھے۔ مرکزی خلافت کمیٹی نے بھی رپورٹ کو مسترد کردیا تھا تاہم محمد علی، کانگرس کے سابق صدر کی حیثیت سے آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں شریک ہوئے۔ نہرورپورٹ کے مخالف گروہ نے دسمبر ۱۹۲۸ء کے اواخر میں، دہلی میں، آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کی۔ اس سے پہلے کلکتہ میں، آل پارٹیز کانفرنس میں، نہرو رپورٹ پیش ہوچکی تھی۔ محمد علی جوہر جب ترمیم پیش کررہے تھے تو کانگرسی ارکان نے کھڑے ہوکر انھیں خاموش کرنا چاہا۔ مولانا ناراض ہوکر دہلی پہنچے اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شامل ہوگئے۔ اب وہ کانگرس سے بددل ہوچکے تھے۔ چنانچہ ۱۹۳۰ء میں جب کانگرس نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو اس میں شرکت کرنے سے قبل محمد علی جوہر نے مسلم مفادات کے تحفظ کی ضمانت چاہی۔ ضمانت نہ ملی تو سول نافرمانی کی تحریک سے الگ رہے۔۳۰؎ یہ رویہ علامہ اقبال کی حکمت عملی کے مطابق تھا۔ پہلی گو میز کانفرنس کے دوران، ۱۹نومبر۱۹۳۰ء کو، محمد علی جوہر نے، اپنی زندگی کی آخری تقریر کے آخر میں کہا: جہاں تک احکامِ خداوندی کے بجالانے کا تعلق ہے میں اوّل بھی مسلمان ہوں، دوم بھی مسلمان ہوں اور آخر بھی مسلمان ہوں۔۔۔ لیکن جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے۔۔۔ میں اوّل بھی ہندوستانی ہوں دوم بھی ہندوستانی ہوں اور آخر بھی ہندوستانی ہوں۔ میں دو برابر کے دائروں سے تعلق رکھتا ہوں جو ہم مرکز نہیں۔۳۱؎ محمد علی کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ متحدہ ہندوستان کی آزادی کی صورت میں دوسرا دائرہ پہلے دائرے پر حاوی ہوجاتا۔ احکامِ خداوندی پر ذاتی حیثیت سے عمل تو ہوتا، اسلام کی اجتماعی قوت بروئے کار نہ آسکتی۔ [اگرچہ ساٹھ برس بعد تک عملاً پاکستان بھی اس سے محروم ہے تاہم دستور میں اللہ کی حکمرانی طے ہوچکی ہے] علامہ اقبال ایک دائرے کے قائل تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ دوسرا [وطنی قوم پرستی کا] دائرہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے۔۳۲؎ نقطۂ نظر کا یہ اختلاف محمد علی کے حامیوں کو علامہ اقبال پر تنقید کے لیے آمادہ کرتا رہا ہے۔ مولانا مدنی کے پیروکار بھی اپنے موقف کو تقویت پہنچانے کے لیے، ابوالکلام آزاد کے علاوہ، محمد علی جوہر کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔۳۳؎ ۴ دینی علم، ایثار اور تقوے کے اعتبار سے مولانا حسین احمد مدنی کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ مسلم لیگ سے نکلنے کے بعد انھوں نے کانگرس کا ساتھ دیا، اور متحدہ وطنی قومیت کے علم بردار بن گئے۔ جنوری ۱۹۳۸ء میں صدر بازار دہلی میں، ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا: موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ نسل یا مذہب سے نہیں بنتیں۔ دیکھو انگلستان کے بسنے والے سب ایک قوم شمار کیے جاتے ہیں، حالانکہ ان میں یہودی بھی ہیں، نصرانی بھی، پروٹسٹنٹ بھی، کیتھولک بھی، یہی حال امریکہ، جاپان اور فرانس وغیرہ کا ہے۔۳۴؎ علامہ نے ’’اپنی عمر کا نصف اسلامی قومیت اور ملت کے اسلامی نقطۂ نظر کی تشریح و توضیح میں گزارا تھا۔‘‘ ۳۵؎ انھوں نے مولانا مدنی کے بیان کی تردید زوردار انداز کے ساتھ کی: عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است! سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمد عربی است بمصطفیٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است! ۳۶؎ اس طرح مسئلہ قومیت نے دوقابلِ احترام ہستیوں کے مابین ایک معرکے کی شکل اختیار کرلی۔ یہ واقعات ۱۹۳۸ء کے ہیں۔ اس دوران کچھ وضاحتیں مولانا مدنی نے کیں اور ایک معرکہ آرا مضمون علامہ اقبال کا شائع ہوا جواَب ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ کے عنوان سے مقالاتِ اقبال میں شامل ہے۔ مولانا طالوت نے کوشش کی کہ اس نزاع کا خاتمہ ہوجائے اور علامہ اقبال مولانا مدنی کی پوزیشن صاف کردیں۔ اس میں وہ کامیاب ہوگئے۔ علامہ اقبال کی وفات کے بعد ارمغانِ حجاز شائع ہوئی تو مذکورہ اشعار اس میں موجود تھے۔ مولانا مدنی بھی متحدہ قومیت اور اسلام نامی رسالہ مرتب کررہے تھے جس پر اقبال کی وفات کے باعث کام روک دیا تھا لیکن ۱۹۳۹ء میں اسے شائع کردیا۔۳۷؎ اس میں انھوں نے اپنے موقف کی مزید وضاحت کی۔ چونکہ ہندی وطنی قومیت کی حمایت ایک کتاب کی صورت میں کی گئی تھی اس لیے مولانا حسین احمد مدنی ہندی قوم پرست مسلمان رہ نما کی حیثیت سے بہت نمایاں ہوگئے۔ اس رسالے کی ابتدا میں وہ خط کتابت بھی شامل ہے جو مولانا طالوت نے دونوں اکابر سے کی تھی۔ مولانا عبدالرشید نسیم جن کا عربی تخلص طالوت تھا، دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔۳۸؎ انھوں نے پہلے مولانا مدنی کو خط لکھا۔ [اس خط کو خدا جانے کیوں متحدہ قومیت اور اسلام میں شامل نہ کیا گیا] مولانا مدنی نے اس خط کے جواب میں وہ باتیں لکھ دیں جو انھوں نے صدر بازار دہلی کے جلسے میں کہی تھیں۔ یہ ’’وضاحت‘‘ بھی کی کہ ’’میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ مذہب و ملت کا دارومدار وطنیت پر ہے، یہ بالکل افترا اور دجل ہے۔‘‘ مولانا نے یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر اقبال نے ملت اور قوم کو مترادف سمجھ کر اعتراض کیا ہے، جو غلط ہے۔ مولانا نے یہ اعتراض بھی کیا کہ ڈاکٹر اقبال نے غلط اخباری پروپیگنڈے کی بنا پر ’’سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است‘‘ کہہ دیا… اور اس سلسلے میں کوئی تحقیق نہ کی۔۳۹؎ مولانا مدنی نے اس خط میں واضح طور پر متحدہ وطنی قومیت کی تلقین کی۔ فرماتے ہیں: لہٰذا اشد ضرورت ہے کہ تمام باشندگانِ ملک کو منظم کیا جائے اور ان کو ایک ہی رشتے میں منسلک کرکے کامیابی کے میدان میں گامزن بنایا جائے۔ ہندوستان کے مختلف عناصر اور متفرق ملل کے لیے کوئی رشتۂ اتحاد بجز متحدہ قومیت کے نہیں، جس کی اساس محض وطنیت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگرس نے ابتدا ہی سے اس امر کو اپنے اغراض و مقاصد میں داخل کیا ہے۔۴۰؎ مولانا طالوت نے علامہ اقبال کے نام اپنے مکتوب میں مولانا مدنی کا یہ اہم اقتباس حذف کردیا بلکہ ان کے خط کے تمام ایسے اندراجات حذف کردیے جن پر اقبال کو اعتراض ہوسکتا تھا۔۴۱؎ خط کے آخر میں مولانا طالوت نے علامہ اقبال کو لکھا: یہ مولانا [مدنی] کی تقریر کے وہ اقتباس ہیں، جو میرے نزدیک ضروری تھے کہ آپ کی نظر سے گزرجائیں، جہاں تک میرا خیال ہے، مولانا کی پوزیشن صاف ہے اور آپ کی نظم کا اساس غلط پروپیگنڈے پر ہے۔ آپ کے نزدیک بھی اگر مولانا بے قصور ہوں، تو مہربانی فرماکر، اپنی عالی ظرفی کی بناپر، اخبارات میں ان کی پوزیشن صاف فرمائیے، بصورتِ دیگر مجھے اپنے خیالات سے مطلع فرمائیے، تاکہ مولانا سے مزید تشفی کرلی جائے، ہمارے جیسے نیاز مند جو دونوں حضرات کے عقیدت کیش ہیں، دوگونہ رنج و عذاب میں مبتلا ہیں۔ امید ہے کہ باوجود عدیم الفرصتی کے ہمیں اس ورطۂ حیرانی سے نکالنے میں آیۂ رحمت ثابت ہوں گے۔۴۲؎ علامہ اقبال نے طالوت کے نام اپنے جواب میں لکھا: مولوی صاحب نے یہ جو فرمایا ہے کہ آج کل قومیں اوطان سے بنتی ہیں، اگر ان کا مقصود ان الفاظ سے صرف ایک امر واقعہ کو بیان کرنا ہے، تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا، کیونکہ فرنگی ریاست کا نظریہ ایشیا میں بھی مقبول ہورہا ہے۔ البتہ اگر ان کا مقصود یہ تھا کہ ہندی مسلمان بھی اس نظریے کو قبول کرلیں، تو پھر بحث کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے، کیونکہ کسی نظریے کو اختیار کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا وہ اسلام کے مطابق ہے یا منافی۔۔۔۔ اگر مذکورہ بالا ان کا مقصد وہی ہے جو میں نے اوپر لکھا ہے، تو ان کے مشورے کو اپنے ایمان اور دیانت کی رو سے اسلام کی روح اور اس کے اساسی اُصولوں کے خلاف جانتا ہوں، میرے نزدیک ایسا مشورہ مولوی صاحب کے شایانِ شان نہیں اور مسلمانانِ ہند کی گمراہی کا باعث ہوگا۔۴۳؎ مولانا مدنی نے طالوت کے نام اپنے دوسرے خط میں لکھا: میں عرض کررہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، یہ اس زمانے میں جاری ہونے والی نظریت اور ذہنیت کی خبر ہے، یہاں یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ تم کو ایسا کرنا چاہیے، خبر ہے انشا نہیں ہے، کسی ناقل نے مشورے کو ذکر بھی نہیں کیا، نہ امر اور انشا کا لفظ ذکر کیا ہے، پھر اس مشورہ کو نکال لیناکس قدر غلطی ہے۔۴۴؎ وطنی قومیت کا مشورہ تو مولانا مدنی نے دیا تھا [طالوت کے نام ان کا پہلا خط انصاری میں شائع ہوگیا تھا] تاہم اقبال نے اپنی عالی ظرفی کی بنا پر [جس کی توقع اور خواہش طالوت کو بھی تھی] حسبِ ذیل بیان جاری کردیا جو ۲۸ مارچ۱۹۳۸ء کو روزنامہ احسان میں شائع ہوا۔ اس بیان میں علامہ اقبال نے مولانا طالوت کی خواہش کہ ’ان کی پوزیشن صاف فرمائیے‘ پوری کردی۔ اقبال نے لکھا کہ: مولوی صاحب کے اس بیان میں جو اخبار انصاری میں شائع ہوا، مندرجہ ذیل الفاظ ہیں: لہٰذا اشد ضروری ہے کہ تمام باشندگانِ ملک کو منظم کیا جائے اور ان کو ایک ہی رشتہ میں منسلک کرکے کامیابی کے میدان میں گامزن بنایا جائے۔ ہندوستان کے مختلف عناصر اور متفرق ملل کے لیے کوئی رشتہ اتحاد بجز متحدہ قومیت اور کوئی رشتہ نہیں، جس کی اساس محض یہی [وطنیت] ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ان الفاظ سے تو میں یہی سمجھا کہ مولوی صاحب نے مسلمانانِ ہند کو مشورہ دیا ہے۔۔۔۔ خط کے مندرجہ بالا الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریۂ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا لہٰذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔۴۵ ؎ اس طرح علامہ اقبال نے یہ مسئلہ عالی ظرفی اور خوش اُسلوبی کے ساتھ حل کردیا۔ ان کی وفات کے بعد مولانا مدنی کا رسالہ متحدہ قومیت اور اسلام شائع ہوا تو اس میں ’’متحدہ قومیت‘‘ کا مشورہ موجود تھا بلکہ متحدہ قومیت کی تلقین بار بار زور دار الفاظ میں کی گئی تھی۔ میثاقِ مدینہ سے اس کا اسلامی جواز بھی فراہم کیا گیا۔ ارمغانِ حجاز شائع ہوئی تو اس میں بھی مذکورہ اشعار شامل تھے۔ جو بحث ختم ہوگئی تھی وہ دوبارہ شروع ہوگئی اور تاحال جاری ہے۔ متعدد صاحبانِ علم نے مولانا مدنی کے مذہبی دلائل کا جواب لکھا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے متحدہ قومیت اور اسلام کی تردید میں ایک کتابچہ مسئلہ قومیت کے عنوان سے شائع کیا۔ انھوں نے مولانا مدنی سے درخواست کی کہ اپنی غلطی تسلیم کرلیں اور ظالمانہ سیاست کو اسلامی ڈھال فراہم نہ کریں ورنہ آپ کی تحریریں فتنہ بن جائیں گی۔ جواباً سید مودودی کی تحریروں کو مرزائیت سے زیادہ خطرناک قراردیا گیا۔۴۶؎ ہندی مسلمانوں نے قومیت کے ضمن میں مولانا مدنی کے بجائے علامہ اقبال کی پیروی کی اور پاکستان قائم ہوگیا۔ مولانا مدنی نے ہندوؤں اور سکھوں کی غارت گری دیکھی اور کانگرسی حکومت کی بے رخی کا سامنا بھی کیا ۴۷؎ لیکن اپنی غلطی تسلیم نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حامی، ان کے دفاع میں، علامہ اقبال کی مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ تکیۂ کلام بن گیا ہے کہ ’’مولانا مدنی نے قوم کا لفظ استعمال کیا تھا نہ کہ ملت کا‘‘ … ’’اقبال نے بلا تحقیق ملت از وطن است کا الزام عاید کردیا‘‘ …’’اقبال نے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی تھی‘‘… مولانا مدنی کے ان ارادت مند حامیوں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ریت کی دیوار پر کھڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سواتی کا دعویٰ ہے کہ مولانا مدنی کا بیان اور اقبال سہیل کی نظم پڑھ کر ڈاکٹر اقبال نے اپنا بیان شائع کرایا کہ مجھ سے واقعی غلطی ہوئی ہے۔ مجھے غلط خبر پہنچی تھی۔ اب اصل حقیقت مجھ پر منکشف ہوگئی ہے۔ اس لیے میں مولانا مدنی سے معافی کا خواست گار ہوں۔ امید ہے مجھے مولانا صاحب معاف فرمائیں گے۔۴۸؎ اصل بات یہ ہے کہ مولانا مدنی کے ایک حامی اور ارادت مند مولانا طالوت نے، مولانا مدنی کے لیے، علامہ اقبال سے این او سی قسم کا بیان شائع کروایا اور دوسرے حامی و ارادت مند مولانا سواتی نے اسے ’’معافی کی درخواست‘‘ قرار دے دیا۔ مولانا صاحبان کی تحقیق کا یہ معیار افسوس ناک ہے۔ مولانا حسین احمد نجیب اور آگے گئے ہیں۔ انھوں نے اقبال کو ان شعرا میں شامل کیا ہے جن کی قرآن نے مذمت کی ہے۔۴۹؎ مکتوباتِ شیخ الاسلام کے مرتب مولانا نجم الدین اصلاحی لکھتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر صاحب کو ایک شاعر اور فلسفی سے زیادہ حیثیت دینے کو شرعی جرم سمجھتے ہیں۔۵۰؎ اقبال شکنی کی ان کوششوں کے پس منظر میں، ظاہر ہے کہ ’’عصبیتِ شیخ‘‘ کارفرما ہے۔ ہندی قوم پرست مسلمان ہندو حکمرانوں کے ہاتھوں عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ بقول ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی ایک طرف انھیں اپنے ہم مذہبوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف ان کے ہندو کانگرسی رفقا ان سے بالعموم بے اعتنائی برتتے۔ ڈاکٹر انصاری جو کانگرس کے صدر بھی رہے، اس بے اعتنائی کا شکار ہوئے۔۵۱؎ مرار جی ڈیسائی نے ابوالکلام آزاد سے نہایت تلخ اور درشت لہجے میں کہا کہ ’’آپ کی جگہ ہندوستان میں نہیں پاکستان میں ہے اور جس قدر جلد آپ چلے جائیں آپ کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘۵۲؎ بقول پروفیسر مشیرالحقIndia wins freedom کے ۳۰ صفحات کی اشاعت کے بعد مولانا آزاد کو ’’فرقہ پرست‘‘ کہا گیا اور ان کے ماضی کے ہر بیان کو جھوٹ کا پٹارا ثابت کیا جارہا ہے۔۵۳؎ مولانا مدنی سے کانگرسی حکومت کی بے رخی اور بے التفافی کا ذکر قاضی محمد زاہد الحسینی نے چراغ محمدؐ میں کیا ہے۔۵۴؎ ۵ مولانا ظفر علی خاں کا معاملہ مخالفتِ اقبال کے محرکات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس [۱۹۰۶ئ] میں وہ شریک تھے۔ قراردادِ لاہور [۱۹۴۰ئ] کے سلسلے میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ اقبال و ظفر کے رجحانات و مقاصد مشترک تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے مداح اور دوست تھے۔ ۱۹۲۷ء میں شاہی مسجد لاہور میں علامہ اقبال کی تقریر کے دوران حاضرین نے شور مچایا تو اقبال نے ان کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے تقریر ختم کردی۔ ظفر علی خاں نے اپنی تقریر کے دوران معترضین کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: کیا میں آپ سے عرض نہ کروں کہ آپ نے ڈاکٹر اقبال کے حضور گستاخی کی ہے یعنی ان کی تقریر کے دوران اعتراض کیا۔ اقبال پکا مسلمان اور سچا عاشقِ رسول ہے۔۔۔۔۔ اس پر آوازیں بلند ہوئیں کہ ہم ڈاکٹر صاحب سے معذرت چاہتے ہیں۔ یہ گستاخی کسی مسلمان نے نہیں کی۔۵۵؎ اقبال کی وفات پر ظفر نے کہا: گھر گھر یہی چرچے ہیں کہ اقبال کا مرنا اسلام کے سر پر ہے قیامت کا گزرنا۵۶؎ یہی مولانا ظفر علی خاں ۱۹۲۷ء کے بعد ۱۹۳۱ء بلکہ ۱۹۳۷ء تک علامہ اقبال کے خلاف بیان بازی کرتے، اشعار موزوں کرتے اور فکاہات کے عنوان سے کالم لکھنے میں مصروف نظرآتے ہیں۔ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ علامہ اقبال تو ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک وہی تھے جو ۱۹۲۷ء تک تھے ----- پھر وہ بُرے [انگریزوں کے کاسہ لیس اور آزادی کی قبر کھودنے والے] کیسے ہوگئے؟ وجہ دراصل یہ ہے کہ خود ظفر علی خاں کے سیاسی رجحانات ادلتے بدلتے رہے۔ جداگانہ انتخاب، سائمن کمیشن اور نہرورپورٹ کے معاملے پر اقبال اور ظفر کا سیاسی اختلاف تھا۔ اس اختلاف نے مخالفت کی شکل اختیار کرلی۔ مخلوط انتخاب کی حمایت میں ظفر کہتے ہیں: ان محرمانِِ سرِّ ازل کے خیال میں اسلام کی ہے شرط جداگانہ انتخاب مخلوط انتخاب کو منظور تو کرو ہوتے ہی رائج اس کے سب اُٹھ جائیں گے حجاب۵۷؎ سائمن کمیشن دونوں کے مابین شدید اختلاف کا باعث بنا۔ اقبال کا خیال تھا کہ اگر کمیشن کو مسلمانوں کے موقف سے آگاہ نہ کیا گیا تو مسلمان گھاٹے میں رہیں گے۔ ظفر علی خاں کانگریسی نقطۂ نظر کی حمایت کررہے تھے اور کمیشن کے بائیکاٹ کے حامی تھے۔ ان کے نزدیک کمیشن کے حامی سرکار کے کاسہ لیس تھے: کمیشن سے تعاون کرنے والے یہ تو فرمائیں کہ آخر اس خوشامد کا صلہ ان کو وہ کیا دے گا نئی عزت ملے گی کون سی ان کاسہ لیسوں کو وہ کس سرخاب کے پر ان کی ٹوپی میں لگادے گا۵۸؎ سائمن کمیشن کی مخالفت میں کانگرس، خلافت کمیٹی اور جناح لیگ متحد تھیں۔ ظفر علی خاں جو ابھی تک کانگرس میں بھی شامل تھے، کہتے ہیں: زوال اسلامیوں کا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ جو ان کا تھا وہ انگریز کا اقبال ہوجائے خلافت، کانگرس اور لیگ کا ایکا یہ کہتا ہے کہ اُلٹی آسمانِ پیر کی ہر چال ہوجائے۵۹؎ یہی نہیں بلکہ ۴؍فروری۱۹۲۸ء کی ایک نظم میں اقبال کورجعت پسند، آزادی کا مخالف اور قوم کی لٹیا ڈبونے والا قرار دیتے ہوئے یہ زہر ناک اشعار کہے: مانگ کر احباب سے رجعت پسندی کی کدال قبر آزادی کی کھودی کس نے، سر اقبال نے کہہ رہے تھے ڈاکٹر عالم یہ افضل حق سے قوم کی لٹیا ڈبو دی کس نے سراقبال نے۶۰؎ سائمن کمیشن کی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ اس میں کوئی ہندوستانی شامل نہ کیا گیا تھا۔ وزیرِ ہند نے طنزاً کہا کہ ہندوستانی مدبرین خود کوئی متفقہ دستور کیوں مرتب نہیں کرلیتے چنانچہ نہرو رپورٹ تیار ہوئی۔ ہندو متفقہ طور پر اس کے حامی تھے۔ مسلمان رہ نماؤں کے تین گروپ بن گئے نیشنلسٹ مسلم پارٹی نے رپورٹ کی حمایت کی۔ اس میں ظفر علی خاں، ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر انصاری شامل تھے۔۶۱؎ جناح لیگ نے ترمیمیں پیش کیں جنھیں مسترد کردیا گیا۔ مرکزی خلافت کمیٹی، بمبئی لیگ اور لاہور لیگ نے نہرورپورٹ کی مخالفت کی۔ جعفر بلوچ کا اندازہ ہے کہ ظفر علی خاں نے کانگرس سے استعفیٰ ۱۹۳۱ء میں دیا، اگرچہ ہندومسلم اتحاد کا ساز ان کے ہاں تادیر بجتا رہا۔ حسبِ ذیل اشعار ۵؍دسمبر ۱۹۴۰ء کے ہیں: اگر جینا کا دل آجائے گاندھی جی کی مٹھی میں تو غیروں کی غلامی سے وطن آزاد ہوجائے روا داریِ کامل کے ہر اک مندر میں چرچے ہوں ہر اک مسجد جو اَب ویران ہے آباد ہوجائے۶۲؎ جعفر بلوچ لکھتے ہیں کہ مسلم زعما میں سے صرف علامہ اقبال ہی ایسے دیدہ ور تھے جن کی دانشِ ایمانی نے ہندوذہنیت اور اس کی دام گستری سے کبھی دھوکا نہ کھایا۔۶۳؎ علامہ اقبال کے راستے پر آتے آتے ظفرعلی خاں نے کافی وقت لیا۔ انھوں نے ۱۹۳۵ء میں مجلسِ اتحاد ملت قائم کی جسے ۱۹۳۷ء میں مسلم لیگ میں ضم کردیا۔۶۴؎ اسی سال مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ہندو سیاست کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر اب بدل گیا تھا۔ ۱۷ستمبر ۱۹۳۷ء کی ایک تقریر کے دوران انھوں نے ہندوؤں سے کہا کہ مسلمانوں کو کچلنے کے ارادے سے باز آجاؤ۔ اب وہ دوقومی نظریے کی پرزور حمایت کرنے لگے۔۶۵؎ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ اس سلسلے میں شاعری بھی ہوتی رہی۔ بعض اشعار زبان زد خاص و عام ہوگئے۔ ایک شعر اور ایک مصرع درج کیے جاتے ہیں: بھارت میں بلائیں دو ہی تو ہیں اک ساورکر اک گاندھی ہے اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے اک مکر کی اُٹھتی آندھی ہے عزم ہمارا ٹل نہیں سکتا بن کے رہے گا پاکستان۶۶؎ مولانا ظفر علی خاں نے ہندی قوم پرست مسلم رہ نما کی حیثیت سے علامہ کی مخالفت کی اور ان پر طرح طرح کے الزامات عاید کیے لیکن پاکستانی شعور کے تحت اور تحریکِ پاکستان کے رہ نما کی حیثیت سے اقبال کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ ۶ آزاد بھارت میں، نیشنلسٹ مسلمان، علامہ اقبال کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں۔ ہندو دانش وروں کی طرح، ان کے بھی دو بڑے گروہ ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد دعوے کرتے ہیں۔ ایک گروہ نظریۂ قومیت اور تصور پاکستان کی بنا پر اقبال کو سخت تنقید کا ہدف بناتا ہے۔ دوسرے گروہ کا دعویٰ ہے کہ تصورِ پاکستان سے اقبال کا کوئی تعلق نہیں۔ دلچسپ لیکن عبرتناک صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک نیشنلسٹ مسلمان بڑے طمطراق سے اقبال پر ’فرقہ پرستی‘ اور ’تقسیمِ ملک‘ کے حوالے سے معترض ہوتا ہے اور کوئی ہندو اہلِ قلم اسے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اقبال پر مذہبی فرقہ پرستی اور علیحدگی پسندی کی حمایت کا الزام بے بنیاد، گمراہ کن اور بہتان ہے اور یہ کہ اقبال کا تصورِ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قاضی عبیدالرحمن ہاشمی کا ایک بلند آہنگ مضمون بعنوان ’مشترکہ تہذیبی ورثہ اور اقبال‘ فروری ۱۹۹۶ء کے کتاب نما میں بطور ’اشاریہ‘ شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں : ۱۹۳۰ء کے قریب جب اقبال کچھ عرصہ کے لیے ہندوستان کی عملی سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو گروہی عصبیت اور فرقہ واریت کے تنگ دائروں سے نکل کر اور مشترکہ تہذیبی میراث کی پاسبانی کرنے کے بجائے، اپنے فکری منصوبے کے تحت مسلمانوں کے اکثریتی علاقے شمال مغربی ہند میں ایک آئیڈیل اسلامی ریاست کی تعمیر کے امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔۔۔۔ اس ظالمانہ کارروائی کے نتیجے میں پورے برصغیر میں انسانیت کس کس طرح لہو میں غلطاں ہوئی ہے اور ہوتی رہے گی، اگر ہمارے شاعرِ مشرق کو خواب میں بھی اس کا خیال آگیا ہوتا تو وہ صرف سیدھی سیدھی شاعری کرتے۔اپنے عہد کی مذموم سیاست میں گرفتار ہونے، مذہبی فرقہ پروری اور علیحدگی پسندی کی حامل مجنونانہ قوتوں کی حمایت کے سبب زندگی کا جو منشا بنا شاید وہ آج قدرے مختلف ہوتا۔۶۷؎ اس مضمون کے جواب میں رام پرکاش کپور ’’مطالعۂ اقبال‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: فروری ۱۹۹۶ء کے کتاب نما میں، پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی صاحب کا اشاریہ پڑھ کر بہت افسوس ہوا، بلکہ ذہنی کوفت ہوئی۔ آج کل علامہ اقبال کے خلاف لکھنے اور ان پر تقسیمِ ملک اور اس کے نتائج کی ذمہ داری ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان پر مسلم بنیاد پرستی کو ہوا دینے اور اپنے عہد کی مذموم سیاست میں گرفتار ہونے، مذہبی فرقہ پروری اور علیحدگی پسندی کی حامل مجنونانہ قوتوں کی حمایت کا الزام لگانے کا چلن کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔۔۔ علامہ اقبال پر یہ الزامات اور خاص طور پر ’’مذہبی فرقہ پروری اور علیحدگی پسندی کی حامل مجنونانہ قوتوں کی حمایت‘‘ کا الزام سراسر بے بنیاد، گمراہ کن اور بہتان ہے۔ ۔۔۔ غلط فہمی کا منبع علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کے مسلم لیگ کے الہ آباد کے اجلاس میں دیا گیا خطبۂ صدارت ہے۔ لیکن اس خطبہ میں علامہ اقبال نے آزاد پاکستان کی نہیں بلکہ انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلم اکثریت کے صوبہ کی وکالت کی تھی۔ جسے توڑ موڑ کر لوگوں نے آزاد پاکستان کے تصور کے طور پر پیش کردیا۔ آزاد پاکستان کا تصور علامہ اقبال کے دماغ کی اپج نہیں تھی بلکہ انگریز کی ایک چال تھی۔۶۸؎ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو غیرمستحکم کرنے کے لیے یہ موقف کار آمد ہے کہ آزاد پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے پیش نہیں کیا بلکہ یہ انگریز کی چال تھی۔ اس طرح کی غلط بیانیوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے۔ چنانچہ ہندو سیاست دانوں اور دانش وروں کی پیروی میں ہندی قوم پرست مسلمان بھی یہ موقف اپنا رہے ہیں کہ علامہ اقبال کا تصورِ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان ہندی قوم پرستوں میں آل احمد سرور، مظفر حسین برنی اور متعد دوسرے دا نش ور شامل ہیں۔ ان دا نش وروں کی آرا کا ذکر کرنے سے پہلے ایک ہندی قوم پرست مسلمان عالم کا تذکرہ ضروری ہے جن کا علامہ اقبال پر یہ اعتراض ہے کہ اقبال نے تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کا تصور دیا اور یہ اقبال کی غلط رہ نمائی تھی۔ مولانا وحید الدین خاں نے بڑی تعداد میں کتابیں اور کتابچے لکھے ہیں اور ان کی تصانیف بھارت اور پاکستان میں عام طور پر دستیاب ہیں۔۶۹؎ ان کے دومضامین پر، بھارت میں، اچھی خاصی بحث ہوئی۔ ان مضامین کے عنوانات حسبِ ذیل ہیں: ۱- زمانہ کو پہچانیے- ملک و بیرون ملک کے مسلمانوں کے اندازِ فکر کا جائزہ ۲- اقبال کی شاعری سے امت ٹس سے مس ہوئی یا نہیں؟ اقبال کا راستہ منزل کی جانب ہی نہ تھا۔ ان تحریروں کے جواب میں متعدد مضامین شائع ہوئے۔ اقبال اکیڈمی حیدرآباد کے مجلے اقبال ریویومیں مولانا کے مضامین اور متعدد جوابی مضامین نومبر۱۹۹۵ء کے شمارے میں شامل کردیے گئے۔ وحیدالدین خاں پہلے مضمون میں لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک مسلم دنیا میں سیکڑوں کی تعداد میں مسلم قائدین اُٹھے جن میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے سیاسی اقتدار کو سب سے زیادہ اہمیت دینا۔ جمال الدین افغانی، عبدالرحمن الکواکبی، سیدقطب، علامہ اقبال، ابوالاعلیٰ مودودی سب کے سب سیاسی اقتدار کو اہم ترین چیز سمجھتے تھے۔ یہ واضح طور پر مسلم قیادت کی ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ ان لوگوں کا ذہن دورِ زراعت میں بنا اور وہ اپنی فکر کو دورِ صنعت تک نہ پہنچا سکے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ امریکی یہودیوں، ہندوستانی پارسیوں اور انڈونیشیا کے چینیوں کی اقتصادی ترقی پر توجہ مبذول کریں۔ اس مشورے کے بعد وحیدالدین خاں لکھتے ہیں: مولانا شبیر عثمانی، علامہ اقبال اور مسٹر محمد علی جناح اگر اس حقیقت کو جانتے تو وہ ملک کی تقسیم کی کبھی حمایت نہ کرتے کیونکہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے یہ موقع تھا کہ ایک پورے براعظم میں وہ ہر قسم کی تعلیمی، اقتصادی، صحافتی اور دعوتی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں جبکہ تقسیم کے نتیجے میں وہ سمٹ گئے اور ان تمام عظیم اور وسیع امکانات سے یکسر محروم ہوگئے۔اسی محرومی کی قیمت میں انھیں جو چیز ملی وہ صرف دو چھوٹے چھوٹے خطہ ارضی میں محدود سیاسی اقتدار تھا اور بس۔۷۰؎ دوسرے مضمون کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے: اصل حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی راہنمائی ہی درست نہ تھی۔ انھوں نے جس راستہ پر قوم کو دوڑایا وہ منزل کی جانب جانے والا راستہ ہی نہ تھا۔۔۔ برصغیرِ ہند کے مسلمانوں کے مسائل کا حل جغرافیہ کی تقسیم نہ تھا بلکہ خود مسلمانوں کو تعلیم و ترقی کے راستے میں آگے بڑھانا تھا۔۔۔۔ اقبال کا کیس غلط راہنمائی کا کیس ہے نہ کہ راہنمائی کو قبول نہ کرنے کا کیس۔۷۱؎ برعظیم، بعض محدود ادوار سے قطع نظر، کبھی ایک ملک نہیں رہا لیکن ہندوؤں کی طرح ہندی قوم پرست مسلمان دا نش ور اور علما اس واضح حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ مولانا وحیدالدین خاں دوسرے نیشنلسٹ علما سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ انھیں علامہ اقبال کے علاوہ جمال الدین افغانی، عبدالرحمن الکواکبی، سید قطب اور ابوالاعلیٰ مودودی سبھی گم کردہ راہ دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی اور تعلیمی ترقی کے امکانات سیاسی اقتدار [آزادی] کی بدولت زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ پیغمبرِ اسلامؐ نے مدینہ میں آزاد اسلامی ریاست قائم کی تھی جس میں بالادستی اللہ کے احکام کو حاصل تھی۔ اسلام کا یہ اجتماعی سیاسی نظام آزادی کے بغیر بروئے کار نہیں لایا جاسکتا اور اگر آزادی کی کوئی وقعت نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ ہندوؤں نے اس کے لیے جدوجہد کیوں کی؟ آل احمد سرور سرکردہ استاد، بلند پایہ نقاد، مشہور دانش ور اور معروف اقبال شناس ہیں۔ اقبال پر اہم کتب کے مرتب و مصنف ہیں۔ ان کا معرکہ آرا مضمون ’’اقبال اور اس کے نکتہ چین‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۳۸ء میں اُردو اقبال نمبر میں شائع ہوا تھا، تاہم وہ بھارت میں ہندو مسلم متحدہ قومیت کی تشکیل و تعمیر میں سرگرمی دکھانے پر مجبور ہوگئے اور اس تناظر میں اقبال پر اعتراضات بھی کیے۔ وہ علامہ اقبال کو تصور پاکستان کا خالق بتاتے تھے لیکن برنی کی تنقید کے بعد اپنا موقف تبدیل کردیا۔ دانش ور اقبال میں اقبال کو تصورِ پاکستان سے لاتعلق قراردیا ہے۔ اقبال کے اسلامی قومیت کے نظریے کو ہندی قومیت کی شکل میں ڈھالنا محال ہے تاہم اسلام کی، اپنے نقطۂ نظر کے مطابق تاویل سے بھارتی مسلمانوں میں متحدہ قومیت کا پرچار کیا جاسکتا ہے اور آل احمد سرور نے یہی کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں: ہندوستانی مسلمان جب ہندوستانی قومیت کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کا اسلام کا تصور ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں واضح کرنا ہے کہ حقیقی اسلام، قومیت [ہندی قومیت] کے فروغ میں کوئی خطرہ نہیں سمجھتا۔۷۲؎ آل احمد سرور وطنی قومیت کو اسلامی قومیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ قومیت کا لفظ قومیت [Nationalism] ہی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور اپنی دا نش وری کے زور سے قومیت کو اسلام سے فائق بتاتے ہیں: قومیت آج دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔۔۔ اس دور کے ذہن کی کنجی قومیت ہے۔۔۔ اسلام ہمیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ممتاز اور علیحدہ کرتا ہے، قومیت ہمیں ان سے ملاتی ہے۔۔۔ قومیت صرف جغرافیہ کی مرہونِ منت نہیں۔ اس میں تاریخ، تہذیب، اقتصادی مفاد کی وحدت بھی ضروری ہے اور سب سے زیادہ یگانگت کے احساس کی۔ قو میں مذہب سے نہیں بنتیں، وطن اور اس کی مشترک تاریخ و تہذیب سے بنتی ہیں۔۷۳؎ آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ ’’دراصل اقبال نے مارکس کی طرح قومیت کی طاقت کا پورا اندازہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔ اقبال نے لفظ نیشن [Nation] کے سلسلے میں دقت نظر سے کام نہیں لیا۔‘‘۷۴؎ مسئلہ قومیت کے سلسلے میں آل احمد سرور اقبال پر بار بار معترض ہوتے ہیں اور بار بار ابوالکلام آزاد کا موقف بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ مثلاً ایک مقام پر لکھتے ہیں: یہ ضرور کہنا پڑتا ہے کہ اقبال نے جغرافی حدود یا وطنیت یا قومیت کی قوت اور اہمیت سے انکار کرکے غلطی کی۔ اقبال نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا جس کی طرف مولانا آزاد نے اپنی کتاب India Wins Freedom کے آخر میں اشارہ کیا ہے یعنی یہ کہ اوّلین دو صدیوں کو چھوڑ کر اسلام کبھی سارے مسلمانوں کے لیے مرکز اتحاد نہیں بن سکا۔۷۵؎ آل احمد سرور کا المیہ یہ ہے کہ انھیں یہ شکایت بھی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے ہم وطنوں سے جو کسی دوسرے مذہب کے پیرو ہیں، ذہنی طور پر اتنے قریب نہیں جتنے دوسرے ملکوں کے مسلمانوں سے ہیں۔۷۶؎ اقبال کے نظریۂ اسلامی قومیت پر تنقید اور فکرِ اقبال کی عظمت پر شک ہندوستانی قومیت کی استواری کے لیے ضروری خیال کرتے ہوئے آل احمد سرور اقبال کو دانش ور تو مانتے ہیں، بڑا مفکر تسلیم نہیں کرتے۔۷۷؎ پاکستان کی فکری بنیاد پر ہندوؤں ہی کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں اور سوال اُٹھاتے ہیں کہ ’’کیا یہ بات غلط ہے کہ پاکستان کا وجود ہندوستانی مسلمانوں کی کاوش سے زیادہ مغربی استعمار پرستوں کی ایک سیاسی مصلحت کا مرہونِ منت ہے؟۷۸؎ اس کے ساتھ وہ یہ فیصلہ بھی سناتے ہیں کہ اقبال کو پاکستان کے نظریے کا خالق کہنا میرے نزدیک صحیح نہیں۔ اس موقف کو وہ بار بار دہراتے ہیں۔۷۹؎ سرور نے جناح کے نام لکھے گئے اقبال کے خطوط کو بھی مشکوک ٹھہرا دیا ہے۔دا نش ور اقبال کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں کہ ’’ان خطوط کی اصل کہیں دستیاب نہیں۔‘‘۸۰؎ سید مظفر حسین برنی اہم مناصب پر فائز رہے ہیں۔ اس میں متعدد صوبوں کی گورنری شامل ہے۔ ان کی تصنیف محبِ وطن اقبال ان کے خطبے ’’اقبال اور قومی یکجہتی‘‘ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ دیباچے میں برنی نے لکھا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے ہندوستان کے ادبی و فکری ماحول میں اقبال کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ محب وطن اقبال ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی جبکہ بھارت میں اقبال صدی تقریبات، بڑے پیمانے پرہوچکی تھیں۔ اس سے پہلے آزادی کے کچھ عرصہ بعد، پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اقبال کی بحالی کے لیے شعر اقبال کا ہندوستانی پس منظر اجاگر کرنا شروع کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہندوؤں میں عام خیال یہ تھا کہ ملک کی تقسیم کی ذمہ داری علامہ اقبال کے خطبۂ الہ آباد پر ہے، اس وجہ سے اقبال کو خاموش طریقے سے نظرانداز کیا جارہا تھا۔۸۱؎ پروفیسر آزاد نے اقبال کا رشتہ تصورِ پاکستان سے کاٹنے کی کوشش نہیں کی اور نہ قیامِ پاکستان کو، آل احمد سرور کی طرح غلطی۸۲؎ قرار دیا۔ تاہم اقبال کے ہندوستانی پس منظر کو مناسب طریقے سے اجاگر کرکے بھارت میں اقبال کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ سید مظفر حسین برنی نے بھی اقبال کو ’’بحال‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبال کے تصورِ اسلامی اتحاد کو پرفریب امید قرار دے کر اور تصورِ پاکستان سے اقبال کو لاتعلق ظاہر کرکے۔۸۳؎ یہ ہندوستان کی سرکاری پالیسی ہے۔ اصل حقیقت وہی ہے جسے جگن ناتھ آزاد نے ہندوؤں کا ’عام خیال‘ کہا ہے۔ پروفیسر مشیرالحق کی تصنیف اقبال - ایک مسلم سیاسی مفکر ان کی صاحبزادی ماہ طلعت علوی نے مرتب کرکے ۱۹۹۶ء میں شائع کی۔ پروفیسر موصوف کو، آل احمد سرور کے الفاظ میں ’’کشمیر میں کچھ دہشت پسندوں نے اپریل ۱۹۹۰ء میں اغوا کرلیا اور پھر ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔‘‘۸۴؎ اس افسوس ناک واقعے سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے یہ موقف پیش کیا تھا کہ پاکستان اقبال ہی کا تصور ہے۔۸۵؎ لیکن قبل ازیں مصلحتاً اقبال کا رشتہ تصور پاکستان سے کاٹنے کی کوشش کرتے رہے۔۸۶؎ یہی مصلحت انھیں فکر اقبال کی عظمت گھٹانے پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل اقبال شاعری میں نہیں، خطبات اور خطوط میں ہے۔ خطبات میں بھی اصل اہمیت چھٹے خطبے، اجتہاد، کی ہے۔ اس خطبے سے ان کے مذہبی خیالات ظاہر ہوتے ہیں۔ ان مذہبی خیالات کو علما ناپسند کرتے ہیں۔۸۷؎ اس سے پہلے اسی طرح کا استدلال ایس حسن احمد نے کیا تھا۔ ان کی انگریزی کتاب اقبال، ان کے سیاسی تصورات چوراہے پر ۱۹۷۹ء میں، علی گڑھ سے، شائع ہوئی۔ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ اقبال کے نقوش انمٹ ہیں لیکن ان کے سیاسی بیانات اور دلائل کے لیے شاعری درست ذریعہ نہیں ہے [تصورات کی جگہ ’’بیانات اور دلائل‘‘ کے الفاظ لائے ہیں] اقبال کے سیاسی تصورات کو سمجھنے کے لیے ان کی نثر کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ [شاعری برطرف] نثر میں سیاسی خیالات کم کم پیش ہوئے ہیں [ایسا نہیں ہے] اس لیے تھامپسن کے نام خطوط کی بہت اہمیت ہے۔ [باقی ماندہ نثر بھی موقوف] اقبال نے ان خطوط میں تصورِ پاکستان، جمہوریت، مذہب اور ہندوستانی سیاست پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ [ان سب موضوعات پر اقبال کی اُردو فارسی شاعری سمیت مضامین، خطبات اور بیانات نیز دوسرے خطوط میں بھی اظہارِ خیال موجود ہے۔ ان سب مآخذ کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔] پہلے باب میں حسن احمد نے تھامپسن کے نام اقبال کے تین خطوط کے اقتباسات پیش کیے ہیں، جن میں سے دوسرے خط میں، اقبال نے، اپنی الہٰ آباد کی تجویز کو ’’مسلم صوبے کی تخلیق‘‘ کہا ہے۔ پوری کتاب کی تصنیف کا باعث دراصل اقبال کا یہی جملہ ہے جسے ’نئی شہادت‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب کا عنوان ’تصورِ پاکستان‘ ہے۔ حسن احمد نے اقبال کے خطوط بنام تھامپسن، خطبۂ الہ آباد [۱۹۳۰ئ] اور خطبۂ لاہور [۱۹۳۲ئ] کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’پاکستان سکیم‘ اقبال کی نہیں تھی۔ وہ صرف ہندوستان کے اندر ایک مسلم صوبے کی تجویز تھی۔ عتیق صدیقی کی تصنیف اقبال - جادوگر ہندی نژاد ۱۹۸۰ء میں شائع ہوئی۔ ضمیموں کے طور پر شیخ عبدالقادر اور محمد علی جوہر کے مضامین شامل کرلینے کے باوجود یہ مختصر سی کتاب ہے لیکن اس میں، اقبال پر، خاصا معترضانہ مواد جمع کیا گیا ہے۔ عتیق صدیقی نیشنلسٹ ہی نہیں اشتراکی ذہن بھی رکھتے ہیں، اس لیے اقبال شکنی کا جذبہ دو آتشہ ہوگیا۔ انھوں نے تحقیق سے زیادہ اپنی غرض و غایت کو پیش نظر رکھا ہے اور ان اغراض کے حصول کے لیے مخصوص حربوں سے کام لیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں کہ اقبال سوشلسٹ تھے لیکن خوف زدہ ہوکر اس سے لاتعلقی ظاہر کردی بلکہ اس کی مخالفت کی۔۸۸؎ عتیق صدیقی کے دوسرے تحقیقی نتائج حسبِ ذیل ہیں: ۱- اقبال دہری شخصیت کے مالک تھے۔۸۹؎ ۲- اقبال اور شبلی کم و بیش ایک ہی زمانے میں عطیہ فیضی کے دامِ الفت میں گرفتا ہوئے۔۹۰؎ ۳- اقبال نہ فلسفی تھے، نہ شرع کے ماہر اور نہ عملی سیاست دان۔۹۱؎ ۴- اتحادیوں کے جشنِ فتح میں شریک ہوکر نظم سنانا اور خطاب یافتگی برطانیہ پرستی کا ثبوت ہے۔۹۲؎ ۵- خلافت اور آزادیِ ہند کی مشترکہ تحریک میں حصہ نہ لے کر مشکوک ٹھہرے۔۹۳؎ ۶- خطبہ الہ آباد، پاکستان کے تصور سے بالکل مختلف تھا۔۹۴؎ ہندوستان میں نیشنلسٹ مسلمان بہت ہیں۔ ان میں جمیل مظہری شامل ہیں جنھیں علامہ جمیل مظہری کہا جاتا ہے۔ انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی میں، ۱۶نومبر ۱۹۷۹ء کو، اقبال صدی تقریبات کے افتتاحی اجلاس میں اقبال کی تصویر کی نقاب کشائی کی تھی۔ جمیل مظہری نے اپنے خطبے کے دوران کہا کہ میں خود شاعری میں اقبال کا پیرو ہوں لیکن ان کے دو قومی نظریے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اسے ہندوستان ہی کے لیے نہیں پوری دنیا کے لیے زہرناک سمجھتا ہوں۔ میں فن میں ان کے نقشِ قدم کو چوم چوم کے چلتا رہا لیکن مذہبی و سیاسی حیثیت سے میں ابوالکلام کے مدرسۂ فکر کا طالب علم ہوں۔ اقبال کی شاعری میں قومی منافرت کا کڑوا زہر ہے، ایک زہریلا سانپ پھن مار رہا ہے، اس سے اپنے ذہنوں کو ڈسوائیے نہیں۔۹۵؎ اس سے پہلے، اقبال سیمی نار منعقدہ لکھنؤ میں انھوں نے ’’دواقبال‘‘ کے عنوان سے مضمون پیش کیا۔ اس میں بتاتے ہیں کہ مفکر ہونے کی حیثیت سے اقبال کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں، مذہب کی بنیاد پر، ایک قومیت کی تشکیل چاہی۔ اقبال ملی شاعر بھی ہے اور آفاقی شاعر بھی۔ ملی شاعر کی حیثیت سے وہ جنگ کا اور آفاقی شاعر کی حیثیت سے امن کا حامی ہے۔ اقبال بیک وقت تیرگی اور روشنی کا شاعر ہے۔ اقبال میں تضاد ہے۔ ہمیں اس اقبال کو نظرانداز کردینا چاہیے جو تیرگی کا ترجمان ہے۔۹۶؎ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- عام طور پر خطبۂ علی گڑھ کا سال ۱۹۱۰ء لکھا ہوا ملتا ہے۔ اصغر عباس نے اپنے مونوگراف بعنوان سرسید، اقبال اور علی گڑھ میں اس خطبے کی تاریخ ۹؍فروری ۱۹۱۱ء بتائی ہے۔ [صفحہ ۳۸] اصغر عباس کا تعلق چونکہ شعبۂ اُردو، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہے اور فلیپ پر آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ اصغر عباس نے انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور دوسرے ذرائع سے یہ مواد اکٹھا کیا ہے اس لیے یہ تاریخ، بظاہر، قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے لیکن خود آل احمد سرور کا دعویٰ ہے کہ یہ خطبہ مئی ۱۹۱۰ء میں دیا گیا تھا [نقد و نظر، جلد ۶شمارہ۱] بنیادی ماخذ کا حوالہ کسی نے نہیں دیا۔ ۲- سید حسن ریاض لکھتے ہیں کہ ۵؍فروری ۱۹۲۲ء کو گورکھ پور کے قریب موضع چورا چوری میں کانگرس کا جلوس نکلا۔ تھانے میں ۲۱کانسٹیبل تھے اور ایک سب انسپکٹر تھا۔ جلوس والوں نے اور اس مجمعے نے جو جلوس کے ساتھ ہوگیا تھا، تھانے میں آگ لگادی۔ تھانے کے سب آدمی جل کر مرگئے۔ بائیس آدمیوں کی ہلاکت تحریک ترکِ موالات کے خاتمے کا باعث بن گئی۔ [پاکستان ناگزیر تھا،ناشر: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونی ورسٹی، ۱۹۸۷ئ، ص۱۲۴] ۳- تفصیلات کے لیے دیکھیے، پروفیسر مشیرالحق کا مضمون بعنوان ’’حزب اللہ-مولانا آزاد کی انقلابی کتابِ حیات کا ایک ورق‘‘ مشمولہ ابوالکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت،مرتبہ: رشید الدین خاں۔ ۴- دیکھیے: تلاش و تعبیر، رشید حسن خاں،ص۲۹۔ ۵- ابو الکلام آزاد، ایک ہمہ گیر شخصیت، ص۵۹،۸۵۔ ۶- قاسم سید، جامعہ کی کہانی، ص۱۵ بحوالہ ابوالکلام آزاد-ایک تقابلی مطالعہ، ص۶۸۔ ۷- ابوالکلام آزاد اور علامہ اقبال سے متعلق ڈاکٹر سید عبداللہ کا مضمون بعنوان ’’اقبال اور ابوالکلام کے ذہنی فاصلے‘‘، مشمولہ مسائل اقبال اور مولانا غلام رسول مہر کے دو مضامین بعنوان ’’علامہ اقبال اور مولانا آزاد‘‘ مشمولہ اقبالیات از مولانا غلام رسول مہر قابلِ مطالعہ ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ نے دونوں اکابر کی دوریوں اور غلام رسول مہر نے دونوں کی قربتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ۸- ابوالکلام کے ’وحدتِ ادیان‘ کے تصور کے لیے دیکھیے: ادبی تناظر از راج بہادر گوڑ، ص۶۵۔ میثاق مدینہ کے تناظر میں متحدہ قومیت کے دعوے کے لیے دیکھیے: (i) ابوالکلام کا ۱۹۲۱ء کا خطبہ بحوالہ ابوالکلام آزاد-ایک ہمہ گیر شخصیت، ص۱۰۰ (ii) مولانا حسین مدنی کا ۱۹۳۸ء میں شائع ہونے والا رسالہ متحدہ قومیت اور اسلام، ص۶۱-۶۷۔ ۹- دیکھیے: چراغ محمد، مرتبہ: قاضی محمد زاہد الحسینی، ص۵۹۹۔ ۱۰- ابواکلام آزاد- ایک ہمہ گیر شخصیت،ص۵۵۲۔ ۱۱- ۱۹۲۱ء میں آگرے کی مجلسِ خلافت میں خطبہ دیتے ہوئے ابوالکلام آزاد نے کہا: الہلال کے پہلے نمبر میں جس بڑے نمایاں مقصد کا اعلان کیا گیا تھا۔ کیا تھا؟ میں فخر کے ساتھ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہندو مسلمانوں کا اتفاق تھا… ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ فرضِ شرعی ہے کہ وہ ہندوستان کے ہندوؤں سے کامل سچائی کے ساتھ عہد و محبت کا پیمان باندھ لیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک نیشن ہوجائیں۔ [ابوالکلام آزاد- ایک ہمہ گیر شخصیت، ص۴۴۸] واضح رہے کہ ۱۹۱۲ء میں ہندوؤں مسلمانوں کے اتفاق کی بات کی تھی، دو قوموں کا ’’اتفاق‘‘---- لیکن ۱۹۱۲ء میں ایک قوم بننے کی تلقین کررہے ہیں۔ ایک غیر دینی قومیت کی نظریاتی بنیادیں استوار کرنے کے لیے ’فرضِ شرعی‘ کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ ۱۲- بحوالہ موجِ کوثر،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور، ص۲۵۵۔ ۱۳- ایم ثناء اللہ، خطباتِ ابوالکلام آزاد، ص۱۳۔ اس زمانے میں اقبال اور ابوالکلام کی پرواز ایک ہی فضا میں تھی۔ اقبال نے ۱۹۰۶ء میں کہا تھا: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بِنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے [ابتدائی کلامِ اقبال، اردو ریسرچ سنٹر، حیدر آباد، ۱۹۸۸ئ، ص۲۹۶، بانگِ درا، ص۱۴۴] ابوالکلام کا بیان اور علامہ اقبال کا یہ شعر کس قدر مشابہ ہیں: چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا [ترانۂ ملی، بانگِ درا] ۱۴- ابوالکلام آزاد- ایک ہمہ گیر شخصیت،ص۳۹۸۔ ۱۵- تفصیل کے لیے دیکھیے: کتابِ مذکور، ص۴۵۴-۴۵۵۔ ۱۶- ابوالکلام آزاد نے India wins Freedom میں لکھا ہے کہ مسلم ممالک صرف مذہب کی بنیاد پر متحد نہیں ہوسکتے۔ ایسی بات کہنا لوگوں کے ساتھ سب سے بڑا فریب ہے۔ پہلی صدی کے بعد اسلام صرف اسلام کی بنا پر مسلمان ملکوں کو ایک ریاست میں منسلک کرنے میں ناکام رہا [بحوالہ تقسیمِ ہند، عبدالوحید خاں،ص۱۴]۔ ۱۷- موجِ کوثر، ص۲۹۶۔ ۱۸- ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے ابوالکلام کے اس بیان کی بنیاد پر کہ ’’ہندو ہونا یا مسلمان ہونا، ان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے، جس کو بیرونی معاملات اور آپس کے برتاؤ سے کچھ تعلق نہیں ہے۔‘‘ بجاطور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے سیکولرزم کی بنیاد پڑتی ہے۔ [ادبی تناظر،ص۶۶] ۱۹- موجِ کوثر، ص۲۷۳۔ ۲۰- دیکھیے: مولانا وحید الدین خاں کی آرا، مشمولہ اقبال ریویو، حیدرآباد، نومبر ۱۹۹۵ئ،ص۳۴تا۳۷ اور ۵۲تا۵۵۔ ۲۱- چند ہم عصر، انجمن ترقیِ اردو ہند، نئی دہلی،۱۹۹۱ئ، ص۱۰۶۔ ۲۲- دیکھیے: دریوزۂ خلافت- بانگِ درا، دو اشعار یہاں درج کیے جاتے ہیں: نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی! خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی! ۲۳- تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’محمد علی جوہر: ایک جذباتی رہ نما‘‘، مشمولہ تلاش و تعبیر، رشید حسن خاں۔ ۲۴-۲۵ دیکھیے: مضامینِ محمد علی، حصہ دوم، مرتبہ: محمد سرور، مکتبہ جامعہ، دہلی،۱۹۴۰ئ، ص۴۲۵-۴۳۶۔ ۲۶-۲۷ عظیم الشان صدیقی، اظہارِ خیال، ص۱۳۳،۱۳۵۔ ۲۸- مضامینِ محمد علی، ص۴۲۴-۴۷۵۔ ۲۹- حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے، مرتبہ: محمد حمزہ فاروقی، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، لاہور،۱۹۸۸ئ، ص۵۔ ۳۰- اس تبدیلی کی روشنی میں محمد علی کا سابقہ رویہ اور اقبال پر اعتراضات سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ ۳۱- بحوالہ چراغ محمد، ص۵۹۹-۶۰۰۔ ۳۲- وضاحت کے لیے دیکھیے: (i)نظم بعنوان ’وطنیت‘ مشمولہ بانگِ درا، نیز (ii) ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ مشمولہ مقالاتِ اقبال، آئینہ ادب، لاہور،۱۹۹۳ئ۔ ۳۳- مثال کے طور پر دیکھیے، چراغ محمد، مرتبہ: محمد زاہد الحسینی،ص۵۹۹۔ ۳۴- مولانا حسین احمد مدنی، متحدہ قومیت اور اسلام،ص۴… نیز دیکھیے، چراغ محمد، ص۵۹۰۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا مدنی یورپی نیشنلزم کے نظریے کی حمایت کررہے ہیں۔ اس نظریے کی تردید علامہ اقبال گزشتہ تیس بتیس برس سے کررہے تھے۔ ابتدا ۱۹۰۶ء کے اواخر یا ۱۹۰۷ء کے اوائل میں اس شعر سے ہوئی تھی: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے ۳۵- دیکھیے:طالوت کے نام، علامہ اقبال کا دوسرا خط،کتابِ مذکور،ص۱۸۔ ۳۶- نظم ’حسین احمد‘، ارمغانِ حجاز (حصہ اُردو)۔ ۳۷- متحدہ قومیت اور اسلام، ص۲۹۔ مولانا مدنی لکھتے ہیں: ’’بالآخر جب کہ میں قومیت کی لفظی بحث کے اختتام پر پہنچ کر مقصد اصلی سے نقاب اُٹھانا چاہتا تھا، ناگاہ جناب ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کے وصال کی خبر شائع ہوگئی۔ طبیعت بالکل بجھ گئی اور عزائم فسخ ہوگئے۔ احباب کے تقاضے پریشان کررہے تھے… ضروری معلوم ہوا کہ میں اپنی معلومات اور خیالات کو ضرور بالضرور ملک کے سامنے پیش کردوں۔‘‘ ۳۸- ماہنامہ الرشید، مدنی و اقبال نمبر، جامعہ رشیدیہ، ساہیوال، پاکستان ، ستمبر ،اکتوبر، ۱۹۷۸ء ،ص۴۵۲۔ ۳۹- اپنے بیان میں متحدہ وطنی قومیت کی جو تلقین مولانا مدنی نے کی تھی اور جو ان کے پہلے خط بنام طالوت میں موجود ہے، اقبال کی مذکورہ نظم کی بنیاد ہے۔ یہ نظم کسی غلط پروپیگنڈے کی اساس پر نہیں کہی گئی۔ اقبال ’قوم اور ملت‘ کا لفظ بطور مترادف گزشتہ تیس برسوں سے استعمال کررہے تھے۔ مثلاً ع بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے اور ع خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی… ۴۰- مولانا مدنی کا یہ خط متحدہ قومیت اور اسلام [صفحات ۳تا۱۱] میں درج ہے۔ ۴۱- محذوف اقتباسات کی تفصیل کے لیے دیکھیے: اقبال اور مودودی کا تقابلی مطالعہ از عمر حیات خاں غوری، مرکزی مکتبہ اسلامی ، دہلی ، ۱۹۸۱ئ، ص۱۹۱۔ ۴۲تا۴۵- متحدہ قومیت اور اسلام، صفحات [بالترتیب] ۱۴-۱۵،۱۷-۱۸،۲۰،۲۳-۲۴۔ ۴۶- دیکھیے: مسئلہ قومیت، ص۱۰۷ نیز چراغ محمد، ص۳۷۴۔ ۴۷- دیکھیے: چراغ محمد ، ص۴۳۰۔ ۴۸-۴۹- الرشید، مدنی و اقبال نمبر، ص۳۱۱،۳۲۹۔ ۵۰- مکتوباتِ شیخ الاسلام، جلد سوم،ص۱۴۱-۱۴۲۔ ۵۱- اُردوبک ریویو، نئی دہلی، جولائی اگست ۱۹۹۸ئ، [پروفیسر مشیرالحسن کی کتاب مختار احمد انصاریپر تبصرہ]،ص۱۳۔ ۵۲- India wins Freedom کا انتساب مرار جی ڈیسائی کے نام ہے۔ منقولہ جملہ انتسابی تحریر میں شامل ہے۔ ۵۳- اقبال-ایک مسلم سیاسی مفکر،نئی دہلی ، بھارت ، ۱۹۹۶ء ،ص۷۹۔ ۵۴- چراغ محمد، ص۴۳۰۔ ۵۵-۵۷- جعفر بلوچ، اقبال اور ظفر علی خاں،اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور،۱۹۹۵ئ، صفحات [بالترتیب] ۴۷،۱۰۷،۱۴۷۔ جعفر بلوچ کے بقول ’’ہم دیکھتے ہیں کہ طریقِ نیابت کے اس تنازع میں وقت نے بالآخر حضرت علامہ اقبال کے حق میں فیصلہ دیا اور انھی کا نقطۂ نظر معتبر ٹھہرا۔‘‘ ۵۸-۶۰- ایضاً،صفحات[بالترتب] ۱۰۹،۱۱۱،۱۱۱-۱۱۲۔ ۶۱- ایضاً، ص۱۱۷۔ تاہم ۱۲مئی ۱۹۲۹ء کو ظفر علی خاں نے لکھا کہ میں نہرورپورٹ کا ان ترمیمات کے ساتھ حامی ہوں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسِ دہلی میں منظور ہوئیں۔ اس سے پہلے نہرورپورٹ کی حمایت میں باغ موچی دروازہ لاہور میں مولانا ظفر علی خاں اور عطاء اللہ شاہ بخاری نے تقریر کی۔ ان پر خشت باری کی گئی اور دونوں زخمی ہوئے۔ [دیکھیے، کتاب مذکور،ص۱۲۱] ۶۲-۶۵- ایضاً،صفحات [بالترتیب] ۱۲۷،۱۲۶،۱۴۲،۱۴۷۔ ۶۶- ایضاً،ص۱۴۷،۱۵۶۔ ۱۹۳۹ء کے دوران نیشنلسٹ علما کے سلسلے میں ظفر علی خاں نے کہا: رسول اللہؐ کے گھر میں یہ کیا انقلاب آیا کہ گاندھی جی کی کٹیا، عالمانِ دیں کا ڈیرا ہے خدا ہی جانتا ہے حشر اس ٹولی کا کیا ہوگا حرم سے جس کی بدبختی نے رخ ملت کا پھیرا ہے [اقبال اور ظفر علی خاں، ص۱۴۹] ۶۷- یہ نقشہ اس طرح مختلف ہوتا کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے آزاد علاقے بھی ہندوتسلط کے تحت ہوتے اور جہاں کہیں مسلمان آزاد ہونا چاہتے، وہ کشمیری مسلمانوں کی طرح، مرکزی مسلح افواج کے مظالم کا شکار بنتے۔ ہندو احیا پرستی کے مقابلے میں بقول ٹیگور اگر مسلمان خاموش رہتے، ہندوؤں کے تابع مہمل بن کرر ہتے اور اپنی ہستی کو متحدہ ہندی قومیت میں فنا کردیتے تو ہندو اور سکھ وہ قتل و غارت گری نہ کرتے جو ۱۹۴۷ء میں انتقاماً روا رکھی گئی۔ اس غارت گری کا مقصد یہ بھی تھا کہ قیامِ پاکستان ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جائے۔ ۶۸- کتاب نما، مئی ۱۹۹۶ئ،ص۵۲،۵۳،۵۵۔ ۶۹- مولانا کی تصانیف کے ترجمے عربی، انگریزی، ہندی، انڈونیشی، ترکی اور یوگوسلاوی وغیرہ میں ہوچکے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے تحت کتبِ سیرت کے مقابلے میں ان کی کتاب پیغمبرِ انقلاب کو پہلا انعام مل چکا ہے۔ [ہندوستان کے اُردو مصنفین اور شعرا،ص۵۷۹-۵۸۰]۔ ۷۰- اقبال ریویو، نومبر۱۹۹۵ئ،ص۳۶۔ مسلمان قائدین نے اسلامی ریاست پر زور دیا جس میں مسلمانوں کی فلاح مضمر ہے۔ مولانا نے یہ بات نظرانداز کی ہے کہ امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کی سب سے بڑی خواہش اسرائیلی سلطنت کا قیام تھا۔ علاوہ ازیں یہودیوں نے اقتصادی ترقی سودی کاروبار کی بنیاد پر کی۔ کیا مسلمانوں کو ایسا کرنا چاہیے؟ یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے قیام سے بھارتی مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ کیوں؟ اگر ان کے ہاتھ میں وسائل نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ وسائل ہندوؤں کے قبضے میں ہیں۔ وہ وسائل پاکستان منتقل نہیں ہوئے۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش قائم نہ ہوتے تو متحدہ ہندوستان میں، ان آزاد خطوں کے وسائل بھی ہندوؤں ہی کے قبضے میں ہوتے۔ ۷۱- ایضاً،ص۵۵۔ مولانا کا نقطۂ نظر صداقت سے عاری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اقبال کی رہ نمائی پر عمل کرنے کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو، بڑی حد تک، نظرانداز کیا گیا ورنہ پاکستان اس قدر مضبوط ہوتا کہ بھارت کشمیری مسلمانوں پر اس قدر ظلم نہ کرسکتا اور نہ ہندوستان کے مسلمان کس مپرسی کا شکار ہوتے۔ ۷۲- آل احمد سرور، فکر روشن،ص۹۰۔ ۷۳- ایضاً،ص۸۹،۹۲۔ آزاد بھارت کا باشندہ ہونے کے باعث آل احمد سرور کے قدم لڑکھڑا گئے اور انھوں نے مشترکہ [ہندومسلم] ہندی قومیت کے نعرے کو شعار بنالیا۔ اپنے مشہور مضمون ’’اقبال اور اس کے نکتہ چین‘‘ میں سرور نے وطنی قومیت کو بے وقت کی راگنی اور اسلام کو عالمگیر تحریک قرار دیا تھا۔ [عرفانِ اقبال،ص۷۵] اب وہ خدا جانے کس مشترک تاریخ و تہذیب کی بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ اور تہذیب مشترک نہیں ہیں بلکہ متصادم ہیں۔ اورنگ زیب اور سیواجی کے علاوہ بابری مسجد اور رام مندر اس کی مثالیں ہیں۔ صرف اُردو ہندو مسلم تہذیب کی مشترکہ زبان تھی لیکن ہندوؤں نے اُردو کی جگہ ہندی اختیار کرلی اور بھارت میں اُردو کو محدود کیا جارہا ہے۔ ۷۴-۷۵- دا نش ور اقبال،الوقار پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۴ئ، ص۲۱،۸۳۔ ۷۶- فکرِ روشن،ص۸۷۔ ۷۷- دا نش ور اقبال،ص۸۔ ۷۸- فکرروشن،ص۹۰۔ ۷۹- مثال کے طور پر دیکھیے: دا نش ور اقبال،ص۹،۲۳،۱۱۳؛ فکرروشن،ص۲۵۔ نیز اقبال ایک مسلم سیاسی مفکر مصنفہ: پروفیسر مشیرالحق، تعارف، ص ط۔ ۸۰- جون ۱۹۹۷ء میں اقبال اکیڈمی دہلی کی طرف سے، پاکستانی اقبال شناسوں کے اعزاز میں دیے گئے استقبالیے میں اپنے خطاب کے دوران ڈاکٹر خلیق انجم نے کہا کہ یہ بات آل احمد سرور سے پہلے میں نے کہی تھی۔ اس دعوے کو ہم نے دلائل سے رد کرکے انھیں خاموش کرادیا۔ [تفصیل کے لیے دیکھیے، اقبالیات، جولائی-ستمبر۱۹۹۷ئ، ص ۱۶۵- ۱۶۶] ۸۱- عبدالقوی دسنوی،ہندوستان میں اقبالیات،اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۷۶ء ،ص۱۷۔ ۸۲- فکر روشن،ص۸۴۔ ۸۳- محبِ وطن اقبال،ص۴۰،۱۴۵-۱۴۶۔ ہندوستان میں اقبال کی حمایت و مخالفت عرصے سے جاری تھی۔ آزاد بھارت میں ان کی بحالی کے ضمن میں ڈاکٹر عبدالمغنی نے لکھا ہے کہ پورا مشرق اقبال کو عصرِ حاضر کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہے اس لیے وہ ہندوستان میں کسی بحالی کے محتاج نہیں ہیں۔ [تنویرِ اقبال،ص۲۸۷] ۸۴-۸۷- اقبال-ایک مسلم سیاسی مفکر، (i) تعارف (ii) صفحات [بالترتیب] ۱۰-۱۴،۴۳-۴۸،۸۰۔ ۸۸- تفصیل کے لیے دیکھیے: اقبال- جادوگر ہندی نژاد، ص۱۰۱-۱۰۲۔ ۸۹- کتاب مذکور، ص۹۔ ۹۰- ایضاً،ص۴۵۔ ۹۱- ایضاً،اقبال شرع کے ماہر نہیں تھے۔ یہ سوال اُٹھانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ اقبال نے کسی دینی ادارے میں مولویوں والا نصاب نہیں پڑھا تھا تاہم مولویوں سمیت وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے فکری رہنما ہیں۔ اسلام پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلامی شریعت سے بھی آگاہ تھے۔ اقبال فلسفی تھے یا نہیں یہ سوال الگ سے بحث طلب ہے۔ ۹۲- ایضاً،ص۷۷،۹۳-۹۹۔ ۹۳- ایضاً،ص۹۳۔ ۹۴- ایضاً،ص۱۵-۱۶۔ ۹۵- دیکھیے: رموزِ اقبال، مرتبہ: ظفر اوگانوی، کلکتہ یونی ورسٹی ، ۱۹۸۴ء ،ص۹-۱۰۔ ۹۶- ’’مطالعہ اقبال‘‘، مشمولہ مقالاتِ اقبال، سیمی نار منعقدہ لکھنؤ،۱۹۷۸ئ،ص۱۲۲-۱۳۳۔ ئ……ئ……ء اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیلِ نو [ایک علمی نشست کی روداد] ڈاکٹر زاہد منیر عامر علامہ محمد اقبال کی ساری زندگی امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے غور و فکر میں گزری۔لیکن ۱۹۲۴ء میںا نھوں نے مدراس میں چند خطبے دیے۔ ان خطبات میں اقبال نے امت کو جس طرز پر احیائے فکر کی دعوت دی ہے وہ بہت نادر ہے۔ اقبال نے مسلم فکر کے تمام پہلوئوں کو از سر نو تشکیل کرنے پر زور دیا ہے اور اقبال کا یہ فکر اپنے متقدم مفکرین و مصلحین سے مربوط ہے۔ شاہ ولی اللہ، فرزندانِ ولی اللہ، جمال الدین افغانی اور سر سید احمد خاں اس فکری تجدید کے بڑے نمایندے ہیں۔اقبال نے اسی فکری سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جس طرح ان لوگوں نے اپنے ادوار میں کھڑے ہو کر قومی اور عالمی تناظر پر نگاہ ڈال کر ایک رائے قائم کی اقبال نے بھی حالات کے پیش نظر یہ فریضہ انجام دیا اور امت کو ضعف و اضمحلال اور سستی و کاہلی سے نجات حاصل کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی طرف بلایا۔ اقبال کے یہ خطبات ایک تجدیدی شخصیت کے افکار ہیںان کو اسی تناظر میں دیکھا ،پڑھا اور سمجھا جانا چاہیے اور اقبال جہاں تک اپنی رائے کو پہنچا سکے ہیں اس سے آگے چلنے کی ہمت ، جرأت اور صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ علامہ محمد اقبال کے یوم وفات ۲۰۰۶ء کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن ،لاہور اسٹوڈیو میں ایک علمی نشست کا اہتمام کیا گیا ،جس میں ملک کے نام ور اصحاب علم و دانش نے علامہ اقبال کے معروف خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ اس محفل میں جہاں فرزند اقبال جناب ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب مرکزی مقرر کی حیثیت سے شریک تھے وہاں ان کے ساتھ جناب ڈاکٹر خورشید رضوی ،جناب محمد سہیل عمر ، جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، جناب شہزاد احمد ، جناب ڈاکٹر وحید عشرت ، جناب ڈاکٹر سلیم اختراورمحترمہ عطیہ سید بھی شریک محفل و گفتگو تھے۔ یہ سبھی شرکا اپنی اپنی جگہ اقبالیات کے ماہرین اور ملک کے نام ور اصحاب دانش ہیں۔ نوجوان نسل کے کچھ نمایندے بھی اس محفل میں سامع کی حیثیت سے شریک رہے۔راقم نے بحیثیت میزبان محفل کا آغاز کیا اور تمہیدی گفتگو کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے خطبات کے حوالے سے اظہار خیال کیا جس میں اٹھائے گئے نکات اور خطبات کے عمومی مباحث پر تمام شرکا نے اظہار خیال کیا۔ اس محفل میں ہونے والی گفتگو ذیل کی سطور میں نذر قارئین ہے۔ زاہد منیرعامر: بسم اللہ الرحمن الرحیم ! السلام علیکم ناظرین! حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے افکار سے ہمارا رشتہ کئی جہتوں پہ پھیلاہوا ہے۔ وہ پاکستان کے مفکر ہیں، ایک بڑے شاعر ہیں اور فلسفی بھی۔ ان کی شاعری اور افکارو خیالات کی چند جہتوں کے متعلق آپ گفتگو سنتے رہتے ہیں لیکن آج ہماری محفل ان کے خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے حوالے سے ہے۔ ناظرین کرام علامہ نے فرمایا تھا۔ اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومی کبھی پیچ و تاب رازی یوں تو ان کی ساری زندگی امتِ مسلمہ اور بنی نوع انسان کے فکرو خیال میں گزری ہے لیکن ۱۹۲۴ء میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے علامہ کے افکار میں ایک نئی جہت کی راہ کھول دی۔ Mohammadan Theories of Financeکے نام سے امریکہ سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ جس میںکہا گیا کہ اجماع نصِ قرآنی کو منسوخ کرسکتاہے۔ علامہ کے افکار کی دنیا میں اس سے ایک سوال پیدا ہوا۔ انھوں نے یہ سوال اپنے وقت کے معروف علما کے سامنے رکھا اور خود اس پہ سوچ بچار کرتے رہے، یہاں تک کہ اسی سال انھوں نے ایک تحریر ’’اجتہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہی تحریر ان کے خطبات میںThe Principle of Movement in Islam کا روپ پاتی ہے۔ اس کے بعد مدراس کی ایک مسلم ایسوسی ایشن نے انھیں اجتہاد کے حوالے سے خطبات دینے کی دعوت دی تو انھوں نے اس تحریر میں دو اور موضوعات کااضافہ کرکے وہاں تین خطبات پیش کیے۔ یہ خطبات بعدازاں علی گڑھ کےStrategy Hall میں تین مزید خطبات کے اضافے کے ساتھ پیش کیے گئے۔ اور پھر یہ کتابی شکل میں The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے عنوان سے مرتب ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں پہلی بار یہ کتاب شائع ہوئی اور پھر اس کتاب کے استقبال میں ہرطرح کاردِ عمل سامنے آیا۔ بہت سے لوگوں نے اس پر بہت پسندیدگی ظاہر کی اور بہت سے حلقوں نے اسے شدید تنقید کانشانہ بنایا۔ یہ کتاب کیا ہے …؟ اس کے مباحث کیا ہیں…؟ ان میں کون سے سوالات اٹھائے گئے ہیں …؟ ان کے بارے میں خود علامہ اقبال نے اپنے خط میں لکھا : "Six lectures is highly technical work and it requires good acquentance with recent development in modern science and philosophy" آج کی یہ محفل انھی خطبات کے بنیادی مباحث پرغور کرنے کے لیے منعقد کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ کے اس نہایت اہم کام کے حوالے سے فرزندِ اقبال محترم جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب گفتگو فرمائیں گے اور ان کی گفتگو کے بعد ملک کے دانش ور ، علما اور اساتذئہ کرام ، ماہرین اقبالیات خطباتِ اقبال کے حوالے سے سوالات کریں گے ۔ میں جسٹس (ر) ڈاکٹر جاویداقبال صاحب سے التماس کرتا ہوں کہ وہ The Reconstruction of Religious Thought in Islam کاتعارف کروائیںاور اس کے محتویات سے ہمیں آگاہ فرمائیں۔ ڈاکٹر جاویداقبال :دراصل علامہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے شاعر تھے۔ وہ اسلام کی Renaisance چاہتے تھے۔ اسی بناپرانھوں نے محسوس کیا کہ مسلم تمدن کے زوال کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ؟ تاریخ کا نقشہ اگر سامنے رکھاجائے تو اس زمانے میں جب علامہ نے ہوش سنبھالا ، ظاہر ہے مسلمانوں میں دو ہی Empiresتھیں ایک ترکی کی خلافت اور دوسری برصغیر کی حکمرانی۔ اس وقت مغلوں کو تو زوال آچکاتھا وہ تو ختم ہوگئے۔ جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو ۱۹۲۴ء میں ترکی کی خلافت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ یعنی سیاسی قوت ختم ہوگئی۔ اس زوال کا پس منظر علامہ کے ذہن میں یہی تھا کہ تین ایسی قوتیں تھیں جن کی بنا پر ہمیں جس مقام پہ ہم کھڑے تھے ،ہم چھائے ہوئے تھے زوال آیا۔ وہ تین وجوہات ہیں: ملوکیت، اور ملوکیت کے لیے انگریزی میںArbitrary اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۲۔ ملائیت جس کو انگریزی میں Mullaism کہتے ہیں تیسری وجہ وہ تصوف کوقراردیتے ہیں۔ وہ تصوف جو تنزل کی حالت میں تھا یعنی Decline Sufism۔یہ تین صورتیں ہمارے تنزل کا باعث بنی ہیں اسی بناپر انھوں نے محسوس کیا کہ مغربی علوم ہم پرحاوی ہوگئے ہیں۔ آپ کوعلم ہے کہ جس زمانے میں یورپ ترقی کررہاتھا اس وقت ہمارے تمدن میں اتنا تکبر تھا اور ہم اتنے Entire rational ہوچکے تھے کہ ہم سمجھتے تھے کہ ہم سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا کہ مغرب میں جوسائنس اور مشاہداتی علوم کی ترقی ہورہی ہے وہ کچھ حدتک آگے چلی جائے۔ حالانکہ علامہ یہ سمجھتے تھے کہ یورپ میں جہاں علوم میں ترقی ہوئی ہے اس کی بنیاد مسلم فلاسفہ نے ہی رکھی ہے اور حکما اور فلاسفہ نے ہی جن باتوں پر غور اور فکر کیاوہی یورپ نے ہم سے سیکھا اور اسی پر انھوں نے Progress کی اور یہ اسی کی Development ہے لہٰذا اگر یورپی کلچر کی مثبت اقدار کو ہم اپنالیں یاان سے وہ علم حاصل کرلیں تو وہ کسی Allien تمدن سے، کسی اجنبی تمدن سے کچھ مستعار لینے کی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ وہی علوم ہیں، وہی باتیں ہیں جن پہ ہم غور کرتے رہے ہیں،وہی باتیں ہم واپس لے رہے ہیں۔ اس اعتبار سے علامہ نے یورپ اور اسلام کے درمیان ایک طرح سے Bridge بنایا تاکہ ہم ان کے علوم کو اس وجہ سے رد نہ کر دیں کہ وہ ہمارے تمدن کے لیے اجنبی کلچر کے موضوعات ہیں یا ان کی سائنسز ہیں ان کو نہ لیا جائے تو دوسری طرف ان کو یہ بھی خیال تھاکہ یہ جو مغربی علوم کی یلغار ہے اور خصوصی طو ر پر اس وقت جو سائنسی علوم تھے۔ ٹیکنالوجی کی ابھی اتنی Developmentنہیں ہوئی تھی۔ ٹیکنالوجی کو سمجھ لیجیے ثمر ہے سائنس کا۔ لیکن اس وقت جو ان کے نزدیک کوشش تھی وہ یہی تھی کہ جو مغر ب سے نظریات کی یلغار ہو رہی ہے ان سے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو کیسے محفوظ کیاجائے۔ آپ کو شاید اس بات کا احساس ہو گا کہ اس بات کا ذکر حالی کے اشعار میں بھی ملتا ہے کہ اگر نئی تعلیم آئے گی تو اس کے ساتھ الحاد بھی آئے گا اور ان کو فکر تھا کہ کہیں نئی نسل بالکل اسلام سے منحرف نہ ہو جائے… لہٰذا اس کا… کسی نہ کسی طریقے سے انسداد کیا جائے۔ اس مسئلے پر غور وفکر تو اقبال سے پہلے ہو نا شروع ہو گیا تھا میں تو یہ کہوں گا کہ سب سے پہلے اس بات کا جس شخصیت کو احساس ہواکہ حالات بدل گئے ہیں ،کم از کم جنوبی ایشیا میں، تووہ شاہ ولی اللہ تھے۔ ان کے بارے میں ،ہمارے روایت پسند علما یا تجدد پسند علما یا مفکر سب اس بات کا اعتراف کر تے ہیں کہ سب سے پہلی شخصیت جس کو احساس ہو ا کہ حالات بدل گئے ہیں وہ یہی شخصیت تھی۔ شاہ ولی اللہ کے بعد ہمارے سامنے سرسید آتے ہیں اور سر سید نے ہی ہمیں نئے علوم یا نئی تعلیم کو سمجھنے کے لیے تر غیب دی اور اس پر ہی آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے جو قد امت پسند علما تھے انھوں نے ان پر کتنے اعتراضات کیے۔اس کے بعد تیسری شخصیت سید جمال الدین افغانی تھے جنھوں نے یہ ترغیب دی کہ مغرب کی طاقت کا جوا صل راز ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ان کے جو مناظر ے ہو اکر تے تھے علماکے ساتھ بالخصوص استنبول اور قاہر ہ میں اس میں ہمیشہ وہ علما پر یہ اعتراض کر تے تھے کہ آپ نے یہ کہہ کر علم کو محدود کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی علوم ہی پڑھنے چاہییں اور ان سے ہی اپنا تعلق رکھنا چاہیے لیکن ان کے خیال میں علم کا کوئی تعلق مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔ اسی تفریق کے سبب انھوں نے ہمارے عقلی تصورات کو محدود کر دیا ہے۔ ایک مثال دیتے ہیں کہ علماء تفسیر قرآن کو توبجلی کے بلب کی روشنی میںپڑھ لیتے ہیں لیکن کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ بجلی کا بلب کیسے بنا ہے؟ یا یہ روشنی کس طرح آگئی ہے ؟ کیا ہم اس روشنی کو بنا سکتے ہیں ؟ یہ ایک طرح سے علما حضرات کو سید جمال الدین افغانی کی تلقین تھی کہ مغرب کی طاقت کا جو اصل راز ہے وہ ان کی مشاہداتی علوم میں ترقی ہے اور خصوصی طورپر Rationalism یا عقلیت پرستی کی ان کے نزدیک جو اہمیت ہے اس کے سبب انھوںنے یہ نیا کلچر Develope کیا ہے۔ اس کے باوجود آپ کو اس بات کا بھی علم ہو گا کہ ان ساری شخصیات پر کسی نہ کسی سبب سے کفر کے فتوے لگے۔ سید جمال الدین افغانی پر بھی کفر کافتویٰ لگا۔ اس سے پیش تر شاہ ولی اللہ نے جب قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان پر بھی کفر کا فتویٰ لگا۔ اس کے بعد ان کی اولاد میں خاص طور پر شاہ عبدالعزیز نے اردو میں قرآن کا ترجمہ کر دیا۔ تو میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری Conservativeness کی حالت اس وقت یہ تھی کہ قرآن کا ترجمہ کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد سرسید احمد خان آتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ جب انھوں نے نئی تعلیم کی طرف توجہ مبذول کی اور آپ جو یہاں بیٹھے ہو ئے ہیں وہ سرسید کی وجہ سے ہے کہ آپ نے یہ نئی تعلیم حاصل کی۔ اقبال بھی سرسید کے بعد آتے ہیں کیونکہ سید جمال الدین افغانی جب ہندوستان میں آئے اس وقت علامہ اقبال کی عمر بارہ برس تھی۔ یہ شخصیات کا وہ سلسلہ ہیجو سمجھتے ہیں کہ نئے تصور کی ضرورت ہے۔ اقبال کا ماحول بھی کچھ اس قسم کا تھا جس میں انھوں نے محسو س کیا کہ ہمارے تمد نی زوال کی وجوہات کیا ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فکر اقبال کا Essence یہی ہے کہ کوالٹی کے اعتبار سے ،سیا سی اعتبار سے ملوکیت ہو یا آمریت اسلام کی Spiritکے خلاف ہے لہٰذا ن کو جمہوریت سے Replaceکیا جائے۔ علامہ نے بہت سے تحفظات کے ساتھ جمہوریت کو قبول کیا ہے ۔ ان کے اشعار: جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کر تے ہیں تولا نہیں کرتے پر اعتراض کیا گیا کہ ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت ایسا نظام ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اس کو قبول کر لیا جا ئے۔ یہ مسئلہ تو تب پیدا ہو ا جب علی گڑ ھ گئے تو علی گڑھ کے طالب علمو ں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو جمہوریت کو اپنے اشعار میں Condemnکر تے ہیں تو آپ کس طرح ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہIt is according to the spirit of Islam تو ان کا جواب یہی تھا کہ میر ے نزدیک اس کا نعم البدل کو ئی نہیں۔ میں نے صر ف یہ بتایا ہے کہ جمہوریت جو انسان کا بنا یا ہو اسسٹم ہے اس میں خرابیا ں کیا ہیں۔ خرابیاں اپنی جگہ پر لیکن اس کا نعم البد ل کوئی نہیں۔ اس کا بدل اگر ہے تو وہ ملوکیت یا آمریت ہے اور وہ اسلام کی Spirit کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے میں نے بہ امرمجبوری ہی جمہوریت کے تصور کو Accept کیا ہے۔ اس سے بہتر اور کوئی تصور ہے نہیں جو انسان نے Evolveکیا۔اور یہاں بھی اقبال پر اعتراضات کیے گئے کہ اسلام میں تو جمہوریت کا تصورنہیں ہے شورائیت کا تصور ہے، آپ جمہوریت کا ذکر کیوں کر رہے ہو؟ در اصل اسلامی قانون سازی میںیہ امام پر Dependکرتا ہے کہ وہ مشورے کو قبول کر ے یا رد کردے۔ اگر آپ نے ملاعمر اور طالبان کے سسٹم کو غور سے Study کیا ہے تو ان کی Party کا Basis یہی تھا کہ انھوں نے Chooseکر کے اپنا امام مقرر کیا۔ اس کو وہ مشورہ دیتے تھے اور وہ چاہے تومشورہ قبول کرے، چاہے تو نہ کرے۔ یہ صورت جمہوریت میں تو نہیں ہے کہ اس کے متعلق اقبال یا قائداعظم سمجھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے بہر حال وہ ملوکیت اور آمریت کا توڑ جمہوریت کی شکل میں سمجھتے تھے کہ اس سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آپ دیکھیں کہ Reconstruction کے لیکچرزمیں انھوں نے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے کہ جس وقت ترکی میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا تو خلیفہ کے جو بھی اختیارا ت تھے وہ اب Parliament کو حاصل ہو گئے۔ یہ جوAssembly کا Concept ہے یہ بالکل ایک نیا Concept تھا اور کہہ لیجیے کم از کم ترکی میں قبول کیا گیا اور تر کی کا اجتہاد ہی تھا کہ خلافت کے خاتمے کے بعد خلیفے کے جو سارے اختیارات ہیں وہ Elected Muslim Assembly کو منتقل ہو گئے ہیں۔ اسی اجتہاد کو اقبال نے بھی قبول کیا اور اس وقت تک تو یہ تصور بھی نہیں تھا کہ پاکستان بن جائے گا یا مسلمان آزاد ہو جائیں گے اور جنوبی ایشیا میں ان کی ایک اپنی ریاست بن جائے گی لیکن اس کے باوجود حضرت علامہ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ کسی نہ کسی وقت شاید ایسا ممکن ہو سکے کہ ہمیں اپنی ریاست مل جائے اور ہم اس قسم کی Parliament کو وجود میں لا سکیں ۔ در اصل ہمارے علما میں Creative Thinking یا Innovative Thinking ختم ہو گئی ہے اور اس کو پر کر نے کے لیے اجتہاد کی ضرورت ہے اور اقبال اجتہاد ِمطلق چاہتے تھے، ساری چیزوں کو Re Openکرنا چاہتے تھے۔ جو مسائل اپنے اپنے زمانوں میںحل ہو بھی چکے ہیں ان سب کو Openکرنا چاہتے تھے۔ یعنی وہ اجتہاد مطلق کی پوزیشن اختیار کر نا چاہتے تھے نہ کہ ایسا اجتہاد جو صرف ان مسائل پر ہو سکے جن پر ابھی تک کوئی فیصلہ یا کوئی فتو یٰ نہیں دیا گیا۔ یہاں پر اس قسم کا جو سلسلہ اجتہاد ہے اس کا بھی اختیار وہ پارلیمینٹ کو دیتے ہیں اور پارلیمینٹ کو ہی اجتہاد کے قابلسمجھتے ہیں۔ تیسری چیز Feudalism کا جہاں تک تعلق ہے، یہاں ہمارے حصے میں ،جس کو ہم پاکستان کی Federation کہتے ہیںاس میں کسی نہ کسی شکل میں جاگیرداری نظام رائج رہے۔ یہ Feudalism ہماری سیاست پر بھی ہمیشہ چھایارہاہے اور مضبوط بھی ہے ابھی تک اس کو ہم ختم نہیں کر سکے۔ Land Reforms جو بھی آئی ہیں وہ صرف Cosmetic ہیں، ان کا کوئی صحیح فائدہ نہیں ہو سکا یوں ہماری سیاست پر انھی کا غلبہ رہا۔ اسی سبب سے ہمارے ہاں جو پیر ی مریدی کا سلسلہ ہے اس کا تعلق بھی ہمارے Fuedalism کے ساتھ ہے اور اسی Fuedalism کے سبب ہمارے Rural Areas میں تعلیم کو فروغ حاصل نہیں ہو سکا۔ سردار وہاں کے وڈیرے ہوں یا خان وہ نہیں چاہتے کہ ان کے مزارعے Educated ہو جائیں اور وہ اسی وجہ سے قبر پرستی میںمبتلا رہیں گے اور بعض تو ایسے Fuedal Lords بھی ہیں جو پیر بھی ہیں۔ اسی وجہ سے حضر ت علامہ نے اپنے اشعار میں کہہ رکھا ہے: اے کشتۂ سلطانی و ملّائی و پیری یعنی ان تین Negative Forces نے آپ کی یہ حالت کر دی ہے کہ تہذیبی اورتمدنی لحاظ سے آپ یہاں کھڑے ہیں۔ علامہ نے تجاویز دیں،مسائل کے حل تلاش کیے لیکن ۱۹۲۴ء میں اقبال نے اجتہاد پر جو خطبہ دیا اس میں انھوں نے تحریر کیا ہے کہ مجھ پر کفر کے فتوے لگے کیونکہ میں نے اجتہاد کا ذکر کر دیا ہے۔ ۱۹۲۴ء کے خطبہ اجتہاد کی کاپی ہمارے پاس محفوظ نہیں ہے لیکن اس پر بھی ان کی Satisfaction نہیں تھی بعد میں جو خطبہ دیا گیا اور Reconstruction میں شامل کیا گیا وہ اس کی Improved Form تھی، اس میں بہت کچھ اضافہ کیا گیا تھا۔ تو میر ا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل مسئلہ جو فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے حضر ت علامہ کے سامنے تھا وہ حالی کی نگاہ میں یہ تھا کہ جس وقت نئی مغربی تعلیم آئی تو الحاد پھیل جا ئے گا اس کو کس طرح روکا جائے۔ علامہ نے اپنی طرف سے فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے اس کو تطبیق دینے کی کوشش کی تھی یعنی مغربی فلسفے کی اور سائنس کو مذہب کے ساتھ اور خصوصی طور پر اسلام کے ساتھ۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہمارے لیے مشاہداتی علوم یا تجرباتی علوم وہ Alien نہیں ہیں یا ہمارے لیے Alien'Rationalism نہیں ہے۔ اس کے بعد اگلی چیز جوانھوں نے محسو س کی اور جس پر انھوں نے اصرار بھی کیا وہ یہی تھا کہ ہم اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کریں کہ ان Alien Thoughts کے ساتھ ہم اپنا تحفظ کس طرح کر سکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ انھوں نے کس طرح ان مختلف تصورات جو West سے اس وقت Colonial Period کے دوران ہمارے ملک میں در آتے رہے۔ مثلاً Nationalism Territorial Nationalism کو بھی انھوں نے براکہا کہ نہیں Territorial Nationalism تو مسلمانوںکو قبول ہی نہیں۔ مسلمانوں کی Nationalismکی بنیاد تو ان کی Ideology ہے، ان کا ایمان ہے تو علامہ نے اس کو شکل مختلف دے دی یعنی Concepts مغربی ہیں لیکن ان کو Islamize کیا جا رہا ہے۔ اقبال کی فکر میں بہت سے Concepts مغربی ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی طریقے سے Islamize ہو جاتے ہیں اور وہ اس کی جو Reasoning دیتے ہیں وہ اتنی Convincing ہے کہ انھوں نے On the basis of Idealism ایک Nation بنادی گو وہ زبان مختلف بولتے ہیں، نسلیں ان کی مختلف ہیں، مختلف جغرافیائی علاقوں میں آباد ہیں لیکن چونکہ ان کی قدر مشترک ایمان ہے اس لحاظ سے وہ ایک Nation ہیں۔ Nation Building میںبھی انھوں نے کہا کہ اسلام ہی آپ کا Patriotism ہے اور اسلام ہی آپ کا Nationalism ہے۔ اس بنیاد پر ایک قوم وجود میں آگئی،پہلے تو ایک ہجوم تھا۔ پھر یہ ہجوم قوم کی شکل اختیار کر گیا اور پھر اس کے لیےTerritorial Specificationکا Demand ہوا تو پاکستان بن گیا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ Appearently حضرت علامہ کا جو تفکر تھا اس کا یہی مقصد تھا کہ مسلمان نوجوان اپنے عقیدے سے نہ ہٹیں۔ اب اسی بنا پر یہ خودی کا فلسفہ ہے حالانکہ اس وقت جب انھوں نے تصوف کے خلاف تحریک چلائی، خاص طور پر اسرار خودی کا جو دیباچہ پہلے ایڈیشن پر لکھا گیا اور صوفی حضرات اس پر بہت مشتعل ہوئے اس کا بھی سبب انھوں نے یہی قرار دیا کہ یہ توسارے مغرب کے Thoughts ہیں جو اقبال ہمارے اوپرٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ تصور جوان کا خودی کا ہے یہ تو انھوں نے جرمن فلاسفروں سے سیکھا ہے، یہ تو نطشے کا تصورہے۔ ان حضرات کو اتنا علم نہیں تھا کہ اس قسم کے تصورات انسانِ کامل کی شکل میں نطشے سے بہت پیشتر ،ابن باجہ یا الجیلی کے ہاں موجود ہیں تو یہ اقبال کوئی نئی بات نہیں کر رہے تھے۔ میر ا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر ہماری Conservative thinking کی گرفت اتنی سخت تھی اور No doubt you have personalites like Allama لیکن ہم ان کی grip سے اب تک نہیںنکل سکے۔ اس پس منظر کے باوجود جب علامہ نے کوشش کی تو ان پر بڑے اعتراضات ہوئے۔ Reconstruction میں ایک جگہ پر حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام کا اصل مقصد Spiritual Democracy کا قیام ہے لیکنHe does'nt define what is Spiritual Democracy ۔اب Spiritual Democracy سے ان کی کیا مراد ہے؟ فرماتے ہیںکہ جس وقت عرب نئے نئے مسلمان ہو ئے تو چونکہ انھوں نے زمانہ جاہلیت سے نکل کر اسلام قبول کیا تھا لہٰذا ان کو اس Idea کا احساس نہیں تھالیکن درحقیقت جو مقصد اسلام کا تھا وہ یہی ہے کہ Spiritual Democracy وجود میں لائی جائے اور آج کا جو مسلمان ہے اس پر یہ فرض اور لازم ہے کہ وہ ایسے Social Contracts میں اسی تصور کو اپنے سامنے رکھے اور جو Partially Revealed Purpose of Islam ہے اس کو درحقیقت صحیح معنوں میں نافذ کر کے دکھائے۔ جہاں تک Reconstruction کے من حیث التمام لیکچرز کا تعلق ہے ،اس کے متعلق بھی علما کا سخت اعتراض ہے۔ اگر آپ اس کتاب کو غور سے دیکھیں تو یہ ایک طرح کا جدید علم کلام ہے۔ علم کلام وہ موضوع ہے جس کا تعلق خدا کی ذات سے ہے یعنی یہ مذہب اور فلسفے کے درمیان یابین بین ایک موضوع ہے۔ اس میں حشرونشر کا ذکر ہے۔ اس میں حیات بعد موت کا ذکر ہے اور اقبال کا اصل فلسفہ ہی ایک طرح سے علم الکلام ہے۔ ایک نیا علم کلام اور اسی وجہ سے اس کتاب میں بہت سارے موضو ع ہیں جن کو اقبال نے Touchکیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ ضرورت جو سمجھنے کی ہے وہ اس میں ان کا وہ لیکچرہے جس کا تعلق اجتہاد کے ساتھ ہے۔ یعنی The Principal of Movement of Islam ، اس سے اگلا Chapter Is Relegion Possible? ہے ،مگر یہ سارے الہیاتی قسم کے موضوعات ہیں، جن پر آپ غور کر سکتے ہیں۔ فلسفہ اور سائنس کا جو امتزاج ہے علامہ نے اسے ہمارے سامنے اس وقتپیش کرنے کی کوشش کی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کا کتنا Impact ہو اکیونکہ یہ Lectures تو پڑھے ہی نہیں گئے اور اس پر تو بحث ہم آج تک کر ہی نہیں پائے اور اس وجہ سے ابھی وقت ہے کہ ان پر غورکیا جائے لیکن اب ٹیکنالوجی جو سائنس کا ثمر ہے اس کی اجازت نہ دیتے ہوں توجس طرح کے دور میں اب ہم ہیں اس میں اس سے آگے جانے کی ضرورت ہے۔ علامہ نے تو خود اس کتاب کے دیباچے میں کہہ دیا ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کتاب حرفِ آخر ہے اس کے بعد بھی اس سے بہتر نظریات آسکتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہم نے کبھی اس سے بہتر نظریات لانے کی کوشش نہیں کی۔ کو ئی ایسی تحریک نہیں چلی کہ ہمارے نوجوانوں میں اس قسم کا جذبہ پیدا ہو یا اس قسم کی سوچ پیدا ہوجس کو اقبال اجتہادی فکر کہتے ہیں۔ اجتہادی فکر کی ضرورت صرف فقہ کے معاملات ہی میں نہیںہمارے ہر مسئلے میںہے۔ ہمارے Social Contractsمیں،ہماری Political Politics میں، ہمارے Human Rights میں۔ ساری چیزوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہماری نئی نسل اس نکتے کو سمجھ لے۔ یہ گرہ باندھ لے کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ اب یہ نہ سوچے کہ کسی قسم کا خوف ہمارے دل میں ہے۔ ہم کسی خوف کے بغیر اور جرات کے ساتھ آگے قدم اٹھائیں توجدوجہد غلط بھی ہو جائے لیکن نیت درست ہے تواللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان باتوں سے متاثر نہ ہوں کہ ہمارے اوپر حدود کیا نافذ کی جاتی ہیں۔ ہم آج سے آگے نکلیں کیونکہ ہم جلد ی میں ہیں۔ ہماری نسل جلدی میں ہے۔ ہم جلد اس دنیا میں آگے قدم بڑھانا چاہتے ہیں اور دنیا کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ ہم پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم آگے ہی رہیں گے اور آگے اسی صورت میں رہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے عقیدے و ایمان کو ساتھ رکھتے ہوئے ان ساری چیزوں کو قبول کرلیں۔ زاہد منیر عامر:آپ نے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی زبانی علامہ کے خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے بنیادی موضوعات سے آگاہی حاصل کی۔ علامہ نے ان خطبات کو جن موضوعات میں تقسیم کیا ہے وہ ہیں: علم اور مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار، ذاتِ الہیہ کا تصور اور مفہومِ دعا ، خودی، جبروقدر اور حیات بعد الموت، اسلامی ثقافت کی روح، اجتہاد فی الاسلام اورکیا مذہب کا امکان ہے؟ یہ وہ موضوعات ہیں جن کی طرف ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے اپنی گفتگو میں اشارے فرمائے ہیں اور فرمایا ہے کہ بنیادی طورپر اجتہاد کا مسئلہ ان خطبات کی روح سمجھا جا سکتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج کی اس محفل میںجو اساتذہ اور علمائے کرام تشریف فرما ہیں ان کا براہِ راست تعلق علامہ کے ان خطبات سے ہے۔ میں افسانہ نگار ، دانش ور اور ا ستاد ڈاکٹر عطیہ سیّد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی اس گفتگو کے حوالے سے کوئی سوال پیش فرمائیں۔ ڈاکٹر عطیہ سیّد:ڈاکٹر صاحب نے ابھی مختصراً لیکن جامع انداز میں وہ تاریخی پس منظر بیان کیا۔ اس سارے پس منظر میں اقبال کے افکار نے مسلم سوچ کی نمائندگی کی۔ اب دورِ حاضر میں بھی ایک Global Situation ہے ، تو ڈاکٹر صاحب سے میر اطالب علمانہ سوال ہے کہ اس Global Situation میں اقبال کے افکار کی کیا Relevanceبنتی ہے؟ ڈاکٹر جاوید اقبال:میں اس کے متعلق تو یہی عرض کر سکتا ہوں کہ اس وقت جو صورت ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے آپس کے جو جھگڑے ہیں ان کو ختم کریں۔ جس قسم کے حالات سے اس وقت ہم گزررہے ہیں اپنے گریبان میں منہ ڈال کر ہم دیکھیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ہمیں جو تعلیمات حضرت علامہ کے ہاں ملتی ہیں۔ ان میں فرقہ واریت سے اور اس کے ساتھ ہی علاقائیت سے منع کیا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے مسائل حل کر نا چاہییں۔ زاہد منیر عامر:جی شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب استاذ الاساتذہ ہیں۔ اقبالیات کی نئی جہات کو منکشف کر نے والے مصنفین میں سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب آج کے اس خطبے کے حوالے سے آپ کیا پو چھنا چاہیں گے؟ خواجہ محمدزکریا: علامہ اقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کبھی کبھی یہ احساس ہو تا ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کچھ اور انداز کی ہے خطبات کچھ اور انداز کے ہیں یعنی کبھی کبھی مجھے یہ لگتا ہے جیسے کہ یہ دو شخصیات ہیں خود علامہ نے بھی کہا ہے حرفِ پیچا پیچ و حرفِ نیش دار یعنی خطبات کو حرفِ پیچ دار قرار دیا ہے توظاہر ہے ان کا پڑھنا، ان کا سمجھنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ خطبات پڑھے نہیں جاتے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے بہت سے ترجمے ہوئے ہیں اردو میں بھی حتیٰ کہ پنجابی میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہ خطبات ابھی تک نہیںسمجھے گئے تو کیا طریقہ ہو کہ ان خطبات کی تفہیم عام آدمی کے لیے ہو یا کم از کم دانش وروں کے لیے تو ہو۔ ڈاکٹر جاوید اقبال: آپ نے یہ بالکل درست فرمایا ہے کہ حضرت علامہ اپنے اشعار کی دنیا میں مختلف ہیں بہ نسبت اس دنیا کے جو ان کی شخصیت کا تاثر ان کے لیکچرز میں ہے تو یہ غالباًآپ مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے کہ حضرت علامہ نے کہہ رکھا ہے کہ میں شاعر نہیں ہو ں اور آئندہ آنے والی نسلیں ممکن ہے مجھے شاعر نہ سمجھیں۔ وہ فرماتے ہیں سوائے اس کے کہ میرے ذہن میں چند خیالات ہیں جو میں اپنی قوم تک پہنچانا چاہتا ہوں اور انھوں نے نظم کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ حالانکہ بنیادی طور پر ان کا مقصد کچھ اور تھا۔ جلدی میں تھے اور جلدی میں ہونے کے سبب شعر کا انداز اختیار کیا کہ بجائے دماغ پر اثر کرنے کے دل پر پہلے اثر کیا جائے۔ زاہد منیر عامر:ہمارے پاس اس وقت ممتاز شاعر، دانش ور اور محقق ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب تشریف فرما ہیں ڈاکٹر صاحب آپ آج کے اس لیکچر کے حوالے سے کیا پو چھنا چاہیں گے ؟ ڈاکٹر خورشید رضوی: اصل میں سوال تو نہیں یوں کہیے کہ ایک Loud Thinking ڈاکٹر خواجہ صاحب کی گفتگو سے اور ڈاکٹر جاوید صاحب کے جواب سے میرے ذہن میں آرہی تھی کہ یہ جو اقبال کی شاعری اور ان کے لیکچرز میں بظاہر ایک Diacotomy یا تضاد ہمیںمحسوس ہوتا ہے اس کے حوالے سے جاوید نامہ کے آخر میں ’خطاب بہ جاوید‘ اور ’سخنے بہ نثرادِ نو‘ میں چار پانچ شعر لکھے ہیں: من بہ طبع عصرِ خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف حرفِ پیچا پیچ و حرفِ نیش دار تا کنم عقل و دلِ مردان شکار تو اس میں انھوں نے خود اس کی ایک وجہ بتائی ہے کہ یہ شاعری جو ہے اس کا تعلق ذکر سے ہے۔ یہ نالہ مستانہ اسرارِ جنگ ہے یعنی یہ ایک Emotions کی زبان میں بات کر تی ہے اور لیکچر ز جو ہیں ان کا تعلق فکر سے ہے تو اس ذکرو فکر کو یکجا کر نا میر ا مقصد ہے۔ اب اس میں جو ہمیں Diacotomy تھوڑی سی نظر آتی ہے کہیں کہیں وہ ذرا زیادہ نمایا ں ہو جاتی ہے مثلاً آج اجتہاد پر سب سے زیادہ گفتگو ہو ئی ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ رموزِ بے خودی میں تو انھوں نے ایک پو را عنوان اس پر قائم کیا ہے کہ ’’در معنی ایں کہ درزمانہ انحطاط تقلید ا ز اجتہاد اولیٰ تراست‘‘ اور اس میں جتنے شعر لکھے ہیں اس میں انھوں نے یہ زور دیا ہے کہ چونکہ عالمانِ کم نظر کے اجتہاد سے بہتر ہو تا ہے کہ آپ رفتگان کی تقلید کر لیں اور یہ سچائی سے خالی نہیں ہے۔ یہ اب بظاہر تو ایک تضاد لگتا ہے لیکن میں یہ محسوس کر تا ہوں کہ ان کاجو لیکچرزیر بحث ہے اس میں بھی یہ Reservation جا بجا جھلکتی ہے مثلاً جب انھوں نے قانون ساز اسمبلی کی بات کی ہے تو صرف یہ فرمایا ہے کہ اس طرح کی اسمبلی مثال کے طور پر ایران میں تشکیل دی گئی جس کے ذریعے سے انھوں نے کوشش کی ہے تو ہم بھی تشکیل دے سکتے ہیں اگر چہ اس میںیہ خطرہ موجود ہے کہ جو لوگ اس کے اندر شامل ہوں گے وہ Half baked ہوں گے، جو لوگ سیاست کو سمجھیں گے وہ دین کے رموز کو نہیں سمجھتے، جو اس کو سمجھتے ہیں اُنھیں نہیں سمجھتے توان تمام خطرات کا احساس جو ان کو رموزِ بے خودی میں تھا وہ یہاں بھی تھا لیکن یہاں ڈاکٹر صاحب سے میں صرف یہ عرض کر نا چاہتا ہوں کہ یہ جو بظاہر ایک تضاد نظر آتا ہے کہ وہ اجتہاد سے ایک گو نہ اندیشہ بھی محسوس کر تے ہیں اور اجتہاد کی طرف بڑی شدت سے مائل بھی ہیں۔ ان دونوں چیزوں کا ایک توازن ہم کہاں جاکر قائم کر سکتے ہیں؟ ڈاکٹر جاوید اقبال:میں تو صرف اس کے متعلق اتنا کہوں گا کہ جس وقت ہم پر غیر حاکم تھے اس وقت علامہ نے تقلید کے لیے کہا ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے اپنے کلچر کی Preservation ہو تی ہے تو اس وقت وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر اب ہم اجتہاد کر نے لگیں تو ممکن ہے وہ غلط ہو جائے اور سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا سیاسی آزادی حاصل کر چکنے کے بعد اب بھی ہم دورِ غلامی میں ہیں کہ ہم تقلید کو قائم رکھیں۔ زاہد منیر عامر:علامہ نے عالمانِ کم نظر کی بات کی ہے اور اگر وسعتِ نظر رکھنے والے علماکسی انحطاط کے زمانے میں بھی پیدا ہو جائیں تو یہ دروازہ کھلا رہ سکتا ہے۔ ہمارے درمیان پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر صاحب تشریف فرما ہیں۔ علامہ اقبال پر درجن بھرکتابوں کے مصنف ہیں ، ڈاکٹرصاحب نقاد ہیں، ادب کے استاد ہیں شایدوہ Reconstruction کے ادبی پہلو پر بات کر نا چاہیں گے؟ سلیم اختر: میں سوچ رہا تھا کہ ۱۹۳۴ء میں خطبات شائع ہوئے اب تک ۷۲ برس ہوگئے ہیں انھیں شائع ہوئے اور ڈاکٹر صاحب ہی کے بقول انھیں ہمارے ہا ں اتنا نہیں پڑھا گیا جب کہ یورپ میں شاعری کے ساتھ ساتھ خطبات پر بھی بہت زیادہ دلچسپی لی گئی مثلاً مجھے یاد آرہا ہے کہ فرانس کی ایک خاتون تھیں "ایوا ماریو وچ"انھوں نے شاید یورپ میں سب سے پہلے فرانسیسی میں خطبات کا ترجمہ کیا پھر بو زانی نے لاطینی میں کچھ کام کیا اس کے بعد رشیا میں نتالیہ پری گارینانے علامہ اقبال پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تو انھوں نے بھی ایک باب میں ان کے بارے میں گفتگوکی۔ اسی طرح ترکی میں جرمنی میں اور دیگر ممالک میں اور English speaking countries میں توضرورت نہیں کہ کتا ب ہی انگریزی میں ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ علامہ اقبال کے جو جدید یت پر مبنی خیالات ہیں اور جنھیں ہم شاعری کے حوالے سے اکثر کلیشے میں افکارِ نو کہتے ہیں لیکن اصل افکارِ نو ہمیں خطبات میں ملتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ان سے اتنا فائد ہ نہیں اٹھایا جتنا کہ اٹھایا جا نا چاہیے تھا۔ شاید اس لیے کہ یہ خطبات ہماری عقل کو اپیل کر تے ہیں۔ ان کی جو شاعری ہے اور شاعری میں جلال وجمال والا اسلوب ہے وہ ہمارے Emotionsکو Appealکرتا ہے، جذباتی بنا تا ہے لیکن خطبات ہم سے جس Hard analysis اور عقلی رویے کی توقع کرتے ہیں بالعموم ہم میں مفقو د ہے۔ میرے ذہن میں ڈاکٹر صاحب یہ الجھن ہے کہ اس وقت تمام یورپ میں ،تمام دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد،تخریب کا ر ،بم بار قرار دیا جا رہا ہے اور جن واقعات سے وہ سند لیتے ہیں یا جن وجوہ سے مغرب میں یہ تصور پیدا ہوا جو میں سمجھتا ہوں کہ غلط ہے کہ اسلام تخریب کاری کی تعلیم دیتا ہے اور ہماری حد یثیںیا ہمارے علما یہ باتیں نہیں کر تے ہیں لیکن ایک طبقہ ہے بوجوہ اس نے یہ کیا اور یورپ میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تو کیا ایسے میں علامہ اقبال کے افکار اور تصورات اور ان کے خیالات [شاعری بھی اور خطبات کے بھی بہت سے حصوں] کی روشنی میں ہم دنیا کو یہ نہیں سمجھا سکتے کہ بھئی ہمارا مذہب ایسا نہیں ہے۔ ہم ایسے نہیں۔ ہم اپنی ذات میں گناہ گار ہوں گے لیکن اجتمای قتل و غارت میں ہم Believe نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ اپنے ملک میں بھی ہمیں اس کے مظاہرے مل رہے ہیں۔ ابھی عید میلادالنبیؐکے مبارک دن جو کچھ ہو ا وہ ہمارے سامنے ہے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ عید اور جمعے کی نماز ہم پولیس کے زیر سایہ پڑھتے ہیں۔ وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا وہاں اسلام کے علاوہ ہمیںہر چیز نظر آرہی ہے اور وہی ملک اب اسلام کے نام پر بر باد ہو رہا ہے تو ایک ہمارے یہ داخلی مسائل ہیں ایک ہم پر بین الاقوامی طور پر دہشت گرد اور تخریب کار کی ایک Labeling لگ چکی ہے تو ڈاکٹر صاحب آپ اس پر روشنی ڈالیے کہ ہم علامہ اقبال کے فکر کے کن پہلو وں کو اتنا نمایا ں کریں اور مغرب کے سامنے Protestکریں کہ انھیں یہ اندازہ ہو جائے کہ اسلام ایسا نہیں ہے۔ ڈاکٹرجاوید اقبال:آپ نے درست فرمایا ہے۔ حقیقت میں تو علامہ ایک Bridge ہیں اسلام اور مغرب کے درمیان۔میں آپ کو اس کا پس منظربتاتاہوں کہ سہیل عمر صاحب میر ے ساتھ تھے۔ غالباً اور شخصیات بھی تھیں۔ جس وقت یورپ میں سب سے بڑی اقبا ل کا نگرس قرطبہ میں ہوئی۔ اتنی بڑی کانفرنس آج تک کم ازکم یورپ میں نہیں ہوئی، اس کا افتتاح مسجد قرطبہ میں اسی جگہ پر ہوا جہاں علامہ نے سجدہ دیا تھا۔ اس کانفرنس کا پس منظر یہ تھا کہ اس کا سارا اہتمام کر نے والا ایک فرانسیسی شخص تھا جس کا نام Professor Lemo ہے۔ وہ بجائے خود گلف سٹیٹس کے حکمرانوں کا ایک وکیل تھا اور ہمیشہ ان کے Cases کرتا تھا۔ ان کو کویت نے کہا کہ ہم اسلام اور مسیحیت کے درمیان ایک مکالمہ کر ناچاہتے ہیں۔ کوئی ایسا شخص ہو جو مشرق و مغرب کے درمیان Bridge ہو۔ پہلے تو انھوں نے Naturaly سوچا کہ کوئی عرب تلاش کیا جائے۔کوئی مصری یا کوئی ایسی شخصیت جس کا فکر اس قسم کا ہو جو یہ دعویٰ کرے کہ بھئی جو کچھ بھی مغرب میںاس وقت ہے وہ دراصل مثبت طور پر ہمیں نے ان کو دے رکھا ہے اور ان سے لے لینا کوئی اجنبی چیز لینا نہیںبلکہ اپنی ہی دی ہوئی چیز زیادہ Developed form میں واپس لینی ہے۔ اس کے لیے آخر قرعہ حضرت علامہ اقبال پر پڑا کیونکہ عرب دنیا میں یا ایران میں کوئی ایسی شخصیت ان کی نظر میں نہ آئی اور کویت اور گلف کے جو امیر تھے انھوں نے کہا کہ ہم اس کو Supportکریں گے تم جا کے Organizeکرو پھر Lemo نے یہ کانفرنس کی۔ اس وقت غلام اسحاق خان صاحب پاکستان کے صدر تھے انھوں نے کہا کہ پاکستان کے صدر شریک ہو ںاور سپین کا بادشاہ King Karlos بھی شریک ہو گا۔ صدر صاحب نے پتا نہیں کس مصلحت کے تحت انکار کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ کارلوس نہ آیا اور کانفرنس کا افتتاح کر نے کے لیے مجھے کہا گیا۔ اس کانفرنس میں غالباً چھتیس یا چالیس مقالے پڑھے گئے۔ تقریبا ً سو سے زیادہ اقبال شناس دنیا بھر سے آئے ہو ئے تھے اور اسی بنا پر کہ Iqbal is the only person from among the muslim world who can buckld a bridge between the east and west تو یہ کوشش ہم کر چکے ہیں۔ علامہ کی اس خصوصیت کی بنا پر مجھے جب بھی کہا گیا ہے کہ آپ آئیں یعنی بین المذاہب ڈائیلاگ میں شریک ہوںتو میں نے انکار کیا ہے اس وجہ سے کہ ہمارا attitude appologetic نہیں ہو نا چاہیے۔ ہم جو ہیں وہ ظاہر ہے۔ جو تلاش کر نا چاہے دیکھ سکتا اور اُسے مل سکتا ہے لیکن جس وقت آپ یہ محسوس کریں کہ ہم پرغیروں نے لیبل لگادیا ہے اور ہم اپنی Defence کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔ ہمیں ،جو کچھ ہم ہیں ،وہ صحیح طور پر جاننے کے لیے انھیںچاہیے کہ جاننے کی کوشش کریں ۔ ابھی بنگلہ دیش میں گیا ہو اتھا انھوں نے بڑی عزت افزائی کی وہا ں بلا کے اور یہی کہا کہ Islam is Religion of piece. آپ مقالہ پڑھیں۔ میںنے کہا جی میں اس پر کیا مقالہ پڑھ سکتا ہوں۔ میں نے کہا میر ا پو تا مجھے صبح ملنے آتا ہے تو کہتا ہے داداجان السلام علیکم اور میں اسے جو اب دیتا ہوں وعلیکم السلام بیٹا۔ ہمیں تو بچپن ہی سے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ You talk of piece. claim piece on you,Give piece to the other ہماری تو ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے ہم کیسے محارب ہو سکتے ہیں اور اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی طرف سے Applogetic ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ نہیںجی ہم تو بڑے اچھے بچے ہیں آپ ہمیں ایسے ہی برا سمجھتے ہو۔ زاہد منیر عامر:جی ڈاکٹر صاحب آپ نے فرمایا کہ علامہ نے جو تطبیقی روش اختیار کی وہ اگر آج ہم پیش کر تے ہیں تو Applogetic ہونے کا احساس ہو تا ہے مجھے یا دآیا کہ علامہ جب اندلس کے سفر سے واپس آئے تھے تو لاہور کے شہریوں نے ٹائون ہال میں انھیں ایک چائے کی دعوت دی ، وہا ں انھوں نے تقریر کرتے ہوئے یہی بات کہی کہ تطبیقی روش میں ایک طرح سے کمزوری کا احساس پایا جاتا ہے۔ سہیل عمر صاحب تشریف فرما ہیںجنھوں نے اس نکتے پر اپنی کتاب خطبات اقبال نئے تناظر میں میںبحث کی ہے اور علامہ کی اس نصیحت پر عمل کیا کہ فکر کی دنیا میں کوئی شے حرفِ آخر نہیں ہو تی، ہمیں چاہیے کہ اس باب میں آزادانہ نقد وتنقید سے کام لیں۔ جناب سہیل عمر آپ جاوید اقبال صاحب سے کیا بات کہنا چاہیں گے؟ محمدسہیل عمر:تشکیل جدید کے بنیادی مقدمۂ فکر کا بار بار ذکر آیا ہے اور اسے علامہ کے خطوط سے لے کر ان کے زمانے سے اور آج کی گفتگو تک تواتر سے نیا علمِ کلام کا نام دیا گیا ہے اور خود اپنے خطوط میں بھی، ابتدائی دور میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان لیکچروں کے مخا طب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفۂ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ اب آپ ڈاکٹر صاحب کیا فرمائیں گے کہ Post Renaisance Westمیں جو مغربی تہذیب پیدا ہوئی ہے اس کا مسلم تہذیب سے فکری تصادم ہو نے کے نتیجے میں جو ہمارے ہاں صورت حال پیدا ہوئی اور مسلمانوں کو ایک نئے فکری چیلنج کا سامنا کرنا پڑا یعنی Engagement with Modernity ،علامہ اقبال کے خطبات اس کا ایک موثر جواب دینے میںکس حد تک کامیا ب کوشش کہے جاسکتے ہیں؟ دوسراسوال یہ ہے کہ اجتہاد آج کئی حوالوں سے زیر گفتگو آیا ہے میں آپ سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ نے Reconstruction میں اجتہاد کے بارے میں جو فرمایا اَسی سال گزرنے کے بعد آج ان کے وہ فرمودات کس حد تک ہمارے لیے رہنما ہیں؟ ہم نے ان کی اس دکھائی ہوئی راہ پر کس حد تک قدم بڑھا یا اور آج مزید کیا کرنے کی ضرورت نظر آتی ہے اس خاص موضوع کے حوالے سے؟ ڈاکٹر جاوید اقبال:میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ اور کوئی طریقہ کار نہیں تھا اور ان کا یہ کہنا کہ مغربی تہذیب دراصل اسلام ہی کی تہذیب کی ایک Extension ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے اس Shyness کو Remove کرنے کی کوشش تھی جو ہمارے ہاں ایک طرح سے خواہ تکبرکی بنیاد پر یا نا اہلی کی بنیاد پر پیدا ہو گئی تھی۔ جہاں تک مشاہداتی علوم کا تعلق ہے علامہ اس سلسلے میںکامیاب رہے ہیں کیونکہ اگر وہ طریقہ کار نہ Adopt کیا جاتا تو سرسید کی کوشش کافی نہیں تھی یا سرسید اور حضرت علامہ کے درمیان جو شخصیات پیدا ہوئی ہیں مثلاً سید جمال الدین افغانی کی شخصیت ہے انھوں نےEminent سے gainکیا۔ ان کی اپنی تحریریں اس قسم کی نہیں ہیں جیسے علامہ کے Six lectures ہیں۔ ان کے علاوہ ایک شخصیت مولوی چراغ علی تھے ان کی تحریریں تھیں اور پھر اسی طرح سر امیر علی تھے جو اس زمانے میں مقبول شخصیات تھیں لیکن ان کا attitudeآپ کو یاد ہے حضرت علامہ ہی نے فرما رکھا ہے کہ Appologetic تھا۔ مولوی چراغ علی کا بھی اور سید امیر علی کا بھی۔ اس تناظر میں تو حضرت علامہ اقبال ہی تھے جنھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور بہت حد تک کامیا ب ہوئے کہ جو Method of doubt آپ کے ہاں ملتا ہے، French thinker کے ہاں ،Decarts کے ہاں ،اس کی ابتدا غزالی نے کی ہے۔ Logic کے سلسلے میں انھوں نے اپنا جو نقطہ نگاہ پیش کیا ہے وہ سارا آپ کو اس کے ہاں ملتا ہے۔ یعنی جو بھی مغربی مفکر ین تھے فرض کیجیے وہ Libenitz کو لیتے ہیں، Atomism کا ذکر کر تے ہیں …تو ان کا تقابل کرکے ثابت کرتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں وہی ہیں جو پہلے ہم نے سوچی تھیں اور آپ اگر اب فلسفے میں Principle of doubt لائے ہیں تو وہ تو غزالی کے ہاں ،ہمارے ہاں، پہلے ہی موجود ہے۔ کون سی نئی چیز آپ نے پیدا کر دی ہے؟ تو میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح میں نے کہا ہے کہ We should not be appologetic attitude ہم اپنے کردار کے ذریعے سے کارگزاری اپنی دکھائیں تو اس حساب سے تو میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہم نے ابھی تک Achieve کیا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے کچھ Achieve نہیں کیا۔ سب سے بڑی بات جو ہم نے Achieve کی ہے وہ پاکستا ن کی Creation ہے۔ We are a nuclear power۔ یہ بھی بڑی Achievement ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ٹھیک کیا ہے۔ خال خال ایسی شخصیات پاکستان بننے کے بعد پیدا کی ہیں مثلاً ہمارے Nuclear science کے استاد ڈاکٹر عبدالقدیر پھر اس کے علاوہ اور شخصیات حکیم سعید یا پھر ایسی شخصیات جیسے عبدالستار ایدھی وغیرہ ۔ یہ لالۂ صحرا کی طرح پیدا ہوتے رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان بن چکنے کے بعد ہم نے ایسی شخصیات پیدا نہیںکیں جو بڑی Eminent ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم سیاست اور دوسرے مسائل کو حل نہیں کر سکے۔ Apparently میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے پہلے سوال کا جواب تو یہی ہے کہ حضرت علامہ کا یہ کمال ہے کہ ہم نے یہ ملک حاصل کیا اور ہمیں اس ملک میں قائداعظم جیسی شخصیت نے جو اصول دیے گو ہم ابھی تک اس پر قائم نہیں رہے یا اس سے ہٹ گئے ہیں۔[علامہ اقبال کے اصولوں سے بھی اور قائداعظم کے اصولوں سے بھی] لیکن جہاں تک انھوںنے جو چیز ہمیں دے دی ہے وہ تو اظہر من الشمس ہے۔ اس وجہ سے میں نہیں کہتا کہ ان کی Achievement نہیں ہوئی۔ دوسرا جو آپ کا سوال ہے ابھی تک تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم نے یہاں پر ایسی کوئی بھی کارروائی کی ہے۔ ایسی قانون سازی کی ہے جس سے وہ مقاصد حاصل ہو سکے ہوں جو حضرت علامہ کی نگاہ میں تھے۔ آپ نے خود اپنی کتاب میں یہ بحث کی ہوئی ہے کہ حضرت علامہ نے جن خیالات کا اظہار حدود آرڈیننس کے متعلق کیا ہے۔ ان قوانین کے متعلق، قرآنی احکام کے متعلق جن میں Penalty ہے ان کا استدلال شاہ ولی اللہ پر Base نہیں کرتا شاید وہ شبلی پر Base کرسکتا ہو کیونکہ شاہ ولی اللہ Conservative school کے حامی تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ جہا ں تک شاہ ولی اللہ کا تعلق ہے تو ان کی شخصیت بہت اہم ہے لیکن میں حضرت علامہ شبلی کو بھی کم شخصیت نہیں سمجھتا۔ اگر شبلی نے بھی یہ کہہ دیا کہ بعض وقت جب نبی کسی قوم پر مبعو ث ہوتا ہے ، تو اس قوم کے خصائل، عادات اور رسم ورواج کوذہن میں رکھتے ہوئے اس طرح کی وحی نازل ہوتی ہے اور ضروری نہیںکہ اس وحی کا اطلاق بعد کی آنے والی نسلوں پر کیا جائے۔ تو یہ ایک بڑا ہی دلچسپ نکتہ ہے کہ ایک جدید ذہن، آج کا ،جدید مسلمان کا ذہن Immediately اس کو Respond کرے گا۔ اب یہ دیکھیے کیا خدا کی زبان عربی تھی؟ کیونکہ مبعوث نبی کو کیا جانا تھا ایسی قوم میں جو عربی زبان جانتی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کا ترجمہ اردو میں نہ کر سکیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض ایسی باتیں ہیںجن کے متعلق مطلق اجتہاد کی ضرورت ہے۔ زاہد منیر عامر:جی علامہ نے روحانی معاشرے کی تشکیل کی بات کی اور فرد کے روحانی استخلاص اور ایک ایسے سماج کی نشوونما جس کی اساس روحانیت پر ہو۔ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والی شخصیت ہمارے عہد کے معتبر اور منفرد شاعر، دانش ور، مصنف جناب شہزاد احمد ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں جنھوں نےThe Reconstruction of Religios Thought in Islam کو اردو میں اسلامی فکر کی نئی تشکیلکے عنوان سیمنتقل کیا ہے۔ شہزاد احمد:جاوید اقبال صاحب ! مجھے ایک بات کی بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنے لیکچر کو ایک ایسے نکتے پہ ختم کیا ہے جہا ں سے ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے۔ آپ نے یہ کہا کہ صرف علامہ اقبال تک ہم اپنے آپ کو محدود نہیں رکھ سکتے ہمیں اس سے آگے چلنا چاہیے۔ کیونکہ اقبال کی اپنی روایت بھی یہ تھی کہ جہاں سے ان کو نظریات کا Thread ملا تھا اس کے بعد انھوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ لیکن یہ بات کبھی میر ی سمجھ میں نہیں آئی کہ علامہ اقبال کے گرد جو حلقہ تھا اس میں سیاسی لوگ بھی تھے اور مذہبی بھی اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ اور ان کی شخصیت کے جو مختلف پہلو ہیں ان پر کام کیا گیا۔ ان کو Develope کیا گیا تو آپ نے خود تسلیم کیا کہ لکچرز کو وہ اہمیت نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فکر جو ہے اس سے چیزیں تبدیل نہیں ہوتیں حالانکہ انسان آئیڈیا پیدا نہیں کرتا آئیڈیا انسان کو پیدا کرتا ہے۔ جاوید اقبال:بالکل درست ہے۔ شہزاد احمد:اگر ہم اپنے آئیڈیاز میں وہیں ہیں جہا ں ہم پہلے تھے پھر تو صورت حال بہت مشکل ہو جائے گی۔ اقبال نے عملی طور پر اپنے لکچرز میں جن لوگوں کاذکرکیا ہے، جو Contemporary لوگ تھے، جن کے نظریات تھے، ان میں بعض ایسے لوگ ہیں جو بعد میں مشہور ہوئے ہیں لیکن علامہ تک ان کے نظریات پہنچ چکے تھے مثلاً اوسپنکینرا جو اس زمانے میں بہت اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ دراصل علامہ بہت زیادہ اپ ٹوڈیٹ تھے۔ ایک تو سوال یہ ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ کہ ہم اپنی اس علمی سطح کو بلند کر سکیں اور ان سوالوں کو پھر سے اٹھا سکیں جو سوال علامہ نے اٹھائے تھے اور وہ درمیان میں رہ گئے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ علامہ کے بعد بھی صورتحال بہت زیادہ تبدیل ہوئی ہے مثلاً بہت سی گفتگو علامہ کے لیکچرز میں ٹائم کے بارے میں ہے۔ Absolute time پرانھوں نے بہت زور دیا ہے ،اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ Meta physics اور Physics ایک ہی چیز ہو گئے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انھوں نے آئن سٹائن کے نظریات کا ذکر کیا ہے لیکن اس کو قبول نہیں کیا۔ اگر ہم اب بھی Absolute time کے پیچھے لگے رہیں تو Relativity کے حساب سے جو ساری ترقی ہے وہ Fourth dimension کے حوالے سے ہو گی۔ اس میں تو ہم پیچھے رہ جائیں گے پھرSpace کی جتنی Development ہو نی ہے اس میں بھی ہماری کوئی شراکت نہیں ہو سکے گی تو یہ جو ٹائم کا Concepted self ہے اس کو بھی تبدیل کر نے کی میرے خیال میںضرورت ہے اور علامہ نے تو اس کے بہت سے پہلو بیان کیے۔لا تسبوالدہر، تک کہہ دیا یعنی Dont nullify time, time is God ڈاکٹر جاوید اقبال:Time کے متعلق میں صرف یہی وضاحت کر سکتا ہوں کہ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں کیونکہ میر ا بھی جہاں تک علامہ کے خیالات یا افکار سے تعلق ہے وہ آپ کی طرح کسبی ہے،مجھے علامہ نے کوئی اپنی طرف سے ہدایت نہیں کر رکھی ہے کہ ان کے خیالات یا افکار کے معنی ان کے یہ تھے، مگر حقیقت میں جہاں تک مسئلہ زمان کا تعلق ہے ان کی دلچسپی کا سبب یہ تھا اور وہ یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ ٹائم کا جو مسئلہ ہے اس کو سمجھنا مسلمانوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اچھا اب زندگی موت کا مسئلہ کیونکر ہو گیا؟اس کی Interpretation میری نگاہ میں یہی ہے کہ حضرت علامہ کے خیال میں یہ تھا کہ اگر مسلمان صرف Serial time میں believe کرتا ہے کہ صبح اٹھے روٹی کھائی دفتر چلے گئے پھر واپس آئے رات کی روٹی کھائی سو گئے، پھر اٹھے ، سو گئے تو یہ تو نباتات یا حیوانات کی زندگی ہے تو Creativity اورInnovation کے لیے نہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ Durational time کی ضرورت ہے اور مسلم معاشرے کو اسی کا احساس وہ دلانا چاہتے تھے کہ خدا کا واسطہ ہے آپ ذرا فکر کرو وقت کو سمجھنے کی کوشش کرو، اس کے دو پہلو ہیں ایک Durational time ہے جو کہ آپ کے ذہن میں ہے Subjective ہے اور دوسر اSerial time ہے Dont go after serial time, try to attach importance to the time which is subjective, which is with in you اور اس کے تحت ہی Creativity ہوتی ہے اور Solitude میں جو Creativity اور Innovation ہے اس کی طرف آپ کو راغب کر نے کی کوشش کی۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حیات بعد موت آپ حاصل نہیں کر سکتے ہیں اس کو وہ حاصل کر سکتا ہے جو Creative ہوتبھی خدا کا ہم کار بن سکتا ہے۔ تو یہ سارا Emphasis یہی ہے کہ وہ اپنی Communityکو غفلت سے بیدار کرنا چاہتے تھے۔ ان کو کہتے تھے کہ اگرتم Creatively کچھ گناہ ہی کر دو تو وہ بھی ثواب میں منتقل ہو جاتا ہے۔خدا کا واسطہ ہےCreative تو ہو۔ تو اب اس حساب سے اگر آپ دیکھیں تو وقت کی جو اہمیت تھی اس کا احساس ٹھیک ہے ان کو تھا لیکن جہاں تک ان کا Emphasis ہے وہ Serial time پر نہیں بلکہ Durational time پر ہے۔ کبھی وہ بر گسا ں کو اپنی Support میں لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مسلم فلاسفہ ہو گزرے ہیں جنھوں نے اس وقت اس مسئلے پر بحث کی ہے ان کا ذکر کرتے ہیںلیکن حقیقت میں ان کا جو ا پنا نظریہ تھا ،جو دل کی چھپی ہوئی بات تھی وہ یہی تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو Creative کر و۔ یہ تو حیوانوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم بجائے خود اب بھی More or less حیوانوں کی زندگی ہی بسر کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے صرف روزی کمانی ہے اور روٹی کھانی ہے، سو جانا ہے، جاگ پڑنا ہے، سو جانا ہے، جاگ پڑنا ہے تو پھر اس طرح تو مقصد حل نہیں ہو تا جب تک کہ We are not creative and contribute something to the betterment of mankind. زاہد منیر عامر:یہی بات انھوں نے شعر میں کہی کہ فروغ ِآدم خاکی ز تازہ کاری ہا است مہ و ستارہ کنند آنچہ پیش ازین کردند کہ انسان کا امتیاز اور اس کی بقا اسی میں ہے کہ وہ ایک تخلیقی وجود رکھتا ہے ورنہ چاند اور ستاروں کی طرح زندگی گزارنے میںکوئی نیا پن نہیںچاند اور ستارے وہی کچھ کرتے ہیں جو پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ناظرین ڈاکٹر وحید عشرت صاحب نے Reconstructionکا نیا ترجمہ تجدید فکر یات اسلام کے نام سے کیا۔ ڈاکٹر وحید عشرت صاحب بھی آج کی اس محفل میں شریک ہیں۔ وحید عشرت:اقبال نے دیباچے میں فرمایا ہے کہ نئے لوگ بہتر نظریات پیش کریں گے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اقبال پر ایک انتقادی اور تنقیدی نظر ڈال کر ان چیزوں سے بچتے ہوئے ایک ایسا نیا سوچ بنائیں جس میں اصول اوّلیہ مغرب کے اصول اور سائنس نہ ہوں اور اس سے ہم خو شہ چینی کرتے ہوئے اسلامی معتقدات کی تعبیر نہ کریں بلکہ قرآن کے اصول اوّلیہ کی بنیاد پر ہم خود ان کو Evaluate کریں اور ان کا تجزیہ کریں کہ وہ کہاں Standکرتی ہے۔ جاوید اقبال:زیادہ تبصرہ تو نہیں کر سکتا۔ میں تو یہی کہوں گا کہ علامہ نے بنیادی طور پر مغربی Thinking کی خوشہ چینی نہیں کی۔ انھوں نے یہی کوشش کی ہے کہ ظاہر کیا جائے کہ ہمارے مفکرین ،جو کچھ بھی سوچتے رہے ہیں یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے۔ میں نے ابھی آپ کو ڈیکارٹس کی مثال دی تھی کہ جس وقت انھوں نے یہ کہا کہ اس کا Doubtکا Method الغزالی کے ہاںملتا ہے تو انھوں نے یہ موازنہ کر کے دکھانے کی کوشش کی کہ ہماری جو Thinking ہے وہ اسی طرح ہے جس نتیجے پر اب تم پہنچے ہو۔ تو میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ علامہ نے ہمیں ایک طرح سے Provoke کیا ہے۔ زاہد منیر عامر:جی بہت شکریہ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب ناظرین کرام !علامہ اقبال نے اپنے افکار کو دو حروف قرار دیتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ ان میں سے ایک کی اصل ذکر ہے اور ایک کی اصل فکر ہے۔ اور اپنے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ای تو بادا وارثِ ایں ذکر و فکر اور تجھے اس ذکر اور فکر دونوں کا وارث ہو نا ہے۔ عقل اور روح کے امتزاج سے زندگی کی تشکیل نوکرنی ہے اور علامہ نے جو بات خطبات کے دیباچے میں فرمائی کہ فکر کی دنیا میں قطعیت کوئی چیز نہیں ہوتی وہ ہمارے لیے اس راستے کو آسان بناتی ہے کہ ہم تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھیںاور علامہ سوال کے جس مقام پر کھڑے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ ژ…ژ…ژ علامہ اقبال کے ایک ناقد: ڈاکٹر اختر حسین راے پوری ڈاکٹر خالد ندیم جولائی ۱۹۳۵ء میں انجمن ترقی اُردو، اورنگ آباد کے جریدے اُردو میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’ادب اور زندگی‘ میں معروف ترقی پسند نقاد ڈاکٹر اختر حسین راے پوری نے اقبال پر شدید تنقید کی۔ ایک وقت تک وہ اپنے خیالات کا دفاع کرتے رہے، تاہم زمانے کے سرد و گرم سے آشنا ہونے اور اقبال کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد وہ اپنی رائے سے رجوع کرنے لگے،غرض بھرپور علمی زندگی گزارنے کے بعد اُن کا دائرہ فکر وسعت اختیار کرتا چلا گیا، چنانچہ جب وہ ۱۹۷۶ء میںسفرِ حیات کی گرد سمیٹتے ہوئے خود نوشت [گردراہ] لکھنے بیٹھے تو اقبال کے فنی کمالات اور فکری رویوں کے معترف ہوتے چلے گئے۔ ترقی پسند تحریک کے سرگرم رُکن، ڈاکٹر اختر حسین راے پوری (۱۲؍جون ۱۹۱۲ئ-۲؍جون ۱۹۹۲ئ) بظاہر علامہ اقبال کے معاصر شمار ہوتے ہیں، مگر وہ علامہ سے پینتیس برس چھوٹے تھے۔ بیسویں صدی کے رُبع دوم میں وہ نقاد، افسانہ نگار اور مترجم کی حیثیت سے نمایاں ہوئے تو رُبع آخر میں پچاس سالہ علمی و ادبی اور تہذیبی و ثقافتی تاریخ کی حامل خود نوشت لکھ کر انھوں نے اپنا نام امر کر لیا۔۱؎ راے پور، کلکتہ، علی گڑھ اور پیرس۲؎ سے تعلیمی مدارج طے کرنے والے اختر کو آٹھ زبانوں۳؎ پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں[خبروں کے] مدوّن و مبصر اور ہندوستانی لغت کمیٹی کے نگران کی حیثیت سے کام کیا؛ ایم اے او کالج، امرتسر میں تدریسی فرائض انجام دیے ؛ حکومتِ ہند اور حکومتِ پاکستان کی وزارتِ تعلیم میں۴؎ انتظامی خدمات انجام دیں اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونسکو کے تحت مختلف ملکوں۵؎ میں فروغِ علم کے سلسلے میں مصروف رہے۔ علامہ اقبال سے اختر کا پہلا رابطہ ۱۸؍مارچ ۱۹۳۳ء کو ہوا، جب کمال اتا ترک۶؎ کے دیرینہ رفیق رؤف بے۷؎ پیرس سے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کی دعوت پر، علامہ کی زیرِ صدارت، دو توسیعی لیکچر دینے ہندوستان آئے۔ رؤف بے نے وطنیت اور اتحاد اسلامی کے موضوع پر گفتگو کی اوراتاترک کی سیکولر پالیسی کو سراہا۔ اقبال نے بحیثیت صدرِ جلسہ، عالمِ اسلام کی تازہ بیداری، انقلابِ ترکی، مسئلہ اجتہاد، خلافت اور اتحاد اسلامی (مغربی اصطلاح کے مطابق پان اسلام ازم) ایسے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔۸؎ اختر، اقبال کی شاعرانہ خوبیوں کے گرویدہ تو تھے ہی،یہ خطاب سن کر اقبال سے ملاقات کے لیے بے چین ہو گئے، چنانچہ ملاقات کا وقت طے کر کے اور چند سوالات مرتب کر کے اگلے دن علامہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔۹؎ اقبال، ڈاکٹر انصاری۱۰؎ کی رہایش گاہ پر ایک کمرے میں پلنگ پر لیٹے حقہ پی رہے تھے اور ان کا دیرینہ ملازم علی بخش۱۱؎ دروازے پر بیٹھا تھا۔ اقبال تنہا تھے، لہٰذا بلاتامّل اختر کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اختر کے سوالات سن کر علامہ کہنے لگے کہ اب مجھے ایسے نوجوان نہیں ملتے، جن کے ذہن میں علم کی کرید ہو ؟۱۲؎ جب انھیں معلوم ہوا کہ اختر، میوات کے باغی کسانوں کا حال دیکھ کر ان سے ملاقات کے لیے دہلی میں ٹھہرے ہوئے ہیں تو مسکرا کر کہنے لگے: معلوم ہوتا ہے کہ تم تعلیم کی طرف توجہ کم دیتے ہو، ورنہ ان مشاغل کے لیے وقت کیسے نکل سکتا ہے۔ اختر نے عرض کیا کہ مَیں تجسس کی اس منزل پر ہوں، جب رسمی تعلیم تضیع اوقات محسوس ہوتی ہے۔ مَیں حقیقت کا جویا ہوں اور اسی کو حاصل علم تصور کرتا ہوں۔ آپ جیسے بزرگوں کے فیض سے جو حاصل ہوگا، وہ کسی درس گاہ میں کب میسر ہو گا؟ اس جواب پر اقبال محظوظ ہو کر اٹھ بیٹھے اور پوچھا کہ تمھارے ذہن میں حقیقت کا تصور کیا ہے؟ اختر نے عرض کیا: مَیں ابھی معاشی مسائل سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکا اور یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ انسان کا مقدر بھوک اور شہوت کی تسکین کے علاوہ اَور بھی کچھ ہے، اسی اُلجھن میں ہوں کہ ان بنیادی مسائل کا مناسب حل نکل آئے تو پھر انسان اپنی خفتہ صلاحیتوں کو صحیح طور پر بہ رُوے کار لاسکے گا۔ اقبال نے کچھ دیر انھیں غور سے دیکھا اور فرمایا: بھوک اور شہوت کے مسائل حیوان اور انسان میں مشترک ہیں۔ جو قدر ان میں امتیاز پیدا کرتی ہے وہ فلسفے کی اصطلاح میں ’آئیڈیا‘ ہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ایمان، ضمیر، اخلاق، مسلک وغیرہ کی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ سوچو کہ انسان کی بہتری اور ترقی کی جدوجہد میں جن لوگوں نے مصائب جھیلے ہیں انھیں ان قربانیوں کے لیے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ کسی نورِ ایمان نے انھیں اس کاوِش کے لیے ابھارا [ہوگا]۔ یہی جذبہ انسانیت کا جوہر اور اس کی سربلندی کی ضمانت ہے۔۱۳؎ اختر دیر تک اقبال سے محو گفتگو رہے، بوقتِ رخصت اقبال نے انھیں ملتے رہنے کی تاکید کی؛ چنانچہ اختر جب بھی لاہور آئے،اقبال کی خدمت میں ضرور حاضر ہوئے۔ (البتہ ان ملاقاتوں کی تفصیل دستیاب نہیں ہو سکی) یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقبال بعض باتوں میں متفق نہ ہونے کے باوجود اختر پر شفقت فرماتے تھے۔۱۴؎ مارچ ۱۹۷۱ء تک مذکورہ سوال و جواب پرمشتمل مسودہ اختر کے پاس محفوظ رہا۔ وہ اسے ایک مضمون کی صورت میں شائع بھی کرنا چاہتے تھے،۱۵؎ تاہم ۱۹۸۴ء میں، جب ان کی بینائی زائل ہوگئی اور مسودہ بھی کہیں کھو گیا، تو اختر نے بتایا کہ اگر اُس زمانے میں یہ مضمون شائع ہو جاتا تو ایک شور برپا ہوجاتا، [البتہ] اقبال کی شاعرانہ عظمت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، [ہاں] ان کے خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔۱۶؎ ۱۹۳۷ء کے آغاز میں جہاںنما کے ڈیکلریشن کے لیے دی گئی درخواست مسترد ہونے پر ان کی اہلیہ حمیدہ(پ:۱۹۱۸ئ) نے انھیں یورپ جا کر ڈاکٹریٹ کرنے کی تجویز پیش کر دی۔ اختر کہتے ہیں کہ مَیں ان کی شکل دیکھتا رہ گیا، کیوںکہ یہ خیال کبھی میرے دماغ میں نہ آیا تھا۔۱۷؎ اختر کا یہ بیان اپنی جگہ، لیکن راقم کو ایک ایسی تحریر دستیاب ہوئی ہے، جس سے ایک طرف اختر کے اس بیان … یہ خیال کبھی میرے دماغ میں نہ آیا تھا… کی تردید ہو جاتی ہے تو دوسری جانب اقبال سے اختر کے تعلقات کی نوعیت کا بھی علم ہوتا ہے۔ ۲۶؍ اپریل ۱۹۳۴ء کو علامہ اقبال نے ان الفاظ میں اختر کی صلاحیتوں اور ان سے وابستہ توقعات کے بارے میں لکھا: Mr. Akhtar Husain B.A. (Alig:) is, perhaps, the first eminent Mohammedan scholar of Sanskrit. The all India Sanskrit Vidat Sammelan has recognised his scholarship in that language by conferring on him the title of Sahityalankar. I am told that he knows Bangla, Marathi and Gujrati and is a well known writer in Hindi and Urdu. These qualifications give weight to his intention to proceed to Europe for higher studies in Sanskrit. I strongly recommend him to the trustees of Fazalji Dawood Bhai Trust to whom he is applying for a foreign scholarship. They would do well to give him every encouragement, for I believe, he would put this help to the best account. I hope, he would prove useful to our country and community and revive the traditions of Muslim Sanskrit Scholars of Mughal Period.18 اگرچہ مذکورہ ٹرسٹ نے اقبال کی اس سفارش کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا، تاہم اس تحریر سے اقبال کے دل میں اختر کی قدر و اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ علی گڑھ میں قیام کے دَوران(۱۹۳۵ء میں) اختر نے ’ادب اور زندگی۱۹؎ کے نام سے وہ اہم مقالہ لکھا جس نے ۱۹۳۶ء میںقائم ہونے والی انجمن ترقی پسندمصنفین کے لیے فکری اساس مہیا کی۔اختر نے اس مضمون میں اُردو زبان و ادب کے متعلق جارحانہ رویہ اختیار کیا، بالخصوص علامہ اقبال کے بعض نظریات پر سخت تنقید کی۔ اختر سمجھتے ہیں کہ اقبال کا نظریۂ زندگی بڑی حد تک جمال الدین افغانی۲۰؎ سے متاثر ہے اور نیطشے۲۱؎ ، برگساں۲۲؎ اور میزینی۲۳؎ کے زیرِ اثر انھوں نے مغربی استعماریت اور صنعتی تہذیب کی مخالفت کی ہے؛ چنانچہ اقبال نے اسلام کے نام پر ایک عالمی تصور پیش کیا ہے جس کا نفاذ، ان کی رائے میں، مسائل حیات کا واحد حل ہے۔ اختر کہتے ہیں کہ یہاں مَیں صرف یہ دکھانے کی کوشش کروں گا کہ اقبال فاشزم کا ترجمان ہے۔ حیرت ہے کہ دیگر ترقی پسندوں کی طرح اختر نے بھی فیصلہ صادر کرنے کے بعد فیصلے کے حق میں مواد کی تلاش شروع کی ؛ بہرحال ان کے اعتراضات کی نوعیت کچھ یوں ہے: ٭ اقبال نے ایک قوم کو ہی نہیں، بلکہ اس قوم کے ایک خاص طبقے کو مخاطب کیاہے ،اور یہ طبقہ نوجوانوں کا ہے۔ ٭ انھوں نے اقبال کی طرف سے مسلم فتوحات کو اسلام کے عروج اور زوال کو اسلام سے انحراف کی دلیل قرار دینے پر نکتہ چینی کی اور کہا: یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اسلام کی ابتدائی فتوحات عرب ملوکیت کی فتوحات نہیں تھیں اور تاریخ کے کسی دَور میں اسلامی تصورِحیات پر عمل ہوا تھا۔ ٭ وطنیت کی مخالفت کے باوجود اقبال قومیت کے اسی طرح قائل ہیں، جس طرح مسولینی۔۲۴؎ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کے نزدیک قوم کا مفہوم نسلی ہے اور دوسرے کے نزدیک مذہبی۔ ٭ اشتراکیت کے برعکس ،فاشسٹوں کی طرح اقبال بھی جمہور کو حقیر سمجھتے ہیں۔ متاعِ معنی بے گانہ از دوں فطرتاں جوئی ز موراں شوخیِ طبع سلیمانے نمی آید گریز از طرزِ جمہوری ، غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید ۲۵؎ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو ، پھر کیا طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ۲۶؎ ہوس اندر دل آدم نہ میرد ہماں آتش میانِ مرزغن ہست عروسِ اقتدارِ سحر فن را ہماں پیچاک زلفِ پُر شکن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہ کن ہست ۲۷؎ ٭ اقبال مشینوں کو انسانیت کے لیے مضرت رساں سمجھتے ہیں: ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات ۲۸؎ جب کہ اختر کے خیال میں آلات خود کچھ نہیں کرتے، بلکہ وہ مخصوص حالات، مروّت کو کچل دیتے ہیں، جن میں ان سے کام لیا جاتا ہے۲۹؎ تاہم ستمبر ۱۹۷۶ء تک آتے آتے وہ اقبال کی تائید کرنے لگے تھے کہتے ہیں: انسان بزعمِ خود مشین کے سہارے فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے نکلا اور اب مشین سے مغلوب ہو کر رہ گیا۔ پہلے تو اس نے مشینوں سے وہ کام لینا چاہا، جو ہاتھ پاؤں انجام دیتے ہیں اور اب کمپیوٹر کے روز افزوں استعمال نے اسے بے دماغ بنانا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ ہی نہیں، اس کے جلو میں ساری دنیا اسی روِش پر گامزن ہے؛ لہٰذا اقدار، اصول یا اخلاق کا ذِکر صدا بہ صحرا معلوم ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مشین تعمیر و تخلیق کی بے پناہ قوت ہے، تاہم اس کا خالق انسان ہی ہے اور اسے جب احساس ہو گا کہ اس کا اصل مصرف انسانیت کی حاکمیت نہیں، بلکہ اس کی خدمت ہے تو موجودہ معاشرے کا ایک بڑا بحران ختم ہو جائے گا۔۳۰؎ ٭ فاشزم کی ہم نوائی میں اقبال اشتراکیت اور ملوکیت دونوں کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن اس حد تک، جس حد تک متوسط طبقے کا ایک آدمی کر سکتا ہے۔ ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب ہر دو یزداں ناشناس ، آدم فریب زندگی ایں را خروج آں را خراج درمیانِ ایں دو سنگ آدم زجاج غرقِ دیدم ہر دو را در آب و گل ہر دو را تن روشن و تاریک دل ۳۱؎ چنانچہ سرمایہ داری اور ملوکیت کی بیخ کنی اورنئے معاشی نظام کی تشکیل کے لیے اقبال ایک عالمی تصور پیش کرتے ہیں، تاہم اقبال کے نزدیک، اس تصور کا عامل کوئی بین الاقوامی طبقہ نہیں، بلکہ ایک قوم [مسلمان] ہے۔۳۲؎ ٭ اطالوی فاشسٹوں کی کامیابیوں پر اقبال کی مسرت۳۳؎ کا ذکر کرتے ہوئے اختر ان کی نظم ’مسولینی‘ سے اقتباس پیش کرتے ہیں: رومۃ الکبریٰ دگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر ایں کہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بخواب چشمِ پیرانِ کہن میں زندگانی کا فروغ نوجواں تیرے ہیں سوزِ آرزو سے سینہ تاب یہ محبت کی حرارت، یہ تمنا، یہ نمود! فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب نغمہ ہاے شوق سے تیری فضا معمور ہے زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رُباب فیض یہ کس کی نظر کا ہے ، کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب۳۴؎ اس مقام پر اختر تلخ ہو جاتے ہیں، کہتے ہیںکہ یہ فیض مسولینی کا ہے، جو اطالیہ کی بہبود کے لیے ساری دنیا کو فنا کر سکتا ہے؛ جو اطالیہ کے سرمایہ داروں کا سپہ سالار ہے؛ جو جنگ کو انسانیت کے لیے شیرِ مادر بتاتا ہے۔ اقبال ایسے ڈکٹیٹر کو ہی اسلامی پاکستان کے استحکام کا ضامن سمجھتا ہے۔۳۵؎ آل احمد سرور کے خیال میں بعض لوگ اس وجہ سے دھوکا کھا جاتے ہیں کہ بال جبریل میں اقبال نے ایک نظم میں مسولینی کی تعریف کی ہے اور روما کی مردہ سرزمین میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے پر اسے مبارک باد دی ہے… حالانکہ وہ ضربِ کلیم کی نظم [مسولینی] کو بھول جاتے ہیں۔۳۶؎ یاد رہے کہ اختر نے مذکورہ مضمون علی گڑھ میں اپنے زمانۂ طالب علمی میں(اکتوبر ۱۹۳۴ء سے قبل)لکھا تھا ، تاہم ان کے اس جملے …یہ فیض مسولینی کا ہے، جو اطالیہ کی بہبود کے لیے ساری دنیا کو فنا کر سکتا ہے … سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تکمیل شاید حبشہ پر اطالیہ کے حملے (۵ دسمبر ۱۹۳۴ئ) کے دنوں میں ہوئی؛ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ اختر ۱۹۳۴ء کے اواخر میں اُس نظم(مسولینی، مشمولہ ضربِ کلیم) کو مدنظر رکھتے، جو ۲۲؍اگست ۱۹۳۵ء کو لکھی جانے والی تھی۔ اقبال سے اختر کی آخری ملاقات ۲۶؍اکتوبر ۱۹۳۵ئ۳۷؎ کو پانی پت میں حالی کے صد سالہ یومِ ولادت کے جلسے میں ہوئی۔۳۸؎ حفیظ جالندھری۳۹؎ نے اقبال سے شکایت کی کہ یہ [اختر] آپ کی شان میں سخن گسترانہ باتیں لکھ گئے ہیں۔ علامہ نے شفقت سے فرمایا: مَیں ایسے مخلص نوجوانوں کی قدر کرتا ہوں اور بے جان لوگوں کے اتفاق پر جان دار لوگوں کے اختلاف کو ترجیح دیتا ہوں۔۴۰؎ ۱۰؍نومبر ۱۹۳۸ء کو’بنگال کا باغی شاعر… نذرالاسلام،۴۱؎ لکھتے ہوئے اختر، اقبال کی اہمیت کو کسی حد تک تسلیم کرنے لگے تھے، کہتے ہیں: اگر ہم مان لیں کہ ٹیگور۴۲؎ نے دانستہ کسی فلسفۂ زندگی کی تلقین نہیں کی تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہندجدید کے دو سب سے بڑے مفکر شاعر: اقبال اور نذرالاسلام مسلمان تھے۔ گو وہ دو متضاد رجحانات کے پیشوا تھے، لیکن انھیں وہ بے چینی متحرک کر رہی تھی، جو مسلمانوں کے جمود کو دیکھ کر ہر ذی حس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ایک پیچھے کی طرف بلاتا تھا اور دوسرا آگے کی طرف بڑھاتا تھا، لیکن دونوں حرکت اور عمل کی دعوت دیتے تھے اور سرمایہ داری و سامراج کے دشمن تھے۔ ہندوستانی شاعری کو ان دونوں کی ایک بڑی دین یہ بھی تھی کہ اس میں انھوں نے زندگی کے مقاصد کو بیان کرنے کی صلاحیت پیدا کی۔۴۳؎ ٹیگور کے مقابلے میں ہندوستانی شاعری کو اقبال اور نذرالاسلام کی ’بڑی دین‘ کے اعتراف کے بعد اپنے ایک اَور مضمون میں اختر نے لکھا کہ اردشیرخبردار۴۴؎ کی قومی شاعری میں وہ ولولہ اور جوش نہیں، جو اقبال اور نذرالاسلام کے ہاں بدرجۂ اتم موجود ہے۔۴۵؎ نذر الاسلام کی منتخب نظموں کے تراجم پر مشمل مجموعے پیامِ شباب [۱۹۳۹ئ]کے دیباچے میں اختر نے اقبال کا ذکر اس انداز میں کیا: اس مجموعے کی تکمیل کے وقت ہمیں یاد آتا ہے کہ اس کی چند نظمیں ایک موقع پر ہم نے اقبال مرحوم کو دکھائیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور ہم سے دیر تک نذرالاسلام کا ذِکر کرتے رہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایش کی کہ انھیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ افسوس کہ اقبال آج ہم میں نہیں ہیں۔ وہ نذرالاسلام کے خیالات کے سخت مخالف تھے، لیکن اس کے شاعرانہ کمال کے بڑے معترف تھے؛ اس کاوش کی وہ یقینا داد دیتے۔۴۶؎ مئی ۱۹۴۳ء میںایک مضمون ’جنگ اور ادب‘ میں، نَوآبادیاتی ممالک میں سیاسی بیداری کے حوالے سے لکھا کہ اقبال کے مرد مومن، پریم چند کے ستیہ گرہی کسان اور نذر الاسلام کے باغی نوجوان، ۴۷؎ سب کی رُوح اس رشتہ میں وابستہ ہے، جو انسان کو قومیت، مذہب اور زبان کے اختلاف سے بالا تر کر دیتا ہے۔۴۸؎ اسی برس ایک اَور مضمون ’اُردو ادب کے جدید رجحانات:۱۹۳۳ء تا ۱۹۴۳ئ‘ میں اختر نے اقبال کے متعلق دو بیانات دیے۔ ایک میں ترقی پسند تحریک کے فروغ میں اقبال کی رحلت کو اہم واقعہ قرار دیا۴۹؎ اور دوسرے میں اقبال کی رحلت کے بعد ان کے شاعرانہ اثرات کے زوال اور فلسفیانہ اثرات کے فروغ کا ذکر کیا۔۵۰؎ یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ اقبال کی عظمت کو کسی حد تک تسلیم کرنے لگے تھے، تاہم ادب اور انقلاب کی اشاعت(اکتوبر ۱۹۴۳ئ) کے وقت ’ادب اور زندگی‘ پر کیے گئے اعتراضات کے جواب میں اختر نے اپنے موقف کے دفاع کے لیے جو وضاحتی انداز اپنایا، وہ اقبال پر اعتراضِ مزید کا کام کرتا ہے : دوسرا اہم اعتراض یہ ہے کہ ہم نے اقبال مرحوم سے بے انصافی کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دانستہ فاشسٹ نہ تھے اور مغربی سامراج کے دشمن تو تھے ہی۔ ہم نے اقبال کی سامراجیت دشمنی کا اعتراف کیا ہے، لیکن واضح رہے کہ ہر غلام ملک کے فاشسٹ بیرونی سامراج کے سخت مخالف اور قومی آزادی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ ملک و قوم کو سیاسی آزادی دلا کر کس طرف لے [جایا] جاتا ہے۔ اقبال کا فلسفۂ زندگی کہتا ہے کہ دنیا کو سائنس اور مشینی صنعت سے منہ موڑ کر قدیم مذہبی نظام کی طرف آنا چاہیے، جس کی تدوین مومنوں کے ہاتھ ہو گی۔ یہ نظام قائم کرنے کے لیے شاہین کی مثال پر عمل کرنا ہو گا،یعنی بوقتِ ضرورت جبر سے کام لینا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ مغربی سائنس اور صنعت کی مخالفت اور ایک بہتر اخلاقی نظام کے نام پر ایک اقلیت کی ڈکٹیٹری فاشزم کے بنیادی عناصر ہیں۔ قالب میں فرق ہو سکتا ہے، لیکن روح وہی ہے۔ اقبال کے کلام میں مشرق و مغرب کا تنازعہ کوئی ترقی پسند خیال نہیں، بنیادی طور پر یہی تعصب جاپانی فاشسٹوں میں پایا جاتا ہے۔۵۱؎ ان ’الزامات‘ و ’اعتراضات‘ کا جواب نہ صرف ماہرینِ اقبالیات دے چکے، بلکہ بعض نامور ترقی پسند ناقدین نے اقبال کا دفاع کیاہے۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں ایک سوال کے جواب میں اختر نے کہا کہ اقبال کے فکری نظام کو فاشزم سے دانستہ مناسبت نہیں۔اگرچہ نیتشے کے ’super-manـ‘ اور اقبال کے ’مرد کامل‘ میں کافی حد تکمناسبت ہے، تاہم اس یکسانیت کی جڑیں نہ تو زیادہ مضبوط ہیں اور نہ گہری۔ ان کے خیال میں افراط و تفریط سے قطع نظر اقبال کے سیاسی فلسفے کا ازسرِنَو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔۵۲؎ جون ۱۹۷۶ء میں افکار میں شائع ہونے والی گردراہ کی تیسری قسط بہ عنوان ’علم و ادب کی سمتیں‘ میں اختر نے اقبال سے متعلق اپنے خیالات سے رجوع کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ : اُس وقت مَیں نے اقبال کا کلام جستہ جستہ پڑھا تھا۔ اب انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت کا اقرار کروں۔ غمِ دوراں کا ایسا نوحہ خواں اور عظمتِ انساں کا ایسا قصیدہ خواں بیسویں صدی میں کوئی شاعر نہ ہوا۔۵۳؎ جون ۱۹۸۱ء میں انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال نہ صرف بڑے شاعر تھے، بلکہ بڑے انسان بھی تھے؛ بعد میں ان کا کلام پڑھ کر مجھ میں اُسے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا احترام بھی بڑھتا گیا۔۵۴؎ اختر کا کہنا ہے کہ قافیہ بند نظم کے امکانات کو اقبال جیسے باکمال نے وہ عروج بخشا کہ اس میں کسی اضافے کی گنجائش نہ رہی۵۵؎ اور یہ کہ شاعری کو جذبات کا ترجمان بنانے کے بجائے افکار کی ترسیل کا ذریعہ بنا کر اقبال نے اُردو شاعری میں غزل کی گرفت کو کم زور کردیا۔۵۶؎ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر اختر نے ’بیسویں صدی کی شاعری میں اقبال کا مرتبہ‘ کے موضوع پر جامعہ کراچی میں دیے گئے ایک لیکچرمیں کہا کہ بیسویں صدی کا طرئہ امتیاز اس کا فکری عنصر ہے اور اس ضمن میں اقبال کا نام ایلیٹ۵۷؎ اور رلکے۵۸؎ کے ساتھ لیا جائے گا۔۵۹؎ اختر کے خیال میں، اقبال روایتی تصوف کے قائل نہیں تھے؛ بلکہ انھوں نے انسانوں، بالخصوص مسلمانوں کو روحانی اور ذہنی طور پر بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے سامنے ایک مقصد اور ایک فلسفۂ زندگی تھا۔۶۰؎ اختر کہتے ہیں کہ اقبال شعوری طور پر تکنیک اور زبان و بیان کو اہمیت نہیں دیتے تھے ، حالاںکہ وہ ان کی شاعری میں موجود ہیں۔۶۱؎ اقبال بھی نوبیل انعام کے مستحق تھے، تاہم بقول اختر حسین: انھیں نوبیل پرائز نہ مِلنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یورپ کے ادبی حلقے ابھی ان سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ ٹیگور بھی جب انگلستان گئے تھے تو ان کی بنگالی نظمیںکوئی نہیں سمجھتا تھا۔ ٹیگور نے ذہانت کا ثبوت دیا اور انگریزی میںلکھنا شروع کر دیا۔ پھر یہ کہ یورپ کے ادبی حلقوں میں ٹیگور کا تعارُف ایک ایسے آدمی نے کرایا، جو خود بھی انعام یافتہ تھا، یعنی ڈبلیو بی ییٹس۔۶۲؎ یقینا اقبال کی انگریزی ٹیگور سے زیادہ اچھی تھی اور پروفیسر نکلسن۶۳؎ نے خودی اور اسرارِ خودی۶۴؎ کا ترجمہ کیا تھا، اس کے باوجود اُس وقت تک یورپ کے لوگ اقبال کے شاعرانہ کمالات سے آشنا نہیں ہوئے تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقبال کی طبیعت میں بڑی بے نیازی تھی، حالاںکہ یہ بڑا اعزاز تھا، لیکن انھوں نے نہ کبھی اس کی خواہش ظاہر کی اور نہ اس کا ذِکر کیا۔ وہ واقعی قلندر اور صوفی منش انسان تھے۔۶۵؎ اختر کے خیال میں، اگر نوبیل پرائز نہ ملے تو عظمت میںکمی نہیں آتی، تاہم اقبال ہر لحاظ سے نوبیل پرائز کے حق دار تھے۔۶۶؎ حوالے و حواشی ۱- تنقید: ادب اور انقلاب ۱۹۴۳ئ، سنگِ میل ۱۹۴۹ء اور رَوشن مینار ۱۹۵۸ئ۔ افسانے: محبت اور نفرت ۱۹۳۸ء اور زندگی کا میلہ ۱۹۵۶ئ۔ تراجم: شکنتلا ۱۹۳۹ئ، پیامِ شباب ۱۹۴۰ئ، پیاری زمین ۱۹۴۱ئ، میرا بچپن ۱۹۴۱ئ، روٹی کی تلاش ۱۹۴۲ء اور جوانی کے دن ۱۹۴۵ء ۔ تالیف:حبش اور اطالیہ ۱۹۳۵ء ۔ خود نوشت : گردراہ ۱۹۸۴ء ۔ ۲- میٹرک: گورنمنٹ ہائی اسکول، راے پور ۱۹۲۸ئ۔ ایف اے: ودّیا ساگر کالج، کلکتہ ۱۹۳۱ئ۔ بی اے: مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ۱۹۳۴ئ۔ پی ایچ ڈی:سوربون یونی ورسٹی، پیرس ۱۹۴۰ئ۔ ۳- اُردو، فارسی ،ہندی، سنسکرت، بنگالی، گجراتی، انگریزی اور فرانسیسی۔ ۴- آل انڈیا ریڈیو، دہلی: ۱۹؍جولائی ۱۹۴۰ء تا ۲۰؍جون ۱۹۴۲ئ۔ پروفیسر تاریخ اور وائس پرنسپل: ایم اے او کالج، امرتسر: اکتوبر ۱۹۴۲ء تا جولائی ۱۹۴۵ئ۔ برطانوی حکومت ہند کے مشیر تعلیم:یکم اگست ۱۹۴۵ء تاتقسیم ہند۔ پاکستان میں معاون مشیر تعلیم، ڈپٹی مشیر تعلیم، ڈپٹی سیکرٹری تعلیم، قائم مقام مشیر تعلیم، صدر ثانوی تعلیمی بورڈ:۱۶؍اگست ۱۹۴۷ء تا مارچ ۱۹۵۶ئ۔ ۵- فرانس… پیرس(۱۷؍مارچ۱۹۵۶ئ)۔ پاکستان…کراچی(۱۲؍جولائی ۱۹۵۸ئ)۔ صومالیہ…موگادیشو(۱۹۶۵ئ)۔ ایران… تہران (۲۸؍نومبر ۱۹۶۸ئ)۔ فرانس… پیرس (اواخر ۱۹۷۰ء تا ۱۱؍جون ۱۹۷۲ئ)۔ ۶- کمال اتا ترک[مصطفی کمال پاشا]ٍ(۱۸۸۱ئ-۱۹۳۸ئ) جدید ترکی کے بانی۔ مسلسل چار بار(۱۹۲۳ئ-۱۹۳۸ئ) جمہوریہ ترکی کے صدر رہے۔ ۷۔ رؤف بے سے اقبال کی پہلی ملاقات لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس کے موقع پر ۱۶؍اکتوبر ۱۹۳۱ء کو ہوئی، جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔ رؤف بے نے مصطفی کمال پاشا کی سرکردگی میں ترکی کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا، لیکن بعد میں ان سے اختلاف کی بنا پر ۱۹۲۴ء میں جلاوطن کر دیے گئے۔ ۸- زندہ رُود، ص ۵۶۶۔ ۹- کامل القادری، ماہِ نو کراچی، مارچ ۱۹۷۱ئ، ص ۴۱۔ ۱۰- ڈاکٹر مختار احمد انصاری(۱۸۸۰ء -۱۰؍مئی ۱۹۳۶ئ) طبیب اور سیاست دان۔ بنارس سے طب کی سند اور لندن سے ڈاکٹریٹ آف میڈیسن اور ماسٹر آف سرجری کی ڈگریاں حاصل کیں۔ چیئرنگ کراس ہسپتال، لندن کے پہلے ہندوستانی سرجن۔ جنگ بلقان میں ہندوستانی ڈاکٹروں کا وفد لے کر ترک مجاہدوں کی مرہم پٹی کرنے گئے۔ ۱۹۲۷ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کا نظم و نسق سنبھالا ۔ ۱۱- علی بخش(۱۸۸۳ئ-۲؍جنوری۱۹۶۹ئ) اقبال کے ملازم، جو ۱۹۰۳ء سے ۱۹۳۸ء تک ان کی خدمت میں حاضر رہے۔ چک ۱۸۸۔ رب (چک جھمرہ) فیصل آباد میں مدفون ہیں۔ ۱۲- طاہر مسعود:یہ صورت گر کچھ خوابوں کے، ص ۸۶۔ ۱۳- گردراہ، ص ۸۳ تا ۸۵ ۔ ۱۴- کامل القادری، ماہِ نو کراچی، مارچ ۱۹۷۱ئ، ص۴۲۔ ۱۵- ایضاً۔ ۱۶- افکار(نذرِ ڈاکٹر اختر حسین راے پوری)،کراچی، مئی ۱۹۸۶ئ۔ ۱۷- گرد راہ، ص ۱۱۸۔ ۱۸- غیر مطبوعہ(مملوکہ: راقم)۔ ۱۹- یہ مضمون مولوی عبدالحق کی زیر ادارت انجمن ترقی اُردو ہند کے جریدے اُردو[ اورنگ آباد، جولائی ۱۹۳۵، ص۴۹۹] میں شائع ہوا اور بعد ازاں ادب اور انقلاب[ادارہ اشاعتِ اُردو، حیدرآباد دکن۱۹۴۳ئ، ص ۱۴ تا ۱۱۰] میں شامل ہوا۔ ۲۰- جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ئ-۱۸۹۷ئ)۔شہزاد منظر، اختر کے ان خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقبال اگر پین اسلام ازم کے تحت اسلام کا احیا چاہتے تھے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، کیوںکہ یہ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے قبل کی دنیاے اسلام کا عام رجحان تھا اور اس رجحان کے بانی جمال الدین افغانی تھے۔ اختر حسین اگر جمال الدین افغانی کی تحریک اتحاد بین المسلمین اور علامہ اقبال کے احیائی رجحان کے خلاف تھے اور اس بنا پر ان پر معترض تھے تو یہ بھی ان کے مسلک کا تقاضا تھا۔ (اختر حسین راے پوری کا تصورِ ادب، مشمولہ ادبیات، شمارہ ۲۷ تا ۳۰، ص ۸۲۹)۔ تاہم ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اپنے ایک مضمون’مولانا جمال الدین افغانی‘ (تحریک اسلامی کے مدبر یا مہم جو رہنما؟) میں …وسط ایشیائی اسلامی ریاستوں میں ہولناک خوںریزی کے باوجود برطانوی سامراج کے خلاف روس کو نجات دہندہ … اور بعد ازاں … جنگ آزادی کے ردعمل میں برطانوی استعمار کی طرف سے مسلمانانِ ہند کے قتل عام اورغارت گری کے باوجود روسی سامراج کے خلاف برطانیہ کو نجات دہندہ … قرار دینے پر سخت تنقید کی ہے۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں: مقامِ حیرت ہے کہ برصغیر ہند و پاک کے بعض اہم رہنما پین اسلام ازم کے پردے میں متضاد سامراجوں کی باہمی چپقلش نہ دیکھ سکے۔ان کے خیال میں برصغیر کے اکثر مسلم رہنما مولانا جمال الدین افغانی کے بارے میں غیر ضروری طور پر رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ حیرت ہے کہ علامہ اقبال بھی ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جنھوں نے تحریکِ خلافت کے اندرونی تضاد کو ٹھیک وقت پر محسوس کر لیا تھا، لیکن وہ مولانا جمال الدین افغانی کے پین اسلام ازم کے بارے میں معاملہ کی تہہ تک نہ پہنچ سکے۔ (جہات، ص۵۱،۵۲)۔ ۲۱- نیتشے [Friedrich Nietzdhe](۱۸۴۴ئ-۱۹۰۰ئ) جرمن مجذوب فلسفی۔ اقبال کے ’مردمومن‘ کو اسی کے ’فوق البشر‘ کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، حالاں کہ خیر و شر کی بابت دونوں کے ہاں طاقت کے استعمال کے بارے میںنقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔ بہرحال جرمن ڈکٹیٹر ہٹلر نے اسی کے ’فوق البشر‘ کو پیش نظر رکھ کر اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی۔ ۔ ۲۲- برگساں [Henri Bergson](۱۸۵۹ئ-۱۹۴۱ئ)فرانسیسی فلسفی۔ نوبیل انعام یافتہ: ۱۹۲۷ئ۔ ۲۳- جوزپے میزینی[ Mazzini Giuseppe](۱۸۰۵ئ-۱۸۷۲ئ)اطالوی قوم پرست اور انقلاب پسند۔ ۲۴- مسولینی [Bonigo Mussolini](۱۸۸۳ئ-۱۹۴۵ئ)اطالیہ کا فاشسٹ۔ اولاً اس نے سوشلسٹ تحریک میں حصہ لیا، بعد ازاں ۱۹۰۵ء میں فوج میں بھرتی ہو گیا۔پہلی عالمی جنگ میں اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی وکالت کرنے کی پاداش میں اسے ۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے بے دخل کر دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں اس نے پُرتشدد قوم پرستی اور حکومت مخالف نظریات کی بنیاد پر ایک پارٹی تشکیل دی۔یوں اسے صنعت کاروں اور جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ پولیس اور فوج کی حمایت حاصل ہو گئی، چنانچہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۲۲ء میں شاہِ اطالیہ اور فوج نے اسے وزیر اعظم کا عہدہ پیش کر دیا۔ ۱۹۲۵ء تک اس نے حکومت کے تمام اختیار اپنے ہاتھ میں لے کر مخالف جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ ایک برس بعد ملک کے عدالتی، سیاسی اور تعلیمی نظام کو فاشیزم کے اصولوں کے مطابق بدلنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں جب اقبال ، مسولینی سے ملے تو وہ اپنے عروج پر تھا اور اپنی قوم کا نجات دہندہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے اطالوی قوم میں زندگی کی نئی روح پھونکی تھی اور اس کے جوشِ خطابت کے سبب نوجوانوں کے سینے آرزوؤں سے تنے ہوئے تھے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی تعمیری کام میں مصروف تھا۔ ملک تیزی سے ترقی کی طرف رواں تھا اور اقبال کو یقین تھا کہ اطالوی نوجوانوں کی گرم جوشی، ان کے عمل کی شگفتگی اور جذبات کی بلندی مسولینی ہی کے فیض نظر یا کرامت کا نتیجہ ہے۔ (زندہ رُود، ص ۵۲۱) لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد اقبال پیرس کے راستے ۲۲؍نومبر ۱۹۳۱ء کو روم پہنچے اور۲۷؍نومبر کو مسولینی سے ملاقات کی۔ غلام رسول مہر، سر میلکم ڈارلنگ اور فقیر وحید الدین نے متضاد معلومات فراہم کی ہیں، تاہم یہاں آل احمد سرور کے نام اقبال کے ایک خط (مرقومہ: ۱۲؍مارچ ۱۹۳۷ئ) سے اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ مسولینی کے متعلق جو کچھ مَیں نے لکھا ہے، اس میں آپ کو تناقص نظر آتا ہے۔ آپ درست فرماتے ہیں، لیکن اگر اس بندئہ خدا میں devil(شیطان) اور saint (ولی) دونوں کی خصوصیات جمع ہوں تو اس کا مَیں کیا علاج کروں۔ مسولینی سے اگر کبھی آپ کی ملاقات ہو تو آپ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس کی نگاہ میں ایک ناممکن البیان تیزی ہے، جس کو شعاعِ آفتاب سے ہی تعبیر کر سکتے ہیں، کم از کم مجھے اسی قسم کا احساس ہوا۔ (اقبال نامہ: مرتبہ شیخ عطاء اللہ، حصہ دوم، ص ۳۱۴) اقبال کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ اقبال نے مسولینی کی نگاہ کی جس ناممکن البیان تیزی کا ذکر کیا ہے، وہ دراصل ذہنی طور پر بیمار مجرموں اور قاتلوں کی نگاہوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ایسی تیزی انتہائی بے چینی کی علامت ہوتی ہے اور اس ناممکن البیان بے چینی ہی کے عالم میں کسی بڑے جرم یا قتل کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ (زندہ رُود، ص ۵۲۱) ۲۵- جمہوریت: پیامِ مشرق، ص۱۳۵۔ ۲۶- بال جبریل، ص۵۰۔ ۲۷- قیصر ولیم : پیامِ مشرق، ص۲۱۰۔ ۲۸- لینن(خدا کے حضور میں): بال جبریل، ص۱۱۱۔ ۲۹- ’رجعت اور ٹیگور‘( ادب اور زندگی)مشمولہ ادب اور انقلاب، ص ۷۹۔ ۳۰- گرد راہ، ص ۲۵۴ -۲۵۵۔ ۳۱- اشتراکیت و ملوکیت مشمولہ جاوید نامہ، ص ۶۵۔ ۳۲- ادب اور زندگی، ادب اور انقلاب، ص ۸۵-۸۶ ۳۳- فاشسٹ نوجوانوں سے اقبال کی وابستگی اس انٹرویو سے بھی نمایاں ہوتی ہے، جو بیت المقدس میں منعقدہ مؤتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے بعد لاہورپہنچنے پر انھوں نے یکم جنوری ۱۹۳۲ء کو سول اینڈ ملٹری گزٹ کو دیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اقبال نے کہا کہ سفرِ فلسطین میری زندگی کا نہایت دلچسپ واقعہ ثابت ہوا ہے۔ فلسطین کے زمانۂ قیام میں متعدد اسلامی ممالک کے نمایندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر مَیں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانانِ اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جاتی تھی، جیسی مَیں نے اطالیہ میں فاشسٹ نوجوانوں کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھی۔ (گفتارِ اقبال، مرتبہ: محمد رفیق افضل، ص ۱۴۵ تا ۱۴۶) پروفیسر آل احمد سرور کہتے ہیں کہ اقبال بعض اوقات صبح کاذب کو صبحِ صادق سمجھ لیتے تھے۔ (عرفانِ اقبال، ص ۹۴)اسی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ اقبال بعض سیاسی شخصیات [شاہ امان اللہ خان، محمد نادر شاہ، مصطفی کمال پاشا، رضا شاہ پہلوی] سے ایسے ہی [یعنی مسولینی کی طرح] متاثر ہوئے تھے۔ گو بعد میں انھیں کسی نہ کسی بِنا پر مایوس ہونا پڑا۔ (زندہ رُود، ص ۵۲۱) بہرحال بقول جاوید اقبال جب مسولینی نے ابی سینیا پر حملہ کر کے اس چھوٹے سے نادار ملک پر قبضہ کر لیا تو وہ ان کی نگاہوں میں گر گیا اور اقبال اسے بھیڑیے کی قسم کا درندہ تصور کرنے لگے۔ (ایضاً) اور انھوں نے ۲۲؍اگست ۱۹۳۵ء کو بھوپال میں ’مسولینی(اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے)‘ کے نام سے دوسری نظم لکھی۔ اسی سال اختر حسین راے پوری نے حبش اور اطالیہ [مطبوعہ: ۱۹۳۶ئ] کے نام سے ایک کتاب تالیف کی، جس میں حبش کے تاریخی و سیاسی پس منظر کے بعد حالاتِ جنگ قلم بند کیے۔ ۳۴- بال جبریل، ص ۱۵۶۔ ۳۵- ادب اور زندگی، مشمولہ ادب اور انقلاب، ص ۸۶-۸۷۔ ۳۶- عرفانِ اقبال، ص ۸۹۔ ۳۷- اختر نے گردراہ میں’ ۱۹۳۶ء کے آخر میں‘ لکھاہے، جو غلط ہے۔ درست تاریخ بحوالہ زندہ رُود، ص ۶۱۵۔ ۳۸- ڈاکٹر جاوید اقبال (پ:۲۳؍مارچ ۱۹۲۴ئ)نے حالی کے صد سالہ یومِ پیدایش کے جلسے کی مکمل رُوداداِن الفاظ میں بیان کی ہے: ۲۵؍اکتوبر ۱۹۳۵ء کو اقبال ، چوہدری محمد حسین (۲۸؍مارچ ۱۸۹۴ئ-۱۶؍جولائی ۱۹۵۰ئ)، راجا حسن اختر (۲۵؍دسمبر ۱۹۰۴ئ-۱۵؍اکتوبر ۱۹۶۴ئ)، سید نذیر نیازی (۱۹۰۰ئ-۲۴؍جنوری ۱۹۸۱ئ)، علی بخش اور راقم کے ساتھ پانی پت پہنچے…۲۶؍اکتوبر کو نواب بھوپال[نواب محمد حمید اللہ خاں: ۹؍ستمبر ۱۸۹۴ئ- ۶۲؍۱۹۶۰ئ] کی زیر صدارت، حالی اسکول میں تلاوتِ قرآنِ مجید سے جلسے کا آغاز ہوا۔ مولانا حالی کے فرزند خواجہ سجاد حسین نے سپاس نامہ پڑھا۔ حفیظ جالندھری(۱۴؍جنوری ۱۹۰۰ئ-۲۱؍دسمبر ۱۹۸۲ئ) نے اپنی نظم سنائی۔ اس کے بعد خواجہ غلام السیدین (۱۹۰۴ئ- ۱۹۷۱ئ) نے اعلان کیا کہ گلے کی خرابی کے سبب اقبال اپنے اشعار خود نہ سنائیں گے، بلکہ کوئی اَور صاحب ان کے اشعار سنائیں گے۔ اقبال سے درخواست کی گئی کہ شعر خوانی کے دَوران ڈائس پر تشریف لے آئیں۔ ان کے اس موقع پر لکھے ہوئے اشعار، جو انھوں نے پہلے ہی خواجہ سجاد حسین کو بھیج رکھے تھے، حالی اسکول کے ایک استاد نے خوش اسلوبی کے ساتھ پڑھ کر سنائے۔ اس کے بعد جمیل نقوی، غلام السیدین اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے مولانا حالی سے متعلق اپنے اپنے مقالات پڑھے۔ پھر راس مسعود کا تحریر کردہ ’مسدس حالی‘ ایڈیشن کا دیباچہ پڑھا گیا۔ آخر میں نواب بھوپال نے خطبہ صدارت پڑھا اور جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ زندہ رُود، ص۶۱۵-۶۱۶۔ ۳۹- حفیظ جالندھری (۴؍جولائی ۱۹۰۰ئ-۲۲؍دسمبر ۱۹۸۲ئ)معروف شاعر، پاکستان اور آزاد کشمیر کے قومی ترانوں کے خالق۔ شکایت کنندہ کا نام بحوالہ : یہ صورت گر کچھ خوابوں کے، ص ۸۶۔ ۴۰- گرد راہ، ص ۸۵۔ ۴۱- قاضی نذرالاسلام (۱۸۹۹ئ-۳۰؍اگست ۱۹۷۶ئ)بنگالی کے عظیم انقلابی شاعر، افسانہ نگار، ناول نویس، ڈراما نگار، موسیقار۔ تقسیم ہند سے قبل ہی آزادی و حریت سے لبریز ان کی نظمیں ملک گیر شہرت حاصل کر چکی تھیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور اپنی بنگالی میں سنسکرت الفاظ استعمال کرتے تھے، جب کہ نذرل نے اُردو، عربی اور فارسی الفاظ استعمال کر کے بنگالی زبان کو مالا مال کر دیا۔ اختر نے اس انقلابی شاعر کی متعدد نظموں کا ترجمہ کیا۔ یہ مجموعہ پیامِ شباب کے نام سے ۱۹۳۹ء میں انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی سے شائع ہوا۔ ۴۲- رابندر ناتھ ٹیگور (۶؍مئی ۱۸۶۱ئ-۱۹۴۱ئ)بنگالی زبان کا عظیم شاعر، افسانہ نگار، ناول نویس، ڈراما نگار۔ ۱۹۱۳ء میں اسے نوبیل انعام ملا اور ۱۹۱۴ء میں برطانوی حکومتِ ہند نے اسے سر کا خطاب دیا، تاہم برطانوی استعماریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس نے ۱۹۱۵ء میں یہ خطاب واپس کر دیا۔ ۴۳- ادب اور انقلاب، ص ۲۳۰۔ ۴۴- اردشیرخبردار، نومبر ۱۸۸۱ء میں صوبہ بمبئی کے شہر دَمن میںایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم سے آگے نہ بڑھ سکا، تاہم شاعری سے اسے خاص شغف تھا اور محض سولہ برس کی عمر میں اس کے سو دوہوں پر مشتمل کتاب شائع ہوئی۔اس کی فلسفیانہ نظموں کا گجراتی مجموعہ درشنکا کے نام سے اور انگریزی شاعری کے دو مجموعے شائع ہو کر قبول عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ اختر کہتے ہیں کہ اس کا نظریۂ زندگی صحیح ہو یا نہ ہو، اس کی قادر الکلامی مسلّم الثبوت ہے۔ ( سنگ میل، ص ۶۲ -۶۳) ۴۵- ’گجرات کا باکمال شاعر: اردشیرخبردار‘مشمولہ سنگِ میل، ص ۶۱-۸۰۔ ۴۶- مقدمۂ پیامِ شباب ، ص۲۹۔ ۴۷- نذرل کے ’باغی نوجوان‘ کو ان کی نظم ’بدروہی‘ سے جانا جا سکتا ہے، جس کا ترجمہ اختر نے بھی کیا۔ یہاں اس نظم کے پہلے اور آخری بند کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے: پہلا بند:کہہ دے ، اے جواں مرد! کہہ دے کہ مَیں سربلند ہوں اتنا سربلند ، اتنا سربلند کہ ہمالیہ کی چوٹی بھی میرے آگے سرنگوں ہے۔ کہہ دے ، اے بہادُر! کہہ دے کہ اس وسیع آسمان کو چیر کر ؛ چاند ، سورج اور ستاروں کو توڑ کر؛ جنت و دوزخ کو دہلا کر اور عرش سے ٹکرا کرمَیں اس دُنیا کے لیے مجسمۂ حیرت بن گیا ہوں کہہ دے، اے جواں مرد! کہہ دے کہ مَیں ہمیشہ سربلند رہوں گا۔ (پیامِ شباب، ص۳۵) آخری بند:مَیں باغیوں کا سردار ہوں۔ خوں خواری سے میرا جی بھر گیا ہے۔ مَیں اُسی دن مطمئن ہوں گا، جب مظلوموں کی فریاد فضاے آسمانی میں نہ گونجے گی۔ جب میدانِ جنگ میں تلوار اور خنجر کے خوف ناک ترانے نہ سنائی دیں گے۔ وہ باغی، جو جنگ و جدل سے نالاں ہے، اُسی روز خاموش ہو گا۔ مَیں وہ باغی ’بھرگو‘ ہوں، جس نے بھگوان کے دل پر اپنا نقش قدم ثبت کر دیا تھا۔ جو خیالی قسمت سارے ظلم و ستم کی جڑ ہے، مَیں اس کی بوند بوند پی جاؤں گا۔ مَیں وہ باغی ہوں، جو قسمت کے طلسم کو توڑ سکتا ہے۔ مَیں ہوں ازلی اور غیر فانی باغی۔ دُنیا کو ٹھکرا کر ایک بار پھر مَیں تنِ تنہا سر اُٹھا کر کھڑا ہوا ہوں۔ (پیامِ شباب، ص ۴۲-۴۳) ۴۸- ادب اور انقلاب، ص۲۶۱۔ ۴۹- ایضاً، ص ۲۷۲۔ ۵۰- ایضاً، ص۲۷۷-۲۷۸۔ ۵۱- ادب اور زندگی، مشمولہ ادب اور انقلاب ۱۹۴۳ء اوّل۔ ۵۲- کامل القادری، ماہ نو کراچی،مارچ ۱۹۷۱ئ، ص۴۲۔ ۵۳- افکار، جون ۱۹۷۶ئ، ص ۲۲۔ ۵۴- یہ صورت گر کچھ خوابوں کے، ص۸۶۔ ۵۵- گرد راہ، ص ۱۵۱۔ ۵۶- ایضاً، ص ۲۷۶۔ ۵۷- ٹی ایس ایلیٹ [Thomas Stearns Eliot](۱۸۸۸ئ-۱۹۶۵ئ)۔ انگریز شاعر اور نقاد۔ ۵۸- رِلکے [Rainer Maria Rilke] (۴؍دسمبر ۱۸۷۵ئ-۲۹؍دسمبر ۱۹۲۶ئ) جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ (Prague) میںپیدا ہوا۔ اس کے معروف شعری مجموعوںمیں Das Stunden Buch اور Neue Gedichte شامل ہیں۔ اس کا شعری کلیات The Complete French Poems of Rainer Maria Rilke کے نام سے ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا۔ ۵۹- گرد راہ،ص۲۷۵۔ ۶۰- یہ صورت گر کچھ خوابوں کے، ص۸۶ ۔ ۶۱- ایضاً، ص۸۷۔ ۶۲- ولیم بٹلر ییٹس [W B Yeats](۱۸۶۵ئ-۱۹۳۹ئ) آئرلینڈ کا ممتاز شاعر۔ ۶۳- پروفیسرنکلسن [Nicholson] (۱۸۶۸ئ-۱۹۴۵ئ) عربی و فارسی کا عالم۔ مثنوی معنوی اور کشف المحجوب کے علاوہ اقبال کی مثنوی اسرارِ خودی کا The Secrets of the Self کے نام سے انگریزی ترجمہ کیا(مطبوعہ: میک ملن، لندن ۱۹۲۰ئ)۔ ۶۴- مراد ہے صرف : اسرارِ خودی [حکیم فقیر محمد چشتی نظامی، لاہور ۱۹۱۵ئ] ۶۵- یہ صورت گر کچھ خوابوں کے، ص ۸۷ ۶۶- ایضاً۔ ژ…ژ…ژ کتابیات ۱- آل احمد سرور ، عرفانِ اقبال (مرتبہ: زہرا معین)، الاعجاز، لاہور،۲۰۰۷ء ۲- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، آگ اور آنسو (ہندی)، وشوانی پرکاشن، الہ آباد، س ن ۳- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، ادب اور انقلاب، ادارہ اشاعت اُردو، حیدرآباد دکن، ۱۹۴۳ء ۴- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، پیاری زمین، انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی،۱۹۴۱ء ۵- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، پیامِ شباب، انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی،۱۹۳۹ء ۶- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، جوانی کے دن، انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی، ۱۹۴۵ء ۷- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، حبش اور اطالیہ، انجمن ترقی اُردو، اورنگ آباد، ۱۹۳۶ء ۸- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، روٹی کی تلاش، انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی،۱۹۴۱ء ۹- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، روشن مینار، اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۵۸ء ۱۰- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، زندگی کا میلہ، نیشنل انفارمیشن ایند پبلی کیشنز، بمبئی ، ۱۹۴۹ء ۱۱- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، سنگ میل، نیشنل انفارمیشن اینڈ پبلی کیشنز، بمبئی، ۱۹۴۹ء ۱۲- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، شکنتلا،انجمن ترقی ارو ہند، دہلی، ۱۹۳۹ء ۱۳- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، گرد راہ، مکتبہ افکار، کراچی، ۱۹۸۴ء ۱۴- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، محبت اور نفرت، ساقی بک ڈپو، دہلی، ۱۹۳۸ء ۱۵- اختر حسین راے پوری، ڈاکٹر، میرا بچپن، انجمن ترقی اُردو ہند، دہلی، ۱۹۴۰ء ۱۶- اقبال، علامہ محمد، کلیاتِ اقبال اُردو، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ،۲۰۰۶ء ۱۷- اقبال، علامہ محمد، کلیاتِ اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور ، ۱۹۷۳ء ۱۸- جاوید اقبال، ڈاکٹر، زندہ رُود، سنگ میل، لاہور ، ۲۰۰۴ء ۱۹- طاہر مسعود، یہ صورت گر کچھ خوابوں کے، مکتبہ تخلیق ادب، کراچی، ۱۹۸۵ء ۲۰- عطاء اللہ ، شیخ ، اقبال نامہ: دوم، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۵۱ء ۲۱- محمد رفیق افضل، گفتارِ اقبال ، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، دانش گاہِ پنجاب، لاہور ، ۱۹۶۹ء ۲۲- محمد علی صدیقی، ڈاکٹر، جہات، ارتقا مطبوعات، کراچی، ۲۰۰۴ء جرائد و رسائل ۱- سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد، شمارہ ۲۷ تا ۳۰۔ ۲- ماہنامہ افکار، کراچی، جون ۱۹۷۶ئ۔ ۳- ماہنامہ افکار، کراچی، مئی ۱۹۸۶ئ، نذرِ ڈاکٹر اختر حسین راے پوری۔ ۴- ماہنامہ ماہِ نو، کراچی، مارچ ۱۹۷۱ئ۔ ئ…ئ…ء کلامِ اقبال کا استعاراتی نظام ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اقبال کی شاعری کا امتیازی وصف اس کی پیمبرانہ شان ہے۔ ان کی نگاہ اپنے پیغام کی ترسیل و تشکیل پر رہتی ہے لیکن وہ ہر مقام پر شعریت کو بھی مقدم رکھتے ہیں۔ دیگر شعری محاسن کے استعمال کے ساتھ ’استعارہ‘ بھی ایک محسنۂ شعری کے طور پر کلامِ اقبال میں استعمال ہوا ہے۔ استعارے کو ابہام و پیچیدگی سے بچا کر استعمال کرنا غیرمعمولی قادر الکلامی کا اظہار ہوتا ہے اور یہ علامہ کے ہاں بخوبی موجود ہے۔ وہ استعارے کے ساتھ اپنے کلام کو پیچیدہ نہیں ہونے دیتے بلکہ ان کو اپنے داخلی واردات کے ساتھ ہم آہنگ کر کے پُرتاثیر بنادیتے ہیں حتیٰ کہ علائم و رموز میں ڈھل کر ان استعاروں کے اندر زیادہ قطعیت اور دلالت پیدا ہوجاتی ہے۔ استعاروں کا استعمال علامہ نے ہر انداز اور ہرنوع میں کیا ہے۔ انھوں نے استعارے کی کم وبیش تمام اقسام کو اپنے اشعار میں سمودیا ہے بلکہ ان اقسام کی ذیلی تقسیم کو بھی استعمال میں لے آئے ہیں۔ علامہ کے یہ استعارے تیقن و تحرک، سیماب پائی، جگرسوزی اور حرارتِ عمل کے جذبوں سے سرشار ہیں اور حیات و کائنات سے وابستہ تمام پہلوئوں کا بڑی عمدگی سے احاطہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال استعارے کی اصل روح اور اس کی فنی غرض و غایت سے بخوبی آگاہ تھے۔ مشرقی و مغربی ادبیات میں اس محسنۂ شعری کے مختلف ابعاد کا مطالعہ کرنے سے فطری طور پر ان کے ہاں یہ احساس پیدا ہوا کہ استعارہ شعر پارے میں جدتِ ادا کی جان ہے۔ اگر تخلیق کار اس میں زیادہ پیچیدگی اور ابہام سے گریز کرے اور اسے بے ساختہ اور فطری انداز میں برتے تو اس کی وساطت سے وہ اپنے جذبات و احساسات کو کمال درجے کی لطافت و بلاغت سے بیان کرسکتا ہے۔ وہ اس امر سے باخبر تھے کہ استعارہ ایک اعتبار سے شاعر یا تخلیق کار کی آرزوؤں اور تمناؤں کا تخییلی اظہار بھی ہے۔ چنانچہ وہ اس کارگر قوتِ بیان سے نہ صرف اپنے کلام کے ظاہری حسن اور تاثیر میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ معنی آفرینی کے حصول کے لیے اسے ایک دلکش پیرایہ قیاس کرتے ہوئے نئے نئے مفاہیم پیدا کرتے ہیں۔ شعر اقبال میں استعارے سے بیک وقت تاثیر و عذوبت اور توضیح و صراحت کے مقاصد حاصل کیے گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اقبال کی شاعری کا امتیازی وصف اس کی پیغمبرانہ شان ہے تاہم علامہ اپنے کلام میں ہر مقام پر شعریت کو مقدم رکھتے ہیں۔ استعارات اقبال کا مطالعہ اس امر سے آشنا کرتا ہے کہ اقبال نے کسی موقعے پر پیچیدگی یا ابہام پیدا نہیں ہونے دیا اور نہ وہ سیدھے اور سپاٹ انداز میں روایتی استعاروں کو اپنے کلام میں استعمال نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس انھوں نے بہت سے روایتی اور فرسودہ استعاروں کو نئی آب و تاب سے ہمکنار کیا ہے اور یہ استعارے ان کے داخلی واردات سے ہم آہنگ ہوکر بڑے پُرتاثیر دکھائی دیتے ہیں۔ شعر اقبال میں اکثر مقامات پر نادر اور اچھوتے استعارے ملتے ہیں جن کو اپنے کلام میں سموتے ہوئے علامہ نے تزئین و آرایش کے بجاے تخلیق معانی کو مقدم رکھا ہے۔ استعاراتِ اقبال میں اس وقت بڑی ندرت اور تازگی نظر آتی ہے جب وہ علائم و رموز میں ڈھل کر زیادہ قطعیت اور دلالت پیدا کردیتے ہیں۔ بعض اوقات اقبال نے اپنے استعاروں کو تجسیم و تمثیل کی ہم آہنگی سے زیادہ پرکشش اور دلکش بھی بنا دیا ہے۔ بعینہٖ علامہ کے بعض استعارے بڑے متحرک، زندہ اور توانا ہیں جو اپنے پڑھنے والوں کے قلوب و اذہان میں حرکت و عمل اور حرارتِ زیست کے عناصر ابھارتے ہیں اور ان کی موجودگی سے شعر اقبال کی جودت،لطافت اور معنویت میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ یوں استعارات کی وساطت سے فردِ واحد سے ملتِ واحدہ تک کے مسائل کی پیش کش پرکشش اور کارگر اسلوب میں کرنا، علامہ کا اختصاصی پہلو ٹھہرتا ہے جس کے ذریعے انھوں نے اپنی شاعری کو مقصدیت سے ہمکنار کیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ ’’اقبال کے کلام میں جو متحرک فضا نظر آتی ہے، وہ ان کی فکر کا ان کے استعاراتی نظام کے ساتھ شیر و شکر ہو جانے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے استعارات جہاں ایک طرف تصویر آفرینی، پیکر تراشی اور آرایشِ کلام کا شاعرانہ حق ادا کرتے ہیں، وہیں وہ معنی آفرینی اور لسانی توسیع کا بھی اہم فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اقبال کے استعاراتی الفاظ و تراکیب نے معانی کی نئی جہات روشن کی ہیں جن کے سبب اقبال کی زبان دوسرے شاعروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع معنوں کی حامل ہوگئی ہے۔‘‘۱؎ اقبال کے استعاراتی نظام میں ایک ارتقائی صورت ملتی ہے۔ ان کے پیش کردہ تمام تر استعارے بتدریج قوت پکڑتے ہیں اور افکار کی پیش کش میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ پروفیسر شکیل الرحمن نے اپنے مضمون ’اقبال کی جمالیات میں علامتوں اور استعاروں کا عمل‘ میں استعاراتِ اقبال کے اس بنیادی پہلو کی طرف یوں توجہ دلائی ہے: ان کے استعاروں کا پہلا سرچشمہ اُردو اور فارسی کی کلاسیکی روایات ہیں اور انھوں نے کلاسیکی اور روایتی استعاروں کو نئی صورتیں عطا کی ہیں۔ جن سے مفاہیم کا دائرہ پھیلا ہے اور علامتوں کی کچھ جہتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان کے الفاظ، استعارات اور تلازمات میں بنیادی تفکر اور پیامبری کے گہرے احساس کی وجہ سے وجدانی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور ایک بڑے سفر میں یہ کیفیت رویہ بن گئی ہے… اس کے بعد یہ کلاسیکی اور روایتی استعارے فن کار کی تخلیقی فکر کے سرچشمے کے اور قریب رہ کر تابناک بن جاتے ہیں اور نئے مفاہیم کی جانب اشارہ کرنے لگتے ہیں۔ پھر___ صورت گری کے عمل میں ابہام پیدا ہوتا ہے اور پیکروں اور استعاروں کو دیکھنے کے لیے ’’وژن‘‘ بھی ملتا ہے۔ ان جانے پہچانے استعاروں اور پیکروں کے ساتھ تراکیب، تلمیحات اور دوسرے تمثال کی مدد سے نئی تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ کلاسیکی تصورات اور روایتی خیالات کی منجمد کیفیتوں کے ساتھ نئی جہتوں اور نئے اشاروں کا احساس بھی ملتا ہے اور ساتھ ہی نئی تصویریں بھی جلوہ گر ہوتی ہیں اور ذہن کو مختلف تجربوں (ماضی اور حال) سے قریب تر کرتی ہیں۔ اسطور کے پاس بھی لے جاتی ہیں اور فن کار کے مرکزی رویوں سے بھی آشنا کرتی ہیں۔ (اس لیے اقبال کے) استعاروں کے مفاہیم بدلتے ہیں اور ان میں اکثر علامتوں اور ذیلی علامتوں کی صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔۲؎ اقبال کی شاعری حرکت و حرارت کا پیغام دیتی ہے۔ استعارے کے باب میں بھی یہ خصوصیت برقرار رہی ہے اور علامہ کے نمایندہ استعارات وہی ہیں جن میں یہ بنیادی رنگ کارفرما ہے۔قاضی عبیدالرحمن ہاشمی اپنے مضمون ’اقبال کے استعاروں کا حرکی نظام‘ میں استعاراتِ اقبال کی اس نوعیت سے متعارف کراتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں: (اقبال کے) تقریباً تمام ہی استعارے اپنی تازہ کاری اور لطافت کے سبب ہمیں سرشار کرتے ہیں لیکن جو استعارے خصوصیت کے ساتھ ہماری توجہ اپنی طرف منعطف کرتے ہیں ان کا تعلق جگر سوزی، آغوشِ موج، سوز ناتمام، جنون وو یرانہ، آہوے حرم، وسعت صحرا، چراغ حرم، سرشت سمندری، انگارۂ خاکی، اور سیل تند رو، وغیرہ سے ہے۔ جن میں بعض مفرد ہیں اور بعض مرکب۔ ان کی اصل لطافت درحقیقت شعر کے پورے تناظر میں دیکھنے کے بعد ان حسّی پیکروں کی بناپر ابھرتی ہے جو بڑی خاموشی کے ساتھ ہمیں عمل، حرکت، فعالیت اور حیاتیاتی ارتقا کے مطالعے کی دعوت دیتے ہیں لیکن ان کا الگ الگ مطالعہ بھی ہمیں شاعر کے تصور حرکت اور اس کی چشم نم ناک کی دلکش لطافتوں کے قریب پہنچا دیتا ہے، جو عالم رنگ و بو میں کسی اہم انقلاب کے انتظار میں کھلی ہوئی ہے اور اس کی آہٹ کے تصور سے مسرور ہے، چنانچہ جگر سوزی، سوز ناتمام، انگارۂ خاکی اور سرشت سمندری شاعر کے باطنی تجربات کا ایک مجرد عکس بن کر ابھرتے ہیں … ان سے ایک نئی ٹیس، نئی سوزش اور تپش کا لطف حاصل ہوتا رہے، شاعر کے نزدیک یہی زندگی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ فریب نظر اور سکون و ثبات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا …۳؎ ذیل میں استعارے کے بنیادی فنی مباحث، ارکان اور اس کی متنوع اقسام کی روشنی میں اقبال کے استعاراتی نظام کا تجزیہ کیا جاتا ہے: ۱- ارکانِ استعارہ محققین علم بیان نے تشبیہ کی طرح استعارے کے بھی چند ارکان کی نشاندہی کی ہے۔ جو’مستعار منہ‘، ’مستعار لہ‘، ’مستعار‘ اور ’وجہ جامع‘ کہلاتے ہیں۔ ان میں ’مستعار منہ‘ کسی لفظ کے درست اور حقیقی معنی ہیں اور یہ تشبیہ میں مشبہ بہٖ کے برابر ہے، ’مستعار لہ‘ کسی لفظ کے مجازی معنی ہیں اور یہ مشبہ کے برابر ہے۔ ’مستعار‘ وہ لفظ ہے جس کے معنی مجازی مراد لیے جاتے ہیں اور اسے اداتِ تشبیہ کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ ’وجہ جامع‘ وہ مشترک وصف ہے جو طرفین استعارہ (مستعار منہ و مستعار لہ) میں پایا جاتا ہے۔ طرفین استعارہ کا کبھی باہم ایک جگہ ہونا ممکن ہوتا ہے اور کبھی ناممکن اور وجہ جامع کی بھی مزید چار صورتیں ہیں یعنی یہ کبھی مستعار منہ اور مستعار لہ کے معنی کا جزو ہوتی ہے اور کبھی ان دونوں کے مفہوم کا جزو نہیں ہوتی، کبھی وجہ جامع جلد سمجھ میں آجاتی ہے اور کبھی نادر ہونے کے باعث ظاہر نہیں ہوسکتی اور عام لوگوں کو بہ۔دقت سمجھ میں آتی ہے۔ اقبال کے ہاں ارکانِ استعارہ کے استعمال کی مختلف صورتیں ہیں اور وہ ان کی موجودگی سے اپنے کلام میں دلکشی اور رعنائی پیدا کرتے ہیں، جیسے: اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں۴؎ پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں۵؎ اس سیلِ سبک سیر و زمیں گیر کے آگے عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک۶؎ ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلّی نہ بخارا۷؎ ان اشعار میں ’صحرا‘، ’آہو‘، ’بجلیاں‘،’برسے ہوئے بادل‘، ’حسینوں‘، ’حنا‘، ’خونِ جگر‘، ’سیلِ سبک سیرو زمیں گیر‘، ’خس و خاشاک‘، ’بیاباں‘ اور’دشت‘ استعارات ہیں اور اقبال نے ان مستعار الفاظ کے حقیقی معنوں کے بجاے مرادی یا مجازی معنوں سے اپنی کاریگری کا اظہار کیا ہے۔ یہاں وہ ان استعاروں کی وساطت سے حقائق کا ذکر بڑی لطافت سے کر گئے ہیں اور یہی کامیاب استعارے کی خوبی ہے۔ ۲-اقسامِ استعارہ: استعارے کو بناوٹ یا ساختار (Structure) کے اعتبار سے عموماً درج ذیل تین بنیادی انواع میں تقسیم کیا جاتا ہے: (ا) استعارئہ مصرّحہ (ب) استعارۂ مکنیّہ (ج) استعارۂ تمثیلیہ ا-استعارئہ مصرّحہ استعارے کی اس قسم کو’استعارہ بالتصریح‘۸؎ ، ’استعارئہ تصریحیہ‘۹؎ ، ’استعارۂ آشکار‘ ۱۰؎ ’استعارہ ٔ تحقیقیہ‘ یا ’استعارۂ محققہ‘ ۱۱؎ بھی کہتے ہیں۔ اس کے تحت تخلیق کار اپنے شعر پارے کی بنیاد مستعار منہ (مشبہ بہٖ) پر رکھتا ہے۔ چنانچہ یہاں مستعار لہ (مشبہ) محذوف اور مستعار منہ (مشبہ بہٖ) مذکور ہوتا ہے اور کہنے والے کا مقصود مستعار لہ (مشبہ) ہی ہوتا ہے۔ استعارئہ مصّرحہ میں مستعار منہ (مشبہ بہٖ) ہمیشہ حسّی ہونا چاہیے اور شاعر کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ وہ قرینہ اس بات پر قائم کرے کہ اس نے الفاظ کو لغوی معانی میں استعمال نہیں کیا۔ ایسے استعارے زیادہ واضح اور صریح ہوتے ہیں اور یہ استعارے کی سب سے عمدہ صورت ہے جو نہ زیادہ زو د فہم ہے اور نہ دیر فہم۔ مولوی نجم الغنی نے ’’استعارئہ مصرّحہ‘‘کو مزید دو صورتوں ’’تحقیقیہ‘‘ اور تخییلیہ‘‘ میں منقسم کیا ہے۔ ان کے مطابق ’’تحقیقیہ‘‘ یہ ہے کہ مشبہ متروک متحقق ہو خواہ باعتبار حس کے خواہ باعتبار عقل کے اور ’’تخییلیہ ‘‘ یہ ہے کہ اس کے معنی نہ باعتبار حس ہو نہ باعتبارِ عقل بلکہ وہم کی مدد سے اس کی اختراع ہوئی ہو۱۲؎ تاہم زیادہ تر محققین نے ’’تحقیقیہ‘‘ اور ’’استعارئہ مصّرحہ‘‘ کو ایک دوسرے کے مماثل قیاس کیا ہے اور اس کی مذکورہ بالا تعریف ہی متعین کی ہے۔ شعر اقبال میں استعارۂ مصرّحہ کی کافی مثالیں موجود ہیں اور انھوں نے مستعار منہ کی تصریح سے عمدہ معنی پیدا کیے ہیں، جیسے: تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینے ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں۱۳؎ رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود۱۴؎ تڑپ رہے ہیں فضاہاے نیلگوں کے لیے وہ پر شکستہ کہ صحنِ سرا میں تھے خورسند۱۵؎ منجم کی تقویمِ فردا ہے باطل گرے آسماں سے پرانے ستارے۱۶؎ ان اشعار میں ’’آئینہ‘‘، ’’رنگ‘‘، ’’خشت و سنگ‘‘، ’’چنگ‘‘،’’ حرف و صوت‘‘، ’’پرشکستہ ‘‘اور ’’پرانے ستارے‘‘ تمام مستعار منہ ہیں جن کی تصریح کرکے بالترتیب محذوف مستعار لہ ’’دل‘‘،’’ فن مصوری‘‘، ’’فن تعمیر‘‘،’’ فن موسیقی‘‘،’’ فن شاعری‘‘، ’’دل شکستہ مسلمان‘‘، اور’’ ملوکانہ استبداد کا زوال ‘‘ مراد لیے گئے ہیں جو بلاشبہہ علامہ کی فنی مہارت کی دلیل ہیں۔ استعارۂ مصرّحہ کی مختلف صورتیں محققین بیان نے استعارئہ مصرّحہ کی مختلف صورتیں متعین کی ہیں، مثلاً طرفین استعارہ (مستعار منہ و مستعار لہ) کے مناسبات کے ذکر اور عدم تذکرے کے اعتبار سے استعارئہ مصرّحہ کو چار اقسام استعارئہ مُطلقہ، مجرّدہ، مرشحہ اور موشحہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اقبال کے ہاں مناسباتِ طرفینِ استعارہ کے حوالے سے متذکرہ اقسام بڑے مؤثر طور پر اپنی نمود کرتی ہیں اور انھوں نے بغیر کسی بناوٹ اور تصنع کے اس امر کا اہتمام کیا ہے۔ پہلی تقسیم علامہ کے کلام میں استعارئہ مصّرحہ کی اولین تقسیم یعنی طرفینِ استعارہ کے مناسبات کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے متعین کردہ اقسام کچھ یوں ہیں: ۱-استعارۂ مُطلَقہ اسے ’’استعارئہ مصرّحہ مطلقہ‘‘۱۷؎ یا ’’استعارئہ رھا‘‘ ۱۸؎ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس صورت کے تحت اقبال، مستعار منہ اور مستعار لہ دونوں کے مناسبات و ملائمات یا صفات میں سے کوئی چیز مذکور نہیں کرتے اور ملائماتِ طرفین کی عدم موجودگی میں یہ رنگ اُبھرتا ہے: مدتوں ڈھونڈا کیا نظّارئہ گل، خار میں آہ وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں۱۹؎ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو ُالٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا۲۰؎ پریشاں کاروبارِ آشنائی پریشاں تر مری رنگیں نوائی۲۱؎ ان اشعار میں ’’یوسف‘‘ کا استعارہ محبوب سے، ’’شیر‘‘ کا استعارہ مسلم نوجوان سے اور ’’رنگیں نوائی‘‘ کا استعارہ شاعری سے کیا گیا ہے اور ہر جگہ مستعار منہ اور مستعار لہ دونوں میں سے کسی کے مناسبات کا ذکر نہیں ہوا۔ ۲-استعارۂ مجرّدہ اسے ’’استعارئہ مصرّحہ مجرّدہ‘‘ ۲۲؎ اور ’’استعارئہ پیراستہ‘‘ یا ’’تجرید‘‘۲۳؎ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اور اس صورت کے تحت اقبال نے اپنے استعاراتی بیان میں صرف مستعار لہ کے مناسبات و ملائمات یا صفات کا تذکرہ کیا ہے، جیسے: بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سُوے حرم لے چل اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے ۲۴؎ تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی۲۵؎ جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ!۲۶؎ ان اشعار میں اقبال مرد مسلمان، فردِ ملت اور جاوید کے لیے بالترتیب ’’آہو‘‘، ’’مسافر شب‘‘ اور’’ چراغ‘‘ کے استعارے لائے ہیں اور صرف متذکرہ مستعار لہ کے مناسبات کا ذکر ہی ملتا ہے۔ ۳-استعارۂ مرشحہ اسے ’’استعارئہ مصرّحۂ مرشحہ‘‘ ۲۷؎ اور ’’استعارئہ پروردہ‘‘۲۸؎ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی رو سے استعارے میں صرف مستعار منہ کے مناسبات لائے جاتے ہیں، مثلاً اقبال لکھتے ہیں: کبھی جو آوارئہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا۲۹؎ پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں۳۰؎ مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک۳۱؎ جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کہن کو سرنگوں؟۳۲؎ یہاں ’’آوارئہ جنوں‘‘، ’’حنا‘‘، ’’آگ‘‘ اور’’ نخل کہن‘‘ مستعار منہ ہیں اور اقبال نے ا پنے ان شعروں میں صرف ان ہی کے مناسبات اور صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ لہٰذا استعارئہ مرشحہ کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ ۴-استعارۂ موشحہ استعارئہ موشحہ وہ ہے جس میں مستعار لہ اور مستعار منہ دونوں ہی کے مناسبات ذکر کیے جاتے ہیں، مثلاً: عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے۳۳؎ غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہرِ کبود۳۴؎ ’’انسان ‘‘ اور ’’نئی فکر کے حامل افراد‘‘ مستعار لہ ’’ٹوٹا ہوا تارا‘‘ اور ’’نئے ستارے‘‘ مستعار منہ ہیں اور دونوں شعروں میں علامہ نے طرفینِ استعارہ کے مناسبات یا صفات کو ذکر کرکے استعارئہ موشحہ کی صورت پیدا کی ہے۔ دوسری تقسیم: استعارئہ مصرّحہ کی دوسری تقسیم طرفینِ استعارہ، مستعار منہ اور مستعار لہ کی بنیاد پر کی گئی ہے اور اس ضمن میں اسے درج ذیل دو قسموں میں بانٹا جاتا ہے: (۱)استعارۂ وفاقیہ: اسے ’’ھمساز‘‘ ۳۵؎ یا ’’استعارئہ وفاقی‘‘ ۳۶؎ بھی کہتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ طرفینِ استعارہ یعنی مستعار منہ اور مستعارلہ اس قسم کے ہوں کہ ان کا باہم ایک جگہ یا فردِ واحد میں جمع ہونا ممکن ہو۔ چونکہ ’’وفاق‘‘ بمعنی موافقت کرنے کے ہے، اس لیے اس صورت کے تحت اجتماعِ طرفین ممکن ہو جاتا ہے۔ جیسے: فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی! خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند!۳۷؎ وہ میرا رونقِ محفل کہاں ہے مری بجلی، مرا حاصل کہاں ہے!۳۸؎ پہلے شعر میں مستعار لہ ’’انسان‘‘ ہے اور مستعار منہ ’’خاکی ہونا‘‘ ۔ چونکہ فرد واحد کا بیک وقت خاکی ہونا اور خاک سے پیوند نہ رکھنا ممکن ہے، لہٰذا یہاں استعارئہ وفاقیہ کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسرے شعر میں ’’محبوب‘‘ مستعار لہ ہے ’’رونق محفل‘‘ اور ’’بجلی و حاصل‘‘ مستعار منہ اور طرفین استعارہ کا ایک ہی شخص میں جمع ہونا عین ممکن بھی ہے۔ یوں اقبال نے استعارئہ وفاقیہ کے استعمال سے لطافت کلام میں اضافہ کردیاہے۔ ۲-استعارۂ عنادیہ اسے ’’استعارۂ عنادی‘‘ ۳۹؎ اور ’’استعارۂ ناساز‘‘ ۴۰؎ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ ’عناد‘ کے معنی چونکہ دشمنی یا ناسازی کے ہیں، لہٰذا اس کے تحت اجتماع طرفین استعارہ فرد واحد میں ایک ہی مقام پر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی بڑھی ہوئی صورت یہ ہے کہ خوش طبعی اور طنزو استہزا کے لیے دو ایسی اضداد کو باہم استعارہ کرلیتے ہیں، جن کا جمع ہونا محال ہوتا ہے۔ اس انداز کو محققین نے ’’استعارئہ تھکمیہ‘‘ یا ’’تملیحیہ‘‘۴۱؎ یا ’’استعارۂ ریشخند‘‘۴۲؎ کا نام دیا ہے۔ شعر اقبال سے اجتماع طرفین میں عناد کی مثالیں دیکھیے جن میں وہ متضاد اوصاف جمع کر دیتے ہیں: ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں گے صنم پتھر کے۴۳؎ بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے۴۴؎ دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے۴۵؎ گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے مردہ ہے، مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس۴۶؎ خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو۴۷؎ ان اشعار میں علامہ نے بدنام کا استعارہ نکو نام سے، حساسیت کا استعارہ ظالم سے، بدحال کا استعارہ قبر کے اگلے ہوئے مردے سے، زندہ کا استعارہ مردہ سے اور خدا ترس کا استعارہ ظالم سے کرکے نہایت عمدگی سے استعارۂ عنادیہ کی صورتیں پیدا کی ہیں اور ان سے شعر پاروں میں طنز و استہزا کے پہلو بھی ابھرے ہیں۔ تیسری تقسیم استعارۂ مصرّحہ کی تیسری تقسیم وجہ جامع کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور محققین بیان نے اس کی درج ذیل چار اقسام متعین کی ہیں: اوّل: یہ کہ وہ جامع طرفین استعارہ یعنی مستعار منہ و مستعار لہ کے معنی کا جزو ہوتی ہے، اس لیے اسے بہ آسانی ان میں تلاش کیا جاسکتا ہے، مثلاً اقبال لکھتے ہیں: برقِ ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے دیکھنے والی ہے جو آنکھ، کہاں سوتی ہے!۴۸؎ مژدہ اے پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز! بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش۴۹؎ پہلے شعر میں غافل رہنے کا استعارہ سونے کے ساتھ کیا اور غفلت و بے پروائی وجہ جامع ہے جو مستعار منہ اور مستعار لہ کے مفاہیم میں داخل ہے۔ فرق اس قدر ہے کہ مستعار منہ میں شدید اور مستعار لہ میں ضعیف ہے۔ بعینہٖ دوسرے شعر میں بیداری کا استعارہ ہوش کے ساتھ کیا گیا ہے اور پروا کرنا اور غافل نہ رہنا طرفین استعارہ دونوں کے مفہوم میں داخل ہے، یوں وجہ جامع کی پہلی صورت پیدا ہوئی ہے۔ دوم: یہ کہ وجہ جامع کو مستعار منہ و مستعار لہ کے مفہوم و معنی کا جزو نہ ہونے کے باعث، اس کا طرفین استعارہ میں بہ آسانی دریافت کرنا ممکن نہیں ہوتا، جیسے: ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں۵۰؎ مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب بہرِ نظّارہ تڑپتی ہے نگاہِ بے تاب اپنے خورشید کا نظّارہ کروں دور سے میں صفتِ غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں۵۱؎ ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے۵۲؎ شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی رہ گئے صوفی و ملاّ کے غلام اے ساقی۵۳؎ ان اشعار میں اقبال نے دل کو آئینے سے، محبوب رعنا کو خورشید سے اور مرد شجاع اور نڈر کو شیر مرد سے استعارہ کیا ہے اور ظاہر ہے کہ شفافیّت و حساسیت، دل اور آئینے، نورانیت ، سورج اور خوبصورت آدمی اور شجاعت، شیر اور بہادر آدمی کو عارض ہیں مگر ان کے مفہوم میں داخل نہیں۔ پس وجہ جامع علامہ کے ان استعاروں کے طرفین میں شامل نہیں بلکہ خارج ہے۔ وم: یہ ہے کہ وجہ جامع استعارے میں پوشیدہ یا دیر یاب نہیں ہوتی بلکہ بادی الرائے میں ظاہر ہونے کے باعث جلد سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہ زیادہ نادر اور عجیب نہیں اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ مستعمل اور عامتہ الناس میں مقبول ہوتی ہے۔ اس عنصر کی وجہ سے ایسی وجہ جامع پر مبنی استعارے ’’استعارئہ عامیّۂ مبتذلہ‘‘ یا ’’استعارئہ نزدیک و آشنا‘‘۵۴؎ کہلاتے ہیں۔ چونکہ بہت زیادہ صرف کرنے سے ابتذال پیدا ہوتا ہے، اس لیے بعض محققین نے اسے ’’استعارئہ مبتذلہ‘‘۵۵؎ سے بھی موسوم کیا ہے۔ مثلاً اقبال کے ذیل کے شعروں میں وجہ جامع بلا تأمل اور غور کے سمجھ میں آجاتی ہے: پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغِ چمن۵۶؎ ہُوا حریفِ مہ و آفتاب تو جس سے رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی۵۷؎ اپنے نُورِ نظر سے کیا خوب فرماتے ہیں حضرتِ نظامی ’’جاے کہ بزرگ بایدت بود فرزندیِ من نداردت سود‘‘۵۸؎ خیالِ جادہ و منزل فسون و افسانہ کہ زندگی ہے سراپا رحیلِ بے مقصود۵۹؎ یہاں ’’چراغ‘‘لالہ سے، ’’ستارے‘‘ نژاد نو سے،’’ رحیل بے مقصود ‘‘ زندگی سے اور ’’نور نظر‘‘ فرزند سے استعارہ ہے اور تمام شعروں میں وجہ جامع نادر نہیں بلکہ ظاہر، عام اور مستعمل ہے۔ چنانچہ استعارہ ٔعامیّہ یا مبتذلہ کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ چہارم:یہ ہے کہ وجہ جامع دُور و دیر یاب ہوتی ہے، نادر ہونے کے باعث بہ آسانی سمجھ میں نہیں آتی اور سوائے خواص کے عامتہ الناس اسے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اسی نسبت سے وجہ جامع کی اس صورت کو ’’استعارۂ مخفی یاغریبہ‘‘۶۰؎ ، ’’استعارۂ خاص‘‘۶۱؎ یا ’’استعارۂ دور و شگفت‘‘۶۲؎ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اپنی ندرت و جدت کے باعث یہ قسم قلمر وِ استعارہ میں بہت ارزش کی حامل ہے اور اس کی تفہیم کرتے ہوئے قاری کا ذہن بڑی مسرت اور اہتزاز محسوس کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات استعارے کی یہ نوعیت شعر میں غرابت پیدا کردیتی ہے لیکن شعر اقبال کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ علامہ نے اس ضمن میں بھی لطافت اور تازگی کو برقرار رکھا ہے، جیسے: خدا کی شان ہے ناچیز، چیز بن بیٹھیں جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں۶۳؎ اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خرد افروزی دے برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے۶۴؎ بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں۶۵؎ ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے مری خاکِ پے سِپر میں جو نہاں تھا اک شرارا۶۶؎ ان اشعار میں ’’کوئی چیز بن بیٹھنا‘‘ اپنی حیثیت کا احساس دلانے کا استعارہ ہے جو بظاہر مبتذل نظر آتا ہے لیکن یہ کہہ دینے سے کہ خدا کی شان ناچیز، چیز بن بیٹھیں، کسی قدر ندرت آگئی ہے۔ اسی طرح مسلم نوجوانوں کو پروانے کہہ کر ان کے اندر حرارت عمل پیدا کرنے کے لیے ’برق کا‘ استعارہ عام ہے مگر علامہ نے اس کے ساتھ ’دیرینہ ‘کا اضافہ کرکے اسے خاص بنا دیا ہے۔ بعینہٖ ’بت گر‘ اور ’بت شکن‘ کے استعاروں کو ابراہیم ؑ اور آزر کی تلمیحات سے جوڑ کر ندرت و جدّت پیدا کی گئی ہے۔ آخری شعر میں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں شاعر نے خود کو روایتی انداز میں محض ’خاک‘ کہنے کے بجاے، ’خاکِ پے سپر‘ کے استعارے سے متعارف کروا کے استعارۂ غریبہ یا استعارۂ خاص کی صورت اُبھاری ہے۔ چوتھی تقسیم استعارۂ مصّرحہ کی چوتھی تقسیم طرفین استعارہ (مستعار منہ و مستعار لہ) اور وجہ جامع، تینوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں اسے چھے اقسام میں منقسم کیا گیا ہے، جن سے متعارف کراتے ہوئے صاحبِ بحر الفصاحت لکھتے ہیں: یہ چھے قسم پر ہے اس لیے کہ مستعار منہ اور مستعار لہ یا حسّی ہوتے ہیں یا ایک ان میں سے حسّی ہوتا ہے اور ایک عقلی مثلاً مستعار منہ حسّی ہوتا ہے اور مستعار لہ عقلی یا مستعار منہ عقلی ہوتا ہے، مستعار لہ حسی، پس چار صورتیں ہوئیں جن میں وجہ جامع ہمیشہ عقلی ہوتی ہے کیونکہ وجہ شبہ جس کا نام جامع ہے، وہ طرفین کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ پس جبکہ دونوں عقلی ہوں گے تو ان کے ساتھ وجہ جامع قائم ہوگی اور اگر ان میں سے ایک عقلی ہوگا اور ایک حسّی، تب بھی وجہ جامع کا عقلی ہونا ضرور ہے اس لیے کہ عقلی کا قیام حسّی کے ساتھ مستحیل ہے اور جبکہ مستعار منہ اور مستعار لہ دونوں حسّی ہوتے ہیں تو وجہ جامع کبھی عقلی ہوتی ہے، کبھی حسّی اور کبھی مختلف یعنی بعض حسّی اور بعض عقلی … اس طرح چھے قسمیں ہوگئیں…۶۷؎ ذیل میں طرفین استعارہ اور وجہ جامع کی بنیاد پر قائم کی گئی ان چھے صورتوں کا شعر اقبال کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے: ۱- مستعار لہ، مستعار منہ اور وجہ جامع، تینوں حسی کلام اقبال میں مستعار لہ، مستعار منہ اور وجہ جامع تینوں حسّی ہونے کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ چونکہ حواس پانچ ہیں، لہٰذا اس قسم کی مزید پانچ حالتیں حسّی متعلق بہ باصرہ، حسّی متعلق بہ سامعہ، حسّی متعلق بہ شامہ، حسّی متعلق بہ ذائقہ اور حسّی متعلق بہ لامسہ قرار پاتی ہیں۔ جیسے: حسّی متعلق بہ باصرہ: گزر جا بن کے سیلِ تُند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جُوے نغمہ خواں ہو جا۶۸؎ مرد مسلمان کے شدائد سے گزرنے کو ’’سیلِ تندرو‘‘ اور خوش آیند حالات سے گزرنے کو ’’جُوے نغمہ خواں‘‘ سے استعارہ کیا، یوں مستعار منہ اور مستعار لہ دونوں حسّی ہیں اور وجہ جامع تیزی اور آہستگی ہے جو حس باصرہ سے متعلق ہے۔ حسّی متعلق بہ سامعہ: چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو۶۹؎ ندی کے پہاڑوں سے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی آواز کو عراقِ دلنشیں (ایک راگنی) سے استعارہ کیا۔ طرفین استعارہ دونوں حسّی ہیں اور وجہ جامع یعنی دلنشیں آواز ،متعلق بہ حسِ سامعہ ہے۔ حسّی متعلق بہ شامہ: شرابِ بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری شکستِ رنگ سے سیکھا ہے میں نے بن کے بو رہنا۷۰؎ شاعر کی فلک تک پرواز کو ’’بو‘‘ سے استعارہ کیا، طرفین حسّی ہیں اور وجہ جامع ’’بو کا چاروں طرف پھیلنا‘‘ ہے جو حسّی متعلق بہ شامہ ہے۔ حسّی متعلق بہ ذائقہ: شرابِ کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا۷۱؎ شرابِ کہن، بادۂ ناب سے استعارہ کیا اور یہاں وجہ جامع ’’مزا‘‘ ہے جو حسّی متعلق بہ ذائقہ ہے۔ حسّی متعلق بہ لامسہ: ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۷۲؎ پہلا مصرع تشبیہ لامسہ پر مبنی ہے جبکہ دوسرا مصرع استعاراتی ہے۔ یہاں مومن کے رزمِ حق وباطل میں ہونے کو ’’فولاد‘‘ سے استعارہ کیا ہے، طرفین حسّی ہیں اور وجہ جامع سختی کا عنصر ہے، جو حسّی متعلق بہ لامسہ ہے۔ (۲)طرفین حسّی اور وجہ جامع عقلی اس قسم کے تحت شاعر طرفین استعارہ (مستعار منہ، مستعار لہ) کو تو حسّی لانے کا اہتمام کرتا ہے لیکن وجہ جامع عقلی ہوتی ہے۔ جیسے: دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے۷۳؎ یعنی ’دہقان‘ اور ’مردہ‘ دونوں حسی ہیں لیکن ان میں وجہ جامع جو کہ زندگی کی رمق کا نہ ہونا ہے، عقلی ہے۔ (۳) مستعار لہ حسّی اور مستعار منہ و وجہ جامع عقلی اس کے تحت اقبال نے مستعار لہ کو حسّی اور مستعار منہ و وجہ جامع کو عقلی لانے کا یوں التزام کیا ہے: وہ میرا رونقِ محفل کہاں ہے مری بجلی، مرا حاصل کہاں ہے!۷۴؎ مستعارلہ حسّی ’’محبوب‘‘، مستعار منہ عقلی ’’رونق محفل‘‘ اور وجہ جامع عقلی ’’محفل آرائی کی صلاحیت‘‘ ہے۔ (۴) مستعار منہ حسّی ، مستعار لہ اور وجہ جامع عقلی علامہ اس نوع کی رو سے مستعار منہ کو حسّی اورمستعار لہ و وجہ جامع کو عقلی لا کر شعر کے استعاراتی بیان کو جدت بخشتے ہیں: پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں۷۵؎ یہاں دوسرے مصرعے میں ’’خون جگر‘‘ محنت شاقہ کا استعارہ ہے۔ چنانچہ مستعار منہ حسّی خون جگر، مستعار لہ عقلی سخت محنت اور وجہ جامع عقلی مسلسل ریاضت و محنت ہے۔ (۵) مستعار منہ، مستعار لہ اور وجہ جامع تینوں عقلی اقبال نے تینوں ارکان استعارہ یعنی مستعار منہ، مستعار لہ اور وجہ جامع کو عقلی لانے کا اہتمام اس طرح کیا ہے: برقِ ایمن مرے سینے پہ پڑتی روتی ہے دیکھنے والی ہے جو آنکھ کہاں سوتی ہے!۷۶؎ یہاںغافل ہونے کا استعارہ سونے کے ساتھ ہے اور وجہ جامع بے پروائی اور غفلت ہے اور یوں یہ تینوں عقلی ہیں۔ اس لیے کہ غافل رہنے اور غفلت و بے پروائی کا عقلی ہونا ظاہر ہے اور سونے سے مراد احساس کا باقی نہ رہنا ہے جو بیداری میں حاصل ہوتا ہے اور اس کے عقلی ہونے میں بھی شبہہ نہیں۔ (۶) طرفین حسّی اور وجہ جامع مرکب اس قسم کے تحت شاعر طرفین استعارہ کو حسّی اور وجہ جامع کو مرکب لاتا ہے یعنی بعض امر حسّی اور بعض عقلی ہوتے ہیں، مثلاً: ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے۷۷؎ یہاں شخصِ جلیل القدر (یعنی محبوب) کا استعارہ خورشید سے کیا ہے جو حسن (حسی) اورشان (عقلی) کی بزرگی و برتری کی مجموعہ وجہ جامع ہے۔ نجم الغنی نے اس قسم کے استعاروں کو نادر قرار دیا ہے اور ان کے مطابق ایسے استعارے کم واقع ہوتے ہیں۔ گویا حقیقت میں یہ دو استعارے ہیں۷۸؎ علامہ کی قدرت کلام دیکھیے کہ ان کے استعارے اس رنگ سے بھی خالی نہیں ہیں۔ پانچویں تقسیم استعارئہ آشکار کو مستعار یعنی وہ لفظ یا کلمہ جو اپنے حقیقی معنی کی جگہ استعمال ہوتا ہے، کی بنیاد پر بھی دو انواع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو یہ ہیں: ۱- استعارۂ اصلیّہ: جس استعارے میں لفظ مستعار اسمِ جنس ہو، اسے ’’استعارۂ اصلیّہ‘‘ یا استعارہ ٔپایہ‘‘ ۷۹؎ کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ استعارۂ اصلیّہ ایسی بہت سی چیزوں پر صادق آسکتا ہے، جو کوئی مشترک وصف رکھتی ہیں۔ شعر اقبال میں اس نوعیت پر مبنی کافی مثالیں ملتی ہیں، جیسے : جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے خوبیِ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے۸۰؎ ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے۸۱؎ ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک۸۲؎ ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی۸۳؎ خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغِ رہ گزر ہے۸۴؎ ان شعروں میں ’’گل‘‘، ’’خورشید‘‘،’’بلبل‘‘، ’’لالے‘‘ اور ’’چراغ رہ گزر‘‘ مستعار ہیں۔ جنھیں بالترتیب محبوب، شاعر کی ذات، مردِ مسلمان اور تعقل کے لیے استعارہ کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام اسم جنس ہیں۔ لہٰذا استعارۂ اصلیہ کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ ۲- استعارۂ تبعّیہ: اسے ’’استعارۂ پیرو‘‘ ۸۵؎ بھی کہتے ہیں اور یہ اس طرح ہے کہ لفظ مستعار، فعل یا مشتقاتِ فعل سے ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فعل یا مشتقات فعل کے معنی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ تشبیہ کے وصف سے متصف ہوسکے بلکہ یہاں فعل کا مصدر مشبہ ہوتا ہے۔مثلاً اقبال لکھتے ہیں: میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا۸۶؎ اڑ بیٹھے کیا سمجھ کر بھلا طور پر کلیم طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی۸۷؎ ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے واں کنٹر سب بلوری ہیں، یاں ایک پرانا مٹکا ہے۸۸؎ لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی! ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی!۸۹؎ بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبرِ بد نہ میرے منہ سے نکل جائے۹۰؎ ان اشعار میں استعارئہ تبعیہ کی صورت یوں پیدا ہوئی ہے کہ ’مٹنا‘ مصدر ہے جس سے مراد فنا ہونا ہے اور دونوں میں استعارہ ہے۔ ’اڑ بیٹھے‘ فعل ماضی ہے مگر اڑ بیٹھنے اور ضد کرنے میں استعارہ ہے، جو مصدر ہیں۔ ’’دل جا اٹکا ہے‘‘ فعل حال ہے اور دل اٹکانے اور عاشق ہونے میں استعارہ ہے اور یہ دونوں بھی مصدر ہیں۔ بعینہٖ ’ہاتھ آجانا‘ سے مراد مل جانا اور ’دم توڑنا‘ سے مقصود زوال پذیر ہو جانا ہے اور یہ تمام مصادر ہیں، جن کے مابین استعارات قائم کئے گئے ہیں۔ (ب) استعارہ مکنیّہ بناوٹ کے اعتبار سے استعارے کی دوسری قسم ’’استعارہ بالکنایہ‘‘ ہے جسے ’’استعارۂ مکنّیہ‘‘۹۱؎یا ’’استعارۂ مکنّیہ تخییلیّہ‘‘۹۲؎ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ کسی امر کی تصریح و توضیح نہ کرنے کا نام کنایہ ہے، لہٰذا استعارے کی یہ صورت ’’استعارہ بالتصریح‘‘ کی طرح صراحت کے بجاے پوشیدگی کا عنصر رکھتی ہے۔ استعارہ بالکنایہ میں مستعار لہ مذکور اورمستعار منہ متروک ہوتا ہے اور کوئی شے کہ مشبہ بہٖ سے تعلق رکھتی ہے، مشبہ کے واسطے ثابت کی جاتی ہے یعنی مستعار لہ کے مذکور اورمستعار منہ کے محذوف ہونے کے ساتھ ساتھ اس صورت کے لیے شرط یہ ہے کہ مستعار منہ کے مناسبات ضرور بیان کیے جائیں۔ اس طرح تخلیق کار یہ مقصد رکھتا ہے کہ مستعار منہ عین مستعار لہ ہے۔ استعارہ بالکنایہ میں بات کی ادائی کنایتہ ہوتی ہے، اس وجہ سے یہ شعر پارے میں ایمائی و رمزی حسن پیدا کردیتا ہے۔ چونکہ کناے اور تخییل کو باہم جدا نہیں کیا جاسکتا، اس لیے محققین فن نے ’’استعارہ بالکنایہ‘‘ اور ’’استعارہ تخییلیہ‘‘ کی تعاریف ساتھ ساتھ بیان کی ہیں، مثلاً مولوی نجم الغنی لکھتے ہیں: استعارہ بالکنایہ، یہ ہے کہ نفس میں تشبیہ دی جاتی ہے اورسوائے مشبہ کے کوئی چیز ذکر نہیں کی جاتی اور بعض چیزیں جو مشبہ بہٖ کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں، وہ مشبہ کے لیے ثابت کی جاتی ہیں، پس ان کا ثابت کرنا اس تشبیہ پر جو نفس میں مضمر ہے، دلالت کرتا ہے۔ اسی تشبیہ مضمر کو استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں یعنی ایسا استعارہ جو کنائے کے ساتھ ہو کیونکہ اس میں مشبہ بہٖ کی تصریح نہیں ہوتی ہے…اور وہ چیز جو مشبہ بہٖ سے خصوصیت رکھتی ہے، اس کو مشبہ کے لیے ثابت کرنے کا نام استعارۂ تخییلیہ ہے کیونکہ جب کوئی ایسی چیز جو مشبہ بہٖ سے خصوصیت رکھتی ہے، مشبہ کے لیے مانگی جاتی ہے تو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مشبہ جنس سے مشبہ بہٖ کے ہے…۹۳؎ بقول جلال الدین احمد جعفری زینبی: اگر مشبہ کا ذکر کریں اور مشبہ بہٖ کو حذف کرکے اس کے چند لوازم ذکر کریں تو ایسی صورت میں مشبہ کا ذکر اور مشبہ بہٖ کا حذف کرنا استعارہ بالکنایہ ہے اور مشبہ بہٖ محذوف کے لوازم کو مشبہ کے واسطے ثابت کرنا استعارۂ تخییلیہ کہلائے گا…۹۴؎ مصنف بہار بلاغت لکھتے ہیں: مشبہ بہٖ متروک کے ساتھ تصور میں تشبیہ دینے کو استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں۔ کسی چیز کی تصریح نہ کرنے کا نام کنایہ ہے یعنی استعارہ بالکنایہ سے مراد مشبہ کا ذکر کرنا اور مشبہ بہٖ کو نصب قرینہ لے آنا اور قرینہ اس جگہ استعارئہ تخیّلہ ہے، دوسرے لفظوں میں مشبہ بہٖ محذوف کے اثبات لوازم کو استعارۂ تخییلیہ کہتے ہیں۔۹۵؎ شعر اقبال میں استعارہ بالکنایہ کا رنگ بانگ درا کے ذیل کے شعروں میں بڑی عمدگی سے اُبھرا ہے جن میں شاعر نے خود کو پرندے سے تشبیہ دے کر اس کے واسطے گھونسلے، قفس یادام وغیرہ کو ثابت کیا ہے: لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے واے ناکامی، فلک نے تاک کر توڑا اسے میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے پاس تھا ناکامیِ صیّاد کا اے ہم صفیر ورنہ میں اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے ۹۶؎ یہاں شاعر کی ذات مستعار لہ ہے، جو مذکور ہے اور پرندہ ہونا، مستعار منہ ہے جو متروک ہے مگر اس کے تلازمے موجود ہیں جو ان غزلیہ اشعار میں استعارہ بالکنایہ کی صورت پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح یہ شعر دیکھیے: نگاہِ گرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اُڑ جائیں نہ آہِ سرد کہ ہے گوسفندی و میشی۹۷؎ خودی میں ڈوب زمانے سے نااُمید نہ ہو کہ اس کا زخم ہے در پردہ اہتمامِ رفو۹۸؎ اقبال نے ’’شیر‘‘ کا استعارہ مردِ شجاع کے لیے استعمال کیا ہے، یعنی ’’شیر‘‘ مستعار لہ ہے جس کا ذکر ہوا اور ’’مرد شجاع‘‘ مستعار منہ ہے جو مذکور نہیں مگر اس کے تلازمے ضرور موجود ہیں۔ بعینہٖ خودی کو تلوار سے اس کا ذکر کیے بغیر تشبیہ دی جس سے شعر میں استعارہ بالکنایہ کی صورت ابھری ہے۔ استعارۂ مکنّیہ کی انواع ڈاکٹر سیروس شمیسا نے استعارہ بالکنایہ کو ’’استعارۂ مکنّیہ تخییلیہ‘‘ کا نام دیتے ہوئے، اسے دو انواع میں منقسم کیا ہے۹۹؎ جو یہ ہیں: (۱)بہ صورت اضافہ: اسے ’’اضافۂ استعاری‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں، جس کی مزید دو صورتیں ہیں: اوّل:یہ کہ اس میں مضاف الیہ اسم ہوتا ہے، جیسے رخسارِ صبح، رُوے گل، دستِ روزگار، کامِ ظلم اور چنگالِ مرگ وغیرہ۔ دوم:وہ اضافت ہے کہ جس میں مضاف الیہ صفت ہوتا ہے، جیسے عزمِ تیز گام___ یاد رہے کہ وہ اضافت جس میں مضاف الیہ اسم ہو، وہاں مشبہ مضاف الیہ ہوتا ہے اور جس میں مضاف الیہ صفت ہو، وہاں مشبہ مضاف ہوتا ہے۔ اقبال نے ’’اضافتِ استعارہ‘‘ سے اپنے کلام میں بڑی عمدگی سے بلاغت و معنویت پیدا کی ہے مثلاً اضافت کی دونوں صورتیں، ان کے ہاں یوں نمود کرتی ہیں: میں صورتِ گل دستِ صبا کا نہیں محتاج کرتا ہے مرا جوشِ جنوں میری قبا چاک۱۰۰؎ آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور شمشیرِ پدر خواہی بازوے پدر آور۱۰۱؎ پہلے شعر میں مضاف الیہ کے اسم ہونے کی صورت میں مشبہ ’’گل‘‘ اور ’’صبا‘‘ ہے جبکہ دوسرے شعر میں مضاف الیہ کے صفت ہونے کے باعث مشبہ مضاف یعنی ’’عزم ‘‘ہے۔ (۲) بہ صورت غیر اضافی: یہ وہ قسم ہے جس کے تحت شاعر استعارہ بالکنایہ اور استعارۂ تخییلیہ کے مابین فاصلہ روا رکھتا ہے یعنی کسی امر کا کنایتہ ذکر کرنے کے بعد اس کے لیے خیالی طور پر کوئی مثال لے کر آتا ہے مثلاً اقبال اپنے ذیل کے شعر میں زمانے کو کنایاتی طور پر اپنے دل میں فنا پذیری کے لیے مستعار لیتے ہیں اور اس کے بعد اس کے لیے ہر چیز کو خام رکھنے والی ہوا کا استعارہ تخییل کرکے ’استعارہ بالکنایہ غیر اضافی‘ کی صورت پیدا کر دیتے ہیں: پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام۱۰۲؎ بعض اوقات استعارہ بالکنایہ کے تحت شاعر طرفینِ استعارہ میں سے مستعار منہ کو آدمی یا جاندار کے طور پر لاکر بے جان چیزوں کو زندگی بخش دیتا ہے۔ گویا وہ استعارۂ کنائی کی بنیاد ’’آدمی گونگی یا جاندار گرایی‘‘ یعنی Animism۱۰۳؎ پر رکھتا ہے اور جب استعارۂ مکنّیہ تخییلیّہ میں مشبہ متروک اکثر موارد میں انسانی اوصاف رکھتا ہے، تو اسے اصطلاحِ استعارہ میں ’’انسان مدارانہ‘‘ یا Anthropomorphic۱۰۴؎ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ مغرب میں استعارۂ کنائی کی یہ صورت تشخیص یا Personification۱۰۵؎ کہلاتی ہے اور سخنور اس کا استعمال کرتے ہوئے بڑی مہارت اور ذہانت سے اشیا و مظاہر یا موجوداتِ غیر ذی روح کو مجسّم صفات و خصائصِ انسانی سے نوازتا ہے۔ اقبال نے بھی استعارہ بالکنایہ کے اس تخصیصی پہلو کو بڑی قادر الکلامی کے ساتھ برتا ہے۔ وہ اس کی وساطت سے معنویت و بلاغت میں اضافہ کر دیتے ہیں اور کہیں بھی کلام کے فطری بہاؤ اور روانی میں فرق نہیں آنے دیتے، مثلاً ذیل کے اشعار میں تشخیص (Personification) کے پہلو استعارۂ کنائی کی صورت میں بڑی خوبی سے در آئے ہیں: تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ چشمِ نظّارہ میں نہ تُو سُرمۂ امتیاز دے ۱۰۶؎ کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویاے اسرارِ ازل! چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیرِ عالم بے حجاب۱۰۷؎ دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو۱۰۸؎ پہلے دو شعروں میں بالترتیب ’’چشمِ نظارہ‘‘ اور’ ’چشم دل‘‘ مستعار لہ مذکور، ’’قوتِ بصارت‘‘ اور’’ قوتِ بصیرت‘‘ مستعار منہ متروک ہیں اور ان کنایاتی استعاروں کو دیکھنے کی مجسم انسانی صفت سے ہمکنار کرکے تشخیص کے عناصر اُبھرے ہیں، بعینہٖ تیسرے شعر میں مستعار لہ ’’دست فطرت‘‘ اور مستعار منہ’ ’قوت اختیار‘‘ ہے جو مذکور نہیں اور اس استعارۂ کنائی میں اقبال نے غیر ذی روح مظہر یعنی ’’فطرت‘‘ کے ساتھ لفظ ’’دست‘‘ کا اضافہ کرکے اسے مجسم انسانی وصف سے نواز ا ہے اور Personification کی بڑی نادر صورت پیدا ہوئی ہے۔ (ج) استعارہ تمثیلیہ بناوٹ کے اعتبار سے استعارے کی تیسری قسم استعارئہ تمثیلیہ ہے جسے ڈاکٹر سیروس شمیسا نے ’’استعارۂ قیاسیہ‘‘ کا نام دیا ہے۱۰۹؎ اس صورت کو نجم الغنی ’’تمثیل بطریقِ استعارہ‘‘ ،’’تمثیل‘‘ اور ’’مجاز مرکب‘‘ کہتے ہیں۱۱۰؎ جب کہ میر جلال الدین کزازی کے مطابق اسے ’’استعارۂ مرکب یا آمیغی‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۱۱۱؎ استعارے کی اس قسم میں مستعار لہ، مستعار منہ اور وجہِ جامع کئی چیزوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ تشبیہ تمثیل کے مقابلے میں یہ مطلق تمثیل ہے اور اس سبب سے اسے ’’تمثیلِ مطلقاً‘‘ بھی کہتے ہیں۱۱۲؎ یہ ایسا استعارہ ہے جس میں ذکر مشبہ بہٖ کا اور ارادہ مشبہ کا ہوتا ہے اور دو صورتوں میں سے ایک صورت کو دوسری کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ استعارۂ تمثیلیہ میں استعارہ لفظ کے بجاے جملے میں ہوتا ہے یعنی ہم ایسے مشبہ بہٖ سے سروکار رکھتے ہیں جو جملے کی شکل میں ہو اور اس صورت میں ہم قدرے تأمل سے اس تمثیل یا قیاس تک پہنچ جاتے ہیں، جس کا شاعر نے اہتمام کر رکھا ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد حقیقی کے بجاے خیالی و عقلی ہوتی ہے جس میں مشبہ بہٖ ایک مرکب ہوتا ہے جو حکمِ مثال رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ’’ارسال المثل‘‘ سے مختلف ہے ارسال المثل میں مشبہ کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ تمثیلی و مرکب استعارے بظاہر لغو اور ناممکن لگتے ہیں لیکن ان سے کلام کی معنویت میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اس ضمن میں شاعر کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ مشبہ بہٖ زیادہ طویل نہ ہو یعنی کوئی روایت یا حکایت نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت میں یہ استعارۂ تمثیلیہ کے بجاے محض تمثیل بن جائے گی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھار تمثیلی و مرکب استعاروں میں بہت سی داستانوں کے خلاصے پنہاں ہوتے ہیں اور ایسے تمثیلی استعارے عموماً کناے کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اقبال کے اشعار میں مکمل طور پر یہ صورت تو نہیں تاہم ایک قسم کی کُلّی حالت کو دوسری قسم کی مجموعی حالت سے استعارہ کرکے استعارۂ تمثیلیہ کی صورت کسی قدر یوں تخلیق ہوئی ہے: ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی جہاں میں ہے صفتِ عنکبوت ان کی کمند۱۱۳؎ شعر اقبال میں استعارے کی متذکرہ اقسام اور دیگر فنّی مباحث کا عملی اطلاق دیکھ کر حیرت و استعجاب کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ان ارکان و اقسام کے ساتھ ساتھ فکری حوالے سے بھی استعاراتِ اقبال میں بوقلمونی نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اسے محسنۂ شعری کو ’’جانِ کلام‘‘ خیال کرتے ہوئے جس طرح معنی آفرینی کی ہے، وہ نہایت متاثر کن ہے۔ استعارات اقبال کا یہ تفصیلی اور توضیحی مطالعہ اس امر پر شاہد ہے کہ استعارے کے فن اور اس کی غرض و غایت پر علامہ کی گہری نظر تھی اور مشرقی و مغربی شعری روایات کے مطالعے نے ان پر بیان کی اس خوبی کے تمام تر خصائص روشن کر دیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان استعاروں میں روایت اور جدت کا بڑا دلکش ملاپ دکھائی دیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے ابتدائی کلام میں استعارات کا رنگ کسی قدر ماقبل کے شعرا کی طرح روایتی اور تقلیدی ہے لیکن بہت جلد وہ اس سے بلند ہو جاتے ہیں اور قدیم استعاراتی انداز میں تصرف کرکے نئے، نادر اور اچھوتے استعارے تخلیق کرنے لگتے ہیں۔ اس اعتبار سے علامہ نے اپنے پیشرو اور معاصر شعرا کے مقابلے میں اجتہادی رویے کا اظہار کیا۔ انھوں نے بنیادی طور پر اس محسنۂ شعری کے ایجاز و بلاغت کی وصف سے متاثر ہو کر بے مثال شعر پارے رقم کیے۔ یہی وصف ان کے کلام کو علامتی آہنگ سے ہمکنار کر دیتا ہے اور وہ اپنے موضوعات کی ترسیل بڑی بلاغت کے ساتھ کرنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے استعارے تلمیح اور تاریخ کے ساتھ منسلک ہو کر لطافت پیدا کرتے ہیں اور یوں بھی ہوا ہے کہ ان کے استمداد سے جاندار اور متحرک منظریہ تمثالوں کی تشکیل ممکن ہوپائی ہے۔ استعارات اقبال، حواس پنجگانہ کو متحسّس کرنے پر بھی قادر ہیں اور حرکی پہلوؤں کی موجودگی کے باعث شاعری میں متحرک جمالیاتی اوصاف ابھارتے ہیں۔ بعض استعارے کثرت استعمال کے سبب سے علامہ کے محبوب استعارات کا درجہ بھی اختیار کر لیتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن کا تعلق تاریخ و اساطیر سے ہے۔ اپنی تمام ترجہات میں اقبال کے استعاروں کا امتیازی وصف آرایش کمال کے بجاے معنی آفرینی کا حصول ہے۔ ان کے استعارے تازہ کاری اور لطافت سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ امر مسلمہ ہے کہ ایک پیغامبر شاعر کے ہاں لطافت و عذوبت کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ کلام میں ثقالت پیدا ہو جاتی ہے۔ علامہ کے استعارات میں اُن کے باطنی سوز اور اضطراب ذہنی کی تمام تر جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ استعارے تیقن و تحرک، سیماب پائی، جگر سوزی اور حرارت عمل کے جذبوں سے سرشار ہیں اور حیات و کائنات سے وابستہ تمام پہلوؤں کا بڑی عمدگی سے احاطہ کرتے ہیں۔ استعاراتِ اقبال کا ایک استثنائی پہلو لغات شعری میں بے پایاں اضافے کرنا اور متنوع شعری اسالیب میں یکساں مہارت کے ساتھ اس شعری خوبی کو برتنا ہے۔ یہ استعارے شاعر مشرق کے مطمح نظر سے کلی طور پر ہم آہنگ ہیں اور ان کے کوائفِ باطنی اور وارداتِ قلبی کے بیان میں حیرت انگیز ابلاغ و اظہار کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اپنی لطافت، خوش گوار پیچیدگی ، نزاکت و رمزیت اور ندرت و انفرادیت کے باعث اقبال کے استعارے بڑے دل پذیر اور حیرت انگیز ہیں۔ خاص طور پر پیچیدہ تصورات و افکار اور تعقلات و نظریات کی ترسیل ان نادر استعاروں کی وساطت سے ایسے مؤثر طور پر ہوئی ہے کہ پڑھنے والا علامہ کی صناعانہ مہارت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کلام اقبال میں استعاراتی اندازِ بیان ایک مؤثر، مؤفق اور جاندار شعری حربہ ہے۔ ژ…ژ…ژ حوالہ جات ۱- ڈاکٹر سیّد صادق علی، اقبال کی شعری زبان: ایک مطالعہ، نئی دہلی، اے ون آفسیٹ پرنٹرز، طبع اول ۱۹۹۴ئ، ص ۵۵۔ ۲- ڈاکٹر شکیل الرحمن،’’اقبال کی جمالیات میں علامتوں اور استعاروں کا عمل‘‘، مشمولہ مقالات عالمی اقبال سیمینار، حیدر آباد، اقبال اکیڈمی ۱۹۸۶ئ، ج ۱، ص۲۲۹، ۲۳۰۔ ۳- ڈاکٹر قاضی عبید الرحمن ہاشمی، ’’اقبال کے استعاروں کا حرکی نظام‘‘ ، مشمولہ اقبال___ جامعہ کے مصنفین کی نظر میں (مرتبہ) گوپی چند نارنگ، نئی دہلی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، طبع اول۱۹۷۹ئ،ص ۲۵۷، ۲۵۸۔ ۴- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘ کلیات اقبال (اردو)، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۰ئ، ص ۲۲۷۔ ۵- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال(اردو) ،ص ۱۰۷۔ ۶- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘ ،کلیات اقبال(اردو)،ص۴۱۔ ۷- ایضاً، ’’ارمغانِ حجاز‘‘ ،کلیات اقبال(اردو)، ص۲۱۔ ۸- شمس الدین فقیر ، حدائق البلاغۃ ،مترجم: امام بخش صہبائی، لکھنؤ،مطبع منشی نولکشور، ۱۸۴۳ئ،ص ۵۱۔ ۹- محمد عبیداللہ الاسعدی، تسہیل البلاغۃ، لاہور، المکتبۃ الاشرفیہ، طبع دوم س ن، ص ۷۱۔ ۱۰- میر جلال الدین کزازی، بیان، (زیباشناسی سخن پارسی)تہران، کتاب ماد وابستہ بہ نشر مرکز، طبع ششم ۱۳۸۱، ص ۹۹۔ ۱۱- جلال الدین ہمائی، فنونِ بلاغت و صناعات ادبی، تہران، انتشارات توس، طبع سوم ۱۳۶۴، ج ۲، ص ۲۵۰۔ ۱۲- نجم الغنی، بحر الفصاحت، (طبع نو) ، لاہور، مقبول اکیڈمی ۱۹۸۹ئ، ج ۲، ص ۸۶۰۔ ۱۳- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۹۷۔ ۱۴- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، ، کلیات اقبال (اردو)، ص۹۷۔ ۱۵- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۴۔ ۱۶- ایضاً، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۵۴۔ ۱۷- سیروس شمیسا، بیان ، تہران، انتشارات فردوسی، طبع ششم ۱۳۷۶، ص۱۶۱۔ ۱۸- کزازی، بیان ، ص ۱۰۱۔ ۱۹- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۷۹۔ ۲۰- ایضاً، ص۱۵۱۔ ۲۱- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۸۲۔ ۲۲- سیروس شمیسا، بیان ، ص۱۵۸۔ ۲۳- کزازی، بیان ، ص ۱۰۳۔ ۲۴- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۲۵۔ ۲۵- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۵۳۔ ۲۶- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۰۰۔ ۲۷- سیروس شمیسا، بیان ، ص۱۵۸۔ ۲۸- کزازی، بیان ، ص ۱۰۴۔ ۲۹- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۵۰۔ ۳۰- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۰۷۔ ۳۱- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۳۵۔ ۳۲- ایضاً، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۰۔ ۳۳- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۶۔ ۳۴- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۲۲۔ ۳۵- کزازی، بیان ، ص ۱۰۴۔ ۳۶- عبدالحسین سعیدیان، دانش نامۂ ادبیات، تہران، انتشارات ابنِ سینا، طبع اول۱۳۵۳، ص ۱۲۔ ۳۷- علامہ محمد اقبال، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۳۔ ۳۸- ایضاً، ص۸۵۔ ۳۹- عبدالحسین سعیدیان، دانش نامۂ ادبیات، ص۱۲۔ ۴۰- کزازی، بیان ، ص ۱۰۷۔ ۴۱- سیروس شمیسا، بیان ، ص۱۹۴۔ ۴۲- کزازی، بیان ، ص ۱۰۸۔ ۴۳- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۱۴۔ ۴۴- ایضاً، ص۲۳۱۔ ۴۵- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۶۳۔ ۴۶- ایضاً، ص۱۸۲۔ ۴۷- ایضاً، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۷۔ ۴۸- ایضاً، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۸۵۔ ۴۹- ایضاً، ص ۲۰۰۔ ۵۰- ایضاً، ص۵۸۔ ۵۱- ایضاً، ص۱۲۸۔ ۵۲- ایضاً، ص ۱۲۳۔ ۵۳- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘ ، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۷۔ ۵۴- کزازی، بیان ، ص ۱۱۱۔ ۵۵- نجم الغنی، بحر الفصاحت ، ج ۲، ص ۸۲۳۔ ۵۶- علامہ محمد اقبال ، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۴۳۔ ۵۷- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘ ، کلیات اقبال (اردو)، ص۴۵۔ ۵۸- ایضاً، ص۱۰۱۔ ۵۹- ایضاً، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۳۱۔ ۶۰- محمد قلندر علی خان، بہارِ بلاغت، حصار، ۱۹۲۴ئ، ص ۵۰۔ ۶۱- سجاد بیگ مرزادہلوی، تسہیل البلاغت، دہلی، محبوب المطابع برقی پریس ۱۳۳۹ھ، ص ۱۵۲۔ ۶۲- کزازی، بیان ، ص ۱۱۳۔ ۶۳- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۴۵۔ ۶۴- ایضاً، ص۱۸۱۔ ۶۵- ایضاً، ص۲۱۳۔ ۶۶- ایضاً، ص۴۹۔ ۶۷- نجم الغنی، بحر الفصاحت ، ج ۲، ص ۸۲۷۔ ۶۸- علامہ محمد اقبال ، ’’بانگِ درا‘‘ ، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۸۸۔ ۶۹- ایضاً، ص۳۷۔ ۷۰- ایضاً، ص۸۶۔ ۷۱- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘ ، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۲۸۔ ۷۲- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۵۸۔ ۷۳- ایضاً، ص۱۶۳۔ ۷۴- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۸۵۔ ۷۵- ایضاً، ص۱۰۷۔ ۷۶- ایضاً، ’’بانگِ درا‘‘ ، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۸۵۔ ۷۷- ایضاً، ص۱۳۰۔ ۷۸- نجم الغنی، بحر الفصاحت ، ج ۲، ص ۸۳۲۔ ۷۹- کزازی، بیان ، ص ۱۱۹۔ ۸۰- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۲۹۔ ۸۱- ایضاً، ص۱۳۰۔ ۸۲- ایضاً، ص۱۸۲۔ ۸۳- ایضاً، ص۲۹۵۔ ۸۴- ایضاً،بالِ جبریل ، کلیات اقبال (اردو)، ص۸۶۔ ۸۵- کزازی، بیان ، ص ۱۱۹۔ ۸۶- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘ ، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۱۱۔ ۸۷- ایضاً، ص۱۱۲۔ ۸۸- ایضاً، ص۳۰۱۔ ۸۹- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۲۷۔ ۹۰- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۶۸۔ ۹۱- کزازی، بیان ، ص ۱۲۳۔ ۹۲- سیروس شمیسا، بیان، ص۱۷۱۔ ۹۳- نجم الغنی، بحر الفصاحت ، ج ۲، ص ۸۵۱۔ ۹۴- جلال الدین احمد جعفری زینبی، کنزالبلاغت، الہ آباد، مطبع انوار احمد، س ن، ص ۱۷۶۔ ۹۵- محمد قلندر علی خان، بہارِ بلاغت، ص ۵۷۔ ۹۶- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۹۹، ۱۰۰ ۹۷- ایضاً، ’’بالِ جبریل‘‘ ، کلیات اقبال (اردو)، ص۴۲۔ ۹۸- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۷۵۔ ۹۹- سیروس شمیسا، بیان ، ص۱۷۱۔ ۱۰۰- علامہ محمد اقبال، ’’بالِ جبریل‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۹۱۔ ۱۰۱- ایضاً، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۵۹۔ ۱۰۲- ایضاً، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۹۴۔ ۱۰۳- دیکھیے، بیان از سیروس شمیسا (ص ۱۷۸) اور بیان از کزازی (ص ۱۲۷)۔ ۱۰۴- سیروس شمیسا، بیان، ص۱۷۵۔ ۱۰۵- میمنت میر صادقی، واژہ نامۂ ہنرِ شاعری، تہران، کتاب مہناز، طبع دوم ۱۳۷۶، ص ۷۰۔ ۱۰۶- علامہ محمد اقبال، ’’بانگِ درا‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۲۳۔ ۱۰۷- ایضاً، ص ۲۶۸۔ ۱۰۸- ایضاً، ’’ارمغانِ حجاز‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۷۔ ۱۰۹- سیروس شمیسا، بیان، ص۱۸۲۔ ۱۱۰- نجم الغنی، بحر الفصاحت ، ج ۲، ص ۸۴۸۔ ۱۱۱- کزازی، بیان ، ص ۱۲۰۔ ۱۱۲- نجم الغنی، بحر الفصاحت ، ج ۲، ص ۸۴۸۔ ۱۱۳- علامہ محمد اقبال، ’’ضربِ کلیم‘‘، کلیات اقبال (اردو)، ص۱۶۹۔ ژ…ژ…ژ اقبال اور اُردو زبان ڈاکٹر سعیداختر درانی اُردو زبان اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ برصغیر کے بڑے بڑے شعرا اور ادیب اس سے وابستہ رہے۔ انھوں نے اپنے کلام نظم و نثر کے اظہار کا ذریعہ اس زبان کو بنایا۔ علامہ اقبال کی شاعری کی ابتدا بھی اُردو زبان ہی میں ہوئی۔ اقبال کا تعلق پنجاب سے ہونے کے ناتے اُن کی زبان پر بعض اعتراضات بھی اُٹھائے گئے۔ حاجی محمد خاں بی اے (علیگ) پہلے فرد ہیں جن کی تحریر میں اہل پنجاب کے اُسلوب پر تنقید کی گئی۔ بعدازاں دہلی و لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے حلقۂ ادبا نے اس بحث کو طول دیا اور اقبال کی صحت زبان بھی موردِ تنقید ٹھہری۔ اس مضمون میں اقبال کے حوالے سے اُٹھائی جانے والی اس بحث کو پیش کیا گیا ہے جس میں خود اقبال نے بھی اہلِ پنجاب کی زبانِ اُردو کے حوالے سے ایک مدلل مضمون قلم بند کیا۔ جناب حاجی محمد خاں۱؎ نے ’’پنجاب میں اُردو‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں پنجاب کے اُبھرتے ہوئے شعرا شیخ محمد اقبال اور خوشی محمد ناظر کی زبان پر کچھ اعتراضات کیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے لکھا: پنجابیوں کا طرز تحریر اور اندازِ بیان کچھ ایسا روکھا پھیکا ہوتا ہے کہ دل نشین نہیں ہوسکتا۔ سیدھے سادے بے تکلف طرز ادا کی جگہ بھدے اور اُلجھے ہوئے الفاط اور جُملے ملتے ہیں، جن سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ لکھنے والے کو زبان پر قدرت نہیں ہے… (اُن کی تحریروں میں) ہم کمزور، پھُس پھُسے اور بے ربط فقرے پاتے ہیں۔ محاورات کے بجائے فارسی، عربی لغت کی بوچھاڑ ہماری طبیعت کو بدمزہ کردیتی ہے۔ ’’میں نے پڑھنا ہے‘‘ اور ’’میں نے بی اے پاس کیا ہوا ہے‘‘ ہمارے کانوں کو بُرے معلوم ہوتے ہیں۔ غرض اہل پنجاب کی ایک بھی ایسی اُردو تصنیف نظر نہیں آتی، جسے کوئی اہلِ زبان پڑھ کر خوبیِ زبان کا قائل ہو۔ مجھے پنجاب کے اُردو لٹریچر کی یہ ناگوار صورت مطلق طمانیت بخش معلوم نہیں ہوتی۔۲؎ اِس مضمون کا چھپنا تھا کہ ہندوستان کی اُردو دنیا میں ایک سرے سے دوسرے تک گویا ایک بھونچال آگیا۔ اگلے چند ماہ میں پنجاب کی اور بالخصوص اقبال اور ناظر کی، اُردو زبان کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں موافق و مخالف آرا اور مضامین کا ایک طوفان آگیا۔ پنجاب مخالف آرا کے اُچھالنے والوں میں جناب حسرت موہانی (جنھوں نے جولائی ۱۹۰۳ء میں اپنے رسالے اُردوئے معلیّٰ کی بنیاد رکھی تھی)، جناب برج نارائن چکبست، ایک نقاب پوش نقاد بنام ’’تنقیدِ ہم درد‘‘ (جو غالباً حکیم برہم فتح پوری تھے)اور مدیرِ اودھ پنچ وغیرہ پیش پیش تھے۔ پنجاب اور اقبال و ناظر کے حامیوں میں سید ممتاز علی، مولانا الطاف حسین حالی، جناب اسلم جیراج پوری، جناب وجاہت صدیقی جھنجھانوی، گورنمنٹ کالج لاہور کے استاد مرزا محمد سعید دہلوی اور اُن کے علاوہ مولانا ظفر علی خاں (جو اُن دنوں حیدرآباد دکن میں ایک رسالے دکن ریویو کے ایڈیٹر تھے) اور جناب سید نذیر حسین نیرنگ انبالوی بالخصوص اہمیت رکھتے ہیں بلکہ خود شیخ محمد اقبال نے مخزن لاہور، اکتوبر ۱۹۰۳ء میں ایک بڑا مدلل اور محقق مضمون بہ عنوان: ’’اُردو زبان پنجاب میں‘‘شائع کیا۔۳؎ مولانا حالی نے ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور کو ایک تار کے ذریعے لکھا: اہل دہلی و لکھنؤ چاہیں جو کچھ کہیں، مگر ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ دہلی و لکھنؤ کے بجائے اُردو کا مرکز لاہور ہوجائے گا، جس طرح عربی، عرب سے نکل کر مصر و شام میں چلی گئی، اِسی طرح اُردو، دہلی و لکھنؤ سے نکل کر پنجاب میں آجائے گی۔۴؎ سید ممتاز علی صاحب (پ: سہارن پور، یوپی) نے تو یہاں تک لکھ دیا: سوائے چند مضامینِ خاص کے، جن کا تعلق خانہ داری اور تلقین و تربیت مادری سے ہے [ایک اور جگہ سیّد صاحب نے انھیں ’’سواے چکی چولہے کے چند الفاظ کے‘‘ لکھا ہے]، اور جن کا اِکتساب مستوراتِ اہل زبان کی سوسائٹی کے سوا ممکن نہیں، اور دیگر مضامین میں اہلِ پنجاب اُسی بے تکلفی اور سہولت سے اُردو زبان میں تصنیف و تالیف کرتے ہیں، جس طرح اہلِ زبان کرتے ہیں۔۵؎ انھی دنوں سیّد صاحب موصوف نے یہ بھی لکھا: مسٹر [طامس] آرنلڈ صاحب بہادر [پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور] اور شمس العلماء مولانا محمد شبلی کی انجمنِ ترقی اُردو کا چرچا آج کل تقریباً سب نامی اخباروں میں ہورہا ہے… [علی گڑھ، دہلی اور لکھنؤ پر غور کرنے کے بعد ، ہماری نظر میں] اُردو زبان کو ترقی دینے کی کوششوں کا مرکز بننے کے لیے بجز لاہور کے اور کوئی مقام زیادہ موزوں و مناسب معلوم نہیں ہوتا۔۶؎ ایسے بِدعت آمیز (Heretical) الفاظ کا شائع ہونا تھا کہ اُردو کی جنم بھومی، یا کم سے کم ٹکسالی، شہروں اور صوبوں کی رگِ عصبیت جوشِ خون سے پھٹنے کے قریب جاپہنچی اور وہاں کے باسیوں نے سوچا کہ ارے، کل تک تو یہ زبان خاص ہماری مِلکیت اور ایجاد اور پہچان تھی۔ یکایک یہ چھُٹ بھیئے (Johnny-come-lately) پنجابی کہاں سے اس کے دعوے دار بن کر آٹپکے ہیں؟ بلکہ وہاں کے بعض نعرہ بازوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ایسی بھونڈی اور غلط سلَط زبان کے لکھنے اور بولنے سے تو یہی بہتر ہے کہ پنجاب والے اُردو زبان کا لکھنا پڑھنا ہی ترک کردیں۔ یعنی ’’کہاں گنگا جمنا کا پوِتر جل، اور کہاں یہ راوی کا گدلا پانی۔‘‘ یہاں اقبال کی زبان پر اعتراض کرنے والوں کے چند جملے نقل کیے جاتے ہیں جو اس سلسلہ بحث کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہیں: ۱- پنڈت برج نارائن چکبست لکھنوی ’’کلامِ اقبال‘‘ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہوئے: نومبر ۱۹۰۳ء کے مخزن میں شیخ محمد اقبال صاحب ایم، اے کا ایک قصیدہ نواب بہاولپور کے جشنِ تاج پوشی کی تہنیت میں شائع ہوا ہے۔ اڈیٹر مخزن نے اس قصیدہ کو حضرتِ اقبال کی ’’طبع خداداد‘‘ کے زور کا اعلیٰ نمونہ مانا ہے۔ پنجاب کے اور اخباروں نے بھی اس کی تعریف میں دریا بہادیے ہیں، لیکن اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو …اس میں ایسی لغزشیں موجود ہیں جن سے کہ مصنف کا عِجز ثابت ہوتا ہے۔۷؎ اس کے بعد حضرتِ چکبست نے اقبال کے خاص خاص شعروں پر حرف گیری کی ہے، اگرچہ چند اشعار کی تحسین بھی کی ہے۔ ۲- ’’تنقیدِ ہمدرد‘‘ (فتح پور ہنسوہ کے حکیم عبدالکریم برہم؟) ’’اُردو کے نادان دوست‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں: رہا پشاور اور لاہور کی زبان کا معاملہ، سو، اگر وہاں کے لوگ اپنی کمزوریِ زبان کی اصلاح کے بجاے خواہ مخواہ اس کی خوبی پر اصرار کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک اس پر بھی صحیح اُردو کا اِطلاق کسی طرح پر نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے کہ اس قسم کی اُردو کا استعمال طوعاً و کرہاً نثر میں جائز بھی سمجھ لیا جائے، لیکن نظمِ اُردو ہمیشہ اس قسم کی آمیزش سے پاک رہی ہے، اور اب بھی رہے گی۔ اُسے رہنا چاہیے۔۸؎ آگے چل کر وہ فرماتے ہیں: پس اگر اہلِ پنجاب میں سے کسی کو استادی کا دعویٰ ہو، اور ساتھ ہی وہ ذوقِ [سلیم] بھی اپنے ساتھ لایا ہو تو بے شک اُسے انگریزی محاوروں کے ترجموں کا حق حاصل ہے۔ ورنہ … اِسی قسم کے بیسیوں جُملے جو پنجابی اخباروں اور وہاں کے معزز رسالوں میں شائع ہوا کرتے ہیں، ان کی اس کے سوا اور کیا وُقعت ہوسکتی ہے کہ وہ حقارت کی نظر سے دیکھے جائیں، اور زبان دانانِ دہلی و لکھنؤ اُن کو ٹھوکر لگاکر اُردو کے دائرے سے خارج کردیں…۹؎ ۳- مولانا سیّد فضل الحسن حسرت موہانی ’’تنقیدِ مخزن‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ماہِ اگست [۱۹۰۴ئ] سے اِس رسالے [مخزن] کی ظاہری حیثیت میں کچھ ترقی ہوئی ہے، لیکن افسوس کہ زبان کے معاملے میں اس کی حالت ہنوز ابتر ہے۔ چنانچہ اگست کے پرچے کو سرسری طور پر دیکھنے سے مفصلہ [ذیل] غلطیاں نظر سے گزریں…۱۰؎ آخر میں تحریر کرتے ہیں: ہم نے دانستہ اِس قسم کی غلطیاں زیادہ تر چھانٹی ہیں جو پنجاب کے تمام اخباروں اور رسالوں میں یکساں نظرآتی ہیں۔ اس بار ہم نے صرف ان غلطیوں کو معمولی صورت میں پیش کیا ہے۔ آئندہ اِ ن شاء اللہ تعالیٰ ان کی بابت مفصل اور مدلل طور پر کچھ لکھیں گے۔۱۱؎ پھر جنابِ حسرت نے تحریر فرمایا: حضرتِ اقبال کی نظمیں روز بروز زبان کے لحاظ سے صاف ہوتی جاتی ہیں۔ کاش کہ جیسی توجہ اور احتیاط وہ نظم میں کرتے ہیں، ویسی ہی نثر میں بھی کرتے۔ کیونکہ ہم افسوس کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اِسی پرچے (مخزن لاہور، اکتوبر ۱۹۰۴ئ) میں اُن کے لکچر موسوم بہ ’’قومی زندگی‘‘ میں بہت سے اغلاط موجود ہیں۔۱۲؎ اس کے بعد جنابِ حسرت موہانی نے شیخ محمد اقبال صاحب کے مضمون پر کافی پھُس پھُسے، بلکہ ناروا اعتراضات کیے ہیں۔ مثلاً اقبال نے قلم کو ’’کاٹھ کی تلوار‘‘ کہا تو جنابِ حسرت نے لکھا کہ ’’قلم کو کاٹھ کی تلوار‘‘ کہنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ اقبال نے لکھا: ’’شرائط تبدیل ہوتی گئیں۔‘‘ جناب موہانی: ’’یہاں ہوتے گئے‘‘ چاہیے‘‘ (راقم الحروف کے خیال میں یہ دقیانوسی اعتراض ہے) ہاں اسی مضمون میں جنابِ حسرت نے مولانا شاد، اور ایک اور مضمون میں فصیح الملک حضرتِ داغ دہلوی کی زبان پر بھی حرف گیری کی ہے۔ انھی باتوں کے پیشِ نظر مجھے کہنا پڑا: ناوک انداز جدھر حسرتِ موہاں ہوں گے نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے اب ۰۴،۱۹۰۳ کے ہندوستان گیر مناقشے میں اُن اساتذہ کی شائع کردہ تحریروں میں سے چند منتخب جُملے پیش کیے جاتے ہیں جنھوں نے پنجاب اور پنجابیوں کی اُردو، یا اقبال کی زبان کی حمایت و تائید کی۔ ۱- خواجہ الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی اوپر مولانا حالی کے اس تار کا ذکر آچکا ہے، جس میں انھوں نے منشی محبوب عالم، اڈیٹر پیسہ اخبار لاہور کو لکھا کہ ’’…ایک دن آنے والا ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کے بجائے اُردو کا مرکز لاہور ہوجائے گا…‘‘ مَیں نے کہیں پڑھا ہے کہ مولانا شبلی نعمانی نے بھی اقبال کی حمایت میں اُن دِنوں کوئی بیان دیا۔ وہ بیان تو مجھے نہیں ملا، لیکن اُسی سال (۱۹۰۳ئ) میں شائع شُدہ اقبال کی تصنیف علم الاقتصاد کے دیباچے میں شیخ صاحب نے لکھا تھا کہ: ’’…اِس کے علاوہ مخدوم و مکرم جنابِ قبلہ مولانا شبلی نعمانی مدظلہ بھی میرے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابل قدر اصلاح دی۔‘‘ ۲- مولانا اسلم جیراج پوری (پروفیسر، علی گڑھ کالج) اب اِن شہروں میں، مثلاً: میرٹھ، آگرہ، مراد آباد، رام پور، بھوپال، بریلی، جون پور، اٹاوہ، کان پور وغیرہ وغیرہ میں اِس [یعنی اُردو] کا رواج ایسا ہی ہے جیسا دہلی یا لکھنؤ میں۔ اِن شہروں کے باشندوں کی ملکی، قومی، مادری، ذاتی زبان، غرض جو کہیے، وہ اُردو ہے۔ …پھر کیا وجہ ہے کہ صرف دہلی اور لکھنؤ والے اہلِ زبان ہوں اور اِن [دوسرے] مقامات کے لوگ اہلِ زبان تسلیم نہ کیے جائیں؟ …کیا [یہ] انصاف کا خون نہیں ہے کہ دہلی یا لکھنؤ والے اپنے کلام کو مستند سمجھیں، اور دوسرے مقامات کے جو نامی زبان دان ہیں اُن کا کلام غیر مستند ہو؟…۱۳؎ اس کے بعد، بڑی کشادہ دلی کے ساتھ مولانا اسلم جیراج پوری نے یہاں تک کہہ دیا کہ: …اِن حضرات نے جن کو اہل زبان ہونے کا دعویٰ ہے، زبان کی بہت کم خدمت کی ہے، بلکہ اِن سے تو اِس بابت پنجابی کہیں بہتر ہیں جو اِس کی اشاعت کی رات دن کوشش کرتے ہیں…۔۱۴؎ مزید: اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ہر ایک شخص جو معقولیت کے ساتھ ترقی زبان میں کوشاں ہے اور مدت سے اس کے یہاں اُردو بولی جاتی ہے، وہ یقینا اہلِ زبان ہے اور بے شک مستند ہے۔ اگر اَور زبانوں کو دیکھا جائے تو اُن میں بھی یہی بات ہے…۱۵؎ ۳- وجاہت علی صدیقی جھنجھانوی نے بھی اس بحث کا کُشادہ دِل سے جائزہ لیتے ہوئے، مدیر مجلہ تالیف و اشاعت لاہور کے نام ایک مراسلے میں تحریر کیا: …جو ملک [یعنی دہلی و صوبہ جات متحدہ] اُردو زبان کا ماوا و ملجا مشہور ہے، اُس کی کتابیں عام طور پر علمی مذاق اور تہذیب و شائستگی کی چاشنی سے بالکل خالی رہتی ہیں، اور اُن سے زمانے کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوتی… [چنانچہ حالات حاضرہ کے بارے میں کوئی ]کتاب اگر اہل زبان کے ہاں موجود نہ نکلے گی تو مجبوراً اُس [شخص] کو اہلِ پنجاب سے درخواست کرنی پڑے گی۔ اب اگر اس کتاب کا شائق کوئی شخص ایسا ہے جو مضامین کے ساتھ ساتھ زبان و محاوراتِ اُردو کے متعلق بھی تنقید و تحقیق سے کام لیتا ہے۔ تو وہ اِس کتاب کو پڑھتے وقت بہت کچھ ناک بھوں چڑھائے گا اور ایک پنجابی کی تصنیف کردہ کتاب میں اُس کو بہت سے عیوب و اسقام دکھائی دیں گے، مگر جب اہلِ زبان کے پاس اِس مضمون کی کوئی کتاب ہی نہیں تو اُس کو اوّل سے آخر تک جبراً قہراً اِسی کتاب کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اور پنجابی مصنف کو صلواتیں بھی بہت کچھ سُنائی جائیں گی، مگر اِس تمام شورا شوری کا یہ نتیجہ ہوگا کہ اس کتاب کے بعض پنجابی محاورے کتاب پڑھنے والے کے دل و دماغ میں غیر معمولی طور پر ضرور جگہ کرلیں گے اور اگر پنجابیوں کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ اِسی طرح روز افزوں ترقی کرتا رہا تو پنجابی زبان اُردو میں ایک معقول تعداد کی حصہ دار بن جائے گی [خدا نخواستہ!]، کیونکہ علمی میدان میں اہل زبان کے گھوڑے تو دوڑ چکے۔ اُن کی رفتار سُست ہوگئی ہے اور اہلِ پنجاب نے جدید علمی تصانیف کا تار باندھ رکھا ہے۔ پس یہ ضروری بات ہے کہ اہلِ پنجاب کی تصنیفات اہلِ زبان سے زیادہ ملک میں اشاعت پذیر ہوں گی اور اُن کے بعض پنجابی محاورات و تلفظ اُردو زبان کے جزوِ لاینفک بن جائیں گے…۱۶؎ اس ضمن میں جنابِ اقبال کے ایک طویل مقالے بعنوان ’’اُردو زبان پنجاب میں‘‘ سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے: …اور کیا تعجب ہے کہ کبھی تمام ملکِ ہندوستان اِس [زبانِ اُردو] کے زیرِ نگیں ہو جائے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رِواج ہو، وہاں کے لوگوں کا طریقِ معاشرت، اُن کے تمدنی حالات، اور اُن کا طرزِ بیان اس پر اثر کیے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ ایک مسلّم اُصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے۔ اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اِس اُصول کے عمل کو روک سکے۔ تعجب ہے کہ میز، کمرہ، کچہری [شاید کورٹ، یا گرجا، ہونا چاہیے] نیلام وغیرہ۔ اور فارسی اور انگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے کو بلاتکلف استعمال کرو۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی اُردو تحریر میں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ، یا کوئی پُر معنی پنجابی لفظ، استعمال کرے تو اُس کو کُفر و شرک کا مرتکِب سمجھو! اور باتوں میں اختلاف ہو تو ہو، مگر یہ مذہبِ منصور ہے کہ اُردو کی چھوٹی بہن یعنی پنجابی کا کوئی لفظ اُردو میں گھُسنے نہ پائے! یہ قید ایک ایسی قید ہے جو علمِ زبان کے اُصولوں کی صریح مخالف ہے۔ اور جس کا قائم و محفوظ رکھنا کسی فردِ بشر کے امکان میں نہیں ہے…۱۷؎ ۴۔ اس مناقشے میں حصہ لینے والوں میں ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جاتا ہے جو ایک جید عالمِ اُردو و انگریزی تھے، یعنی مرزا محمد سعید صاحب دہلوی۔ یاد رہے کہ مرزا صاحب موصوف گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے استاد تھے۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ برطانوی حکومت کے زمانۂ عروج، بلکہ بوقتِ نصف النہار، خود انگریزوں کے قائم کردہ، اور ہندوستان کے سب سے بڑے اور اہم ترین کالج میں ایک ہندوستانی شخص کا استادِ انگریزی ہونا کس پاے کی بات تھی! مرزا محمد سعید دہلوی کے مضمون ’’زبانِ اُردو کی اصلاح‘‘ میں سے ایک اقتباس یہاں درج کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: دہلی اور لکھنؤ والوں کی آپس کی رقابت سے جو نقصان اُردو زبان و ادب کو پہنچ رہا ہے وہ سب پر واضح ہے… تعصب تو دونوں ہی میں ہے۔ لیکن لکھنؤ والوں نے ہمیشہ سے ان معاملات میں زیادہ تنگ خیالی ظاہر کی ہے اور کچھ مدت سے تو دلّی والے بیچارے نسبتاً خاموش ہیں اور منہ زوریاں زیادہ تر لکھنؤ والے ہی کرتے ہیں… یہ تو ظاہر ہے کہ اس قسم کی حَیث بَیث [حَیص بَیص] میں کوئی سچی علمی ترقی نہیں ہوسکتی… اِس طرح زبان کی محافظت بھی نہیں ہوسکتی۔ خصوصاً اِس صورت میں کہ ملک کے بعض اور حِصوں مثلاً حیدرآباد اور پنجاب میں بکثرت اُردو کتابیں شائع ہورہی ہیں جن کی زبان نہ دہلی والوں کے نزدیک مستند ہے، نہ لکھنؤ والوں کے۔ یہ کتابیں ملک کے ادب میں دائمی حصہ لیں گی اور آخر کار تمام ملک میں ایک مخلوط زبان (جو ممکن ہے مکروہ بھی ہو) پھیل جائے گی۔ اور دلّی و لکھنؤ والوں کا سب زبان دانی کا فخر جاتا رہے گا…۱۸؎ اپنے مراسلے کے آخر میں مرزا صاحب نے ایک بڑی اہم تجویز اِن الفاظ میں پیش کی: …اس کو روکنے کی ایک ہی ترکیب ہے کہ ملک کے ادیبوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو اُردو زبان کے محاورات و قواعد کو ترتیب دے اور زبان کی درستی کا ایک معیار قرار دے۔ آیندہ تمام تصانیف کی زبان اِسی مقررہ معیار کے مطابق ہو۔ اِس کمیٹی کے ممبروں کی تعداد محدود و معین ہو۔ اور اس کے اراکین میں نصف زبانِ دہلی کے حامی ہوں اور نصف زبان لکھنؤ کے۔ مختلف فیہ الفاظ اور محاورات میں بحث کی جائے اور اِن میں سے بعض لکھنؤ کے اختیار کرلیے جائیں اور بعض دہلی کے۔ اختیار کرنے میں فصاحت کو درستی کا معیار قرار دیا جائے اور تعصب کو چھوڑ کر انصاف سے کام لیا جائے۔ یہ کمیٹی ایک مستقل صورت اختیار کرے اور زبانِ اُردو کی قسمت کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا جائے کہ دہلی اور لکھنؤ کے ممبروں کی تعداد مساوی ہو۔ اگر اس قسم کی کمیٹی تجویز کی جائے تو مندرجہ ذیل اصحاب زبانِ دہلی کی حمایت کرنے والوں میں ضرور شامل کیے جائیں: (۱)شمس العلما مولوی نذیر احمد صاحب ایل ایل ڈی۔ (۲)شمس العلما مولوی محمد ضیاء الدین صاحب ایل ایل ڈی۔ (۳)شمس العلما مولوی وفاء اللہ صاحب۔ (۴)فصیح الملک نواب میرزا داغ۔ (۵)مولوی الطاف حسین صاحب حالی۔ (۶)مولوی سیّد احمد صاحب مصنف فرہنگِ آصفیہ (۷) شیخ عبدالقادر صاحب ایڈیٹر مخزن کیونکہ پنجابی بالعموم محاورہ کے بارے میں دہلی والوں ہی کی تقلید کی کوشش کرتے ہیں۔ اور پھر خصوصاً شیخ صاحب کی زبان تو مستند ہے۔ اِسی طرح لکھنؤ سے بھی آٹھ ادیب منتخب کرلیے جائیں جن میں اڈیٹر اودھ پنچ، اڈیٹر اُردوئے معلّی، تنقیدِ ہمدرد۱۹؎ اور حاجی محمد خاں صاحب۲۰؎ ضرور شامل ہونے چاہییں۔۲۱؎ مرزا صاحب نے آخر میں فرمایا کہ: ’’یہ تجویز قابلِ عمل ہے کیونکہ فرانس کی مشہورِ آفاق فرنچ اکیڈیمی [Academie Francaise] انھی اُصولوں پر اور انھی مقاصد کی تکمیل کے لیے قائم کی گئی تھی، اور وہ ۱۶۳۶ء سے لے کر آج تک اس کام کو بخوبی سرانجام دیتی رہی ہے۔‘‘۲۲؎ مرزا صاحب موصوف نے بے خبری میں اپنی مجوزہ کمیٹی میں لکھنؤ کی جانب سے جس شخص کو نامزد کیا وہ جناب حاجی محمد خاں تھے جو ٹھیٹھ پنجابی اور موضع جلال پور جٹاں کے باسی تھے۔ مرزا صاحب کو یہ مغالطہ اس لیے لاحق ہوا کہ حاجی محمد خاں صاحب نے اپنے مضمون میں یہ لکھا تھا کہ ایسے پنجابی محاوروں سے ہمارے کان دُکھتے ہیں۔حاجی صاحب کے نام کے آگے بی اے، اور مدرسۃ العلوم علی گڑھ بھی لکھا ہوا تھا اور مجھے بچپن ہی سے یہ معلوم تھا کہ وہ علی گڑھ میں جناب فضل الحسن حسرت موہانی کے یارِ غار تھے، جنھوں نے اُسی زمانے میں علی گڑھ سے اُردوئے معلیّٰ کے نام سے ایک مجلہ شائع کرنا شروع کیا تھا۲۳؎ اور چونکہ جنابِ حسرت زبان کے معاملے میں بہت کٹر تھے۔ بلکہ انھوں نے اپنے مضامین میں مرزا غالب، حضرتِ میر تقی میر، اور حکیم مومن خان مومن کی زبان پر بھی حرف گیری کی ہے، جو اکثر اوقات کٹھ ملّائیت کی حدوں کو چھُو لیتی ہے، اِس لیے جنابِ حسرت کی نکتہ چینیوں کا اُن کے یارِ غار جناب حاجی محمد خاں پر اثر انداز ہونا ایک فطری امر تھا۔ حاجی محمد خاں مرحوم نے علی گڑھ منتھلی جون ۱۹۰۳ء میں شیخ محمد اقبال [جن کی شاعری کا یہ ابتدائی زمانہ تھا] کی زبان کی چند کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا تھا، لیکن اِس کے چند ہی ماہ بعد انھوں نے ایک بڑا عالمانہ مضمون ’’اُردو ادب میں فنِ تنقید کی کمی‘‘ کے عنوان سے شائع کیا، جس میں انھوں نے بڑی بالغ نظری اور وسعتِ مطالعہ کا ثبوت دیتے ہوئے اُس وقت کی اُردو نثر اور نظم کا یورپی زبانوں کے ادب کے تناظر میں جائزہ لیا۔ اِس مضمون کی ایک نقل جناب پروفیسر اکبر حیدری کشمیری سے دستیاب ہوئی ہے۔ اس مضمون میں حاجی محمد خاں مرحوم نے ضِمناً اقبال کی شاعری کے محاسن کے بارے میں بڑی دُور بینی اور نکتہ شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے بڑے تعریفی کلمات تحریر کیے۔ اس مضمون کے چند اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: مخزن نے اپنی پیدائش کے ساتھ ہی [یعنی ۱۹۰۱ء میں] اقبال کو منتظِر نظروں کے سامنے لاکھڑا کردیا۔ اُس نے آتے ہی ایشیا کے اصلی شاعرانہ خیالات کو مغربی اُسلوب بیان میں کچھ اِس طرح ادا کیا کہ سب عَش عَش کر اُٹھے۔ کہیں تصوف کی گُتھیاں سُلجھائیں، کہیں فطرت کی ظاہر صورت سے اُس کارازِ نہاں آشکار کیا۔ تخیل کی نگاہ جس چیز پر ڈالی اُسے بالکل نئی اور پہلے سے بڑھ کر پیاری صورت عطا کردی۔ تاثیر کی یہ کیفیت کہ اکثر ایک ایک مصرع ، ایک ایک لفظ، شاعر کی گُلخنِ طبع کا شرارہ معلوم ہوتا ہے۔ سالیکہ نکُوست از بہارش پیداست۔ اقبال کی شاعری میں ابھی سے وہ باتیں پائی جاتی ہیں جن سے اُن کی طرز کی دائمی مقبولیت کا پتا چلتا ہے۔ شعراے اُردو کی لمبی فہرست میں ایک مرزا غالب ہی ایسے شاعر ہیں جن کے کلام کو بلحاظِ جذبات و محسوسات کلامِ اقبال پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ اس لیے کچھ بے جا نہ ہوگا کہ ہم اقبال کو مرزا کا شاگردِ روحانی قرار دیں۔۲۴؎ لیکن اِس کے بعد قابل مصنف بڑی غیر جانبداری اور ژرف بینی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ: کلامِ اقبال پر جائز اعتراض بھی ہوسکتے ہیں۔ اکثر اُن کی مشکل پسندی کے سامنے غالب کی مشکل پسندی سہل معلوم ہوتی ہے۔ اِسی طرح بعض اوقات اِستعاروں اور تشبیہوں کی اعتدال سے بڑھ کر بھرتی اُن کے اشعار کو معما یا چیستان بنادیتی ہے… کہیں کہیں زبان کی غلطیاں بھی اہلِ زبان کی نظر میں کھٹکتی ہیں۔ کبھی کبھی مضمون کی چستی کے مقابلے میں طرزِ بیان پھُسپھسا معلوم ہوتا ہے اور یہ زبان پر پوری قدرت نہ ہونے کا لازمی نتیجہ ہے۔۲۵؎ اقبال کی شاعری کے دورِ اوّل ہی میں، کہ اقبال کو ہندوستان کے منظر پر آئے ابھی تین چار سال کا عرصہ ہوا تھا، حاجی محمد خاں کا اِتنی دُور رَس اور نکتہ شناس نگاہوں سے اُس کی شہرتِ دوام کو بھانپ لینا، اور نقدو نظر کی کڑی، مگر متوازِن، ترازو میں اُس کی خوبیوں اور کمزوریوں کو تول لینا، بہت ہی قابلِ تعریف ہے۔ یہ انتقاد غالباً کلامِ اقبال کی اوّلین (Earliest) قدر گیریوں (Evaluations) میں سے ایک ہے اور اِس نوجوان نقاد کے لیے (جب کہ اس کی اپنی عمر چوبیس برس کے قریب تھی، اور اُس کے موضوع، یعنی اقبال، کی عمر ۲۷ برس کے لگ بھگ تھی) قابلِ صد ناز ہے۔ افسوس کہ یہ ہونہار نقاد زیادہ دیر زندہ نہ رہا اور اکتوبر ۱۹۱۸ء میں اڑتیس (۳۸) برس کی عمر پاکر اِس جہان سے گزر گیا۔ ع آہ یہ دنیا، یہ ماتم خانۂ برنا و پیر ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- حاجی محمد خاں بی اے (علیگ) راقم [سعید اختر درانی] کے نانا تھے(جلال پور جٹاں ضلع گجرات، پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے ۱۹۰۳ء میں بی اے کیا۔ بہ صیغۂ ملازمت، وہ صوبہ جات متحدہ (یوپی) کے مختلف شہروں (لکھنؤ، میرٹھ، سروہنہ اور ہاپڑ وغیرہ) میں محکمہ زراعت کے انسپکٹر رہے۔ عین عنفوانِ شباب (۳۸ برس کی عمر) میں، وہ ۳۱؍اکتوبر۱۹۳۸ء کو انفلوئنزا کی عالمگیر وبا میں فوت ہوگئے۔ ان کے مفصل کوائفِ حیات میں نے اپنے سلسلۂ مضامین (مجلہ حکیم الامت سری نگر، مئی تا نومبر ۲۰۰۷ئ) میں بیان کیے ہیں، جن میں سے بہت سے میرے والد مرحوم جناب عنایت اللہ خان درانی (جو گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اور پیشے کے لحاظ سے جج تھے) کے سوانح عمری (memoirs) سے اخذ کیے گئے تھے۔ ۲- علی گڑھ منتھلی، جون ۱۹۰۳ئ۔ ۳- یہ مضمون مقالاتِ اقبال (مرتب :سیّد عبدالواحد معینی) آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۶۳ئ، میں شامل ہے۔ ۴- بحوالہ: اقبال کی صحت زبان (مرتب: اکبر حیدری کشمیری)، نصرت پبلشرز ۱۹۹۸ئ۔ ۵- پندرہ روزہ تالیف و اشاعت لاہور، یکم جولائی ۱۹۰۳ئ، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۶- ایضاً، یکم جون ۱۹۰۳ئ، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۷- اُردوے معلیّٰ، اپریل ۱۹۰۴ئ، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۸- ایضاً، یکم اکتوبر ۱۹۰۳، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۹- ایضاً۔ ۱۰- ایضاً، ستمبر ۱۹۰۴، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۱۱- ایضاً۔ ۱۲- اُردوئے معلّٰی، نومبر ۱۹۰۴ئ، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۱۳- تالیف و اشاعت، ۱۵؍اپریل ۱۹۰۴ئ، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۱۴- ایضاً۔ ۱۵- ایضاً۔ ۱۶- ایضاً، یکم دسمبر ۱۹۰۳ئ، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۱۷- مخزن لاہور، اکتوبر ۱۹۰۳، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۱۸- تالیف و اشاعت لاہور، ستمبر ۱۹۰۳، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۱۹- یعنی غالباً حکیم برہم فتح پوری۔ ۲۰- یعنی حاجی محمد خاں صاحب جنھوں نے اس تمام مباحثے اور مناقشے کا خدنگِ اولین صادر کیا تھا۔ ۲۱- تالیف و اشاعت لاہور، ستمبر ۱۹۰۳، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۲۲- ایضاً۔ ۲۳- جلال پور جٹاں میں ہمارے آبائی مکان کے اندر ایک کتب خانہ بھی تھا، جس میں مخزن، علی گڑھ منتھلی، اور اُردوئے معلیّٰ کے بہت سے رسالے بھی محفوظ تھے۔ جو میں زمانۂ طالبِ علمی میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا اور جن میں میرے مرحوم نانا کے چند مطبوعہ مضامین بھی تھے۔ بالخصوص مخزن لاہور میں۔ اگرچہ اِن رسالوں میں نانا مرحوم کا وہ مضمون میری نظر سے نہیں گزرا تھا جس میں انھوں نے پنجاب کی اور اقبال کی محاورے کی غلطیوں پر گرفت کی تھی۔ ۲۴- علی گڑھ منتھلی، فروری ۱۹۰۴، بحوالہ: اقبال کی صحتِ زبان۔ ۲۵- ایضاً… اس اقتباس کے آخری ۳،۴ جملوں کے پیشِ نظر مرزا محمد سعید دہلوی کا جناب حاجی محمد خاں کو لکھنوی، یا کم سے کم اہلِ زبان، سمجھنا قابلِ تعجب نہ ہوگا۔ ئ……ئ……ء اقبال اور معراج النبی ا محمد شفیع بلوچ معراج رسولِ اکرمؐ کے مشاہدہ ملکوتِ ارض و سما کا نام ہے۔ اس کے حیات بخش بیسیوں پہلو ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے اس سے جو لطیف نکتہ اخذ کیا ہے وہ بھی حیات آفریں ہے۔ علامہ کے نزدیک معراج ، زندگی کے حرکی اصول اور تسخیر جہات کا پیغام ہے جو آنحضرت نے اپنی امت کو دیا۔ معراج کے اس روح پرور تصور کا نتیجہ ہے کہ اقبال نے جاوید نامہ میں مشاہیر عالم کی ارواح سے مکالمے کے ذریعے زندگی کے حقائق و معارف اور اسرار و رموز سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ جاوید نامہ معراج کے اسرار کی نئی تعبیر ہے۔ علامہ نے عام اشعار میں بھی جہاں جہاں معراج کا ذکر کیا ہے وہاں معراج مصطفویؐ کو عام صعودِ روحانی یا نفسی سے مختلف، منفرد، بلند تر اور خاص الخاص تجربہ یا واقعہ قرار دیا ہے۔ مقصود ان کا یہی ہے کہ اپنے اندر ولولۂ شوق پیدا کر لیا جائے تو تمام منزلیں طے ہو سکتی ہیں۔ واقعۂ اسرا و معراج کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کو ملکوت السمٰوٰت والارض یعنی اس کائنات کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایااور ایسا عظیم تجربہ کسی دیگر نبی ورسول کو نہیں کرایا گیا۔ معراج گویا نفسِ انسانی کا انتہائی نقطۂ عروج اور کامل انسانیت کا آخری درجہ ہے۔ یہ بقولِ شخصے، کمالِ معجزات ہے اور تسخیرِ کائنات کے بند دروازوں کو کھولنے کی ابتدا ہے۔ یہ جلال و جمال اور حسن و شق کا قران السعدین ہے۔ یہ عظیم اور اعلیٰ وارفع تجربہ اپنے بطون میں کئی پرتَو لیے ہوئے ہے جس کی اپنے اپنے فکروفلسفہ کے مطابق متعدد تفاسیر و توجیہات کی گئیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کی کتب میں بھی اگرچہ سیرافلاک اور روحانی مکشوفات پر مشتمل مجمل لٹریچر ملتا ہے جو مکمل اور بھرپور نہ ہونے کی وجہ سے درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ معراج یا اس سے ملتا جلتا تجربہ ان مذاہب میں وہ حیثیت اختیار نہ کرسکا جس طرح کہ اسلام کی تمدنی اور تخیلی تاریخ میں اسے حاصل ہے۔ اسلام میں معراج کے واقعہ کو ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ مسلمانوں کے جذباتی اور نفسیاتی مزاج کا اس واقعہ سے گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ معراج کا عقیدہ مسلمانوں میں نہ صرف بنیادی حیثیت رکھتا ہے بلکہ جزوِ ایمان بھی ہے۔ معراج کے اس تجربہ کا مذہبی اور عملی پہلو تو وہی ہے جس کی طرف سورہ بنی اسرائیل اور سورہ والنجم کی چند آیات کے مطابق تجلیِ ذات کے مشاہدہ کے الفاظ میں اشارہ ہوتا ہے۔ حقائق و معارف اور اسرارورموز سے لبریز وہ سرمدی تجربات جو حضوراکو معراج کے وسیلے سے حاصل ہوئے، ان کے اظہار وامثال کے سلسلے میں عالم ادب خاموش ہے چنانچہ اس سلسلے میں احادیث و روایات پر انحصار ازبس ضروری ہے۔ فکری اور فنی حوالے سے اگر ہم مشرق و مغرب کے ان تخلیقی فن پاروں پر نظر ڈالیں جو حقیقتِ اولیٰ اور جہانِ دیگر کی بازدید اور بازیافت پر مشتمل ہیں تو وہ ہمیں جاودانی اور سرمدی نقوش لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے قدیم تصنیف سور میری اسطورہ کی کتاب اننا کا سفرِ ظلمات ہے جس میں آسمان کی ملکہ ’’اننا‘‘ ظلمات (عالم اسفل) کا سفر کرتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادھر ہر ارضی انسان نے آسمان کی جانب عروج کیا۔ آخر ’’آسمانی مخلوق‘‘ کو زمینی سفر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ بھی عالم اسفل کا؟ شاید اس لیے کہ عربی روایات کے مطابق زمین، افلاک کے تابع ہے۔ ابن البطریق سے ابن رشد تک سب نے زمین پر تاثیر افلاک کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کے مطابق ’’دنیائے زیریںدنیائے بالا کے تابع ہے اور دنیائے زیریں کے اجسام منفرداً دنیائے بالا کے اجسام کے حکم کے تابع ہیں، کیونکہ ہوا ادھر ظاہرِ اجسام ارضی سے اور ادھر افلاک سے متصل ہے۔‘‘ چنانچہ اس لحاظ سے اننا کا سفرِ ظلمات ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔ تیسری صدی عیسوی کے ایران کے زردشتی موبد اور مذہبی رہنما ’’اردای ویروف‘‘ کی ویروف نامہ کو بھی فنی نوعیت کی قدیم رویائی تصنیف کہاجاتا ہے، لیکن اس کے مستند ہونے میں شبہ ہے۔ یہ چھ سات سوسال بعد ہندوستان کے کسی پارسی معبد سے دستیاب ہوئی۔ اس میں کئی باتیں معراج نبوی اسے ملتی جلتی ہیں اور گمان غالب ہے کہ یہ کتاب معراج النبی اکے واقعہ کے برسوں بعد تصنیف ہوئی ہے۔ یہ کوئی وجدانی یا عرفانی تصنیف نہیں بلکہ ایک خیالی روداد ہے جسے ہم فنی یا ادبی نوعیت کی تخلیق کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد اس نوعیت کی تخلیق ہونے والی داستانوں میں بظاہر کوئی گہری معنویت نظر نہیں آتی تاہم وہ حکمت، معنویت، رمزیت اور تمثیلیت سے خالی بھی نہیں۔ عموماً یہ سب کچھ زیریں سطح پر ہوتا ہے۔ ان داستانوں میں خدا، کائنات اور انسان کے باہمی ربط کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان کی ساخت میں افلاک، سیارگان، نجوم اور دیگر مظاہر ایک عظیم وحدت میں پروئے ہوئے نظرآتے ہیں اور اس وحدت کو کونیات (Cosmology) کے حوالے سے مابعدالطبیعیاتی رموز و علائم میں بیان کیا گیا ہے۔ حئی بن یقظان اور بوستان خیال اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ مغربی ادب میں فنی نوعیت کی نمایندہ تصنیف دانتے کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔ دانتے ایک کٹر عیسائی عقیدہ رکھنے والا فلسفی شاعر تھا۔ اس کے معراجی تجربات ڈیوائن کامیڈی کی شکل میں اسلامی روایاتِ معراج کے چھ سوسال اور ابن عربی کی فتوحاتِ مکیہ کے ۸۰سال بعد منصہ شہود پر آئے۔ ڈیوائن کامیڈی، معراجِ نبوی ا کی روایات اور ابن عربی کی اسرارورموز سے معمور روحانی معراج جس کا فتوحات میں گاہے گاہے ذکر ہوا ہے سے بھرپور استفادہ کے بعد خالصتاً ادبی انداز میں لکھی گئی۔ خیالی سفرِ سماوی کی تفصیلات دانتے نے معراج النبی اکی روایات سے اخذ کیں۔ اب یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ ڈیوائن کامیڈی سے قریباً چھ سو سال پہلے اسلام میں معراج النبی اکی وہ تمام تفاصیل موجود تھیں جن میں بہشت اور دوزخ کے خاکے اور منازل ومدارج، جزاوسزا، مشاہدات ومناظر، اندازِ حرکات و سکناتِ افراد اور اس عظیم سفر کی واردات اور رموز و کنایات و اشارات کے خزائن ہیں۔ مشرقی ادب میں معراج کے فکری اور فنی پہلو کو اگر کوئی تخلیق اُجاگر کرتی ہے تو وہ علامہ اقبال کی جاوید نامہ ہے۔ ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ جیسی شہرہ آفاق ادبی اور علمی تخلیقات کا خصوصی مطالعہ سیرافلاک کے تجربے کے ساتھ ساتھ معراج کے ادبی یا فنی پہلو کو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ علامہ نے لفظ معراج کا استعمال صوفیہ کی کتابوں کے حوالے سے کیا ہے جس میں مراتبِ صعودی کو استعارۃً معراج کہا گیا ہے۔ صوفیہ کے ہاں تجلی کے تین مراحل ہیں: تجلیِ اسما، تجلیِ صفات اور تجلیِ ذات۔ اسما و صفات کے راز ہائے سربستہ سے واقف ہونے کے بعد تجلیِ ذات حاصل ہوتی ہے جو کمال کا آخری درجہ ہے۔ یہاں شاہد کو ذاتِ مطلق کے حریم خاص میں رسائی حاصل ہوتی ہے جہاں کے واردات کی لطافت بیان میں نہیں آسکتی۔ حدیث میں ہے: الصلوۃ معراج المؤمنین (نماز مومنوں کی معراج ہے) اُصولِ اسلام کے تخلیقی ارتقا کا یہی اقتضا تھا کہ کیفیاتِ معراج کے دروازہ کو ہمیشہ کے لیے رکھا جائے تاکہ حقیقتِ محمدی کا پرتو ہرزمانے میں موجود رہے۔۱؎ معراج کا یہ پہلو روحانی یا متصوفانہ ہے۔ مجاہدۂ نفس کے ذریعے انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ حرص وہوس سے پاک ہوجاتا ہے، اس میں استقامت پیدا ہوجاتی ہے، اس کی دماغی و روحانی قوتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ روح و جسم کی اسی پاکیزگی کی بدولت وہ عبدہ اور معراج کے مقام پر پہنچتا ہے۔ تاز مازَاغ الْبصر گیرد نصیب بر مقامِ عبدہ گردد رقیب! معراج کے سلسلے میں علامہ نے ایک بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے جس سے پیغمبراور صوفی کی نفسیاتی کیفیت کا بنیادی فرق واضح ہوتا ہے۔ صوفی اپنی ذات کو واجب الوجود میں فنا کردینا چاہتا ہے تاکہ اسے دائمی سکون نصیب ہو۔ اس کے برعکس پیغمبر قربِ حق چاہتا ہے تاکہ اس کی برکتوں سے اپنی خودی کو مالامال کرے اور پھر دنیا میں پلٹ کر اپنے اصل مقصدِ نبوت کی تکمیل کرے۔ اس خیال کی تائید میں علامہ نے اپنے پانچویں خطبے ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں شیخ عبدالقدوس گنگوہی کا یہ قول پیش کیا ہے کہ آنحضرت اعرشِ بریں پر پہنچ کر واپس تشریف لے آئے لیکن اگر مَیں اس مقام تک پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا۔ اصل میں علامہ کے نزدیک معراج، زندگی کے حرکی اُصول اور تسخیرِ جہات کا پیغام ہے جو آنحضرت انے اپنی اُمت کو دیا۔ ہمارے مفسروں میں کسی نے بھی معراج کی یہ توجیہہ پیش نہیں کی۔ یہ توجیہہ اقبال کے فلسفۂ حیات و کائنات سے ہم آہنگ ہے اور اس میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے۔۲؎ اقبال کے مخلص رفیق چودھری محمد حسین راوی ہیں کہ مسئلہ معراج مدتوں علامہ کے غوروفکر کا مرکز بنا رہا۔ اپنے ایک مقالے جاوید نامہ میں چودھری صاحب لکھتے ہیں کہ جاوید نامہ دراصل معراج نامہ ہے۔ اسرارو حقائقِ محمدیہ پر کتاب لکھنے کا ایک مدت سے حضرت علامہ کا خیال تھا۔ کتاب کا نام بجائے معراج نامہ کے جاوید نامہ کے رکھنے کا محرک دوتین باتیں ہوئیں۔ اسلام کی بہت سی باتوں کی طرح مسلمانوں نے حقیقتِ معراج پر بھی بہت کم غور کیا ہے۔۳؎ علامہ چاہتے تھے کہ معراج کے روحانی، فکری اور نفسیاتی و ثقافتی مضمرات کا جائزہ لیا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ عقیدۂ معراج کی دینی تعبیر کچھ بھی ہو، اس کے ان ثقافتی اثرات کا سراغ لگایا جائے جو قرناً بعد قرن مسلم قوم کے ذہن و فکر اور قول وعمل میں اجتماعی طور سے نمودار ہوتے رہے۔۴؎ چنانچہ انھوں نے آل انڈیا اورینٹل کانفرنس کے اجلاس لاہور ۱۹۲۹ء کے شعبہ عربی وفارسی کی صدارت فرمائی اور اپنے صدارتی خطبے میں جو ’مسلمان سائنس دانوں کے عمیق تر مطالعے کی اپیل‘ کے عنوان سے سہ ماہی اسلامک کلچر (دکن) کی اپریل ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں شامل تھا اور اب گفتارِ اقبال میں بھی شامل ہے، معراج کو ان مسائلِ مہمہ میں شامل کیا جن کی طرف مسلم حکماو محققین کو خاص طور پر متوجہ ہونا چاہیے۔ اس میں علامہ اقبال معراج کے روحانی، فکری، نفسیاتی اور ثقافتی مضمرات کا سراغ لگاتے ہوئے کہتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ واقعۂ معراج سے مسلمانوں کے فکر اور جذبے کو بے حد تحرک اور تشفی ملی ہے۔ اس واقعہ کے بغیر اسلام کے روحِ تمدن کو جانچنا مشکل ہوتا مگر اس کے مطالعہ وتحقیق کی روشنی میں بہت سے تمدنی عقدوں کی گرہ کشائی آسان ہوجاتی ہے۔۵؎ جاوید نامہ میں علامہ کے ہاں معراج کی اصطلاح ’’انقلاب اندر شعور‘‘ کے طور پر استعمال ہوئی ہے۔ اسے عام ادبی یا نفسیاتی اصطلاح سمجھنا سراسر علمی مغالطے کے مترادف ہوگا۔ وہ معراجِ عام کو انقلابِ شعور کا نام دیتے ہیں جب کہ معراج کی غایت ترین صورت حضور اکا جسمانی معراج ہے۔ اُن کے نزدیک عام معراج انقلابِ شعور اور خاص معراج کی اعلیٰ ترین صورت حضور سرورِ کائنات اسے مخصوص ہے۔ معراج ایک ایسا سفر ہے جو اپنی ظاہری حالت کے ساتھ ساتھ ایک اندرونی انقلاب بھی لاتا ہے۔ وہ تو اسے بلند اور ناقابل بیان مقام قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے جاوید نامہ ان کا روحانی سفر ہے جس میں انھوں نے مشاہیر عالم کی ارواح سے مکالمے کے ذریعے زندگی کے حقائق و معارف اور اسرار و رموز سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور معراج کے عقیدے کو ایک نئی معنویت عطاکی۔ جاوید نامہ معراج کے اسرار کی نئی تعبیر ہے۔ معراج کا مسئلہ دراصل مسئلۂ زمان و مکان کی گتھی کا حل ہے جو پیغمبر اسلام انے اپنی وجدانی قوت سے دنیا کے سامنے پیش فرمایا: ۶؎ از شعور است ایں کہ گوئی نزد و دور چیست معراج؟ انقلاب اندر شعور انقلاب اندر شعور از جذب و شوق وار ہاند جذب و شوق از تحت و فوق جاوید نامہ میں تمہیدِ آسمانی کے بعد تمہیدِ زمانی بیان کی گئی ہے جس میں شاعر شام کے وقت دریا کے کنارے اپنے دل سے باتیں کررہا ہے اور جاودانی ہونے کی آرزو اس کے دل میں چٹکیاں لے رہی ہے۔ اسی اثنا میں شام اور گہری ہوجاتی ہے، چاند اُفق پر نمودار ہوتا ہے کہ اس سرمئی اندھیرے میں پہاڑ کے اس پار سے روحِ رومی پردوں کو چاک کرتی ہوئی ظاہر ہوتی ہے۔ شاعر، رومی کا درخشندہ اور روشن چہرہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے جو دانش و حکمت کا حسین امتزاج تھا۔ شاعر اس سے موجود و ناموجود اور محمود و نامحمود کی وضاحت کے لیے سوال کرتا ہے۔ یہ سوالات دراصل معراج کے معانی و حقائق بیان کرنے کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ معراج کے اسرار و رموز اور اس کی حقیقت مرشدِ رومی کی زبانی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یہ شعور میں انقلاب کا دوسرا نام ہے، یہ دراصل شاہد عادل کے روبرو انسانِ کامل کی خودی کے کمالات کی آزمائش ہے۔ جس طرح ذرہ خورشید کے روبرو اپنی ہستی کا تحقق اور امتحان کرتا ہے اسی طرح انسانِ کامل کی خودی ذاتِ واجب کے سامنے اپنے وجود کو کاملِ عیار بناتی ہے۔ معراج گویا خودی کی تکمیل کی آخری منزل ہے۔ ؎ چیست معراج آرزوئے شاہدے امتحانے رو بروئے شاہدے شاہد عادل کہ بے تصدیق اُو زندگی ما را چو گل رنگ و بُو در حضورش کس نماند استوار ور بماند ہست اُو کامل عیار معراج نبوی اکی فلسفیانہ تفہیم کے لیے علامہ اقبال، مولانا روم سے پوچھتے ہیں کہ کیا انسان دوسرے جہانوں میں جاسکتاہے؟ رومی کہتے ہیں: ہاں! جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے جنم لے کر رحمِ مادر کی دنیا سے اس دنیا میں آجاتا ہے اس طرح وہ اپنے آپ کو اگر اعلیٰ و ارفع بنالے تو وہ اس دنیا کے پیٹ سے ایک دوسرا جنم لے کر دوسرے جہانوں میں جاسکتا ہے۔ اطاعتِ الٰہی سے وہ قربِ الٰہی پاکر اس کائنات پر حکمران بن کر زمان و مکان کی قیود توڑ سکتا ہے۔ علامہ، رومی سے پوچھتے ہیں کہ انسان اس کائناتِ ارضی کا سینہ چاک کرکے افلاک اور اس سے آگے حضورِ حق کیسے پہنچ سکتا ہے؟ باز گفتم ’’پیشِ حق رفتن چساں؟ کوہِ خاک و آب را کَفتن چساں؟ رومی کہتے ہیں کہ غلبہ و اقتدار اور قدرت و سطوت کے حامل انسان (سلطان) ہی حدودِ کائنات سے باہر نکل سکتے ہیں۔ سورہ رحمن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٰمعْشر الجن والانس ان استطعم ان تنفذوا من اقطار السمٰوٰت و الارض فانفذولا تنفذون اِلّا بسلطان [الرحمن ۵۵:۳۳] (اے گروہِ جن و انس! اگر ہوسکے تو تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے پرے نکل جائو لیکن تم نہیں نکل سکتے بغیر قوت کے۔) رومی، اقبال کو ’’اِلّا بسلطان‘‘ کے معنی کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انسان اپنے علم کی قوت سے جہانِ چارسو تصرف حاصل کرسکتا ہے اور اپنی مخفی صلاحیتوں کو ظاہر کرسکتا ہے۔ انسان شکم مادر سے مجبورِ محض پیدا ہوتا ہے لیکن جب وہ مادی اور روحانی اقدار کی تخلیق کرتا ہے تو اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ علم کی قوت ہی سے جسم انسانی میں بیدار جان پیدا ہوتی ہے جو عالم کائنات کو لرزہ براندام کردیتی ہے:۷؎ گفت اگر سلطاں ترا آید بدست می تواں افلاک را از ہم شکست باش تا عریاں شود ایں کائنات شوید از دامانِ خود گردِ جہات در وجود اُو نہ کم بینی نہ بیش خویش را بینی از و، اورا ز خویش نکتۂ ’’اِلّا بسلطاں‘‘ یادگیر ورنہ چوں مور و ملخ در گل بمیر از طریق زادن اے مردِ نکوئے آمدی اندر جہانِ چار سوئے ہم بروں جستن بزادن می تواں بند ہا از خودکشادن می تواں لیکن ایں زادن نہ از آب و گِل است داند آں مردے کہ او صاحبِ دل است کہتے ہیں کہ ’’تمھاری زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ تم اپنے مقام کو جو خدا نے تمھارے لیے مقرر کیا ہے حاصل کرسکو اور وہ مقام ہے ذاتِ حق کو بے پردہ دیکھنا۔ مردِ مومن صرف صفات کی تجلیات سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ وہ تجلیِ ذات کا آرزو مند ہوتا ہے۔‘‘ اس سلطان کی مدد سے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک جانا ممکن ہے، یہاں تک کہ افلاک کی مسافتوں، پہنائیوں اور گہرائیوں کو چیر کر آگے بڑھنا بھی ممکن ہے۔ ایک مرحلے سے برتر مرحلے میں ترقی کرنے کے لیے اقبال نے ’’زادن‘‘ (جنم لینا) کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ یہ جنم ایک نئی دنیا میں سانس لینے کا نام ہے۔ جس طرح دنیا میں ہر چیز جنم لیتی ہے اور ایک نئی دنیا میں آپہنچتی ہے، اسی طرح ’’آں سوئے افلاک‘‘ جانے کے لیے بھی ہر مرحلے پر ایک ’’زادن‘‘ (جنم) کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کی جست یا زقند ہے جو عشق (جذب و شوق) کی قوت سے اُبھرتی ہے جو ’’سلطان‘‘ کے معنی میں شامل ہے۔ اس استعداد سے شعور میں ایک انقلاب آجاتا ہے اور زندگی کو ایک نئی فضا میں پرواز محسوس ہوتی ہے جس کی بدولت فاصلہ ووقت کا احساس مٹ جاتا ہے۔ یہی ’’انقلاب اندر شعور‘‘ معراج کہلاتا ہے۔۸؎ کوئی شعور وجود کے بغیر ممکن نہیں۔ شعور کا ارتقا اور انقلاب بھی وجود کو ساتھ لے کر چلتا ہے لہٰذا شعور اور وجود کو الگ الگ حقیقتوں کے طور پر دیکھنا غلط ہے۔ معراج کیا ہے؟ محدود کا نامحدود یا حقیقتِ کبریٰ کی طرف مرحلہ بہ مرحلہ بڑھنا۔ اب اگر حقیقتِ کبریٰ کو وجودِ محض مانا جائے تو اس کے ساتھ لازماً شعورِ محض بھی ہوگا لہٰذا محدود کا نامحدود کی طرف سفر شعوراً بھی ہوگا اور وجوداً بھی، یہی معراج کی حقیقت ہے۔۹؎ علامہ کہتے ہیں کہ معراج کی رات مسلمانوں کو یہ سبق دے رہی ہے کہ ہمت ہو تو عرشِ بریں ایک قدم کا راستہ ہے۔ معراج انسانی ہمت، صلاحیت اور خدا کی رحمت کا اس دنیا میں سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ مسلمان کے لیے اس میں یہی سبق ہے کہ انسان کے عزم و ہمت کی آخری منزل عرشِ بریں ہے۔۱۰؎ اخترِ شام کی آتی ہے فلک سے آواز سجدہ کرتی ہے سَحر جس کو، وہ ہے آج کی رات رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرشِ بریں کَہ رہی ہے یہ مسلماں سے معراج کی رات انسانِ کامل کی خودی جب اپنی وجدانی قوت کے بل پر زمان و مکان کی تسخیر کرتی ہے تو وہی معراج ہے۔ ا س دور میں جب خلائی تسخیر ممکن ہوگئی ہے واقعہ معراج کی مادی تعبیر میں اب کسی کلام کی گنجائش نہیں رہی۔ اب بشر کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ افلاک کی تسخیر کرسکے۔ علامہ اقبال نے روحانی، فکری اور سائنسی حوالے سے ہی تو کہا تھا: سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں علامہ نے عام اشعار میں بھی جہاں جہاں معراج کا ذکر کیا ہے وہاں معراجِ مصطفویؐ کو عام صعودِ روحانی یا نفسی سے مختلف، منفرد، بلند تر اور خاص الخاص تجربہ یا واقعہ قرار دیا ہے۔ علامہ کے نزدیک ایک ذرہ بھی اگر اپنے اندر ولولۂ شوق پیدا کرلے تو مہ ومہر تک نہ صرف رسائی حاصل کرسکتا ہے بلکہ مہرو ماہ کی دنیا تسخیر بھی کرسکتا ہے لیکن اگر وہ مادی اسباب کا محتاج رہے گا اور اپنی خودی کو نہیں پہچانے گا تو وہ معنیِ والنجم نہیں سمجھ پائے گا جس کے مطابق ایک اکمل ترین بشر اپنے جسم سمیت معراج کی آخری حد سے متصف ہوا۔ دے ولولۂ شوق جسے لذتِ پرواز کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج ناوک ہے مسلماں! ہدف اس کا ہے ثریا ہے سِرّ سرا پردہِ جاں نکتۂ معراج تو معنیِ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مد و جذر ابھی چاند کا محتاج اقبال کے نزدیک معراج زمان و مکان کی حقیقت اور اس کی مکمل تسخیر کی آئینہ دار ہے۔ جب انسانی روح فعلیتِ مطلقہ سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے تو زمان و مکان کی حقیقت اپنے سارے راز کھول دیتی ہے۔۱۱؎ رومی، اقبال سے کہتے ہیں کہ زمان و مکان زندگی کی مختلف حالتوں میں سے ایک حالت کا نام ہے اور اس آسمانی سفر کے لیے انسان کو جسمِ خاکی سے منزہ ہونا چاہیے اور یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان زمان و مکان پر سوار ہو یعنی زمانی اور مکانی حدود پر غالب آجائے:۱۲؎ بر مکان و بر زماں اسوار شو فارغ از پیچاک ایں زنّار شو چشم بکشا بر زمان و بر مکاں ایں دو یک حال است از احوالِ جاں علامہ کے نزدیک انسان کہ اللہ کا نائب ہے اصل میں علم الاسما کا مدعا و مقصود اور اسرا (سبحان اللّٰہ الذی اسرا) یعنی معراج کا بھید ہے: مدعائے علّم الاسما ستے سر سبحان اللّٰہ الذی اسرا ستے گلشن راز جدید میں علامہ خودی سے متصف انسان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس (خدا) کے جہانِ لامکاں سے اس طرح واپس آنا کہ دل میں تو اس کا جلوہ ہو اور جہان ہتھیلی پر ہو۔ یہ معراج کی طرف اشارہ ہے۔ سفر معراج کے دوران اللہ کے نبیؐ نے جو مشاہدات کیے اور اللہ نے اپنے نبیؐ سے جو باتیں کیں اُن کے اسرارورموز سے کوئی اور واقف نہیں ہے۔ اس لیے دل میں خدا کا ہونا اور ہتھیلی پر جہاں کا ہونا کیسے ہو؟ یہ اللہ اور اس کے رسول ا کو ہی معلوم ہے:۱۳؎ چناں باز آمدن از لا مکانش درونِ سینہ اُو در کفِ جہانش حوالے و حواشی ۱- ڈاکٹر یوسف حسین ، روحِ اقبال، ادارہ اشاعت اُردو، حیدرآباد،دکن، طبع ثانی ۱۹۴۴ئ، ص ۳۵۶۔ ۲- بحوالہ : شیر افضل خان بریکوٹی (لندن)، اقبال میرا ہم سفر، شعیب سنز پبلشرز، مینگورہ، سوات، ۲۰۰۷ئ، ص۳۴۲۔ ۳- چودھری محمد حسین،جاوید نامہ ، مشمولہ: اقبالیات کے سو سال، مرتبین: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر، ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور،۲۰۰۷ئ، ص۱۰۳۵۔ ۴- ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ’’اقبال اور معراج النبیؐ‘‘، مطالعہ اقبال کے چند نئے رخ،بزمِ اقبال، لاہور،۱۹۸۴ئ، ص۵۶۔ ۵- ڈاکٹر محمد ریاض، جاوید نامہ۔تحقیق و توضیح، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۸ئ، ص۲۸۔ ۶- ڈاکٹر یوسف حسین خان، روح، اقبال،ص۳۵۰۔ ۷- یوسف سلیم چشتی، شرح جاوید نامہ، عشرت پبلشنگ ہائوس ، لاہور، س ن، ص۳۱۸۔ ۸- ڈاکٹر سیّد عبداللہ، اقبال اور معراج النبیؐ، ص۵۸،۵۹۔ ۹- ایضاً، ص۶۶۔ ۱۰- غلام رسول مہر، مطالب بانگ درا،شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۷ئ، ص۲۹۹۔ ۱۱- ڈاکٹر یوسف حسین خان، روح، اقبال،ص۳۴۸۔ ۱۲- ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، اقبال کا تصورِ زمان و مکان اور دوسرے مضامین،مجلس ترقی ادب، لاہور، جون۲۰۰۲ئ، ص۱۰۹۔ ۱۳- پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی، شرح کلیاتِ اقبال(فارسی)، مکتبہ دانیال، لاہور، س ن، ص۶۴۵۔ ئ……ئ……ء اقبال کی سوانح پر نئی روشنی [دُوسری قسط] خرم علی شفیق حیات اقبال کے تشکیلی دور کے بارے میں بعض نئے پہلو سامنے لائے گئے ہیں جو ماہرین کی خاص توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ۱- اقبال کی بیاضوں سے سوانح اقبال میں خاطر خواہ کام نہیں لیا گیا۔ ۲- اقبال سے فارسی میں شعر کہنے کا مطالبہ کرنے والی شخصیت عطیہ فیضی تھیں۔ ۳- اقبال کا مقالہ لندن میں شائع ہوا تو وہیں اس پر تبصرہ ہوا اور ایک بحث کا آغاز ہوا مگر اہل وطن نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ۴- اسرار خودی کا اولین متن ایک ادھوری نظم کو سمجھا جا سکتا ہے جو بیاضوں میں موجود ہے۔ ۵- عمر بھر کبھی فارسی میں گفتگو نہ کر سکنے کے باوجود اعلیٰ درجے کی فارسی شاعری کرنا قابل توجہ ہے۔ ۶- اقبال اور آغا حشر کا شمیری کے تعلقات میںبعض باتوں کی بنا پر اردو ادب کے بارے میں بعض مفروضے بدلنے پڑیں گے۔ گزشتہ شمارے میں مضمون کی پہلی قسط میں اُس نئے مواد میں سے بعض چیزیں پیش کی گئیں جو سوانحی سلسلے کی پہلی کتاب اقبال: ابتدائی دَور پر نظرِ ثانی کے دوران میرے سامنے آیا تھا۔ دوسری کتاب اقبال: تشکیلی دَورتیار ہو چکی ہے اور ممکن ہے کہ اقبالیات کے اِس شمارے کے ساتھ وہ بھی آپ تک پہنچ جائے۔ اس میں ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۳ء تک اقبال کی سوانح کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نیا مواد اور نئے پہلو جو سامنے آئے اُن کا تعارف پیشِ خدمت ہے۔غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مندرجہ ذیل تمام نکات ایسے ہیں جو میرے خیال میں پہلے کبھی سامنے نہیں آئے۔ ناظم اقبال اکادمی جناب محمد سہیل عمر کی خاص دلچسپی کی وجہ سے مجھے دائرۂ تحقیق وسیع کرنے کا یہ موقع ملا ہے اورحیاتِ اقبال کے تشکیلی دَور کے بارے میں بعض بالکل نیا مواد اور بعض نئے پہلو پیش کیے جا رہے ہیں۔ نئے مواد میں سے مندرجہ ذیل چیزیں ماہرین کی خاص توجہ کا تقاضا کرتی ہیں: ۱- اقبال کی بہت سی بیاضیں محفوظ ہیں مگر اقبال کی سوانح میںانھیں خاطر خواہ استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے اس غرض کے لیے ایک طریقِ کار متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۲- بانگِ درا کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے لکھا ہے کہ کسی تقریب میں کسی نے اقبال سے فارسی میں شعر کہنے کی فرمایش کی۔ میرے خیال میں یہ شخصیت عطیہ فیضی تھیں اور بعض شواہد کی مدد سے تعین کیا جا سکتا ہے کہ فرمایش ۲۲ اپریل ۱۹۰۷ء کو کیمبرج میں ہوئی۔ ۳- ۱۹۰۸ء میں اقبال کا تحقیقی مقالہ لندن سے شائع ہوا تولندن میں اِس پرہونے والے تبصرے نے ایک بحث کا آغاز کیا جو اَب تک جاری ہے، مگر ہم نے اس پر توجہ کم دی ہے۔ ۴- اقبال سے روایت منسوب ہے کہ اسرارِ خودی پہلے اردو میں لکھنے کی کوشش کی مگر پھر وہ متن تلف کر دیا۔ بیاضوں میں ایک ادھوری اُردو نظم کو اسرارِ خودی کا اولین متن سمجھا جا سکتا ہے۔ ۵- اسرارِ خودی فارسی میں لکھے جانے کا آغاز ایک خواب یا کشف سے ہوا۔ عمر بھر کبھی فارسی میں گفتگو کرنے کے قابل نہ ہوئے مگر اس تجربے کے بعد اپنے آپ کو فارسی میں اعلیٰ درجے کی شاعری کرتے ہوئے پایا۔ اس کے مضمرات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ۶- اقبال اور آغا حشر کاشمیری کے تعلقات میں بعض چونکا دینے والی باتیں ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف اقبالیات بلکہ جدید اُردو ادب کے بارے میں بھی بعض مفروضے بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اِس کے علاوہ جن پہلوؤں کی طرف اقبال شناسوں نے عام طور پر توجہ نہیں دی اور اِس کتاب میں پیش کیے جا رہے ہیں اُن میں سے کچھ یہ ہیں: ۱- اقبال نے جابجا دعویٰ کیا کہ آیندہ صدیوں کے واقعات سے آگاہ ہیں۔ یکم جولائی ۱۹۱۷ء کے ایک خط میں صاف لکھا کہ یہ قرآن کا مخفی علم ہے جو خدا نے اُنھیں عطا کیا ہے اور اُنھوں نے کئی برس غور و فکر کیا ہے۔ اِس دعوے کو قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے، بہرحال اس خیال کا تعاقب اقبال کی سوانح کا ایک بنیادی مسئلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۲- مارچ ۱۹۰۷ء تک اقبال کے بنیادی نظریات کا مکمل خاکہ اُن پر منکشف ہو چکا تھا البتہ اس کے اظہار کے اسلوب کی جدوجہد میں پھر کئی موڑ آئے اور بعض اصولوں کے اطلاق میں بھی رد و قدح کے مراحل سے گزرے۔ ۳- اقبال کے نزدیک خودی کی تین اہم قسمیں ہیں: خدا، ملت اور فرد۔ ان میں سے دوسری قسم اُن کی فکر کا اصل محور ہے۔ ۴- اقبال اور شیخ فریدالدین عطار کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے جس پر کافی توجہ نہیں دی گئی ہے مگر جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ۵- اقبال کے افکار کی روشنی میں ’’عشقِ حقیقی‘‘ اجتماعی خودی سے عشق ہے۔ بعض اساسی داستانوں مثلاً لیلیٰ مجنوں پر اِس لحاظ سے نظرِ ثانی کی جائے تو اُن کے بعض اَسرار سامنے آتے ہیں۔ اقبال کی بیاضیں کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اقبال کی اکثر بیاضیں بالکل درست حالت میں اقبال میوزیم میں محفوظ ہیں بلکہ اقبال اکادمی پاکستان کی لائبریری میں ان کی نقول بھی دستیاب ہیں۔ عنقریب یہ بیاضیں اکادمی کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہوں گی۔ اس بنیادی ماخذ سے اقبال کے سوانح نگاروں نے بہت کم استفادہ کیا ہے۔ مجھے پہلے پہل لڑکپن میںڈاکٹر جاوید اقبال کی تصنیف زندہ رُود میں ایک بیاض کا حوالہ دیکھ کر مزید مطالعے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ انھی دنوں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے ایک مضمون میں اِسی حوالے سے بالِ جبریل کی بعض نظموں کے تدریجی مراحل کا جائزہ پیش کر کے نئے راستوں کی طرف رہنمائی بھی کی تھی۔میں اسے انھی بزرگوں کی غائبانہ اور بالمشافہ رہنمائی کا اثر سمجھتا ہوں کہ اس سوانحی سلسلے میں اقبال کے مسودات اور بیاضوں پر ویسی توجہ دی جا رہی ہے جیسی کسی بھی ادبی شخصیت کی سوانح لکھتے ہوئے اُس کے مسودات پر ہونی چاہیے۔ اس کے مواقع پہلی کتاب میں نہ تھے کیونکہ وہ ۱۹۰۴ء کے زمانے پر ختم ہوتی تھی اور اُس زمانے کی کوئی بیاض دستیاب نہیں۔ البتہ تشکیلی دور (۱۹۰۵ سے ۱۹۱۳) کے عرصے سے تعلق رکھنے والی دو بیاضیںملتی ہیں جن کے نمبر اقبال میوزیم کے اندراج کے حوالے سے مندرجہ ذیل ہیں: پہلی بیاض: AIM.1977.219 دوسری بیاض: AIM.1977.195 پہلی بیاض وہی ہے جسے زندہ رُود میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے قیامِ یورپ کے زمانے کی بیاض کہا ہے لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ قیامِ یورپ کے زمانے میں اقبال نے اس کاپی کو صرف پتے وغیرہ نوٹ کرنے کے لیے انگریزی کی طرف سے استعمال کرنا شروع کیا اور کبھی کبھی کوئی نظم بھی اُسی طرف کے صفحوں میں درج کرلی مگر صرف اُسی صورت میں جبکہ وہ بالکل نجی نوعیت کی نظم ہو (اُس زمانے میں مخزن میں شائع ہونے والی نظمیں اِس بیاض میں نظر نہیں آتیں)۔ وطن واپسی کے بعد اُردو کی طرف والے صفحات میں پچھلے دو تین برس کی نظمیں لکھنا شروع کیں جس کا اندازہ اِس بات سے ہوتا ہے کہ نظم ’وصال‘ کا ایک آدھ شعر درج کر کے چھوڑ دیا ہے۔ یہ انھی دنوں کی بات رہی ہو گی جب ۱۷ جولائی ۱۹۰۹ء کو اس نظم کی نقل عطیہ فیضی سے مانگی جیسا کہ عطیہ فیضی کے نام لکھے خطوط سے معلوم ہوتا ہے۔ کاپی میں کئی صفحوں کے بعد یہ نظم پوری درج ہے جو ظاہر ہے کہ اُس وقت لکھی گئی ہو گی جب عطیہ نے نظم کی نقل ارسال کی۔ اس طرح خطوط اور دیگر سوانحی شواہد کے ساتھ ملا کر بیاضوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا بھی ممکن ہے کہ کون سی نظم اندازاً کب درج کی گئی، درمیان میں کتنے صفحے چھوڑے گئے اور بعد میں کب اُنہیں پُر کیا گیا۔ اس طریقِ کار کو استعمال کر کے میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اُس زمانے میں اقبال جب کسی طویل نظم کا ارادہ کرتے تھے تو اس کا ابتدائی حصہ بیاض میں درج کر کے اس کے بعد کچھ صفحے خالی چھوڑ دیتے تھے۔ درمیان میں کسی مختصر نظم کی آمد ہوتی یا کوئی پرانی نظم دستیاب ہو جاتی تو اُسے اگلے صفحات میں درج کر دیتے۔ پھر اگر طویل نظم مکمل ہونے لگتی تو اُسے چھوڑے ہوئے صفحات میں درج کر لیتے لیکن اگر اُسے مکمل کرنے کا ارادہ ترک کر دیتے تو پھر خالی صفحات میں دوسری نظمیں درج کر لیتے۔ چنانچہ اس پہلی بیاض میں نظمیں اُس ترتیب میں درج نہیں جس ترتیب میں کہی گئیں لیکن میں نے جس طریقے کا ذکر کیا ہے اُس طریقے سے بیاض کا مطالعہ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ میں اس نتیجے پر پہنچ سکا کہ اسی بیاض میں درج شدہ ایک ادھوری طویل نظم دراصل اسرارِ خودی کا وہ اولین اُردو نمونہ ہے جس کے بارے میں ہم سنتے آئے ہیں کہ اسرارِ خودی پہلے اُردو میں لکھنا شروع کی گئی مگر جب بات نہ بنی تو وہ اشعار تلف کر دیے اور مثنوی فارسی میں لکھی۔ یہ روایت اقبال کی ایک تقریر کے بارے میں اخباری رپورٹ سے ماخوذ ہے لہٰذا معلوم نہیں کہ ابتدائی نسخہ ’’تلف‘‘ کرنے والی بات رپورٹر کے سننے یا سمجھنے کی غلطی ہے یا بیاض میں درج اشعار کے علاوہ کچھ اور شعر بھی تھے جنھیں اقبال نے تلف کر دیا۔ بہرحال مجھے یقین ہے کہ دسمبر ۱۹۱۰ء کے قریب اقبال نے ’نورِ محمدی‘ کی ذیلی سرخی کے تحت اسرارِ خودی کا پہلا باب لکھنا شروع کیا۔ ’قربانی ٔ خلیل‘ اور خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بارے میں ایک نظم بھی اسی سلسلے کا حصہ تھے مگر ان منظومات کو پڑھ کر صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نظم میں لکھنوی مثنویوں اور مرثیوں جیسا تاثر پیدا ہو رہا تھا اور وہ تاثیر مفقود تھی جو اقبال کا اصل مقصد تھی۔ اسرارِ خودی کے اس ابتدائی متن سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مثنوی کا بنیادی خیال جہاں سے اقبال کا نظامِ فکر گویا شروع ہوا وہ انفرادی خودی نہیں بلکہ اجتماعی خودی تھی جسے سرسید احمد خاں نے اپنے افسانے ’گزرا ہوا زمانہ‘ (۱۹۷۳) میں ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ کی صورت میں دلہن بنا کر پیش کیا تھا اور جسے اقبال ملتِ اسلامیہ کی خودی کہتے تھے (مزید تفصیل اس مضمون میں ذرا آگے چل کر پیش کی جائے گی)۔ فارسی میں شعر کہنے کی فرمایش بانگِ درا کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے لکھا ہے کہ اقبال کسی دوست کے یہاں مدعو تھے جب اُن سے فارسی میں شعر سنانے کی فرمایش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ خود بھی فارسی میں شعر کہتے ہیں یا نہیں۔ ’’اُنھیں اعتراف کرنا پڑا کہ اُنھوں نے سوائے ایک آدھ شعر کبھی کہنے کے فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی،‘‘ شیخ عبدالقادر کا بیان ہے۔ان کا خیال ہے کہ دعوت سے واپس آ کر اقبال شائد باقی وقت فارسی میں غزلیں ہی کہتے رہے کیونکہ ’’صبح اُٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دوتازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیںجواُنھوں نے مجھے زبانی سنائیں۔‘‘ اقبال کی پہلی بیاض میں ایک جگہ چار غزلیں بالکل ایک ہی انداز میں درج ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی نشست میں درج کی گئی ہوں گی۔ ان میں قطع و برید بھی ہوئی ہے لہٰذا امکان ہے کہ یہی ان غزلوں کا اولین نقش ہو۔ ان میں سے تین غزلیں فارسی میں ہیں جن کے پہلے مصرعے یہ ہیں: - اے گُل زخارِ آرزو آزاد چوں رسیدہٰ - در پسِ راہزن روم دوش بہ راہبر زنم - آشنا ہر خار را از قصۂ ما ساختی ان میں سے پہلی غزل اقبال نے ۲۴ اپریل ۱۹۰۷ء کو عطیہ فیضی کو ایک خط کے ساتھ ارسال کی جس کی عبارت میں یہ جملہ بھی شامل تھا: I enclose herewith one of the poems I promised to send you, and shall feel obliged if you considered it carefully and let me know of your criticism. عطیہ فیضی نے اپنی کتاب میں یہ خط اور غزل درج کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے یعنی ۲۲ اپریل کو وہ اقبال ہی کی درخواست پر کیمبرج جا کر سید علی بلگرامی کی مہمان ہوئی تھیں جہاں ایک دلچسپ پکنک بھی منائی گئی جس کی تصویرعطیہ کی کتاب کے پہلے اڈیشن میں شامل تھی اور اب میری تصنیف Iqbal: An Illustrated Biography(2006)میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اقبال کے خط کا جملہ اس بات کا غماز ہے کہ فارسی میں غزل کہنے کی فرمایش اسی پکنک میں ہوئی ہو گی، فرمایش کرنے والی عطیہ فیضی رہی ہوں گی اور یہ تین فارسی غزلیں جن میں سے صرف ایک انھیں بھیجی گئی غالباً وہی ہیں جو اقبال نے تقریب سے واپس آ کر کہیں۔ شیخ عبدالقادر نے صرف دو فارسی غزلوں کا ذکر کیا ہے اس لیے ممکن ہے کہ تیسری فارسی غزل اور اُردو غزل اقبال نے انھیں نہ سنائی ہو یا عبدالقادر نے خود ہی مصلحتاً ان کا ذکر نہ کیا ہو کیونکہ اردو غزل تو بالخصوص اتنی معنی خیز ہے کہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے: یوں تو اے بزمِ جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے اِک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی میں نے اے اقبال یورپ میں اُسے ڈھونڈا عبث بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی یاد رہے کہ عطیہ فیضی سے اقبال کی ملاقات صرف چند ہفتے قبل یکم اپریل کو ہوئی تھی۔ جیسا کہ میں نے Illustrated Biography میں بھی خیال ظاہر کیا تھا، اگر فریقین نے ایک دوسرے میں کوئی کشش محسوس کی ہو گی تو اُس کی مدت زیادہ نہ رہی ہو گی کیونکہ مزاجوں میں فرق بہت تھا۔ ۲۲ اپریل کی پکنک ابتدائی دنوں کی بات ہے لہٰذا اُن دنوں عطیہ کی فرمایش کا اقبال کی فطرت پر بجلی بن کر گرنا سمجھ میں آتا ہے البتہ بعد میں اقبال نے عطیہ کے نام جس قسم کے پژمردہ خطوط لکھے وہ اقبال جیسے جذباتی انسان کا اظہارِ عشق نہیں ہو سکتا (یقین نہ آئے تو ان خطوط کا ایما کے نام خطوط سے موازنہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے جہاں اس قسم کی عبارتیں ملتی ہیں، ’’میں اپنی تمام جرمن بھول گیا ہوں، صرف ایک لفظ یاد ہے: ایما!‘‘)۔ حال ہی میں مورخ خورشید کمال عزیز (کے کے عزیز) نے اپنے والد کی سوانح وہ حوادث آشنا میں لکھا ہے کہ وہ شخصیت جس نے اقبال سے فارسی میں شعر کہنے کی فرمایش کی دراصل اُن کے والد شیخ عبدالعزیز تھے (اسی نام کے دوسرے دوست سے خلط ملط نہ کیا جائے جن کے نام اقبال کے بہت سے خطوط موجود ہیں)۔ مجھے اِس روایت کو تسلیم کرنے میں تامل ہے جس کی وجوہات میں نے تفصیل کے ساتھ کتاب کے حواشی میں بیان کر دی ہیں۔ اسرارِ خودی کا اولیں نقش اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ دسمبر ۱۹۱۰ء کے لگ بھگ اقبال نے اپنی بیاض میں ایک طویل اردو نظم کی داغ بیل ڈالی۔ جن شواہد کی بنیاد پر یہ تاریخ متعین کی گئی اور یہ نتیجہ اخذکیا گیا ہے کہ یہ اسرارِ خودی کی منسوخ شدہ شروعات ہیں وہ کتاب اور اُس کے حواشی میں تفصیل کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں صرف دو اہم نکات کی طرف توجہ دلا کر اس نظم کا متن پیش کرنا مقصود ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ’نورِ محمدی‘ والی نظموں کا یہ سلسلہ مجھ سے پہلے صابر کلوروی مرحومکلیاتِ باقیاتِ اقبال میں پیش کر چکے ہیں لہٰذا ان نظموں کو پیش کرنے میں مجھے کسی قسم کی اولیت کا دعویٰ نہیں ہو سکتا۔ اُن کی کتاب کا وہ حصہ جس میں حواشی تھے ابھی شائع نہیں ہوا اور نہ میری نظر سے بھی گزرا ہے لہٰذا میں یہ نہیں جانتا کہ اُن کی توجہ اِس طرف گئی تھی یا نہیں کہ یہ اسرارِ خودی کا منسوخ متن ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ بات مجھ سے پہلے اُن کی نظر میں آچکی ہو اور صرف اشاعت میں تاخیر کی وجہ سے سامنے نہ آئی ہو۔ ایسا ہے تو میری دلی خواہش ہو گی کہ اُن حواشی کی اشاعت ہو جانے کے بعد اِس نکتے کے لیے میری بجائے اُن کی کتاب کا حوالہ دیا جائے کیونکہ بہرحال اِس میدان میں صابر مرحوم کا کام بہت پہلے شروع ہوا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر سمجھ لیا گیا ہے کہ ’شکوہ‘ لکھتے ہوئے ’جوابِ شکوہ‘ کا مضمون اقبال کے ذہن میں نہ رہا ہو گا بلکہ اُس کا خیال بعد میں آیا اور اسی طرح اسرارِ خودیمنکشف کرتے ہوئے رموزِ بیخودی سے آگاہ نہ تھے، بعد میں ترقی ہوئی۔دراصل ان تمام مفروضوں کے پیچھے اقبال کے ذہنی ارتقا کا ایک پست اور عامیانہ تصور کارفرما ہے جس کی تفصیل آگے بیان ہو رہی ہے۔ فی الحال یہ بتانا مقصود ہے کہ ۱۹۱۱ء میں اقبال نے ’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘ والا لیکچر جو علی گڑھ میں دیا (اور جس کی تیاری بظاہر ۱۹۱۰ء میں بھی ہوتی رہی تھی) وہ نظم ’شکوہ‘ پڑھنے سے چند روز قبل کی بات ہے لیکن اُس لیکچر کا تمام مضمون ’جوابِ شکوہ‘ اور رموزِ بیخودیکا ہے۔ نیز انجمن حمایت اسلام کے جس جلسے میں ’شکوہ‘ پڑھی اُسی میں ایک لیکچر بھی دیا جو ایک طرح سے ’ملتِ بیضا‘ والے لیکچر کا خلاصہ بھی ہے اور ’شکوہ‘ کے ذہنی پس منظر پر کافی روشنی بھی ڈالتا ہے۔ اس لیکچر کا خلاصہکشمیری میگزین میں شائع ہوا اور وہاں سے لے کر عبداللہ قریشی صاحب نے اپنی ایک کتاب میں شامل بھی کر دیا مگر غالباً کسی کی توجہ اِس طرف نہ گئی کہ یہ لیکچر ’شکوہ‘ والے جلسے ہی میں دیا گیا۔ اقبال کے پورے نظامِ فکر کا بنیادی نکتہ اجتماعی خودی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے پرانی بیاضوں کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہونے لگتا ہے کہ کیوں اور کیسے ’نورِ محمدیؐ‘سے بحث کا آغاز کرنا چاہتے تھے اور پھر کیوں اسے خودی کے اثبات سے شروع کیا۔یہ موضوع تفصیل طلب ہے اور صرف تشکیلی دور میں اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے امید ہے کہ بالخصوص اگلی کتاب درمیانی دَور میں یہ معاملہ صاف ہونے لگے گا جس کے لیے تشکیلی دَورمیں ایک مستحکم بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ فارسی میں شعر گوئی کا آغاز اپریل ۱۹۰۷ء میں عطیہ فیضی والی غزلیں کہنے سے پہلے اقبال نے فارسی میں صرف چند نظمیں کہی تھیں اور اُس کے بعد آیندہ چھ برس میں بھی فارسی میں چند اشعار سے زیادہ نہ کہہ سکے۔ فارسی میں شعرگوئی کا باقاعدہ آغاز جس واقعے سے ہوا وہ بہت حیرت انگیز ہے اور نجانے کیوں اس پر توجہ نہیں دی گئی ہے حالانکہ اس کا تذکرہ بعض کتابوں میں ہو بھی چکا ہے۔ یکم اگست ۱۹۱۳ء کو خواجہ حسن نظامی کے اخبار توحید میں یہ واقعہ شائع ہوا کہ اقبال نے خواب میں دیکھا کہ مولانا روم اُن سے مثنوی لکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اقبال نے کہا کہ مثنوی کا حق آپ ادا کر گئے ہیں تو مولانا روم نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اقبال بھی لکھیں۔ اس پر اقبال نے عرض کیا کہ آپ خودی کو مٹانے کی بات کرتے ہیں جبکہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قائم رکھنے کی چیز ہے۔ مولانا روم نے فرمایا کہ اُن کا مقصد بھی وہی ہے جو اقبال سمجھے ہیں۔ اس خواب کے بعد اقبال بیدار ہوئے تو زبان پر فارسی کے اشعار جاری تھے جنھیں حسن نظامی نے اس واقعے کے ساتھ اسرارِ خودی کے عنوان سے شائع کر دیا (یہ عنوان بھی شائد حسن نظامی ہی نے دیا تھا)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اشعار کی تعداد اس سے پہلے لکھے ہوئے تمام فارسی اشعار کے قریباً برابر ہے اور اس کے بعد کئی برس تک اقبال پر فارسی ہی میں آمد ہوتی رہی۔ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ عمر بھر فارسی میں باقاعدہ گفتگو کرنے میں دقت محسوس کرتے رہے لہٰذا افغان قونصل سے گفتگو کے لیے مترجم کو ساتھ لے جاتے تھے۔ پھر بھی فارسی میں چھ سے زیادہ شعری تصانیف چھوڑ گئے جن کی داد صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ایران میں بھی دی جاتی ہے حالانکہ ایرانی کسی غیراہلِ زبان کی فارسی شاعری کا آسانی سے لوہا ماننے والے نہیں ہیں۔ اقبال خود نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے افکار کی تشریح کے لیے اُن کی زندگی کے روحانی پہلوؤں کو اس طرح زیرِ بحث لایا جائے کہ کسی کشفی نظریے کی داغ بیل پڑنے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔وہ مسلمانوں کو ایک پژمردہ ذہنی فضا سے نکالنا چاہتے تھے اس لیے یہ احتیاط بالکل جائز بھی تھی۔ اس کے علاوہ اقبال وجدان کو فکر سے جدا بھی نہیں سمجھتے تھے اور اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ممکن سمجھتے تھے البتہ اس مقصد کے لیے جن ذہنی وسائل کی ضرورت پڑ سکتی ہے وہ اُن کے خیال میں اُس وقت دستیاب نہ تھے (جیسا کہتشکیلِ جدید کے دیباچے اور ابتدائی خطبات سے اندازہ ہوتا ہے)۔ البتہ اُن سوانح نگاروں کے بارے میں کیا کہا جائے جنھوں نے اقبال کی اس ہدایت پر بڑی سعادت مندی سے عمل کرتے ہوئے اُن کے روحانی واردات کو تو بہت احتیاط سے چھپائے رکھا مگر دوسری طرف اقبال کی نفسیاتی گرہیں کھولنے کی کوششیں بھی فرماتے رہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عطیہ فیضی کے نام خطوط کی روشنی میں پوری تحلیلِ نفسی کر کے رکھ دی جائے یا نطشے کے مہیب سائے لاشعور میں تلاش کیے جائیں مگر روحانی واقعات خواہ مستند ہی کیوں نہ ہوں سرے سے خاطر ہی میں نہ لائے جائیں۔ مولانا روم کو خواب میں دیکھنے سے کوئی قطب یا ابدال نہیں ہو جاتا مگر بہرحال اِس خواب کے اثر میں اسرار و رموز سے شروع ہو کر جاویدنامہ جیسے حیرت انگیز شاہکار تک پہنچنے والی شاعری خود بھی کسی معجزے سے کم تو نہیں ہے۔ ایک سوانح نگار کیسے اس بات پر راضی ہو جائے کہ اِس شاعری کے آغاز میں کوئی ایسی بات پیش نہ کی جائے جو اِس کی ماورائے عقل وجدانی کیفیات سے میل کھاتی ہو۔ یہ خواب تو اقبال نے نہ صرف حسن نظامی کے اخبار میں شائع کروایا بلکہ اسرارِ خودی کی تمہید میں بھی اسے بیان کیا: اقبال کے بارے میں عام طور پر پوچھا جاتا ہے، ’’اقبال نے مولانا روم ہی کو اپنا مرشد کیوں بنایا؟‘‘ ۔میرے خیال میں سب سے زیادہ صاف جواب یہ ہے کہ اقبال نے مولانا روم کو نہیں بلکہ مولانا روم نے اقبال کو منتخب کیا تھا۔ اقبال اور آغا حشر کاشمیری عام طور پر یہ بات معلوم ہے کہ جنگِ بلقان کے دنوں میں آغا حشر کاشمیری نے ’شکریۂ یورپ‘ کے عنوان سے ایک نظم پڑھی تھی۔ یہ نظم انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں ۲۲مارچ ۱۹۱۳ء کو پڑھی گئی۔ آخری بند زیادہ مشہور ہے: آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے اسی بند کا شعر ہے: رحم کر، اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا! ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تُو نہ ہم کو بھول جا اب اصل شعر سے زیادہ اکبرؔ الٰہ آبادی کی پیروڈی مشہور ہے: ’’رحم کر، اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا!‘‘ ’’کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا!‘‘ تشکیلی دَور کے لیے مواد اکٹھا کرتے ہوئے اس نظم کے حوالے سے کچھ بہت ہی چونکا دینے والی باتیں میرے سامنے آئی ہیں: ۱- نظم کا موضوع یہ تھا کہ مغرب کی یلغار نے مشرق، خاص طور پر اِسلامی مشرق کو زندہ کر دیا۔ نہ صرف اسرارِ خودی میں اقبال یہ کہنے والے تھے کہ دشمن کا مقابلہ طاقت میں اضافے کا سبب بنتا ہے بلکہ دس برس بعد ’طلوعِ اسلام‘ کے عنوان سے پوری نظم حشر کی نظم کے مرکزی خیال پر لکھنے والے تھے۔ ۲- حشر نے مغرب سے جو کہا ’’صرفِ تصنیفِ ستم ہے فلسفہ دانی تری،‘‘ یہ آگے چل کر اقبال کی شاعری کا مستقل موضوع بننے والا تھا۔ ۳- حشر کی نظم کا ماحول ’’پر زغوغا شد جہاں۔۔۔‘‘ (دنیا شور سے بھر گئی) جاویدنامہ کے آغاز میں دنیا کی تخلیق کے منظر میں جھلکنے والا تھا، ’’ہر جگہ خودگری کے ذوق و شوق سے ’میں اور ہوں، تم اور ہو‘ کا نعرہ۔۔۔‘‘: ہر کجا از ذوق و شوقِ خودگری نعرۂ من دیگرم تو دیگری ۴- حشر نے مغرب سے کہا ’’تیرے دم سے آج دنیا ایک ماتم خانہ ہے‘‘ اور تئیس برس بعد یہی مصرع فارسی میں بدل کر اقبال کی اہم تصنیف پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کے مرکزی خیال کو ظاہر کرنے والے اشعار میں سے ہونے والا تھا: آدمیت زار نالید از فرنگ ۵- اقبال نے دو برس پہلے جو اشعار کہے اور عطیہ فیضی کو بھیجے تھے، ’’نالہ را اندازِ نو ایجاد کن۔۔۔‘‘ وہ ابھی کہیں شائع نہ ہوئے تھے مگر حشر کی نظم کے چوتھے بند کا ٹیپ کا شعر اِنھی سے ماخوذ لگ رہا تھا: ’’طرحِ نو انداز و بنیادِ جہاں از سرفگن!‘‘ ۶- اس میں اقبال کی ایک اور غزل کے شعر کا رنگ بھی جھلک رہا تھا، ’’طرحِ نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم‘‘ مگر وہ اپریل ۱۹۰۷ء میں کیمبرج کی پکنک والی غزلوں میں سے تھی جنھیں اُس وقت تک اقبال نجی نظموں میں شمار کرتے تھے۔ اقبال اور آغا حشر کے درمیان شاعری کے بارے میں بات چیت ہوتی تھی، یہ معلوم ہے مگر یہ دونوں کس حد تک ایک دوسرے کے مزاج میں دخیل ہو گئے تھے؟ اقبال کے رنگ میں لکھنے کی کوشش بہت لوگوں نے کی، کامیابی کسی کو حاصل ہوئی نہ ہونی تھی سوائے حشر کے جو نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ وہ باتیں بھی کہہ گئے جو ابھی اقبال نے خود نہ کہی تھیں مگر آیندہ زبان سے ادا ہونی تھیں۔ انفرادیت کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ حشر نے یہ نظم بالکل انھی دنوں لکھی جب مولانا روم کو خواب میں دیکھنے کے بعد اقبال ایک نئے پیغام کا آغاز کر رہے تھے۔ انجمن کے جس جلسے میں یہ نظم سنائی اُسی کے ایک اجلاس میں اپنی زیرِ تصنیف مثنوی کے اشعار سنائے۔ یہ بہت غورطلب بات ہے کہ بالکل اُسی زمانے میں اقبال کے پیغام کے بہت سے گوشے جو ابھی تک سامنے نہ آئے تھے، حشر کی ’شکریۂ یورپ‘ میں بے نقاب ہو گئے۔ حشر کی نظم میں آٹھ بند تھے جن میں سے پہلے سات منطق الطیر کی سات وادیوں کی اُس تشریح سے مربوط تھے جو حشر کے ڈراموں کے گہرے تجزیے یا پھر اقبال کے آیندہ کلام سے برآمد ہو سکتی تھی۔آٹھواں بند حاصلِ بحث تھا۔میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: کچھ اور بات بھی معلوم ہوتی ہے۔ اجتماعی خودی کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہو سکتا تھا کہ اس سے فیض پانے والے دو شاعروں کے موجودہ نظریات ہی میں نہیں بلکہ نشو و نما کے امکانات میں بھی یکسانیت ہو۔ اجتماعی خودی کی تشریح آگے ہونے والی ہے، فی الحال یہی عرض کر سکتا ہوں کہ تاریخ خاموش ہے مگر الفاظ بول رہے ہیں۔ اپنے دل کا ایک اور دیرینہ مطلب استعاروں میں چھپاتے ہوئے مزید کہتا چلوں کہ ہماری تقدیر میں محکومی و مظلومی اِسی لیے ہے کہ ہم اپنی خودی سے انصاف نہ کر سکے۔ آغا حشر کا انتقال ۱۹۳۵ء میں ہوا اور اُس کے بعد ہم نے ایسے لوگوں کو بھی تنقید کے منصب پر فائز کر دیا جو حشر کے تھیٹر میں پرامپٹر کے فرائض انجام دینے کے لائق بھی نہ تھے۔ اُن کی بے ادبی کی وجہ سے اب آغا حشر کا نام مذاق اُڑانے کے لائق سمجھا جاتا ہے لہٰذا شائد بعض قارئین کو اِس پر حیرت ہو رہی ہو کہ میں آغا حشر کی نظم کو اقبال سے ملا رہا ہوں۔ آپ کی تشفی کے لیے پوری ’شکریۂ یورپ‘ کتاب میں شامل کی گئی ہے۔ دو بند یہاں بھی پیشِ خدمت ہیں۔ فیصلہ کر لیجیے کہ یہ آہنگ تعریف کے قابل ہے یا نہیں: ہاں چھڑک پیشانیِ ظلمت پہ افشانِ سحر ٹانگ دے دامانِ شب میں پھر گریبانِ سحر پُرنوا کر دل کو سوزِ احمدِ بے میم سے جگمگا دے بزمِ جاں کو شمعِ ابراہیم سے اپنی ہستی نذر دے ملت کی قرباں گاہ کو زندہ کر دنیا میں آئینِ خلیل اللہ کو ڈال دے شورِ نوا معمورۂ ظلمات میں دوڑ جا آہنگ بن کر سازِ موجودات میں خاک کو بھر دے سرورِ آسماں پرداز سے گرم کر دے روحِ مستی شعلۂ آواز سے حسن آرایش کو زینت عالمِ امکاں کو دے خلعتِ تجدید آئینِ کہن ساماں کو دے کلیاتِ دہر کی اِک شرحِ نو تحریر کر نظمِ ہستی کی نئے الفاظ میں تفسیر کر طرحِ نو انداز و بنیادِ جہاں از سر فگن! شعلہ در پیراہنی آتش بخشک و تر فگن! تیری لب بندی سبق آموزِ گویائی ہوئی طعنہ زن ہیں تجھ پہ قومیں تیری ٹھکرائی ہوئی آج اُن ذروں کو بھی ناز اپنی تابانی پہ ہے تیرے در کا نقشِ سجدہ جن کی پیشانی پہ ہے منتظر نظارے ہیں چشمِ خمار آلود کھول اٹھ کلیدِ فتح بن، قفلِ درِ مقصود کھول اے خوشا غفلت جو ممنونِ اثر کچھ بھی نہیں کان نے سب کچھ سنا دل کو خبر کچھ بھی نہیں گو صدائے ہمت افزا تا بگوش آتی رہی نالہ بن کر پیہم آوازِ سروش آتی رہی پھر بھی ننگِ زندگی آسودۂ خواری رہا سونے والے پر وہی خوابِ گراں طاری رہا جب تغافل اپنا شیوہ خفتہ قسمت نے کیا اور ہی سامانِ بیداری مشیت نے کیا دفعتہ از جلوۂ عیسیٰ افق تابندہ شد قم باذنی گفت مغرب روحِ مشرق زندہ شد اے زمینِ یورپ، اے مقراضِ پیراہن نواز اے حریفِ ایشیا! اے شعلۂ خرمن نواز چارہ سازی تیری بنیاد افگنِ کاشانہ ہے تیرے دم سے آج دنیا ایک ماتم خانہ ہے اشکِ حسرت زا سے چشمِ حریت نمناک ہے خوں چکاں رودادِ اقوامِ گریباں چاک ہے صرف تصنیفِ ستم ہے فلسفہ دانی تری آدمیت سوز ہے تہذیبِ حیوانی تری عظمتِ دیرینہ نالاں ہے ترے برتاؤ سے دھُل گیا حسنِ قدامت خون کے چھڑکاؤ سے جلوہ گاہِ شوکتِ مشرق کو سونا کر دیا جنتِ دنیا کو دوزخ کا نمونہ کر دیا اٹھ رہا ہے شورِ غم خاکسترِ پامال سے کہہ رہا ہے ایشیا رو کر زبانِ حال سے بر مزارِ ما غریباں نے چراغے نے گلے نے پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے ئ……ئ……ء اقبال اور مولانا رومی ڈاکٹر علی رضا طاہر علامہ محمد اقبال کی شاعری پر مولانا روم کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ دراصل مولانا روم کا علامہ نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں ہی ایک منفرد اورنمایاں شخصیت کے طور پر ذکر کیا ہے۔ مقالے میںمولانا روم کا تذکرہ کئی حوالوں سے آیا ہے اور یہ سب حوالے تصوف کے موضوع سے متعلق ہیں۔ مولانا روم کے ساتھ اس ابتدائی تعلق کے بعد اقبال کا فکری سفر مولانا روم کی معیت میں نہیں بلکہ ان کی رہبری میں ہوتا ہے۔ بالآخر یہ تعلق اقبال کے افکار میں ایک مضبوط حوالے کا روپ دھار لیتا ہے اور اقبال مولانا روم سے اخذ و استفادہ کرتے ہوئے سفر حیات تمام کرتے ہیں۔ مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی معروف بہ مولوی (۱۲۰۷ئ؍۶۰۴ھ - ۱۲۷۳ئ؍۶۷۲ھ) ۱؎ دنیائے اسلام کی عظیم شخصیت اور نابغۂ روز گار عارف گذرے ہیں۔ اُن کی مثنوی حکمت و معرفت کا ایک ایسا مرقع ہے جس میں گہرہائے حیات انفرادی و اجتماعی، اشعار کے صدف میں اس خوبصورتی سے مزین ملتے ہیں کہ طالب، حقیقت و معرفت کی متاع گراں بہا بھی حاصل کر لیتا ہے اور اُسے ثقالتِ معانی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ رومی کی انفرادیت ویکتائی یہ ہے کہ اُس میں برہان و وجدان کا خوبصورت امتزاج ہے اسی لیے اُس کی عارفانہ شاعری بے مثال و بے نظیر ہے۔ رومی کو قرآن ، حدیث، تفسیر، فقہ اور عربی زبان میں مہارت تامہ حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ اُس کی شاعری کے جذباتی و تخیلاتی آہنگ کے پیچھے گہرا مذہبی و وقوفی شعور پایا جاتا ہے۔ رومی کے برہان کو شہپر عرفان عطا کرنے والی شخصیت کا نام شمس تبریز ہے۔ ۲؎ قضا وفتاوٰی کی مسند پر فائز متکلم اور زندگی کی احاطۂ بیان میں نہ آ سکنے والی خوبصورتیوں ، لطافتوں اور احساسات سے مالا مال کر دینے والے مرشد کو رومی نے اس طرح خود میں جذب کیا کہ اپنے تمام کلام کو دیوانِ شمس تبریز کا نام دے دیا۔ جس طرح رومی کی زبان سے شمس تبریز بولتے رہے اسی طرح رومی نے خود کو اقبال کے لہجے میں منکشف کیا ہے۔ اقبال نے خود کہا ہے: چو رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرارِ جاں من بہ دورِ فتنۂ عصرِ کہن، او بہ دورِ فتنۂ عصرِ رواں، من مولانا روم کا تذکرہ اقبال نے اپنے مقالے The Development of Metaphysics in Persia کے باب پنجم "SUFIISM" میں انسان کی ماہیت کے بارے میں صوفیا کے نقطۂ نظر کو بیان کرتے ہوئے کیا ہے ۳؎ سامی قوم کے ہاں نجات کا یہ اصول تھا کہ اپنے ارادہ کو متبدل کر دو۔ جبکہ ایک ہندو ویدانتی ’عقل‘ کو متبدل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ۴؎ اس بیان کے بعد اقبال کہتے ہیں کہ ایک صوفی ان دونوں سے زیادہ آگے بڑھ کر زیادہ وسعت و جامعیت اور گہرائی سے بات کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ صرف اراداہ یا عقل کو متبدل کرنے سے طمانیت حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ احساس کی مکمل تبدیلی کے ذریعے عقل و ارادہ دونوں کو بدل دیا جائے اس لیے کہ عقل و ارادہ دونوں ہی احساس کی دو مخصوص صورتیں ہیں۔ یہاں اقبال انسان کے نام صوفی کا پیغام بیان کرنے کے لیے مولانا روم سے استشہاد لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرد کے لیے صوفی کا یہ پیغام ہے کہ ’’سب سے محبت کر، دوسروں کی بہبودی میں اپنی شخصیت کو بھول جا۔‘‘ دل بدست آور کہ حج اکبر است از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است۵؎ تصوف کے باب میں اقبال نے صوفیانہ مابعد الطبیعیات کو تین عنوانات کے تحت بیان کیا ہے اور ان تینوں کو صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے ارتقائی سفر کی مختلف منازل کے طور پر بھی بیان کیا ہے جن کی ترتیب درج ذیل ہے: ۱- حقیقت بطور شاعر الذات ارادے کے ۲- حقیقت بطور جمال کے ۳- حقیقت بطور نور یا فکر کے ۶؎ مولانا روم کا تذکرہ اقبال نے دوسرے عنوان ’’حقیقت بطور جمال کے ‘‘ بیان میں کیا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان صوفیا نے نوفلاطونی تصور تخلیق’’ نظریہ صدور‘‘کو ’’وحدت الوجود‘‘ کے نظریہ سے بدل دیا، اور یوں مسلمان صوفیا نے رفتہ رفتہ نوفلاطونی نظریۂ صدور سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ صوفیا ابن سینا کی طرح انتہائی حقیقت کو ’’حسن ازلی‘‘ سمجھتے تھے۔ کائنات ایک آئینہ ہے اور ’’حسن ازلی‘‘ کی سرشت میں یہ داخل ہے کہ وہ اپنے آپ کو کائنات کے آئینے میں منعکس کرے اور اس بات کو اقبال سید شریف حسین کے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تخلیق کی علت اظہار حسن ہے اور پہلی مخلوق محبت ہے اور اس حسن کا تحقق عالم گیر محبت کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ یہاں اقبال مولانا روم کا یہ شعر بیان کرتے ہیں: شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما اے طبیب جملۂ علت ہائے ما اے دوائے نخوت و ناموسِ ما اے تو افلاطون و جالینوسِ ما۷؎ (اے ہمارے خوش سودا عشق تو ہمیشہ سلامت رہ، تو ہمارے تمام امراض کا طبیب،ہمارے تکبر کا علاج ، اور ہماری ناموس ہے، تو ہی ہمارا افلاطون اور تو ہی ہمارا جالینوس ہے۔) اسی باب میں ’’صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے مختلف پہلو‘‘ کے عنوان کے تحت ’’حقیقت بطور جمال‘‘ کی توضیح میں ہی اقبال نے رومی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: اس مکتب کے امام اعظم رومی ’’رومی کامل‘‘ ہیں جیسا کہ ہیگل آپ کو ملقب کرتا ہے۔ آپ نے عالم کے قدیم نو فلاطونی تصور کو لے لیا جو ہستی کے مختلف دائروں میں عمل پیرا ہے اور اس کو جدید رنگ میں اس طرح پیش کیا کہ کلاڈ نے اپنی کتاب افسانۂ تخلیق (Story of Creation) میںآپ کے اشعار کو جگہ دی ہے۔ میں آپ کے ان مشہور اشعار کو یہاں درج کرتا ہوں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس شاعر نے ارتقا کے جدید تصور کی کس قدر کامیابی سے پیشین گوئی کی تھی۔ اس کو وہ اپنی تصوریت کا ایسا پہلو سمجھتے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہے: آمدہ اوّل بہ اقلیم جماد وز جمادی در نباتی او فتاد سالہا اندر نباتی عمر کرد وز جمادی یاد نآورد از نبرد وز نباتی چوں بہ حیوانے فتاد نآمدش حالِ نباتی ہیچ یاد جز ہمایں میلے کہ دارد سوئے آں خاصہ در وقتِ بہار ضیمراں باز از حیواں سوئے انسانیش می کشید آں خالقے کہ دانیش ہم چنیں اقلیم تا اقلیم رفت تاشد اکنوں عاقل و دانا و زفت عقلہائے اولینشں یاد نیست ہم ازیں عقلش تحول کرد نیست تا رہد زیں عقل پر حرص و طلب صد ہزاراں عقل بیند بوالعجب (مثنوی کتاب چہارم)۸؎ تصوف کا اس مکتب ’’حقیقت بطور جمال‘‘ کا اقبال نے نوفلاطونیت سے تقابل کرتے ہوئے بعض جہات میں اسے نوفلاطونیت سے متمائز قرار دیا ہے۔ مذکورہ بالا اشعار کو بیان کرنے کے بعد اقبال کہتے ہیں: صوفیانہ تفکر کے اس پہلو کا نوفلاطونیت کے اساسی تصورات سے موازنہ کیا جائے تو یہ زیادہ اجاگر ہو جائے گا ۔ نوفلاطونیت کا خدا موجود فی العالم بھی ہے اور ماورائی بھی۔ چونکہ یہ تمام اشیا کی علت ہے اس لیے یہ ہر جگہ موجود ہے اور چونکہ یہ تمام اشیا سے الگ ہے اس لیے یہ کہیں بھی نہیں ہے۔ اگر وہ صرف ’’ہر جگہ ‘‘ ہوتا اور یہ نہ کہا جاتا کہ وہ کہیں نہیں ہے تو وہ سب کچھ ہوتا (ہمہ اوست)۔ بہر حال صوفی سنجیدگی کے ساتھ کہتا ہے کہ خدا سب کچھ ہے۔ ۹؎ اسی طرح عشق کے متعلق مولانا روم کے گذشتہ دو اشعار بیان کرنے کے بعد اقبال کہتے ہیں: کائنات کے متعلق جب یہ نقطہ نظر قائم ہوا تو اس کا براہ راست نتیجہ غیر شخصی جذب کے تصور کی صورت میں برآمد ہوا۔ سب سے پہلے یہ تصور بایزید بسطامی میں رونما ہوا۔ اور یہ اس مکتب کے مابعد کے مخصوص خط و خال میں سے ہے۔ اس تصور کے نشو و نما پر ان ہندو زائرین کا اثر پڑا ہو گا جو ایران میں سے ہوتے ہوئے ان بدھی مندروں کو جایا کرتے تھے جو اس وقت باکو میں موجود تھے۔ اس مکتب کو حسین منصور حلاج نے بالکل وحدت الوجودی بنا دیا اور ایک سچے ہندو ویدانتی کی طرح اناالحق(اہم برہما اسمی) چلا اٹھا۔ ۱۰؎ مقالے میں مولانا روم کے متعلق بیان کیے گئے اقبال کے نقطہ نظر کو خلاصتہً یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ۱- اقبال نے مولانا روم کو صوفیا کے اس گروہ میں شمار کیا جنھوں نے حقیقت مطلقہ کو بطور جمال کے بیان کیا۔۱۱؎ ۲- اقبال نے مولانا روم کو ایرانی صوفیا کے اس گروہ کے نمایندہ کے طور پر پیش کیا جو محبت ، عشق اور اظہار حسن کو تمام مظاہر و تخلیق کی علت قرار دیتے ہیں۔۱۲؎ ۳- مولانا روم کو ارتقا کے متعلق ان کے اشعار کے حوالے سے جدید تصور ارتقا کا پیش بین قرار دیا ہے۔۱۳؎ ۴- تخلیق کے عمل کی وضاحت میں مولانا کے اشعار (جو کہ محبت، عشق اور اظہار حسن کے متعلق ہیں) کے بیان کے بعد اقبال کہتے ہیں کہ یہی وہ نقطۂ نظر تھا جس سے غیر شخصی جذب کا نقطہ سامنے آیا۱۴؎ اور اسی نقطہ نظر کو بالآخرمنصور حلاج نے مکمل وحدت الوجودی بنا دیا۔ اس سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں: ایک تو یہ کہ یہ مسلک تصوف(حقیقت بطور جمال) بالآخر وحدت الوجود کی سرحدوں سے جا ملا اور دوسرے اس کا بنیادی نقطہ چونکہ عشق، محبت اور تخلیق کی علت اظہار حسن تھا اور مولانا روم کو اس کے نمایندے کے طور پر پیش کیا لہٰذا بلا واسطہ نہ سہی بالواسطہ سہی مولانا روم بھی وحدت الوجودی صوفی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ مابعد تحریروں میں اقبال نے مولانا روم کے بارے میں کیا نقطہ نظر اختیار کیا۔ پروفیسر محمد منیر اکبر کے نام ایک خط میں (جو کہ انھیں اس وقت لکھا گیا جب وہ ایران میں تھے) مولانا روم کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: اخبار استخر جس میں آپ کی نظم شائع ہوئی ملاحظہ سے گزرا، آپ کی زبان صفائی میں بہت ترقی کر رہی ہے، اللھم زد فزد۔ خیالات کے لیے طبیعت پر زوردینا چاہیے۔ مطالبِ جلیلہ کی مشرقی نظم کو بہت ضرورت ہے۔ حکیم سنائی اور مولانا روم کو زیر نظر رکھنا چاہیے۔ اس قسم کے لوگ اقوام و ملل کی زندگی کا اصلی راز ہیں اگر یہی لوگ غلط راستے پر پڑ جائیں تو اقوام کی ممات بھی انھی کے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ مولانا روم کے تو اسرار و حقائق زندہ جاوید ہیں۔ حکیم سنائی سے طرز ادا سیکھنا چاہیے کیونکہ مطالب عالیہ کے ادا کرنے میں ان سے بڑھ کر کسی نے قدم نہیں رکھا۔۱۵؎ مذکورہ بالا پیرا گراف میں اقبال نے مولانا روم کو اس قوت، اساس اور زندہ جاوید حقیقت کے طور پر ذکر کیا ہے جس پر اقوام کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ گویا اس وقت تک(یعنی غالباً ۱۹۲۲ئ) مولانا روم کی شخصیت اپنی تمام جامعیت اور گہرائی کے ساتھ اقبال کے سامنے آ چکی تھی۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ میں مولانا روم کا تذکرہ اقبال نے مختلف حوالوں سے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ خطبہ نمبر ۱’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں ’’قلب‘‘ کی وضاحت کے بیان میں درج ہے: حقیقت مطلقہ کے تمام وکمال لقا کی خاطر ادراک بالحواس کے ساتھ ساتھ اس چیز کے مدرکات کا اضافہ بھی ضروری ہے جسے قرآن پاک نے ’’فواد‘‘ یا قلب سے تعبیر کیا۔۔۔۔ قلب کو ایک طرح کا وجدان یا اندرونی بصیرت کہیے جس کی پرورش مولانا روم کے دلکش الفاظ میں نور آفتاب سے ہوتی ہے اور جس کی بدولت ہم حقیقت مطلقہ کے ان پہلوئوں سے اتصال پیدا کر لیتے ہیں جو ادراک بالحواس سے ماورا ہیں۔۱۶؎ تیسرے خطبے ’’ذات الٰہیہ کا تصور اور حقیقت دعا‘‘ میں اقبال نے زمان و مکان کے مباحث میں رومی کا غزالی سے تقابل کرتے ہوئے رومی کو اسلامی فکر کے ایک بہتر نمایندے کے طور پر یوں پیش کیا ہے: میرا خیال ہے کہ اشاعرہ کے ذہن میں اگرچہ نقطے، لمحے کا جدید تصور موجود تھا لیکن وہ ان کے باہمی تعلق کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے تھا کہ نقطے اور لمحے میں لمحے ہی کا وجود زیادہ اساسی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ نقطے کو لمحے سے الگ رکھنا نا ممکن ہے کیونکہ لمحہ مشہود ہوتا ہے نقطے ہی کی شکل میں۔ نقطہ شے نہیں، اسے ایک انداز نگاہ کہیے ایک طریق کو دیکھنے کا۔ لہٰذا جب رومی یہ کہتا ہے: بادہ از ما مست شد نے ما ازو قالب از ما ہست شد نے ما ازو تو اس سے غزالی کی نسبت اسلامی نقطہ نظر کی ترجمانی زیادہ صحت کے ساتھ ہو جاتی ہے کیونکہ حقیقت اپنی کنہ میں محض روح ہے قطع نظر اس سے کہ روح کے بھی مختلف درجات ہیں۔۱۷؎ تیسرے خطبے میں ہی ’’حقیقت دعا‘‘ کے بیان میں سائنس دان اور عارف کے نقطۂ نظر اور طریق کار واہداف میں مماثلت و امتیاز کو مولانا روم کے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں: دعا گو یا ان ذہنی سرگرمیوں کا لازمی تکملہ ہے جو فطرت کے علمی مشاہدے میں سرزد ہوتی ہے۔ فطرت کا علمی یعنی از روئے سائنس مشاہدہ تو ہمیں حقیقت مطلقہ کے کردار سے قریب تر رکھتا اور یوں اس میں زیادہ گہری بصیرت کے لیے ہمارا اندرونی ادراک تیز تر کر دیتا ہے۔ رہا صوفی ، سو اس کی تلاش و طلب کی ترجمانی مولانا روم نے اپنے ایک قطعے میں جس خوبی سے کی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ میں اسے تمام و کمال آپ کے سامنے پیش کردوں۔مولانا فرماتے ہیں: دفتر صوفی سواد و حرف نیست جز دلِ اسپید ہمچوں برف نیست زادِ دانش مند؟ آثارِ قلم زادِ صوفی چیست؟ آثارِ قدم ہم چو صیادے سوئے اشکار شد گامِ آہو دید بر آثار شد چند گاہش گامِ آہو درخورست بعد از آں خود نافِ آہو رہبرست رفتن یک منزلے بر بوئے ناف بہتر از صد منزلِ گام و طواف دراصل علم کی جستجو جس رنگ میں بھی کی جائے، عبادت ہی کی ایک شکل ہے اور اس لیے فطرت کا علمی مشاہدہ بھی کچھ ویسا ہی عمل ہے جیسے حقیقت کی طلب میں صوفی کا سلوک و عرفان کی منزلیں طے کرنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بحالت موجودہ اس کی نگاہیں گام آہو پر ہیں، لہٰذا اس کا جادہ طلب بھی محدود ہے لیکن اس کی تشنگی علم اسے بہت جلد اس مقام پر لے جائے گی جہاں گام آہو کی بجائے ناف آہو اس کی رہبری کرے گا۔ یونہی عالم فطرت پر اسے مزید غلبہ حاصل ہو گا اور یونہی مجموعی لا متناہی میں اسے وہ بصیرت ملے گی جس کی فلسفہ کو آرزو تو ہے لیکن جو ناممکن ہے اسے مل سکے۔ اب اگر بصیرت کا دامن طاقت و قوت سے خالی ہے تو اس سے اخلاق و عادات میں تو سر بلندی پیدا ہو جائے گی لیکن اس طرح نہیں ہوگا تو یہ کہ کسی زندہ جاوید تمدن کی بنیاد رکھی جا سکے۔ بعینہٖ اگر طاقت اور قوت بصیرت سے محروم ہیں تو اس کا نتیجہ بھی بجز ہلاکت اور بے دردی کے اور کچھ نہیں ہوگا، ہمارے لیے دونوں کا امتزاج ضروری ہے تاکہ عالم انسانی روحانی اعتبار سے آگے بڑھ سکے۔۱۸؎ خطبہ نمبر ۴ ’’خودی ، جبر و قدر، حیات بعد الموت‘‘ میںاسلامی نقطہ نظر کی روشنی میں لامتناہی خودی کے متناہی خودی کے ساتھ ربط و تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا روم کے حوالے سے یوں بات کرتے ہیں: عالم اسلام نے بھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق کہ انسان اپنے اندر اخلاق الہیہ پیدا کرے، مذہبی مشاہدات اور واردات کی طرف قدم بڑھایا تو جیسا کہ مطالعے سے پتا چلتاہے اس تقرب و اتصال کی ترجمانی کچھ اس قسم کے اقوال میں ہوتی رہی مثلاًانا الحق (حلاج) یا انا الدھر (محمد) میں ہوںقرآن ناطق (علی) ما اعظم شانی(بایزید) لہٰذا اسلامی تصوف کے اعلیٰ مراتب میں اتحاد و تقرب سے یہ مقصود نہیں تھاکہ متناہی خودی لامتناہی خودی میں جذب ہو کر اپنی ہستی فنا کر دے بلکہ یہ کہ لامتناہی ، متناہی کی آغوش محبت میں آجائے، مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے: علم حق در علم صوفی گم شود ایں سخن کے باور مردم شود۱۹؎ [لوگوں کو اس بات کا کیسے یقین آ سکتا ہے کہ علمِ حق، علم صوفی میں گم ہوتا ہے۔] خطبہ نمبر ۴ میں ہی حیات بعد الموت اور انسان کی ’’نشاۃ اولیٰ‘‘ کے مسئلے کو رومی کے حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں: بعینہٖ یہ بھی ایک قدرتی امر تھا۔ علیٰ ہذا قرآن مجید کی روح کے عین مطابق کہ رومی بقائے دوام کے مسئلے کو ارتقائے حیات ہی کا ایک مسئلہ ٹھہراتا، کیونکہ ہم اس کا فیصلہ صرف مابعد الطبیعی دلائل کی بنا پر نہیں کر سکتے، جیسا کہ بعض فلاسفۂ اسلام کا خیال تھا لیکن پھر عصر حاضر میں تو اس نظریے سے زندگی کے بارے میں امید و وثوق اور ذوق و شوق کی بجائے مایوسی اور افسردگی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور نے بغیر کسی دلیل کے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہم انسان اپنے ارتقا کی جس منزل میں ہیں اسے نفسیاتی یا عضویاتی جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے ہمارے ارتقا کی آخری منزل ہے۔لہٰذابحیثیت ایک حادثۂ حیات کے موت میں کوئی تعمیری پہلو مضمر نہیں۔ دراصل عصر حاضر کو آج ایک رومی کی ضرورت ہے جو دلوں کو زندگی، امید اور ذوق و شوق کے جذبات سے معمور کردے۔ (اس کے بعد اقبال نے ارتقا کے متعلق مولانا روم کے اشعار درج کیے ہیں۔)۲۰؎ تشکیل جدید کے خطبہ نمبر ۷ ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں فلسفہ اور سائنس کے میدانوں میں ذہن انسانی کی پیش رفت کے نوعِ انسانی پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے مذہب (اسلام) کے دفاع میں رومی کا یوں تذکرہ کرتے ہیں: مزید برآں ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عملی اعتبار سے بھی یہ مسئلہ کچھ کم اہم نہیں۔ عہد حاضر کے تنقیدی فلسفوں اور علوم طبیعیہ میں اختصاص نے انسان کی جو حالت کر رکھی ہے بڑی ناگفتہ بہ ہے۔ اس کے فلسفۂ فطرت نے تو بے شک اسے یہ صلاحیت بخشی کہ قوائے فطرت کی تسخیر کر لے، مگر مستقبل میں اس کے ایمان اور اعتماد کی دولت چھین کر۔ پھر یہ عجیب بات ہے کہ تصور تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن اس سے مختلف تہذیبیں مختلف اثرات قبول کرتی ہیں۔ دنیائے اسلام میں نظریۂ ارتقا کی تشکیل ہوئی تو اس سے حیاتیات ہی کے نقطۂ نظر سے انسان کے مستقبل کے لیے مولانا روم کے اندر وہ ذوق و شوق پیدا ہوا کہ آج بھی ایک پڑھا لکھا مسلمان جب ان کے اشعار کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے دل میں مسرت و ابتسہاج کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں : از جمادی مردم و نامی شدم وز نما مردم بحیواں بر زدم مردم از حیوانی و آدم شدم پس چہ ترسم کے زمردن کم شدم حملۂ دیگر بمیرم از بشر پس بر آرم از ملائک پر و سر بار دیگر از ملک قرباں شوم آنچ اندر وہم ناید آں شوم پس عدم گردم عدم چوں ارغنون گویدم کہ انّا الیہ راجعون برعکس اس کے یورپ میں اس نظریے کی تشکیل گو زیادہ تحقیق و تدقیق سے کی گئی(مگر) وہاں اس کی انتہا اس عقیدے پر ہوئی کہ جہاں تک علوم طبیعیہ کا تعلق ہے اس امر کی کوئی ضمات نہیں کہ انسان کو جو گونا گوں صلاحیتیں حاصل ہیں آیندہ بھی ان کا کوئی خاص ارتقا جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر کے انسان میں یاس و نومیدی کی جو کیفیت پیدا ہو چکی ہے وہ اس کو علمی اصطلاحات کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے، حتیٰ کہ نطشے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔۲۱؎ نثری تالیفات (جو تحقیقی مقالے کے بعد تحریر کی گئیں) میں مولانا روم کے بارے میں اقبال کے اختیار کردہ نقطہ نظر کا مقالے میں اختیار کیے گئے نقطہ نظر سے تقابلی جائزہ لیں تو مولانا کا فکر و فلسفہ اقبال کے ہاں ذیل کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ ۱- مولانا روم کے اسرار و حقائق زندہ جاوید ہیں۔۲۲؎ ۲- حقیقت مطلقہ کے ادراک بالحواس سے ماورا پہلوئوں سے اتصال کے لیے قلب کی حقیقت کا مولانا روم کے الفاظ میں بیان۔۲۳؎ ۳- زمان و مکان کے مسئلے کے بیان میں رومی کو غزالی کی نسبت اسلامی فکر کا بہتر نمایندہ قرار دینا۔۲۴؎ ۴- جدید علوم طبیعیات (سائنس) اور عرفان (مذہب) کے طریق کار و نقطۂ نظر اور اہداف کے بیان میں مولانا روم کا تذکرہ اور اشعار میں بیان شدہ ان کے نقطۂ نظر کی برتری و بہتری کا اثبات۔۲۵؎ ۵- متناہی خودی (انسان) کے لامتناہی خودی (ذات حق) کے ساتھ ربط و تعلق کی مولانا روم کے الفاظ میں وضاحت۔۲۶؎ ۶- روحانیت کے بغیر جدید نظریہ ارتقا کے انسانی معاشرے پر منفی اثرات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کا انسان ایمان و اعتماد کی دولت ہاتھ سے گنوا کر یاس و نا امیدی کے عمیق کنوئیں میںبے چارگی کی حالت میں منہ کے بل گرا پڑا ہے جبکہ آج سے کئی سو سال پیشتر حیات انسانی کے ارتقائی تصور کو مضبوط روحانی اساسات پر بیان کر کے رومی نے اسے حیات آفریں بنا دیا لہٰذا عصر حاضر آج پھر ایک رومی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔۲۷؎ وہ اہم نکتہ جس کے حوالے سے اقبال کا رومی کے بارے میں نقطہ نظربدل جاتا ہے۔ ٭ اپنے مقالے میں اقبال نے رومی کو نظریہ وحدت الوجود کے قریب تر اور ان کے محبت و عشق کے متعلق اشعار کو ’’حقیقت کو بطور جمال‘‘ زیر بحث لانے والے صوفیانہ مکتب کے وحدت الوجودی رنگ میں ڈھلنے کی بالواسطہ اساس قرار دیا ہے۔ جبکہ خطبات میں متناہی خودی کے لامتناہی خودی کے ساتھ تعلق کی وضاحت میں مولانا روم کو اس سے بری الذمہ قرار دیا ہے اور اس تعلق کی وضاحت میں انھوں نے مولانا کے جس نظریے کو بیان کیا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ وہ وحدت الوجود کا شائبہ تک بھی نہیں ہوتا بلکہ نظریۂ وحدت الوجود کی تردید ہوتی ہے۔ جہاں تک شاعری میں مولانا روم کے ذکر کا تعلق ہے اردو شاعری میں ۲۳ بار اپنے اشعار میں انھوں نے مولانا روم کا تذکرہ کیا ہے۔ بانگ درا اقبال کا پہلا اردو مجموعہ کلامِ ہے۔ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ۱۹۰۵ء تک یعنی یورپ جانے سے قبل کی نظموں اور اشعار پر مشتمل ہے، دوسرا حصہ ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء یعنی قیام یورپ میں کہے جانے والے اشعار پر جبکہ حصہ سوم ۱۹۰۸ء کے بعد یعنی یورپ سے آمد کے بعد کہے جانے والے ان اشعار پر مشتمل ہے جو بانگ درا کی اشاعت سے قبل تک کہے گئے ۔حصہ اوّل و دوم میں رومی کا تذکرہ نہیں ملتا جبکہ حصہ سوم میں (۱۹۰۸ء سے بعد کہے جانے والے اشعار میں) ایک مقام پر رومی کا تذکرہ کچھ یوں ملتا ہے۔ گفت ’’رومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند‘‘ می ندانی ’’اول آں بنیاد را ویراں کنند‘‘۲۸؎ (رومی نے کہا کیا تو نہیں جانتا کہ ہر پرانی عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کے لیے پہلے اس کی بنیاد گرائی جاتی ہے۔) اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے قبل اور قیام یورپ کے دوران بھی اقبال کا زیادہ میلان رومی کی طرف نہیں رہا۔ البتہ قیام یورپ میں رومی اقبال کے مطالعے میں ضرور آئے، جس کا ثبوت ان کے تحقیقی مقالے کے مطالعے سے ملتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یورپ سے واپسی پر وہ مکمل طور پر مولانا روم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ مولانا روم ’’مرشد رومی‘‘ بن جاتے ہیںاور اقبال ’’مرید رومی‘‘۔ پھر اسی مناسبت سے اقبال کی مابعد تمام تحریروں (نثر ہو یا نظم اور اردو شاعری ہو یا فارسی) میں ہر جگہ مرشد رومی کا تذکرہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے حتیٰ کہ فکر اقبال پر رومی ہی چھا یا ہوا نظر آتا ہے۔ یورپ سے واپسی کے بعد کی اردو شاعری میں کم و بیش ۲۳ مقامات پر اور فارسی شاعری میں ۷۶ مقامات پر مولانا روم کا تذکرہ ملتا ہے۔ اردو شاعری میں رومی کا تذکرہ جن حوالوں سے کیا گیا اس کو خلاصتہً یوں بیان کیا جا سکتا ہے: رومی قافلہ سالار عشق ہے۔۲۹؎ رومی بننے کے لیے آہ سحرگاہی کی ضرورت ہے۔۳۰؎ آج دنیا کو رومی کی ضرورت ہے۔۳۱؎ فارسی شاعری میں رومی کے تذکرے کو خلاصتہً یوں بیان کیا جا سکتا ہے: اتباع رسولؐ رومی سے سیکھو۔۳۲؎ میں نے سوز و ساز اور تڑپ رومی سے حاصل کی ہے۔۳۳؎ میری فکر رومی کے آستاں پر سجدہ ریز ہے۔۳۴؎ رومی عشق و ادب کا آئینہ ہے۔۳۵؎ گذشتہ زمانے میں رومی تھا اور آج کے دور میں، میں ہوں اور میں نے یہ سب کچھ رومی سے سیکھا ہے۔۳۶؎ پیام مشرق کی تصنیف کے اسباب و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ۔۔۔۔ پیام مشرق کی تصنیف کا محرک جرمن حکیم حیات ’’گوئٹے‘‘ کا ’’مغربی دیوان‘‘ ہے جس کی نسبت جرمنی کا اسرائیلی شاعر ہائنا لکھتا ہے۔ ۔۔۔۔ یہ ایک گلدستہ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے ۔۔۔ اس دیوان سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہو کر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے۔۳۷؎ گوئٹے اپنے دیوان کی تصنیف و تالیف میں جن مشرقی حکما اور شاعروں سے متاثر ہوا ان کا تذکرہ اقبال یوں کرتے ہیں۔ ’’خواجہ حافظ کے علاوہ گوئٹے اپنے تخیلات میں شیخ عطار، سعدی ، فردوسی اور عام اسلامی لٹریچر کا بھی ممنون احسان ہے‘‘۔۳۸؎ چونکہ گوئٹے مولانا روم کے بارے میں کوئی واضح نقطۂ نظر اختیار نہیں کر سکا اس لیے اس کی توجیہ کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: مولانا روم کے فلسفیانہ حقائق و معارف اس کے نزدیک مبہم تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس نے رومی کے کلام پر غائر نگاہ نہیں ڈالی کیونکہ جوشخص سپائی نوزا (ہالینڈکا ایک فلسفی جو مسئلہ وحدت الوجود کا قائل تھا) کا مداح ہو اور جس نے برونو(اٹلی کا ایک وجودی فلسفی) کی حمایت میں قلم اٹھایا ہو اس سے ممکن نہیں کہ رومی کا معترف نہ ہو۔۳۹؎ پیام مشرق کے دیباچے میں ہی ایک اور مغربی شاعر روکرٹ کے حوالے سے مولانا روم کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: روکرٹ عربی فارسی سنسکرت تینوں زبانوں کا ماہر تھا۔ اس کی نگاہ میں فلسفۂ رومی کی بڑی وقعت تھی اور اس کی غزلیات زیادہ تر مولانا روم ہی کی تقلید میں لکھی گئیں۔۴۰؎ جب ہم مولانا کے بارے میں اقبال کے نقطۂ نظر کا مقالے اور بعدکے دور کے ساتھ تقابل کرتے ہیں تو ہم بدیہی طور پر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ: مقالے میں مولانا روم سے محبت ، عشق ، جذب و کیف اور سوز و گداز کے جس تعلق کا آغاز ہوا تھا مابعد فکر میں وہ بڑھتا گیا اور بالآخر اتنا ہمہ گیر ہوا کہ اقبال کی تمام فکر پر محیط ہو گیا۔ ایک فلسفی اقبال، ایک عارف کامل بن گیا۔ دلیل و برہان پر کیف و شہود نے فتح پالی۔ فلسفیانہ موشگافیاں صاحب نظر کے سامنے دم توڑ گئیں۔ منطقی نکتہ آرائیاں، واردات قلبی کے سامنے اپنی حیثیت کھو بیٹھیں۔ عقل ، عشق کے تابع ہو گئی اور یوں اقبال نے مقالے کی تحریر کے دوران مولانا روم سے تعلق کا جو ایک چھوٹا سابیج بویا تھا، رفتہ رفتہ وہ ایک بہت بڑا شجر سایہ دار و ثمر آور ثابت ہوا۔ اتنا سایہ دار اور ثمر آور کہ نہ صرف برصغیر پاک و ہند، ایشیا اور دنیا بھر کے مسلمان بلکہ تمام نوع انسانی آج اس سے برکات سمیٹ رہی ہے۔ البتہ مقالے کی تحریر کے دوران اور بعد کی تحریروں میں مولانا روم کے بارے میں اقبال کے فکر و نظر میں جو تفاوت نظر آتا ہے وہ یہ کہ مقالے میں اقبال اگرچہ رومی کا ذکر احسن پیرائے میں کرتے ہیں مگر ساتھ ہی وہ وحدت الوجودی رنگ اور میلان تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور ابن عربی کو توحید اسلامی کے ایک بڑے نمایندے کے طور پر ذکر کرتے ہیں جبکہ بعد کی تحریروں میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی سمیت تمام بڑے بڑے عرفا اور مفکر بتدریج پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور صرف اورصرف رومی ہی اقبال کے فکری منظر پر نظرآتے ہیں۔۴۱؎ ژ…ژ…ژ حوالے و حواشی ۱- ایم ایم شریف(مرتبہ)، اے ہسٹری آف مسلم فلاسفی،رائل بک کمپنی،کراچی،ج:۲،ص۸۲۰-۸۲۶۔ ۲- مرتضیٰ مطہری، خدمات متقابل اسلام و ایران، تہران، انتشارات صدرا، ص ۶۵۹-۶۵۸۔ ۳- محمد اقبال، فلسفہ عجم، مترجم: میر حسن الدین، نفیس اکیڈمی ، کراچی، ۱۹۶۹ئ، ص ۱۴۲۔ ۴- ایضاً، ص ۱۴۲۔ ۵- ایضاً، ص۱۴۳۔ ۶- ایضاً، ص۱۵۰-۱۵۱۔ ۷- ایضاً ، ص ۱۵۲-۱۵۳۔ ۸- ایضاً، ص ۱۵۶-۱۵۷۔ ۹- ایضاً، ص ۱۵۷۔ ۱۰- ایضاً، ص ۱۵۳۔ ۱۱- ایضاً، ص ۱۵۱۔ ۱۲- ایضاً، ص ۱۵۲۔ ۱۳- ایضاً، ص ۱۵۶۔ ۱۴- ایضاً، ص ۱۵۶۔۱۵۷۔ ۱۵- محمد اقبال، اقبال نامہ ، حصہ دوم، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ناشر: شیخ محمد اشرف، لاہور،۱۹۴۵ئ، ص ۱۶۲-۱۶۳۔ ۱۶- محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، مترجم : نذیر نیازی، لاہور، بزم اقبال،۱۹۸۶ئ، ص ۲۳۔ ۱۷- ایضاً، ص ۱۰۸-۱۰۹۔ ۱۸- ایضاً، ص ۱۳۷-۱۳۸۔ ۱۹- ایضاً، ص ۱۶۶۔ ۲۰- ایضاً، ص ۱۸۳-۱۸۴۔ ۲۱- ایضاً، ص ۲۸۷-۲۸۹۔ ۲۲- محمد اقبال، اقبال نامہ ، حصہ دوم، ص ۱۶۲-۱۶۳۔ ۲۳- محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۳۔ ۲۴- ایضاً، ص ۱۰۸-۱۰۹۔ ۲۵- ایضاً، ص ۱۳۷-۱۳۸۔ ۲۶- ایضاً، ص ۱۶۶۔ ۲۷- ایضاً، ص ۱۸۳-۱۸۴۔ ۲۸- محمد اقبال، کلیات اقبال اردو، ناشر: شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص ۳۶۴۔ ۲۹- ایضاً، ص ۳۰۹-۳۳۱۔ ۳۰- ایضاً، ص ۳۴۸،۳۵۹۔ ۳۱- ایضاً، ص ۴۲۶،۳۳۴۔ ۳۲- محمد اقبال، کلیات اقبال فارسی، ناشر: شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۵ئ، ص ۱۳۱۔ ۳۳- ایضاً، ص ۳۳۱۔ ۳۴- ایضاً، ص ۵۷۷۔ ۳۵- ایضاً، ص ۶۳۱۔ ۳۶- ایضاً، ص ۶۰۷،۶۱۱،۶۲۰،۶۲۱، ۶۲۳۔ ۳۷- ایضاً، ص ۱۷۷۔ ۳۸- ایضاً، ص ۱۷۹۔ ۳۹- ایضاً، ص ۱۸۰۔ ۴۰- ایضاً، ص ۱۸۰۔ 41- Muhammad Iqbal, The Development of Metaphysics in Persia, Foreword by M.M. Sharif, Club Road, Lahore, 1964. ئ……ئ……ء استفسارات احمد جاوید استفسار: میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہوں۔ فلسفہ پڑھنے پڑھانے ہی کا شغل رہا۔ آج کل اقبال کو نئے سرے سے پڑھ رہا ہوں۔ اُن کے نظریۂ خودی کو زیادہ غور اور ارتکاز کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس نظریے پر میری بھی ایک رائے بننی شروع ہوگئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اُس رائے کو درست سمت میں مکمل کروں، اس لیے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ اقبال کے نظریۂ خودی کا مضبوط ترین پہلو کون سا ہے؟ اور اگر مناسب سمجھیں تو اس کا کمزور پہلو بھی بتا دیں! آپ کی زحمت کم کرنے کے لیے یہ عرض کررہا ہوں کہ مَیں نے علامہ اقبال کی نثری اور شعری کتابوں سے وہ تمام مقامات نکال کر یکجا کرلیے ہیں جو خودی کے بارے میں ہیں۔ اس لیے مجھے حوالوں کی ضرورت نہیں ہے، آپ جو لکھیں گے، مَیں اپنے پاس موجود حوالوں سے ملا کر دیکھ لوں گا۔ شکریہ [اسلام نصیر‘ کراچی] جواب اقبال کے تصورِ خودی کے کئی پہلو ہیں: حیاتیاتی، نفسیاتی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی، مابعد الطبیعی وغیرہ۔ تاریخی اور مابعد الطبیعی پہلو کو چھوڑ کر خودی کی تمام جہتیں بہت محکم ہیں، نظری طور بھی اور عملی رُخ سے بھی۔ اقبال نے خودی کو خود شعوری کے معنی دے کر اس کی جو نفسیاتی اور اخلاقی بنیاد میں اُٹھائی ہیں اُن پر فرد اور جماعت دونوں کی تکمیل بہت آگے تک ممکن ہوجاتی ہے۔ اقبال گزشتہ دو صدیوں میں غالباً پہلے مسلم مفکر ہیں جس نے اس حقیقت کے مؤثر بیان تک رسائی حاصل کی کہ ذاتِ انسانی کے حدود ایک تو زندگی کے رسمی حدود سے ماورا ہیں، اور دوسرے اس ذات کا مصداق بننے کی حقیقی صلاحیت اُس شعور میں ہوتی ہے جو ذات کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے زیادہ کامل ہے۔ یعنی خودی کی ذہنی اور نفسیاتی ساخت اس کی واقعیت کے حدود سے نہ صرف یہ کہ زیادہ وسیع اور مکمل ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ ذات کے لیے ایک ’ماوراے خود جوہر‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ باقی رہا اس نظریے کا کمزور پہلو تو وہ اس کا مابعد الطبیعی تناظر ہے۔ علامہ خودی کے مطلق اور مقید ہونے کو جس مابعد الطبیعی سیاق و سباق میں کارفرما دیکھتے ہیںوہاں انسانی خودی کا تو کیا ذکر، خود ذاتِ خداوندی کے امتیازات مدہم پڑجاتے ہیں۔ اوپر سے اناے انسانی کو بھی مابعد الطبیعی اُصول فراہم کرنے سے یہ اپنی تعریف کے حدود سے متجاوز ہوکر ایسی تجرید اختیار کرلیتی ہے جس کا مصداق کہیں نہیں پایا جاتا، نہ شعور میں نہ وجود میں۔ ان دونوں باتوں کی قدرے تکنیکی مگر ضروری تفصیل یہ ہے کہ جہاں اقبال انسان کو ایک بااختیار اور باشعور اخلاقی وجود قرار دے کر اس کی اصل یعنی خودی کے خصائص اور امتیازات کا انکشاف کرتے ہیں، وہاں تک انسان کے بارے میں قائم کیے جانے والے اکثر تصورات کی پہنچ نہیں ہے۔ یہ نکتہ اقبال نہ ہوتے تو شاید ہمارے علم میں نہ آتا کہ اخلاقی وجود، شعورِ ذات کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے، اور اس کی نشو و نما کے سارے اسباب اسی ماحول میں فراہم ہوتے ہیں جو شعورِ ذات کا بنایا ہوا ہے۔ گویا خودی، شعور اور ارادے کے نقطۂ اتصال پر فعال ہو کر اس اخلاقی وجود کی مقوم بنتی ہے جو اپنے سپرد کیے گئے ideals کو ایک تخلیقی قوت کے ساتھ actualize کرتا ہے۔یہی اخلاقی وجود کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بے خودی کا احساس اور شعور ہر چیز سے بڑھ کر درکار ہے۔ اسی اخلاقی وجود کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی کائناتِ ہستی جن قطبین پر قائم ہے وہ تصورات نہیں ہیں بلکہ خودی ہی کے دو اُصول ہیں، جن میں ایک مطلق ہے اور دوسرا مقید۔ مطلق، ideals فراہم کرتا ہے اور مقید اِن کی actualization کا سامان کرتا ہے۔ یہ وہی بات ہے جسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ مطلق سے احکام صادر ہوتے ہیں اور مقید اِن احکام کو تکمیل کے تمام ممکنہ مراتب میں جاری رکھتا ہے۔ یہ قطبین اپنے باہمی امتیاز سے دستبردار نہیں ہوسکتے ورنہ یہ کائنات موجود نہیں رہ سکتی۔ انسانی خودی اپنی اصل پر قائم رہنے کے لیے خود شعوری کے نئے نئے مراحل اور مراتب ایجاد کرتی رہتی ہے، اسی عمل سے اس کی وجودی توسیع اور تکمیل کا سفر جاری رہتا ہے۔ چونکہ خودی کا انسانی اُصول خودی کی ربانی حقیقت سے نسبت رکھے بغیر بے معنی اور غیرحقیقی ہے، اس لیے اسے اپنی انفرادیت کو وجود اور شعور کی ہر سطح پر پورے جذبۂ نگہداری کے ساتھ قائم رکھنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی مسلسل نمو کے اسباب بھی فراہم کرنے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسانی خودی، خودی کا متقابلِ دائمی ہے لہٰذا یہ بھی وجود کی خود شعوری کے دائرے میں استقلال رکھتی ہے۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ گمان کیا کہ اقبال حادث اور قدیم کے فرق کو نظرانداز کررہے ہیں۔ سامنے کی بات ہے کہ خودی کا زمانی مکانی ہونا اس کے حدوث کی شہادت کے طور پر کافی ہے، اس کا استقلال وقت کی پیمائش سے ماورا نہیں ہے۔ دوسرے رُخ سے دیکھیے تو مسئلہ زیادہ صاف ہوجائے گا۔ قدیم کے فعال ہونے کاتحقق حدوث کو اس کا متقابل بنا کر ہی ممکن ہے۔ یہ تحقق زمانے کے آخری سرے تک درکار ہے اور یہ ضرورت انسان اپنے وجود کی اخلاقی اصل، معنویت اور فضیلت سے پوری کرتا ہے۔ یہاں قدیم و حادث کسی بھی مرحلے پر خلط ملط نہیں ہوتے اور اپنی اپنی ماہیت یعنی قدم وحدوث سے جدا نہیں ہوتے۔ صوفیوں کے تصورِ فنا کو غلط فہمی کی نذر کر دینے کی وجہ سے یہ خیال زور پکڑ گیا تھا کہ انسانی خودی کا منتہائے کمال یہ ہے کہ وہ الوہی خودی میں ضم ہوجائے۔ سرِدست صوفیانہ فنا کی صحیح تعبیر ہمارا منشا نہیں ہے، اس لیے اسے چھوڑتے ہیں اور اقبال کے نظریہ خودی میں فنا کی اس غلط تعبیر کو جس طرح موضوع بنایا گیا ہے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس مفرو ضہ فنا کی تردید میں اقبال نے جو استدلال کیا ہے وہ بہت نادر ہے۔ خودی کا شعور، خودی کے وجودی حدود سے باہر نکل جانے پر بھی برقرار رہتا ہے۔ خودی کی اخلاقی بناوٹ اپنے شعور کے حدود کو اس ماحول میں بھی ٹوٹنے نہیں دیتی جہاں اس کی ہستی کے تمام اسباب سرے سے ناپید ہیں۔ اگر خودی اپنے تشخص میں مستقل نہ رہے تو خود ربانی خودی ناقابلِ اثبات ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر ذاتِ مقید اگر ذاتِ مطلق میں ضم ہوجائے تو کیا یہ واقعہ مطلق کی ماہیت میں کسی تغیر اور اضافے کا موجب نہیں بنے گا؟ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مقید کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ مطلق نہیں ہے، اگر یہی مقید اپنی تقیید کو توڑ کر مطلق میں سما جائے تو اس کا بس یہی نتیجہ ہوگا کہ مطلق جو نہیں تھا وہ ہوگیا۔ یہ بہت مضبوط استدلال ہے اور اقبال کے نظریۂ خودی کی تائید میں استعمال ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ اپنے اخلاقی اُصول میں خودی مابعد الطبیعی سیاق و سباق میں مشخص ہونا قبول نہیں کرسکتی۔ اس نظریے کی واحد کمزوری یہی ہے کہ اسے الٰہیاتی سطح تک پہنچا دیا گیا ہے جہاں اس کے ثبوت کی تمام بنیادیں محض منطقی اور تخییلی ہوکر رہ جاتی ہیں۔اور آپ جانتے ہی ہیں کہ منطق اور تخییل تصورات کو حقائق پر غالب کردیتے ہیں۔ اقبال کے تصورِ خودی کی مابعد الطبیعی جہت بھی خطرے سے پاک نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اخلاقی وجود کو ایک حاکم اور فعال متقابل لازم ہے لیکن یہ تقابل، یعنی خدا اور بندے کی نسبت، وجودی نہیں ہے بلکہ فعلی ہے۔ اگر یہ تقابل وجودی ہوتا تو اس کی طرفیں مطلق ہوتیں۔ مطلق اور مقید میں وجودی تقابل کی ہرقسم محال اور لایعنی ہے۔ بھلا سوچیے کہ ایک ہی دائرے کی دو قوسین اپنی اصل میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ وجود اپنی اطلاقی جہت میں کسی کثرت اور تقابل کو روا نہیں رکھتا، یہ سارے امتیازات وجود کے تقییدی دائرے کی چیزیں ہیں۔ مطلق اپنے مرتبۂ وجود میں غیریت کی کسی بھی صورت کا متحمل نہیں ہوسکتا ورنہ وہ مطلق نہیں رہے گا۔ علامہ نے مقید خودی کو لامکانی وسعتوں میں پرواز کرنے والا طائر بنا کر اس اُصول کا لحاظ نہیں رکھا۔ ئ……ئ……ء استفسار حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں جا بجا مختلف مقامات پر خضر اور مہدی کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ کیا ان کے درج ذیل اشعار سے ان کے تصورِ مہدی کو واضح کیا جاسکتا ہے، اور کیا ان اشعار میں مہدی کی خصوصیات اور تشخص کو بیان کیا گیا ہے: خضر وقت از خلوت دشت حجاز آید برون کاروان زین وادی دور و دراز آید برون من بہ سیمای غلامان فرّ سلطان دیدہ ام شعلۂ محمود از خاک ایاز آید برون عمر ہا در کعبہ و بتخانہ می نالد حیات تا ز بزم عشق یک دانای راز آید برون طرح نو می افکند اندر ضمیر کائنات نالہ ہا کز سینۂ اھل نیاز آید برون چنگ را گیرید از دستم کہ کار از دست رفت نغمہ ام خون گشت و از رگہای ساز [زبور عجم، ص ۴۶] مزید براں اس اَمر کی بھی توضیح فرما دیجیے کہ کیا مندجہ بالا اشعار کی اقبال ہی کے دیے ہوئے درج ذیل اُصول کی روشنی میں توضیح کرتے ہوئے ان کے تصور مہدی کے خدوخال واضح ہوسکتے ہیں: من بطبع عصر خود گفتم دُو حرف کردہ ام بحرین را اندر دُو ظرف حرف پیچا پیچ و حرف نیش دار تا کنم عقل و دل مردان شکار حرف تَہ داری بانداز فرنگ نالۂ مستانہ ئی از تار چنگ اصل این از ذکر و اصل آن ز فکر ای تو بادا وارث این فکر و ذکر آب جویم از دو بحر اصل من است فصل من فصل است وہم وصل من است تا مزاج عصر من دیگر فتاد طبع من ہنگامۂ دیگر نہاد [جاوید نامہ،ص ۱۹۷] کیونکہ محترم اشفاق احمد صاحب نے بھی کہا تھا کہ اقبال دو ہیں: ایک رات کا اقبال اور ایک دن کا اقبال۔ رات کا اقبال شاعر اقبال ہے اور دن کا اقبال مفکر اقبال۔ [سیّد انوار زیدی‘ کراچی] جواب اس استفسار کی تَہ میں یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ علامہ اقبال کے بعض تصورات بلکہ معتقدات بھی اُن کی نثر میں ایک مطلب رکھتے ہیں اور شاعری میں دوسرا۔ یہ دوروئی یا دولختی یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ مفکر اقبال اور شاعر اقبال گویا دو الگ الگ شخصیتیں ہیں جو کئی اُمور میں ایک دوسرے سے متضاد موقف رکھتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ کے سوال کی طرف جانے سے پہلے یہ بات صاف کرلی جائے۔ ورنہ اس مغالطے کی موجودگی میں جو گفتگو ہوگی، بے سود اور بے معنی رہے گی۔ اس سلسلے میں پہلی عرض یہ ہے کہ اقبال کی تمام چیزیں محفوظ حالت میں ہمارے سامنے ہیں۔ اُن کے فلسفہ و فکر کی بنیادی دستاویز یعنی تشکیل جدید… بھی ہماری دسترس میں ہے اور اُن کی اُردو فارسی شاعری کے تمام مجموعے بھی ہمیں فراہم ہیں۔ اس سارے ذخیرے میں کوئی ایک تصور یا نظریہ دکھا دیجیے جس میں اقبال کا فلسفہ اُن کی شاعری سے یا شاعری، فلسفے سے متصادم ہو۔ یقینا ایسی ایک مثال بھی نہیں ملے گی کیونکہ نثر ہو یا شعر، اقبال کے بنیادی تصورات اپنی معنویت میں ایک رہتے ہیں۔ اُن کی فکر کے مرکزی اجزا چاہے فلسفے میں استعمال ہوئے ہوں یا شاعری میں صرف ہوئے ہوں، آپس میں کوئی ایسا اختلاف نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ اقبال کسی اندرونی تضاد کا شکار تھے۔ اُن کی مفکرانہ اور شاعرانہ فکر میں وہ امتیازات تو بالکل پائے جاتے ہیں جو خود فلسفہ و شعر اور نثر ونظم کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں، لیکن یہ خیال کرنا کہ اقبال کی فکر اور شاعری میں کوئی نظریاتی جوڑ اور مطابقت نہیں ہے، ایسی غلط فہمی ہے جو مکمل نادانی سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کی شاعری اُسی حکیمانہ روایت کا تسلسل ہے جس میں حلاج، عطار، رومی، جامی اور ایک خاص مفہوم میں، بیدل ایسے لوگ آتے ہیں۔ ایسی شاعری کا ایک خاصہ ہے___ اس میں جذبات و احساسات بھی معنی کے وفور سے پیدا ہوتے ہیں۔ تعقل اور تأثر یکجان نہ ہوں تو یہ شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔ یعنی اس شاعری میں اُصولِ معنی اپنے استقلال پر رہتے ہوئے رنگا رنگ تاثرات میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں قاری کو ذہنی ثبات اور احساساتی تنوع کے ایک ہوجانے کا تجربہ میسرآتا ہے۔ اس پس منظر میں ذرا غور فرمائیے تو واضح ہوجائے گا کہ اقبال کے فکروشعر کی معنوی تشکیل کرنے والا مادّہ ایک ہی ہے، فرق بس اتنا ہے کہ فکر میں اُس کا اظہار تأثر کے بغیر ہوتا ہے جبکہ شاعری میں تأثر کے ساتھ۔ شعر میں آکر نظریاتی بناوٹ رکھنے والا خیال وہی رہتا ہے البتہ اُس کے اندازِ قبولیت میں کچھ غیر ذہنی عناصر کا اضافہ ہوجاتا ہے اور معنی کی ساخت جمالیاتی ہوجاتی ہے۔ اقبال کی یہ قوت اُن کی فکر کومعنویت کے نئے آفاق فراہم کرتی ہے اور اُن کے نظریات کو طرزِ احساس میں انقلاب پیدا کرنے والی تاثیر دیتی ہے۔ وہ شاعری سے اپنے تصورات کی زندگی بڑھانے اور انھیں ذہنی سے وجودی بنانے کاکام لیتے ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ اقبال کا ہر تصور اپنی تکمیل کیبعد جن ستونوں پر استوارہے، اُن میں سب سے مضبوط ستون اُن کی شاعری سے اُٹھے ہیں۔ ظاہر ہے فکر کو جذبہ و حس اور تخیل کی تھام مل جائے تو اُس کا قد بھی بڑھ جاتا ہے اور عمر بھی۔ فلسفیانہ اصطلاح میں یوں کَہ لیں کہ فکر کے منطقی اور عقلی دروبست کو چھیڑے بغیر اُس کے تجریدی عناصر کو مغلوب کرکے اُسے ’محسوس‘ سے قریب کردینا خود تفکر کا وہ تقاضا ہے جسے پورا کردیا جائے تو فکر کا مقصود سہل الحصول ہوجاتا ہے اور اس کی وہ قوت بھی بڑھ جاتی ہے جو شعور کے زیادہ سے زیادہ حصوں کا احاطہ کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس طرح نظریے کی قبولیت کے اسباب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب آپ کے سوال کی طرف چلتے ہیں۔ مختصر جواب تو یہی ہے کہ اقبال، مہدی کے معروف مذہبی تصور کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے بوجوہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ لہٰذا یہ تو طے ہے کہ زیرنظر شعر میں ’خضرِ وقت‘ امام مہدی نہیں ہے۔ تاہم کافی ہونے کے باوجود اس جواب کو تھوڑی سی تفصیل بھی درکار ہے۔ یہاں ہم اقبال کے مجموعی تناظر میں رہتے ہوئے اس عقیدے کے اُن نفسیاتی، تہذیبی اور دینی مضمرات کا تذکرہ کریں گے جو اس کی تردید پر اُکساتے ہیں۔ ایک اساطیری نجات دہندہ کا انتظار قوموں کی نفسیاتی ساخت میں کچھ ایسی تبدیلیاں لاسکتا ہے جن سے وہ صلاحیت کمزور پڑجاتی ہے جو حالات کے درست تجزیے اور اُن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے۔ یہی نہیں، لاتعلقی اور بے حسی سے پیدا ہونے والا جمود قومی ضمیر کو زندگی کی تشکیلِ نو کرنے اور اسے مؤثر تخلیقی اقدار فراہم کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ ایسی بنجر اجتماعیت میں فرد بھی رومانویت کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور کچھ خوابوں کو اپنے شعور کی کُل پونجی بنائے زندگی گزارتا رہتا ہے۔ تصورات پر یقین رکھنے کی عادت، عمل اور مقاصدِ عمل کو حیاتیاتی سطح سے اوپر نہیں اُٹھنے دیتی اور آدمی تاریخ سے، جو موجود ہونے کا اصل امتحان ہے، ایک احمقانہ فاصلہ پیدا کرلیتا ہے۔ فکرِ اقبال کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کی جائے تو مروجہ تصورِ مہدی کو زوالِ اُمت کا ایک نہایت بنیادی سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسے تصورات ایک طرف اجتماعیت کے دینی اُصول کو پنپنے سے روک دیتے ہیں اور دین کے نظامِ اقدار کو زندگی سے بے دخل کردیتے ہیں، تو دوسری جانب قوموں کو اُس تاریخی شعور سے محروم رکھتے ہیں جو اُن کے نصب العین کو ایک زندہ یکسوئی کا ہدف بنائے رکھتا ہے۔ ایسی قومیں خود تو دورۂ انتظار میں رہتی ہی ہیں، تاریخ سے بھی توقع رکھتی ہیں کہ وہ بھی اس انتظار میں اُن کا ساتھ دے گی۔ اس خوش گمانی کے نتائج وہی نکلتے ہیں جو نکلنے چاہییں___ خوے غلامی، ذہنی و اخلاقی پسماندگی، بے مصرف افراد، بانجھ معاشرہ، نظریہ و عمل کا تضاد، ہمہ گیر تعطل وغیرہ۔ انھی قباحتوں کو دیکھتے ہوئے علامہ خمینی نے ولایتِ فقیہ کا نظریہ وضع کیا جس کے ذریعے سے اُنھوں نے مہدیِ منتظر کے عقیدے میں سرایت کرجانے والے اس بنیادی نقص کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جو ان خرابیوں کا مصدر ہے۔ میرا گمان ہے کہ اگر اقبال نہ ہوتے تو یہ نظریہ وجود میں نہ آتا۔ یہ الگ بات کہ خود یہ نظریہ بھی اقبال کی دنیاے فکر کے لیے ایک اجنبی چیز ہے کیونکہ اس میں مہدی کے اوتاری کردار کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا ہے۔ ہماری روایت میں علما کی ایک بڑی جماعت ’مہدیِ موعود‘ کا مصداق حضرت عمر بن عبدالعزیز کو قرار دیتی ہے اور مہدویت کے وصف کو کسی ایک شخصیت تک محدود نہیں سمجھتی۔ خود اقبال نے سلطان محمد فاتحِ قسطنطنیہ کو ’’مہدیِ اُمت‘‘کہا ہے۔ مہدویت کے تصور کو غیر مقید رکھنے کا کم ازکم ایک فائدہ ضرور ہے۔ اس سے تہذیب میں فردِ کامل کی تخلیق کا عمل جاری رہتا ہے اور وہ تہذیب اپنے مستقل جوہر کو تاریخی بنا کر اُس کی تجدید اور اعادے کی قوت سے بہرہ مند رہتی ہے۔ بصورتِ دیگر تاریخ، تقدیر کی تحویل میں چلی جاتی ہے اور دینی اصطلاحوں میں بیان کیا جائے تو بندگی کا مزاج مسخ ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی عبدیت ، جس اختیار، آزادی اور ذمہ داری سے عبارت ہے، کسی دیومالائی شخصیت کاانتظار ان خصائص کے روبعمل آنے کے ہر راستے کو بند کردیتا ہے۔ اور ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ہستی کو حجت، مامور من اللہ اور مدارِ حق ماننا ختم نبوت کا صریح انکار ہے۔ اس کے بعد اُس ہستی کو امتی کہنا ایک تکلف سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تصورِ مہدی سے تشکیل پانے والے معتقدات اپنی معیاری صورتوں میں بھی ذہن کو اس طرف لے جاتے ہیں کہ غیر نبی بھی ابنیا علیہم السلام سے بکل الوجوہ افضل اور اکمل ہوسکتا ہے، نیز ہدایت رسانی اور نیابت الٰہی کا ایک مقام ایسا ہے جو نبوت و رسالت کے مرتبے سے برتر ہے۔ آپ نے جس شعر کو بناے استفسار بنایا ہے اُس سے یقینا مہدی کی آمد یا ظہور کا پورا نقشہ کھنچ جاتا ہے، اور فکرِ اقبال سے نابلد ہر شخص اس شعر کو مہدی کی آمد کا بیان ہی سمجھے گا۔ مہدی کا حجاز سے ظاہر ہونا اور اس وادیِ دور ودراز یعنی خراسان سے لشکرِ محمدی کا اُٹھنا… یہ عین وہی منظر ہے جو مشہورِ عام مذہبی روایات میں بنایا گیا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ زبورِ عجم کے کسی شارح نے اس شعر کی شرح میں مہدی کی طرف اشارہ تک نہیں کیا! ظاہر ہے یہ حضرات جانتے ہیں کہ مہدویت کے مسئلے میں اقبال کا موقف کیا ہے۔ لہٰذا اس شعر سے کوئی ایسا مطلب نہیں نکالا جا سکتا جو اُس موقف کے خلاف ہو۔ ’’خضرِ وقت‘‘ کے مصداق کی تلاش میں لوگ قائداعظم تک پہنچ گئے مگر کسی ایک کا ذہن بھی مہدی کی طرف منتقل نہ ہوا۔ میرا خیال ہے اس بات کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذرا شعر پر دوبارہ غور فرمائیں، کیا واقعی اس سے آمد ِمہدی کا مضمون نکلتا ہے؟ پہلے اس شعر کی لفظی تحلیل کرلیتے ہیں، ممکن ہے اس طرح اس کے مضمون تک پہنچنا آسان ہوجائے: ۱- ’’خضرِ وقت‘‘: وہ شخص جو کسی خاص زمانے میں اُمت کی رہ نمائی کرے گا۔ ۲- ’’خلوتِ دشتِ حجاز‘‘: قلبِ اسلام جہاں اس دین کے حقائق اوجھل ہونے کی حالت میں موجود ہیں۔ ۳-’’آید بروں‘‘: ’’خضرِ وقت‘‘ حقائق کے حضور میں تربیت پاکر اور پختہ ہوکر باہر آئے گا۔ ۴- ’’کارواں‘‘: اُمتِ مسلمہ جو منزل تک پہنچانے والے راستے کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ ۵-’’وادیِ دور و دراز‘‘: مرکزِ اسلام سے دور اسلامی دنیا، حقائقِ اسلام سے خالی عالمِ اسلام، ہندوستان ۔ ۶- ’’آید بروں‘‘: وہ کارواں یعنی اسلام کے حقائق اور مقاصد سے ناآشنا ملتِ اسلامیہ یا ہندوستانی اور عجمی مسلمان اِدھر اُدھر بھٹکنے سے بچا لیے جائیں گے اور منزل کی طرف یکسو ہوکر متحرک ہوجائیں گے۔ گو کہ الفاظ کا یہ تجزیہ بھی ہمیں مہدی تک لے جانے کا سامان رکھتا ہے مگر ایک قرینہ ایسا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شعر مہدی سے متعلق نہیں ہے بلکہ اقبال کے اُس آئیڈیل کردار کا بیان ہے جسے وہ مختلف القابات سے یاد کرتے ہیں ___ مثلاً: مردِ حق، مردِ حر، مردِ مومن، نائبِ حق، میر کارواں وغیرہ۔ یہ کردار کہیں انفرادی ہے اور کہیں نوعی۔ بالکل اسی طرح جیسے صوفیوں کا انسانِ کامل۔ فرق بس اتنا ہے کہ انسانِ کامل میں مابعد الطبیعی جہت غالب ہے جبکہ ’’خضرِ وقت‘‘ یا ’’میر کارواں‘‘ میں تاریخی۔ ’’کارواں‘‘ کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ شعر ظہورِ مہدی کے معروف منظرنامے سے غیرمتعلق ہے جس میں مہدی حرم میں خود کو ظاہر کریں گے اور دور خراسان کی زمین سے اُن کا لشکر سیاہ عَلم اُٹھا کر کوچ کرے گا اور اُن سے آملے گا۔ آپ ملاحظہ فرمائیں، اس سارے منظر میں خراسانی لشکر ایک بہت بنیادی چیز ہے۔ اس لشکر کو نکال دیا جائے تو منظر کی باقی تفصیل مہدی سے لازماً متعلق نہیں رہ جائے گی۔ اب دیکھیے ’’کارواں‘‘ کو کسی بھی قرینے سے لشکر پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ ان دونوں میں کوئی وجہِ استعارہ یا علاقۂ تشبیہ نہیں پایا جاتا۔ تاہم اقبال کے سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ وہ شاعری میں اپنے پیغام کے پُرتاثیر ابلاغ کے لیے اُن چیزوں کو بھی کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ جنھیں ہم قبول یا اختیار کرچکے ہیں۔ ویسے بھی یہ شاعری کی مستقل روایت ہے کہ داستانوں کو بھی حقائق کے بیان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ؎ ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر غرض مضمون بندی اور معنی آفرینی کی شعری روایت سے آگاہی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ معروف تصورات کو کسی خیال کی تشکیل اور شعر کی تزئین میں صرف کیا جاتا ہے اور یہ عمل اُس تصور کی تائید یا تصدیق میں نہیں ہوتا بلکہ اُسے کسی یکسر مختلف تخیل کو پُراثر، خوب صورت اور زیادہ قابلِ فہم بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تشبیہ، استعارے اور علامت کے مراحل اسی طرح طے ہوتے ہیں، مگر اس کے لیے آپ کو دوسرا استفسار بھیجنا ہوگا۔ ژ…ژ…ژ علامہ اقبال کے یادگاری ڈاک ٹکٹ فہیم احمد خان پاکستان کے محکمہ ڈاک نے پہلی مرتبہ علامہ اقبال پر ۱۲ اپریل ۱۹۵۸ ء کو ان کی بیسویں برسی کے موقع پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ یہ یادگاری ٹکٹ تین سیٹ پر مشتمل تھے جن کی مالیت ڈیڑھ آنہ، دو آنہ اور چودہ آنہ تھی۔ یہ خوبصورت ٹکٹ خاکی مائل زرد ،ہلکے کتھئی،ہلکے نیلے رنگوں پر مشتمل تھے۔ ان تینوں ٹکٹوں کا ڈیزائن ایک جیساتھا۔ ان ٹکٹوں پر علامہ اقبال کامشہور مصرع ’’ معمارِ حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز‘‘ تحریر تھا۔نیچے علامہ اقبال کے دستخط طبع تھے اورپس منظر میں خوبصورت خطاطی سے لفظ ’’پاکستان‘‘ تحریر تھا۔ اس ٹکٹ پر علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش ۱۸۷۳ء تحریر کی گئی تھی۔ یاد رہے بعد میں ایک کمیٹی بٹھائی گئی جس نے علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش کی تصحیح کی جو بعد میں ۱۸۷۷ء لکھی گئی۔ یہ ٹکٹ انگلستان کی کمپنی میسرزہیریسن لمٹیڈ لندن میں چھپے تھے۔ پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ۱۲ اپریل ۱۹۶۷ء کو علامہ اقبال کی انتیسویں برسی کے موقع پر دو یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ ان ٹکٹوں کا ڈیزائن جناب عبدالرؤف صاحب نے ڈیزائن کیاتھا۔ اس ٹکٹ کی مالیت ۱۵ پیسہ تھی اوراس کا رنگ سیاہی مائل بھورا اورہلکا سرخ تھا۔ ایک روپیہ مالیت والے ٹکٹ کارنگ سیاہی مائل بھورا اورگہرا سبز تھا۔ان تینوں پرعلامہ اقبال کے دو مشہور شعر تحریر کیے گئے تھے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ڈاک ٹکٹوں پر کوئی شعر مکمل طورپر تحریر کیا گیا ہو۔ ۱۵پیسہ مالیت کے ٹکٹوں پر یہ اردو شعر تحریر تھا : ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر ایک روپیہ والے مالیت کے ٹکٹوں پر علامہ کا یہ فارسی شعر تحریر تھا : نغمہ کجا و من کجا، ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم، ناقۂ بے زمام را دونوں ڈاک ٹکٹوں پر علامہ اقبال کی تصویر سیاہی مائل بھورے رنگ میں طبع کی گئی تھی۔ اس موقع پر محکمہ ڈاک نے ایک فرسٹ ڈے کور کا اجرا بھی کیاجس پر علامہ اقبال کا یہ فارسی شعر تحریر تھا : در عشق غنچہ ایم کہ لرزد ز باد صبح در کار زندگی صفتِ سنگ خارہ ایم یہ علامہ اقبال کے دستخطوں اوران کی اپنی تحریر میں شائع کیا گیا تھا جس کے نیچے تاریخ ۲۴ دسمبر ۱۹۲۲ بھی موجود ہے۔ اس موقع پر ایک خصوصی مُہر کا اجرا بھی کیا گیا تھا جس پر علامہ کا درج ذیل فارسی شعر تحریر تھا: فروغ آدم خاکی ز تازہ کاری ہاست مہ و ستارہ کنند آنچہ بیش ازیں کردند ان دونوں ٹکٹوں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان پر علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش کا سال ۱۸۷۷ء تحریر کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس زمانے تک علامہ اقبال کا سن پیدائش ۱۸۷۳ء ہی تسلیم کیاجاتاتھا۔ ۱۹۶۷ء کے بعد تقریباًساڑھے سات برس تک علامہ اقبال کی یاد میں کوئی ڈاک ٹکٹ جاری نہ ہوسکا۔ البتہ تین ایسے مواقع آئے جب محکمہ ڈاک نے ایسی خصوصی مُہریں جاری کیں جن پر علامہ اقبال کا کوئی مصرع یا شعر تحریر تھا۔ محکمہ ڈاک نے علامہ اقبال پر پہلی مُہر ۱۵ مئی ۱۹۶۷ء کو پرچم ہلال استقلال کے ڈاک ٹکٹ کے اجرا کے موقع پر جاری کی۔ اس مُہر پر علامہ اقبال کا یہ مشہور مصرع درج تھا: رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن پاکستان کے قیام کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر محکمہ ڈاک نے دوسری مُہر جاری کی جس پر علامہ اقبال کا یہ شعر تحریر تھا: مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل محکمہ ڈاک نے علامہ اقبال کے کسی شعر سے مزین تیسری خصوصی مُہر کا اجرا اُن کی بیسویں برسی کے موقع پر یعنی ۲۱ اپریل ۱۹۶۵ء کو کیا۔ اس مُہر پر بھی علامہ کا یہ مشہور شعر درج تھا: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ۱۹۷۴ء میں پاکستان میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا کام تحقیق کرکے یہ بتانا تھا کہ علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش ۱۸۷۳ء یا ۱۸۷۷ء ہے۔ اس کمیٹی نے تحقیق کے بعد یہ رپورٹ دی کہ علامہ اقبال کی درست تاریخ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء نہیںبلکہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہے۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے سال ۱۹۷۷ء کو علامہ اقبال کے صد سالہ جشن پیدائش کے طورپر منانے کااعلان کر دیااور اس جشن کے حوالے سے ۱۹۷۴ سے ۱۹۷۷ء تک ہر سال علامہ اقبال یادگاری ٹکٹوں کا اجرا شروع کیا گیا۔ علامہ اقبال پر یادگاری ٹکٹوں کے سلسلے کا پہلا ڈاک ٹکٹ جناب منظور احمد نے ڈیزائن کیا تھا۔ ۲۰ پیسے مالیت کے اس ٹکٹ پر ۱۹۷۷ئIqbal Centenary ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۸ء کے الفاظ تحریر تھے۔ اس ٹکٹ پر علامہ اقبال کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔ محکمہ ڈاک نے ۹ نومبر ۱۹۷۵ء کو علامہ اقبال کے یوم پیدائش کے موقع پر جناب عادل صلاح الدین کا ڈیزائن کردہ ٹکٹ جاری کیاجس کی مالیت ۲۰ پیسہ تھی۔ اس ٹکٹ پر بھی Iqbal centenary 1977 اور 21اپریل1938 ء کے الفاظ تحریر تھے۔ اس پر علامہ اقبال کا ایک سائڈپوز دیا گیا ہے اورپس منظر میں علامہ اقبال کی کتابوں کے نام لکھے گئے ہیں۔ ۹ نومبر ۱۹۷۶ء کو علامہ اقبال کی ۹۹ سالگرہ کے موقع پرمحکمہ ڈاک نے ایک اور ٹکٹ جاری کیا۔ اس ٹکٹ کا ڈیزائن جناب محمدعارف جاوید نے بنایا۔ اس ٹکٹ کی مالیت بھی ۲۰ پیسہ تھی اور اس پر بھی 21 اپریل 1938 اور Iqbal centenary-1877 تحریر تھے۔ اس ٹکٹ پر علامہ کا یہ مشہور شعرتحریر تھا: فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں ۱۹۷۷ء علامہ محمد اقبال کی صد سالہ سالگرہ کا سال تھا۔علامہ اقبال کی صد سالہ سالگرہ کے سلسلے میں محکمہ ڈاک نے ایک خوبصورت یادگاری ٹکٹ کا اجرا کیا۔ یہ ٹکٹ ۹ نومبر ۱۹۷۷ء کو جاری کیاگیا۔ یہ پانچ ٹکٹوں پر مشتمل سیٹ تھا جسے جناب اخلاق احمد نے ڈیزائن کیا تھا۔ ان ٹکٹوں میں دو ٹکٹ جن کی مالیت ۲۰ پیسہ اور ۶۵ پیسہ تھی۔ علامہ کے اشعار پر مبنی ایرانی مصوربہزاد کی بنائی ہوئی پینٹنگ اور علامہ کے یہ شعر تحریر تھے: رفتم و دیدم دو مرد اندر قیام مقتدی تاتار و افغانی امام روح رومی پردہ ہا را بر درید از پس کہ پارۂ آمد پدید ایک روپیہ پچیس پیسہ مالیت اور دو روپیہ پچیس پیسہ مالیت کے ٹکٹوں پر علامہ کے یہ دو مشہور شعر تحریر تھے: کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کے زور بازو کا نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم پانچواں ٹکٹ جس کی مالیت تین روپے تھی اس پر علامہ اقبال کا ایک خوبصورت پورٹریٹ شائع کیا گیا تھا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء کو قرار داد پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی گئی۔ اس موقع پر محکمہ ڈاک نے ایک ٹکٹ پر علامہ اقبال کا شعر اور دو ٹکٹوں پر علامہ اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا ۔ یہ دونوں ٹکٹ دراصل ان تین خوبصورت ٹکٹوں کا حصہ تھے جن پر تحریک پاکستان کے مختلف مناظر دکھائے گئے تھے۔ ان میں درمیانے ٹکٹ پر منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے تاریخی اجلاس کی جس میں قرار داد پاکستان منظورہوئی تھی، منظر کشی کی گئی ہے۔ اس منظر میں ایک اسٹیج پر بینر لگا ہوادکھا یاگیا تھا جس پر علامہ اقبال کا یہ شعر تحریر تھا : جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے اس کے بائیں جانب کے ٹکٹ پر علامہ اقبال کو الٰہ آباد کے مقام پر ان کی مشہور تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ تین ڈاک ٹکٹوں کے اس خوبصورت سیٹ کا ڈیزائن جناب آفتاب ظفر نے بنایا تھا اوران کی مالیت ایک روپیہ فی ٹکٹ تھی۔ ۱۴ اگست ۱۹۹۷ء کو پاکستان کی آزادی کے پچاس سال مکمل ہوئے اور پورے ملک میں گولڈن جوبلی کا جشن منایا گیا۔ اس یادگار موقع پر پاکستان کے محکمہ ڈاک نے چار ٹکٹوں کا ایک سیٹ جاری کیا۔ یہ چاروں ٹکٹ مشاہیر یعنی علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیتوں پر مشتمل تھے۔ ان ٹکٹوں کی مالیت تین روپے تھی اوران کا ڈیزائن نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ڈیزائنر پروفیسر سعید اخترنے بنایا تھا۔ اس سیریز میں علامہ اقبال کوشال پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ٹکٹ پر علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں گولڈن جوبلی تقریبات (۱۹۹۷-۱۹۴۷ئ) تحریر تھا۔ ۹نومبر ۲۰۰۲ء کو علامہ اقبال کی ایک سو پچیسویں ولادت کا دن منایا گیا اس موقع پر محکمہ ڈاک نے دو خوبصورت یادگاری ٹکٹوں کا اجرا کیا۔ ان ٹکٹوں کی مالیت چار روپے تھی اوران کا ڈیزائن جناب فیضی عامر نے بنایا تھا۔ ان دونوں ٹکٹوں پر علامہ اقبال کی خوبصورت تصویروں کو دکھایا گیا تھا۔ پہلے ٹکٹ میں علامہ اقبال کو سوٹ کے اوپر گائون پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ دوسرے ٹکٹ میں علامہ اقبال سوٹ پہنے بیٹھے ہیں اوران کے پیچھے کی طرف کتابوں کی ایک شیلف دکھائی گئی ہے جس پر کتابیں سجی ہوئی ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب حکومت پاکستان نے علامہ اقبال کا سال سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ ڈاک نے یوم آزادی کے موقع پر ۱۴اگست ۱۹۹۰ء کو علامہ اقبال کے پورٹریٹ سے مزین جو دوسری ٹکٹ سیریز کا حصہ جاری کیا اس کاڈیزائن جناب سید اختر نے بنایا اور اس کی مالیت ایک روپیہ تھی۔ پاکستان میں علامہ اقبال کے حوالے سے ڈاک ٹکٹوں کی نمائش بھی منعقد کی جا چکی ہے۔ یہ نمائش ۲۸ تا ۳۰ نومبر ۱۹۸۸ء کو ’’یوتھ اسٹمپ کلکٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کے زیر اہتمام گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔ اس نمائش کا نام Iqmepex-88 رکھاگیا تھا۔ محکمہ ڈاک نے ایک خصوصی ایگزی بیشن کارڈ اور ایک مخصوص(خصوصی) مُہر بھی جاری کی تھی جس پر علامہ اقبال کا اسکیچ بنا ہوا تھا۔ علامہ اقبال دوسرے ممالک کے ٹکٹوں پر پاکستان کی طرح دوسرے ممالک نے بھی علامہ اقبال کی شخصیت سے متاثر ہو کر اپنے اپنے ملک میں ڈاک ٹکٹوں کا اجرا کیا۔ ان ممالک میں ایران، ترکی اور بھارت ایسے ہیں کہ جنھوں نے اپنے ڈاک ٹکٹوں پر علامہ اقبال کے پورٹریٹ شائع کیے۔ ایران اور ترکی وہ پہلے ممالک تھے جنھوں نے یوم اقبال کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر ۹نومبر ۱۹۷۷ء کو علامہ پر ڈاک ٹکٹوں کا اجرا کیا۔ ایران کے ڈاک ٹکٹ پر علامہ اقبال کی ایک خوبصورت پینٹنگ شائع کی گئی تھی جس پر ’’علامہ اقبال کا صد سالہ جشن پیدائش‘‘ فارسی میں تحریر تھااور نیچے انگریزی میں Allama Muhammad Iqbal centenary کے الفاظ تحریر تھے۔ علامہ اقبال کی یاد میں جاری ہونے والے ترکی کے ڈاک ٹکٹ پر علامہ اقبال کی وہی پینٹنگ شائع کی گئی تھی جو اسی دن پاکستان سے جاری ہونے والے تین روپے کے ڈاک ٹکٹ پر طبع ہوئی تھی اس ٹکٹ پر تحریر تھا: Allama Muhammad Iqbal 1877-1977 اس ٹکٹ کی مالیت ۴۰۰ (چار سو) کروس تھی۔ اس موقع پر ترکی کے محکمہ ڈاک نے ایک مُہر بھی جاری کی تھی جس پر علامہ کا اسکیچ بنا ہوا تھا۔ بھارت وہ تیسرا ملک ہے جس نے اپنے ڈاک ٹکٹوں پر علامہ اقبال کو جگہ دی اگرچہ بھارت نے اپنا ڈاک ٹکٹ علامہ اقبال کی صد سالہ سالگرہ کے حوالے سے جاری نہیں کیا بلکہ علامہ کی پچاسویں برسی کے موقع پر ۲۱ اپریل ۱۹۸۸ء کو جاری کیا۔ اس ٹکٹ پر بھی علامہ اقبال کا اسکیچ اور ان کا یہ مصرع اردو ہندی میں تحریر تھا : سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اس ٹکٹ کی مالیت ۶۰پیسہ تھی اور اس کا ڈیزائن شریمتی الکاشرما نے بنایاتھا۔اس کا رنگ سیاہ و سفید تھا۔ اس موقع پر بھارت کے محکمہ ڈاک نے ’’فرسٹ ڈے کور‘‘ بھی جاری کیا تھا اس پر ہندی زبان میں تحریر تھا: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اس کے علاوہ اس ٹکٹ پر جنوبی ایشیا کا نقشہ بھی طبع کیا گیا تھا۔ اس موقع پر بھارت کے محکمہ ڈاک نے خصوصی مہر کا بھی اجرا کیا جس پریہ مصرع تحریر تھا: ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا اس مُہر پر ہندی بلبلیں دکھائی گئی تھیں جو اوپر والے مصرع کی عکاسی کرتی ہیں۔ ژ…ژ…ژ اشاریہ ششماہی اقبال ریویو حیدرآباد ۱۹۷۷ء ------ اپریل ۲۰۰۹ء سمیع الرحمن اقبال کی فکر اور شاعری ہمارے تہذیبی سرمایے کا گراں بہا وجود ہے۔ اقبال عہد حاضر کے ان عظیم مفکروں میں سے ہیں جن کی فکرونظر مشرق و مغرب کی مصنوعی سرحدوں سے بالاتر ہے۔ جمعیت آدم ان کا نصب العین تھا اور احترامِ آدمیت ان کے نزدیک تہذیب کی منزل۔ اس پس منظر میں اقبال کے پیام کو عام کرنے کے لیے ۲۸؍جون ۱۹۵۹ء کو ’اقبال اکیڈمی‘ حیدرآباد کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اکیڈمی کی متعدد و متنوع سرگرمیوں میں ۱۹۷۷ء کے دوران اقبال ریویو کی صورت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا۔ افکارِ اقبال کا یہ ششماہی ترجمان اقبالیاتی ادب میں گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ آغاز سے نومبر ۲۰۰۸ء تک اس کے ۴۲شمارے منظرپر آچکے ہیں۔ اس طویل عرصے میں محمد منظور احمد، کریم رضا، سیّد ظہیرالدین احمد، بیگ احساس اس کی مجلس ادارت میں شامل رہے ہیں۔آج کل اس کی مجلس ادارت میں محمد ضیاء الدین نیئر اور سیدامتیاز الدین شامل ہیں۔ علامہ اقبال کی تحریریں اقبال،علامہ اقتباس اپریل۱۹۷۹ئ/ ۱۶ // // اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۳۶ // // اقتباس جنوری۱۹۷۸ئ/ ۲۰ // // اقتباس جنوری۱۹۷۸ئ/ ۵۰ // // اقتباس جنوری۱۹۷۸ئ/ ۶۰ // // اقتباس جنوری۱۹۷۸ئ/ ۳۴ // // اقتباس جنوری۱۹۷۸ئ/ ۲۸ // // ایک خط سے اقتباس نومبر۲۰۰۸ئ/ ۴ اقبال،علامہ اُردو زبان پنجاب میں نومبر۲۰۰۴ئ/ ۶۵-۷۹ // // تین اشعار نومبر۲۰۰۸ئ/ ۶ // // دو اشعار جنوری۱۹۸۳ئ/ ۸۰ // // دو اشعار جنوری۱۹۸۳ئ/ ۵۲ // // زبانِ اُردو نومبر۲۰۰۴ئ/ ۸۰-۸۵ // // سیّد جمال الدین افغانی [اقتباس] نومبر۲۰۰۵ئ/ ۴ // // عقل و دل [نظم] اکتوبر۲۰۰۰ئ/ ۳۴ // // لالۂ صحرائی [نظم] اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۷۰ // // مکتوبات بنام ابو ظفر عبدالواحد ۔___ عکسِ تحریر اور متن اپریل۲۰۰۶ئ/ ۲۵-۲۸ // // مکتوبات بنام سیّد عبداللطیف ۔___ عکسِ تحریر اور متن اپریل۲۰۰۶ئ/ ۵۷-۶۵ // // مکتوبات بنام عبداللہ عمادی ۔___ عکسِ تحریر اور متن اپریل۲۰۰۶ئ/ ۱۲-۱۸ // // مکتوبات بنام غلام دستگیر رشید ۔___ عکسِ تحریر اور متن اپریل۲۰۰۶ئ/ ۴۳-۴۴ // // مکتوبات بنام مولانا دریابادی اپریل۲۰۰۰ئ/ ۵۹-۶۴ // // مکتوبات بنام مولانا دریابادی جنوری۱۹۷۹ئ/ ۵۹-۶۴ // // مکتوب نومبر۲۰۰۴ئ/ ۴۶ // // نظم جنوری۱۹۸۳ئ/ ۱۶ // // یومِ غالب کے موقع پر پیغام اپریل۱۹۹۹ئ/ ۹۶ // // ’مرزا غالب‘ [نظم] اپریل۱۹۹۹ئ/ ۶ // // A plea for Deeper study of the Muslim Sceintists جولائی۱۹۷۸ئ/ ۱۵-۲۲ // // Khushhal Khan Khattack جولائی۱۹۷۸ئ/ ۲۳-۳۰ // // The Doctrine of Absolute Unity as Expounded جولائی۱۹۷۸ئ/ ۱-۱۴ اقبالیاتی ادب ابراہیم جلیس اقبال نومبر۱۹۹۴ئ/ ۵۳-۶۳ ابو الحسن علی ندوی ساقی نامہ [مترجم: شمس تبریز خاں/ ماخوذ از نقوش اقبال] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۱-۷ // // مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۹-۲۹ ابوظفر عبدالواحد اقبال کا شاعرانہ فلسفہ اپریل۲۰۰۶ئ/ ۲۹-۳۸ احسن علی مرزا اقبال کا سماجی شعور جنوری۱۹۷۸ئ/ ۵۱-۶۰ احمد اے انصاری German References and Reflections in Dr. Iqbal's Poetry اپریل۱۹۹۵ئ/ ۳-۱۱ اختر الزماں ناصر اقبال کی تشبیہیں اور استعارے اکتوبر۲۰۰۰ئ/ ۱۲-۲۵ // // اقبال کی نظم ‘ساقی نامہ‘ اکتوبر۲۰۰۰ئ/ ۵-۱۱ اختر علی تلہری دو لفظ ۔___ ۔سچدا انند سنہا کی نظر میں اپریل۱۹۹۵ئ/ ۵۱-۶۱ ادارہ اقبال صدی تقاریب ۔___ ایک جائزہ جنوری۱۹۷۸ئ/ ۹۷-۱۱۲ // // اقبال کی خدمت میں انجمن ترقی اُردو مدراس کا سپاسنامہ نومبر۲۰۰۴ئ/ ۸۶-۹۳ // // بانگِ درا کا جاپانی ترجمہ از ہیروجی کٹاوکا [خبر] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۴ // // پروفیسر این میری شمل کی تحریروں کا عکس نومبر۲۰۰۳ئ/ ۶۵-۶۸ // // ترجمہ اسرار و رموز از سیّد احمد ایثار [خبر] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۴ // // سیتو مادھور او پگڑی کا تعارف اپریل۱۹۹۵ئ/ ۱۸ // // شکوہ و جواب شکوہ کا توضیحی مطالعہ ۔___ تعارف و تشریح نومبر۱۹۹۹ئ/ ۴-۹۲ // // ظ-انصاری کی کتاب اقبال کی تلاش سے اقتباس نومبر۲۰۰۳ئ/ ۱۶ // // فکر اقبال کا مثالی پیکر [اقتباس بر بہادر یار جنگ] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۹۳ // // فلسفۂ عجم پر تبصرہ اپریل۱۹۹۴ئ/ ۸۱-۸۲ // // نظم ’خضر راہ‘: تجزیاتی مطالعہ [سیمپوزیم کی رپورتاژ] نومبر۱۹۹۵ئ/ ۷۶-۷۸ // // Mawlana Jalal ad-Din Rumi [Life & Works] اپریل۲۰۰۷ئ/ ۳۴-۳۶ اسلم جیراج پوری اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۸۸ اسلوب احمد انصاری ساقی نامہ [ماخوذ از۔ اقبال کی تیرہ نظمیں] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۸-۲۶ // // کلامِ اقبال میں سیاسی شعور کی جھلکیاں جولائی۱۹۷۸ئ/ ۵-۲۲ // // مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۷۹-۹۳ اشفاق حسین اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۵۲ // // اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۹۶ افضل الدین اقبال اساتذہ جامعہ عثمانیہ اور علامہ اقبال نومبر۱۹۹۷ئ/ ۳۳-۵۴ الطاف انجم اقبال، تنقید، مسائل اور مضمرات نومبر۲۰۰۷ئ/ ۶۹-۷۷ امتیاز الدین،سیّد بچوں کے لیے اقبال کی نظمیں ۔___ ایک مطالعہ نومبر۲۰۰۳ئ/ ۱۷-۳۵ انعام الرحمن خاں تلاشِ اقبال نومبر۱۹۹۶ئ/ ۲۶-۴۱ انور معظم صاحب! زمانہ کو پہچانیے [وحید الدین کے خیالات کا محاکمہ] نومبر۱۹۹۵ئ/ ۴۴-۵۱ انیس فاطمہ اقبال کی شاعری اپریل۲۰۰۱ئ/ ۱۰۱-۱۰۵ اوصاف احمد فکرِ اقبال میں فلسفۂ عروج و زوال [نظم ’ مسجد قرطبہ‘ کا جائزہ] نومبر۱۹۹۵ئ/ ۱۷-۳۲ // // کلامِ اقبال میں انسان دوستی [اقبال فہمی کا ایک پہلو] نومبر۲۰۰۷ئ/ ۲۸-۴۰ ایم طارق غازی Studies on Muslim Attitudes نومبر۱۹۹۶ئ/ ۱-۱۲ اے نکلسن تبصرہ پیامِ مشرق [مترجم: حبیب اللہ رشدی] اپریل۱۹۹۴ئ/ ۳-۸ بال ریڈی اقبال میری نظر میں نومبر۱۹۹۴ئ/ ۷۵-۸۶ بدرالدین بٹ جادۂ عرفان کا رہبر اقبال [اقبال انسٹی ٹیوٹ‘ کشمیر یونی ورسٹی میں ’یومِ اقبال‘ ] نومبر۲۰۰۷ئ/ ۸۶-۸۸ بشیر النساء بیگم اقبال اور ایران اپریل۲۰۰۱ئ/ ۴-۱۱ // // اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۸۰ // // اقبال اور ہم [خواتین] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۷۷-۹۴ بلبیر پرشاد بھٹناگر اقبال کا ذوقِ آگہی اپریل۱۹۹۴ئ/ ۳۲-۵۲ بہادر یار جنگ افغانی کا پیام [خطاب] نومبر۲۰۰۵ئ/ ۹-۱۳ // // اقبال کا پیامِ آزادی [خطاب] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۷۰-۸۴ // // اقبال کا شاہین زادہ [خطاب] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۸۵-۸۶ بیگ احساس امین روح اقبال ۔___ ڈاکٹر یوسف حسین خاں جون۱۹۹۸ئ/ ۵۲-۷۵ تحسین فراقی جمہوریت اقبال کی نظر میں نومبر۱۹۹۴ئ/ ۱۹-۳۸ ٹی آر پاڈ منابھا The Late Sir M. Iqbal اپریل۱۹۹۴ئ/ ۹-۲۳ جگن ناتھ آزاد اقبال‘ اپنی نظر میں جولائی۱۹۷۸ئ/ ۳۷-۴۲ جہاں بانو بیگم نذرِ اقبال اپریل۲۰۰۱ئ/ ۱۲-۱۷ جہاں بانو اقبال کی ہمہ گیری نومبر۱۹۹۴ئ/ ۶۴-۷۴ حاتم رام پوری ساقی نامہ [ماخوذ از اقبال آشنائی] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۴۸-۵۸ // // مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۰۳-۱۱۰ حسن اختر،ملک ساقی نامہ [ماخوذ از اطراف اقبال] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۷۳-۸۷ حسن اختر،ملک مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۳۰-۵۱ حسن الدین احمد اقبال کے منظوم ترجمے نومبر۱۹۹۸ئ/ ۳۹-۴۸ حشم الرمضان اپنی نظم ’مرزا غالب‘ میں اقبال کی ترمیمات اپریل۱۹۹۹ئ/ ۷-۱۴ حفیظ قتیل اقبال کا تصورِ خودی اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۳۳-۳۶ خالد سعید اقبال کی نظم ’عقل ودل‘ کا ایک مطالعہ یوں بھی اکتوبر۲۰۰۰ئ/ ۳۵-۳۹ // // اقبال نئی تشکیل: ایک مطالعہ [اقبالیاتِ عزیز احمد پر ایک نظر ] جون۱۹۹۸ئ/ ۷۶-۹۴ خلیل اللہ حسینی اقتباس جنوری۱۹۸۳ئ/ ۳۰ // // اگر خواہی حیات اندر خطرزئی [اقبال کا تصورِ مردِ مومن] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۲۲-۳۱ // // اگر خواہی حیات اندر خطرزئی [اقبال کا تصورِ مردِ مومن] اپریل۲۰۰۹ئ/۹-۱۷ // // ایک مردِ قلندر (اقبال) نے کیا رازِ خودی فاش اپریل۱۹۹۳ئ/ ۳۲-۳۴ // // پیامِ اقبال اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۲۱-۱۲۴ // // دو ایک باتیں [خصوصی اشاعت ’اقبالیاتِ ماجد‘] اپریل۲۰۰۰ئ/ ۲ // // سوئے قطار می کشم … [اقبال] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۳۵-۳۶ // // کیا پوچھتے ہو، کسے کھو دیا؟ [بیاد بہادر یار جنگ] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۹-۱۴ خورشید نعمانی اقبال کامل از عبدالسلام ندوی [تبصرہ و تعارف] اکتوبر۲۰۰۰ئ/ ۲۶-۳۳ // // علامہ اقبال کا تعلیمی نقطۂ نظر جون۱۹۹۷ئ/ ۳۳-۳۸ // // فکر اقبال میں ہندی عناصر اپریل۱۹۹۵ئ/ ۳۱-۵۰ دوار کاداس شعلہ علامہ اقبال سے ملاقاتیں [دیدہ و شنیدہ] نومبر۱۹۹۴ئ/ ۸۷-۹۵ ذکی الدین احمد اقبال کا سفرِ حیدرآباد ۱۹۲۹ئ اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۶۵-۶۹ رابعہ بیگم اقبال میری نظر میں اپریل۲۰۰۱ئ/ ۱۱۱-۱۱۸ راج آنند اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۴۲ رادھا کرشن اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۳۰ رحمت یوسف زئی کلامِ اقبال میں صناعی نومبر۱۹۹۲ئ/ ۸۰-۸۶ // // مقالات اور کلام اقبال کے مترجمین نومبر۱۹۹۷ئ/ ۷۵-۸۹ رحیم الدین کمال اقبال کا تصورِ انسان جنوری۱۹۷۸ئ/ ۶۵-۹۶ رش برک ولیمز شاعر مشرق جون۱۹۹۷ئ/ ۶۵-۶۸ رضوان القاسمی اقبال منزل شناس تھے [وحید الدین کے خیالات کا محاکمہ] نومبر۱۹۹۵ئ/ ۶۵-۷۵ رضوان القاسمی یادداشت [میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‘ کے متعلق استفسار کا جواب] اپریل۲۰۰۷ئ/ ۵۹-۶۱ رضیہ اکبر پیامِ مشرق۔___منظوم جائزہ اپریل۲۰۰۱ئ/ ۱۸-۳۰ رفیع الدین ہاشمی ساقی نامہ [ماخوذ از اقبال کی طویل نظمیں] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۵۹-۷۲ // // علامہ اقبال اور نظامِ عالم کی تشکیل جدید نومبر۱۹۹۲ئ/ ۴۱-۵۶ // // مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱-۱۸ رفیع رئوف ساقی نامہ اپریل۲۰۰۱ئ/ ۸۵-۹۶ // // لالۂ صحرائی [نظم] اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۷۱-۸۰ // // لالۂ صحرائی[نظم] اپریل۲۰۰۱ئ/ ۷۴-۸۴ رفیعہ سلطانہ اقبال ۔___ شاعر [اُردو شاعری کا دورِ جدید یا افادی دور] اپریل۲۰۰۱ئ/ ۵۶-۶۴ رمیش موہن Iqbal as Poet Philosopher جولائی۱۹۷۸ئ/ ۳۱-۳۶ سراج الدین،سیّد اقبال اور عصری تقاضے [خطاب] اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۸۹-۹۵ // // اقبال اور عصری تقاضے [خطاب] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۷۱-۷۷ // // اقبال کی اُردو غزل نومبر۱۹۹۲ئ/ ۷-۱۹ // // اقبال کی شاعری کے بعض پہلو اپریل۱۹۷۹ئ/ // // اقبال کی نظم اور نثر میں عمرانی تصورات جولائی۱۹۷۸ئ/ ۲۳-۳۶ // // اقتباس نومبر۲۰۰۶ئ/ ۱۴ // // اقتباس نومبر۲۰۰۶ئ/ ۳۴ // // اکیسویں صدی میں عالم اسلام کو درپیش چیلنج [خطاب] نومبر۱۹۹۵ئ/ ۸۱-۸۴ // // بالِ جبریل [ منظوم انگریزی ترجمہ از نعیم صدیقی پر تبصرہ] نومبر۱۹۹۸ئ/ ۳۶-۳۸ // // پیامِ مشرق کا ایک منظوم ترجمہ (مضطر مجاز) نومبر۱۹۹۶ئ/ ۴۲-۴۵ // // جاوید نامہ کی مناجات کا اُردو ترجمہ نومبر۱۹۹۷ئ/ ۶۸-۷۴ // // لالۂ طور سے لالۂ صحرا تک [اقبال کی شاعری میں لالہ کا تصور] جنوری۱۹۸۳ئ/ ۵-۱۵ // // مسجد قرطبہ___ ایک تجزیاتی تحسین جنوری۱۹۷۸ئ/ ۲۱-۲۸ // // مسجد قرطبہ___ ایک تجزیاتی تحسین اپریل۲۰۰۹ئ/ ۵۲-۶۰ // // مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۷۳-۷۸ // // ’مشرق‘ و ’مغرب‘ اقبال کی شاعری میں اپریل۱۹۸۰ئ/ ۲۲-۳۲ سراج الدین،سیّد A Poet's Significance: Iqbal & The Third World نومبر۲۰۰۶ئ/ ۲۷-۳۶ // // An Approach to the Reading of Iqbal's Poetry نومبر۲۰۰۶ئ/ ۱۵-۲۶ // // Javid Nama [Translation of the Munajat opening verses]نومبر۱۹۹۷ئ/ ۹۰-۹۴ // // Landscape in Javidnama نومبر۲۰۰۶ئ/ ۳۷-۴۱ // // Muslim in the year2000 and beyond challenges and response نومبر۱۹۹۵ئ/ ۱۲-۱۷ // // The Moving Pen (Islamic Calligraphy through the ages) نومبر۲۰۰۷ئ/ ۳-۸ سرمالکم ڈارلنگ شاعر مشرق جون۱۹۹۷ئ/ ۶۱-۶۴ سعید اختر درانی بلجیم میں ’عالمی مذاکرہ‘ بر ’اقبال اور عصر جدید‘ نومبر۱۹۹۸ئ/ ۶۹-۷۷ // // Iqbal: A Bridge Between the East & West نومبر۱۹۹۸ئ/ ۱-۱۲ سکندر علی وجد اقبال کی غزلیں اپریل۱۹۹۴ئ/ ۵۳-۶۰ // // بالِ جبریل اپریل۱۹۹۴ئ/ ۶۱-۸۰ سلیم احمد ضربِ کلیم شاعری یا فلسفہ نومبر۲۰۰۷ئ/ ۱۸-۲۷ سلیمان اطہر جاوید اقبال ___ ماورائے دیر وحرم اپریل۱۹۸۰ئ/ ۴۴-۵۷ سلیمان سکندر ’بگیر ایں سرمایہ بہار ازمن‘ [وفاتِ خلیل اللہ حسینی] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۲۵-۱۲۶ سیّدہ جعفر اقبال کا تصورِ فن اپریل۲۰۰۱ئ/ ۶۵-۷۳ // // اقبال کا تصورِ فن جنوری۱۹۷۸ئ/ ۳۵-۴۰ شاہد حسین زبیری پیکر جہدوعمل [اقبال اکیڈمی کے نئے صدرظہیر الدین احمد] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۸۲-۸۶ شکیل احمد [مرتب] ادارۂ معارف اسلامیہ اپریل۱۹۸۴ئ/ ۲۰-۲۸ // // اقبال بحیثیت مؤرخ ہندوستان [اقبال حیدر آبار آر کائیوز میں] اپریل۱۹۸۴ئ/ ۱-۵ // // اقبال کلب اپریل۱۹۸۴ئ/ ۶ // // انجمن حمایت اسلام کے جنرل سیکرٹری کی امداد کے لیے بارگاہ عثمانی میں عریضۂ اقبال اپریل۱۹۸۴ئ/ ۶۳-۶۹ // // اُردو اکیڈمی اپریل۱۹۸۴ئ/ ۵۸ // // آفتاب اقبال اور علامہ اقبال اپریل۱۹۸۴ئ/ ۴۶-۵۷ // // حیدر آباد میں اقبال توسیعی لیکچرز اپریل۱۹۸۴ئ/ ۷-۹ شکیل احمد [مرتب] ڈاکٹر اقبال کی مالی امداد کے لیے نواب صاحب بھوپال کی تحریک اپریل۱۹۸۴ئ/ ۲۹-۳۷ // // سر محمد اقبال کو دوسرے سال توسیعی لیکچرز کی دعوت اپریل۱۹۸۴ئ/ ۱۸-۱۹ // // صدر اعظم سر اکبر حیدری کے دور میں علامہ اقبال کی امدادکی کارروائی کا احیا اپریل۱۹۸۴ئ/ ۳۸-۴۲ // // علامہ اقبال کی یادگار کے قیام کی تحریک اپریل۱۹۸۴ئ/ ۵۹-۶۲ // // علامہ اقبال کے پس ماندگان کی مالی امداد اپریل۱۹۸۴ئ/ ۴۳-۴۵ // // مہاراجہ کشن پرشاد کی میزبانی اپریل۱۹۸۴ئ/ ۱۰-۱۷ شمس الدین کیرالہ میں مطالعۂ اقبال اور عبدالصمد صمدانی نومبر۲۰۰۴ئ/ ۱۰۸-۱۱۵ شمیم حنفی جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ ایک جائزہ نومبر۲۰۰۷ئ/ ۷-۱۷ // // جاوید نامہ ، اقبال اور عصرخرابہ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۵-۵۳ صدیق جاوید تنقید غالب میں اقبال کا حصہ اپریل۱۹۹۹ئ/ ۱۵-۳۷ صغریٰ ہمایوں مرزا یادِ اقبال اپریل۲۰۰۱ئ/ ۵۰-۵۵ صفدر علی بیگ اقبال کی فکری شاعری اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۴۳-۵۱ // // اقبال کے اشارات و اصطلاحات جنوری۱۹۷۸ئ/ ۴۱-۵۰ صلاح الدین قرآن اور اقبال اپریل۱۹۷۹ئ/ // // قرآن اور اقبال اپریل۲۰۰۹ئ/۲۵-۳۵ // // اقبال اور عصری تقاضے [خطاب] اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۸۱-۸۷ ضمیر احمد سرکار فکرِ اقبال:فلسفۂ خودی کے بنیادی تصورات نومبر۲۰۰۷ئ/ ۶۰-۶۸ ضیاء الدین احمد اقبال اور اذان نومبر۲۰۰۷ئ/ ۴۱-۴۶ // // اقبال وقت کے فاصلے سے اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۳۷-۴۱ // // اقبال کی شعری زبان کا ارتقا نومبر۲۰۰۴ئ/ ۹-۴۵ // // کیا اقبال احیا پسند تھے؟ جنوری۱۹۷۸ئ/ ۲۹-۳۴ // // Iqbal's view of Islam اپریل۱۹۹۵ئ/ ۱۶-۱۹ طارق غازی اسلام اور آیندہ صدی نومبر۱۹۹۵ئ/ ۷ طارق محمود اقبال اور مجلہ عثمانیہ [جامعہ عثمانیہ‘ حیدرآباد دکن کا علمی مجلہ] اپریل۲۰۰۸ئ/ ۸۴-۹۰ طارق مسعودی Some Aspects of Iqbal's Educational Thoughts نومبر۲۰۰۸ئ/ ۳-۱۲ ظہیر الدین احمد اقبال اور ‘نخیل ‘[نظم کا تجزیاتی مطالعہ] جنوری۱۹۸۳ئ/ ۵۳-۷۹ // // اقبال کا مطالعہ کیوں؟ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۱۳-۱۹ // // اقبال کی نظم ‘ذوق و شوق‘ ایک مطالعہ اپریل۱۹۹۳ئ/ ۵۵-۶۹ // // حبِ رسول ا کے تقاضے نومبر۲۰۰۸ئ/ ۵۰-۵۷ // // دوا ہر دُکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا[ایک شعر کی تشریح] نومبر۱۹۹۸ئ/ ۳۲-۳۵ // // سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ا سے مجھے نومبر۲۰۰۸ئ/ ۵۸-۶۶ // // عبدہٗ و رسولہٗ (ا) نومبر۲۰۰۸ئ/ ۷۴-۷۹ // // عقیدئہ ختم نبوت کی تہذیبی قدر [فکرِ اقبال کی روشنی میں ] اپریل۱۹۷۹ئ/ // // فکرِ اقبال کے چند امتیازی پہلو نومبر۲۰۰۲ئ/ ۲۰-۲۶ // // مسلم طلبا وطالبات کی شخصیت سازی [تعلیماتِ اقبال کی روشنی میں] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۴۳-۴۹ // // نظم ‘عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا … ‘: تجزیاتی مطالعہ نومبر۱۹۹۸ئ/ ۱۷-۳۱ // // ہجرت آئینِ حیاتِ مسلم است [خطاب] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۶۷-۷۳ // // ‘اذاں، صلوٰۃ، قیام اور سجدہ‘ اقبال کی شاعری میں نومبر۱۹۹۸ئ/ ۵۳-۶۸ // // Foreword [Book The Cool Breeze from Hind by Mujeeb Rahman] اپریل۲۰۰۷ئ/ ۲-۵ ظ-انصاری قلندر کا لہو ترنگ___ فکرِ اقبال جولائی۱۹۷۸ئ/ ۴۳-۵۲ عالم خوند میری سرسیّد سے اقبال تک ذہنی سفر [دانش وری کی روایت] جنوری۱۹۸۲ئ/ ۱۳-۴۳ // // جاوید نامہ ___ فکری پس منظر اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۵-۱۶ // // جاوید نامہ ___ فکری پس منظر اپریل۲۰۰۹ئ/۳۶-۵۱ // // زماں ___ اقبال کے شاعرانہ کشف کے آئینہ میں جنوری۱۹۷۸ئ/ ۵-۲۰ // // مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۴۵-۱۴۹ // // Iqbal's Conception of Times its relation to contemporary نومبر۱۹۹۵ئ/ ۳ -۱۱ عبادت بریلوی ساقی نامہ [ماخوذ از اقبال: احوال و افکار] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۴۱-۴۷ عبدالحق،ڈاکٹر آیۂ نور اور اقبال کا اجتہاد اپریل۱۹۸۰ئ/ ۶۵-۷۶ عبدالحق اقبال ایشیائی بیداری کا شاعر اپریل۲۰۰۸ئ/ ۵۴-۷۴ // // اقبال کی فکری سرگذشت کا تیسرا دور اپریل۱۹۷۹ئ/ عبدالحکیم،خلیفہ اقبال کی زندگی کے مختصر حالات اپریل۱۹۹۴ئ/ ۱۱۰-۱۲۰ عبدالرحیم قریشی اسلام بنام مغرب [خطاب] نومبر۱۹۹۵ئ/ ۷۹-۸۰ عبدالستار دلوی اقبال کا نظریۂ زبان نومبر۲۰۰۴ئ/ ۴۷-۶۴ عبدالغفار قاضی اقتباس اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۶۴ عبدالقادر سروری اقبال اپریل۱۹۹۴ئ/ ۹-۳۱ عبدالقادر عمادی ڈاکٹر سر محمد اقبال کا تصورِ خودی نومبر۱۹۹۸ئ/ ۴۹-۵۲ // // فکرِ اقبال کے چند سماجیاتی پہلو اپریل۱۹۷۹ئ/ عبدالقوی دسنوی اقبال کی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری اپریل۱۹۸۰ئ/ ۷۷-۹۶ عبدالقیوم خاں باقی اقبال کا خیال اور اس کا حسن و جمال جنوری۱۹۸۰ئ/ ۹-۲۲ // // اقبال کے الہامی تصورات جنوری۱۹۸۰ئ/ ۳۳-۴۲ // // اقبال [غنائیہ] جنوری۱۹۸۰ئ/ ۵۵-۹۵ // // علامہ اقبال کا فلسفہ جنوری۱۹۸۰ئ/ ۲۳-۳۲ // // مطالعہ اقبال غلط زاویہ نگاہ سے جنوری۱۹۸۰ئ/ ۴۳-۵۴ عبداللطیف،سیّد اقبال سے ملاقات ___ سفر لاہور اپریل۲۰۰۶ئ/ ۷۱-۷۴ // // اقبال کا مسلک انسانیت [مترجم: سیّد امتیاز الدین] اپریل۲۰۰۶ئ/ ۷۵-۸۰ // // شاعر اقبال اور اس کا پیام [مترجم: سیّد امتیاز الدین] اپریل۲۰۰۶ئ/ ۸۱-۸۴ // // Humanism in Iqbal(انسان دوستی اور فکر اقبال) جون۱۹۹۷ئ/ ۲-۸ // // Iqbal and World Order اپریل۱۹۹۴ئ/ ۱-۸ // // Iqbal: The Poet and his Message از ڈاکٹر سنہا جون۱۹۹۷ئ/ ۹-۱۳ عبداللہ چغتائی اقبال کی صحبت میں ذکر غالب اپریل۱۹۹۹ئ/ ۷۷-۸۴ عبداللہ،سیّد مطالعۂ رومی میں اقبال کا مقام اپریل۲۰۰۷ئ/ ۷-۱۷ عبدالماجد دریابادی ارمغانِ حجاز اپریل۲۰۰۰ئ/ ۴۹-۵۵ // // ارمغانِ حجاز جنوری۱۹۷۹ئ/ ۴۹-۵۵ // // اقبال اپریل۲۰۰۰ئ/ ۸-۱۱ // // اقبال جنوری۱۹۷۹ئ/ ۸-۹ // // پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق اپریل۲۰۰۰ئ/ ۱۹-۲۳ // // پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق جنوری۱۹۷۹ئ/ ۱۹-۲۳ عبدالماجد دریابادی پیام [اقبالیات] اپریل۲۰۰۰ئ/ ۷۰ // // پیامِ اقبال اپریل۲۰۰۰ئ/ ۱۰ // // پیامِ اقبال جنوری۱۹۷۹ئ/ ۱۰ // // جاوید نامہ اپریل۲۰۰۰ئ/ ۳۲-۴۸ // // جاوید نامہ جنوری۱۹۷۹ئ/ ۳۲-۴۸ // // جنونِ الحاد [اقبالیات] اپریل۲۰۰۰ئ/ ۱۳-۱۴ // // جنونِ الحاد [اقبالیات] جنوری۱۹۷۹ئ/ ۱۳-۱۴ // // دانشِ حاضر [اقبالیات] اپریل۲۰۰۰ئ/ ۳۰-۳۱ // // دانشِ حاضر [اقبالیات] جنوری۱۹۷۹ئ/ ۳۰-۳۱ // // دو لفظ ___ ۔‘مردِ خدا‘ (اقبال) کی یاد میں اپریل۲۰۰۰ئ/ ۵۶-۵۸ // // دو لفظ ___ ۔‘مردِ خدا‘ (اقبال) کی یاد میں جنوری۱۹۷۹ئ/ ۵۶-۵۸ // // شکوہ جوابِ شکوہ اپریل۲۰۰۰ئ/ ۱۱-۱۲ // // شکوہ جوابِ شکوہ جنوری۱۹۷۹ئ/ ۱۱-۱۲ // // شیشہ اور موتی [اقبالیات] اپریل۲۰۰۰ئ/ ۱۷-۱۸ // // شیشہ اور موتی [اقبالیات] جنوری۱۹۷۹ئ/ ۱۷-۱۸ // // ضربِ کلیم اپریل۲۰۰۰ئ/ ۲۴-۲۹ // // ضربِ کلیم جنوری۱۹۷۹ئ/ ۲۴-۲۹ // // مغرب کی ترقی کا راز [اقبالیات] اپریل۲۰۰۰ئ/ ۱۵-۱۶ // // مغرب کی ترقی کا راز [اقبالیات] جنوری۱۹۷۹ئ/ ۱۵-۱۶ // // نطشے، رومی اور اقبال اپریل۲۰۰۰ئ/ ۶۵-۶۹ عبدالمغنی،ڈاکٹر مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۱۸-۱۴۴ // // ساقی نامہ [ماخوذ از۔ اقبال کا نظامِ فن] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۲۷-۴۰ عبدالوحید خان ادارۂ اقبال لکھنؤ میں بہادر یار جنگ کی افتتاحی تقریر اپریل۲۰۰۵ئ/ ۶۸-۶۹ عزیز احمد اقبال کی شاعری میں حسن و عشق کا عنصر اپریل۱۹۹۴ئ/ ۹۱-۱۰۲ عصمت جاوید اقبال اور مناظر قدرت جون۱۹۹۷ئ/ ۱۵-۳۲ عصمت مہدی Annemarie on Deciphering the signs of God نومبر۲۰۰۳ئ/ ۸۹-۹۵ عقیل ہاشمی اقبال کا مذہبی شعور [یومِ اقبال کے پروگرام میں تقریر ] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۳ علی ظہیر،سیّد جاوید نامہ [سیّد سراج الدین کا ترجمہ ایک مطالعہ] نومبر۲۰۰۷ئ/ ۵۴-۵۹ // // بانگِ دراکی مشہور غزل ’کبھی اے حقیقت منتظر …‘ نومبر۱۹۹۸ئ/ ۴-۱۱ // // جدید اُردو شعرا پر اقبال کا اثر نومبر۱۹۹۲ئ/ ۷۲-۷۹ // // غالب اور اقبال‘ غزل کے تناظر میں اپریل۱۹۹۹ئ/ ۸۵-۹۵ عمیق حنفی اقبال کی مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۵۲-۷۲ غلام دستگیر رشید صبح مراد! اُردو نثر کا اقبال اپریل۲۰۰۶ئ/ ۴۵-۵۱ // // صبح مراد! اُردو نثر کا اقبال اپریل۲۰۰۹ئ/ ۱۸-۲۴ فخر الحسن اقبال کی خدمات اپریل۱۹۹۴ئ/ ۱۲۱-۱۴۴ فیض احمد فیض اقبال اپنی نظر میں نومبر۱۹۹۶ئ/ ۱۲-۱۸ // // اقبال کی شاعری نومبر۱۹۹۶ئ/ ۵-۱۱ // // خدماتِ اقبال کی بنیادی کیفیت نومبر۱۹۹۶ئ/ ۱۹-۲۵ // // Mohammad Iqbal نومبر۱۹۹۶ئ/ ۱۳-۲۱ قدوس جاوید ساقی نامہ [ماخوذ از مجلہ اقبالیات شمارہ نمبر۴] اپریل۱۹۹۶ئ/ ۸۸-۹۳ کرشن چندر شاعر مشرق علامہ اقبال اپریل۱۹۹۵ئ/ ۶۲-۶۶ کرشن شرما اقبال___ چند یادیں جون۱۹۹۷ئ/ ۶۹-۷۴ کریم رضا روئیدداد جلسہ تعزیت [سیّد خلیل اللہ حسینی] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۲-۱۶ // // ہندوستان میں مطالعۂ اقبال نومبر۱۹۹۲ئ/ ۸۷-۹۶ کمال حبیب Studies in Iqbal longer Poems نومبر۱۹۹۶ئ/ ۲۲-۵۳ گیان چند اقبال کی مہارت عروض اپریل۱۹۸۰ئ/ ۹-۲۱ // // کلامِ اقبال کی بیاض سے کچھ نیا کلام جنوری۱۹۸۲ئ/ ۱-۱۱ لطیف النساء بیگم اقبال اور ان کا فلسفۂ خودی اپریل۲۰۰۱ئ/ ۳۱-۳۷ // // اقبال کے کلام میں رجائیت کا عنصر اپریل۲۰۰۱ئ/ ۳۸-۴۹ مجاور حسین رضوی اقبال نے کہیں بھی لفظ پاکستان کا استعمال نہیں کیا؟ نومبر۱۹۹۵ئ/ ۵۶-۵۹ محسن عثمانی ندوی اقبال اور حیدرآباد [یومِ اقبال کے پروگرام میں تقریر ] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۳ // // ختم نبوت کے مضمرات‘ اقبال کی نظر میں [یومِ اقبال کے پروگرام میں تقریر ] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۳ // // روحِ اقبال ایک مطالعہ [یومِ اقبال کے پروگرام میں تقریر ] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۳ محسن عثمانی ندوی کلامِ اقبال [یومِ اقبال کے پروگرام میں تقریر ] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۳ // // یوسف حسین خان کی کتاب روح اقبال ایک مطالعہ نومبر۲۰۰۸ئ/ ۷-۲۵ محمد افضل الدین آہ! اقبال اپریل۱۹۹۴ئ/ ۱۰۳ محمد بدیع الزماں بالِ جبریل کی غزلوں کا آہنگ و آب و رنگ اپریل۱۹۹۵ئ/ ۵-۱۷ محمد علی نیر شاعر مشرق [منظوم خراجِ عقیدت] اپریل۱۹۹۴ئ/ ۱۰۹ محمد منظور احمد Foreword جولائی۱۹۷۸ئ/ ۰ محمد یعقوب مغل اقبال اور ترکی جنوری۱۹۸۳ئ/ ۱۷-۳۰ محمد یوسف مسجد قرطبہ کا مرکزی خیال تاریخ کی روشنی میں نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۱۱-۱۱۷ محی الدین قادری اقبال کا اثر اُردو شاعری پر اپریل۱۹۹۴ئ/ ۸۳-۹۰ مخدوم محی الدین اقبال کو منظوم خراجِ عقیدت [عکسی تحریر] نومبر۲۰۰۳ئ/ ۵۷-۵۸ // // مجاہد اقبال [بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کی روشنی میں] نومبر۲۰۰۳ئ/ ۵۹-۶۰ مسعود حسین خاں مسجد قرطبہ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۹۴-۱۰۲ مصحف اقبال توصیفی ابلیس کی مجلس شوریٰ ۔___ ۔ایک مطالعہ نومبر۱۹۹۴ئ/ ۳۹-۴۵ // // اقبال کی ایک معرکہ آرا غزل [فطرت کو خرد کے رُوبرو…] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۳۷-۴۲ // // اقبال کی شاعری میں وقت کا عرفان [عا لم خوند میری کی نظر میں] جون۱۹۹۸ئ/ ۱۰-۱۹ // // اقبال کی نظم ’لالہ صحرا‘ کا تجزیاتی مطالعہ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۷-۱۲ // // نظم ‘طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام‘: تجزیاتی مطالعہ نومبر۱۹۹۸ئ/ ۱۲-۱۶ مصلح الدین سعدی اقبا ل کا ذہنی سفر… ۱۹۱۰ء سے ۱۹۳۰ء تک اپریل۱۹۷۹ئ/ // // اقبال کا ذہنی سفر اپریل۲۰۰۳ئ/ ۲۷-۳۸ // // اقبال کا سائنسی منہاج فکر اپریل۲۰۰۳ئ/ ۱۱۲-۱۱۴ // // اقبال کا سائنسی منہاجِ فکر [یم یم تقی کی کتاب کا مطالعہ] نومبر۲۰۰۲ئ/ ۴۱-۴۵ // // اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘ ۔___ ایک تجزیاتی مطالعہ اپریل۲۰۰۳ئ/ ۶۹-۷۵ // // اقبال کا نظریۂ خودی اور ہندوستانی مسلمان جنوری۱۹۸۳ئ/ ۳۷-۵۲ // // اقبال کا نظریۂ خودی اور ہندوستانی مسلمان اپریل۲۰۰۳ئ/۴۶-۶۰ // // اقبال کے نظریۂ خودی کے چند پہلو اپریل۲۰۰۳ئ/ ۳۹-۴۵ // // اقبال ___ نئی تحقیق[شکیل احمد کی کتاب:ایک جائزہ] اپریل۲۰۰۳ئ/ ۹۲-۹۶ // // چشمۂ آفتاب اپریل۲۰۰۳ئ/ ۱۰۵-۱۰۷ مصلح الدین سعدی دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر اپریل۲۰۰۳ئ/ ۶۶-۶۸ // // ظ-انصاری کی کتاب اقبال کی تلاش [ایک تاثر] نومبر۲۰۰۳ئ/ ۵-۱۵ // // مطالعۂ اقبال کے چند مسائل اپریل۲۰۰۳ئ/ ۱۶-۲۶ // // مطالعۂ اقبال کے چند مسائل اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۵۳-۶۳ // // مطالعۂ اقبال ۔___ عصری تقاضے اپریل۲۰۰۳ئ/ ۱۰۳-۱۰۴ // // ملت ختم رسل ا شعلہ بہ پیراہن ہے [ایک مصرع کی تشریح] نومبر۱۹۹۲ئ/ ۶۶-۷۱ // // ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے اپریل۲۰۰۳ئ/ ۶۱-۶۵ // // ’انتخاب پیامِ مشرق[منظوم ترجمہ از فیض احمد فیض] اپریل۲۰۰۳ئ/ ۸۷ تا۹۱ مضطر مجاز اقبال کے فارسی کلام کے ترجمے کی ضرورت اور اس کے مسائل جنوری۱۹۷۸ئ/ ۶۱-۶۴ معین الدین جینا اقبال اور سیتو مادھور او پگڑی [بانگِ درا کا مرہٹی ترجمہ] اپریل۱۹۹۵ئ/ ۱۹-۳۰ معین الدین عقیل فکر اسلامی کی تشکیل جدید دورِ حاضر کے عصری تقاضے اور علمائے ہندوستان کا نقطۂ نظر نومبر۲۰۰۸ئ/ ۲۶-۳۶ مغنی تبسم اقبال اور غزل اپریل۱۹۸۰ئ/ ۳۳-۴۳ // // اقبال کے نظریہ فن کے بارے میں چند معروضات نومبر۱۹۹۲ئ/ ۵۷-۶۵ مقبول احمد پوری کیلاش کنول [تراجم از پیامِ مشرق/ فارسی متن مع اُردو ترجمہ] نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۰-۸۲ ممتاز حسن Iqbal اپریل۱۹۹۵ئ/ ۱۲-۱۵ منت اللہ رحمانی حمیت اور جرأت کا پیکر [سیّد خلیل اللہ حسینی] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۹-۲۱ منظور النساء بیگم اقبال میری نظر میں اپریل۲۰۰۱ئ/ ۱۰۶-۱۱۰ منیر احمد خاں انجمن حمایتِ اسلام سے خطبہ الٰہ آباد تک اپریل۱۹۷۹ئ/ منیزہ بانو کاوس علامہ اقبال کا انسان کامل اپریل۲۰۰۱ئ/ ۹۷-۱۰۰ میر حسن Iqbal (مع چند نظموں کا انگریزی ترجمہ) اپریل۱۹۹۴ئ/ ۲۴-۲۹ میرزا ادیب علامہ اقبال کی تین دعائیہ نظمیں جون۱۹۹۷ئ/ ۴-۱۴ م-ذ-شریف اُردو کے ادبی رسائل میں اقبالیات [اقبال نمبر] اپریل۱۹۷۹ئ/ ۸۱-۹۶ نثار احمد فاروقی اسلام اکیسویں صدی میں نومبر۱۹۹۴ئ/ ۳-۱۸ نذیر الدین احمد درسِ اقبال [بیاد بہادر یار جنگ] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۵۹-۶۱ وجیہہ الدین احمد اقبال کی شاعری میں ہیئت کے تجربے جون۱۹۹۷ئ/ ۵۴-۶۰ وحید الدین خاں زمانہ کو پہچانیے___ ۔مسلمانوں کا اندازِ فکر نومبر۱۹۹۵ئ/ ۳۳-۳۷ وحید عشرت علامہ اقبال اور تہذیب کا روحانی مقصود اپریل۱۹۹۳ئ/ ۳۷-۵۴ وحیدالدین خان اقبال کی شاعری سے اُمت ٹس سے مس ہوئی یا نہیں ؟ نومبر۱۹۹۵ئ/ ۵۲-۵۹ یم یم تقی خاں اقبال کا تصورِ موت و حیات نومبر۲۰۰۲ئ/ ۲۷-۳۲ // // ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں [خطاب] نومبر۲۰۰۳ئ/ ۴۵-۵۰ // // معراج کے چند پہلو [سائنس اور کلامِ اقبال کی روشنی میں] نومبر۲۰۰۲ئ/ ۳۳-۴۰ // // یہاں کارواں اور بھی ہیں [خطاب] نومبر۲۰۰۳ئ/ ۵۱-۵۶ یوسف اعظمی اقبال کی شاعری کے ادبی اور فکری سرچشمے نومبر۱۹۹۴ئ/ ۴۶-۵۱ یوسف سرمست اقبال کی شاعرانہ اور فلسفیانہ فکر اپریل۱۹۸۰ئ/ ۵۸-۶۴ مکتوبات ادارہ شمارہ اپریل ۱۹۹۳ء کے مضمون ‘اقبال کے دو غیر مدون خطوط میں غلطی کی نشان دہی نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۰ جمال الدین افغانی مکتوب [عربی] نومبر۲۰۰۵ئ/ ۷-۸ خلیق انجم غالب اور اقبال کی مکتوب نگاری اپریل۱۹۹۹ئ/ ۶۴-۷۶ عبدالماجد دریابادی مکتوب اپریل۲۰۰۰ئ/ ۷ // // مکتوب جنوری۱۹۷۹ئ/ ۷ معین الدین عقیل اقبال کے دو غیر مدون خطوط اپریل۱۹۹۳ئ/ ۷۰-۷۶ اقبال و دیگر شخصیات ابوالحسن علی ندوی ایک لمحہ جمال الدین افغانی کے ساتھ نومبر۲۰۰۵ئ/ ۲۵-۳۲ ابوالکلام آزاد سیّد جمال الدین اسد آبادی نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۴-۱۸ ادارہ حیاتِ بہادر یار جنگ ___ بہ یک نظر اپریل۲۰۰۵ئ/ ۹۱-۹۲ // // حیاتِ سیّد جمال الدین افغانی [ایک نظر میں] نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۰۸-۱۰۹ // // خطباتِ بہادر یار جنگ سے اقتباسات اپریل۲۰۰۵ئ/ ۸۷-۹۰ امتیاز الدین،سیّد رومی اور اقبال نومبر۲۰۰۷ئ/ ۷۸-۸۵ // // علامہ عمادی اور اقبال اپریل۲۰۰۶ئ/ ۱۹-۲۲ حامد علی،سیّد نواب بہادر یار جنگ اور درسِ اقبال اپریل۲۰۰۵ئ/ ۶۲-۶۶ حسن یار جنگ قائد ملت بہادر یار جنگ اور بزمِ اقبال حیدرآباد دکن اپریل۲۰۰۵ئ/ ۶۷ صادق نوید مہاراجہ سرکشن پرشاد اور سر اکبر حیدری نومبر۱۹۹۷ئ/ ۱۹-۲۵ ظہیر احمد صدیقی جمالیاتی قدریں …حالی اور اقبال اپریل۱۹۷۹ئ/ عبدالحکیم،خلیفہ رومی اور اقبال اپریل۲۰۰۷ئ/ ۱۸-۲۶ عبدالستار دلوی گاندھی جی، اُردو اور اقبال جون۱۹۹۷ئ/ ۳۹-۵۳ عقیل ہاشمی تبصرہ [خصوصی اشاعت بر ‘اقبال اور جمال الدین افغانی‘] اپریل۲۰۰۶ئ/ ۸۹-۹۳ غلام حسین ذوالفقار اقبال اور سیّد جمال الدین افغانی نومبر۲۰۰۵ئ/ ۳۳-۵۵ غلام دستگیر رشید علامہ اقبال اور قائد ملت بہادر یار خان اپریل۲۰۰۵ئ/ ۲۸-۳۱ غلام محمد بہادر یار جنگ یا متشکل۔ُ۔ّ۔ فکر اقبال اپریل۲۰۰۵ئ/ ۲۱-۲۷ فرمان فتح پوری اقبال اور غالب کا تقابلی مطالعہ اپریل۱۹۹۹ئ/ ۳۸-۶۳ کبیر ہل مینسکی Our Master Jalaluddin (Rumi) اپریل۲۰۰۷ئ/ ۲۳-۳۳ محمد احمد خان علامہ اقبال اور بہادر یار جنگ اپریل۲۰۰۵ئ/ ۳۶-۴۱ محمد ریاض جمال الدین افغانی اور اقبال نومبر۲۰۰۵ئ/ ۵۶-۷۵ محمد طارق غازی ابن خلدون اور اقبال[ عہدِ زوال کے عبقری] نومبر۱۹۹۲ئ/ ۲۰-۴۰ محمد علی صدیقی اقبال اور مولانا رومی اپریل۲۰۰۷ئ/ ۲۷-۳۴ مصلح الدین سعدی علامہ اقبال اور قائد ملت اپریل۲۰۰۳ئ/ ۷۶-۸۱ // // علامہ اقبال اور قائد ملت اپریل۲۰۰۵ئ/ ۱۵-۲۰ // // مطالعہ اقبال، آہنگ غالب کے پس منظر میں اپریل۲۰۰۳ئ/ ۱۱۰-۱۱۱ معین الدین عقیل سیّد جمال الدین افغانی اور اقبال نومبر۲۰۰۵ئ/ ۷۶-۱۰۷ منظر اعجاز مولانا روم اپریل۲۰۰۷ئ/ ۳۵-۴۷ منیر احمد خاں سرسیّد اور اقبال جنوری۱۹۸۳ئ/ ۳۱-۳۶ نذیر الدین احمد علامہ اقبال اور قائد ملت بہادر یار جنگ اپریل۲۰۰۵ئ/ ۴۲-۵۳ // // قائد ملت نواب بہادر یار جنگ اور اقبال نومبر۱۹۹۷ئ/ ۵۵-۶۷ // // کتاب سوانح بہادر یار جنگ سے اقتباس اپریل۲۰۰۵ئ/ ۴ نذیر مومن اقبال اور رومی اپریل۲۰۰۷ئ/ ۴۸-۵۸ نظر حیدرآبادی بہادر یار جنگ اور اقبال اپریل۲۰۰۵ئ/ ۳۲-۳۵ نعیم الدین رومی و اقبال کا تصورِ عشق جنوری۱۹۸۲ئ/ ۴۵-۸۴ یوسف اعظمی دو معاصرین۔___ اقبال اور ایلیٹ نومبر۲۰۰۳ئ/ ۳۶-۴۴ یوسف سرمست حسن یار جنگ اور بزمِ اقبال نومبر۱۹۹۷ئ/ ۱-۱۸ اقبال شناس مصلح الدین سعدی مطالعۂ اقبال اور ڈاکٹر سیّد عالم خوندمیری اپریل۲۰۰۳ئ/ ۸۲-۸۶ مظفر الدین سعید سعدی بھائی [چند یادیں، چند تاثرات] اپریل۲۰۰۳ئ/ ۹-۱۵ ابو الحسن علی ندوی انتھک کام کرنے والے مصلح [سیّد خلیل اللہ حسینی] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۷-۱۸ ادارہ اقبال اکیڈمی میں تعزیتی جلسہ بر وفات ڈاکٹر عصمت جاوید نومبر۲۰۰۲ئ/ ۶۴-۶۵ // // اقبال اکیڈمی میں تعزیتی جلسہ بر وفات مصلح الدین سعدی اپریل۲۰۰۳ئ/ ۱۱۵-۱۱۶ // // اقبال اکیڈمی میں جلسہ بیاد سیّد سراج الدین [بموقع پہلی برسی] نومبر۲۰۰۷ئ/ ۹۵-۹۶ // // پروفیسر سراج الدین کا سانحۂ ارتحال نومبر۲۰۰۶ئ/ ۸۷-۸۹ // // جانے والوں کی یاد آتی ہے [بر وفات جگن ناتھ آزاد] نومبر۲۰۰۴ئ/ ۱۲۰ // // جانے والوں کی یاد آتی ہے [بر وفاتجعفر نظام] نومبر۲۰۰۴ئ/ ۱۱۸-۱۱۹ // // جناب زکریا شریف کا سانحۂ ارتحال نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۱۲ // // ڈاکٹر کریم رضا سابق معتمد اقبال اکیڈمی کی وفات نومبر۲۰۰۶ئ/ ۹۵ // // مولانا عبداللہ عمادی اپریل۲۰۰۶ئ/ ۱۰-۱۱ اکبر علی بیگ اُستادِ محترم پروفیسر غلام عمر خان جون۱۹۹۸ئ/ ۳۶-۵۱ امتیاز الدین،سیّد اداریہ [خصوصی اشاعت بر ‘پروفیسر سیّد سراج الدین‘] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۷-۸ بشیر احمد نحوی پروفیسر سراج الدین۔ چند یادیں چند باتیں اپریل۲۰۰۷ئ/ ۶۲-۶۷ بلیغ الدین،شاہ سیّد سراج الدین نومبر۲۰۰۶ئ/ ۶۳-۶۶ تقی علی مرزا ہمدم دیرینہ ___ سراج الدین نومبر۲۰۰۶ئ/ ۳۱-۳۳ // // Prof. Syed Sirajuddin - A Tribute نومبر۲۰۰۶ئ/ ۲-۴ جعفر احتشام الدین Memories of My father [S.Siraj] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۵-۱۴ // // Syed Sirajuddin (The Quintessential Hyderabadi) نومبر۲۰۰۷ئ/ ۹-۱۶ جگن ناتھ آزاد اقبال، مغربی خاور شناسوں کی نظر میں اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۱۷-۳۰ رحیم الدین کمال پروفیسر سراج الدین___ شخصیت کے چند پہلو نومبر۲۰۰۶ئ/ ۱۹-۳۰ رفیع الدین ہاشمی مولانا علی میاں بطورِ ترجمانِ اقبال نومبر۲۰۰۴ئ/ ۹۹-۱۰۷ زینت ساجدہ پروفیسر ابو ظفر عبدالواحد اپریل۲۰۰۶ئ/ ۲۳-۲۴ سراج الدین،سیّد این ماری شمل کی یاد میں نومبر۲۰۰۳ئ/ ۶۹-۷۹ // // پروفیسر صلاح الدین ___ ایک تاثر نومبر۲۰۰۶ئ/ ۷۸-۸۱ سلطان لطیف اُستادِ محترم سیّد سراج الدین نومبر۲۰۰۶ئ/ ۶۰-۶۲ سلیمان اطہر جاوید اِک دِیا اور بجھا نومبر۲۰۰۶ئ/ ۳۹-۴۲ شاہد حسین زبیری پروفیسر سراج نومبر۲۰۰۶ئ/ ۵۰-۵۳ شمس الرحمن فاروقی سیّد سراج الدین کی یاد میں نومبر۲۰۰۶ئ/ ۱۵-۱۸ ضیاء الدین احمد این میری شمل نومبر۲۰۰۳ئ/ ۸۱-۸۵ ظہیر الدین احمد اقبال اکیڈمی اور سعدی بھائی اپریل۲۰۰۳ئ/ ۶-۸ // // اقبال اکیڈمی میں پروفیسر شمل کے لکچرز- چند یادیں نومبر۲۰۰۳ئ/ ۸۶-۸۸ // // پروفیسر غلام دستگیر رشید اپریل۲۰۰۶ئ/ ۳۹-۴۲ // // ڈاکٹر عبداللطیف۔ چند یادیں اپریل۲۰۰۶ئ/ ۶۶-۷۰ // // ڈاکٹر غلام دستگیر رشید جون۱۹۹۸ئ/ ۵-۹ // // غلام دستگیر رشید___ ایک صاحبِ نظر اقبال شناس اپریل۱۹۹۳ئ/ ۹۵-۹۸ عبدالحق اقبالیاتی تحقیق میں پروفیسر گیان چند کی نارسائیاں نومبر۲۰۰۷ئ/ ۴۷-۵۳ عبدالرحیم قریشی اقبال ___ ۔مولانا وحید الدین کی نظر میں نومبر۱۹۹۵ئ/ ۳۸ // // جناب سیّد خلیل اللہ حسینی اپریل۱۹۹۳ئ/ ۷-۱۱ عقیل ہاشمی اقبال شناس مردِ بیابانی۔ ___ سیّد احمد ایثار اپریل۲۰۰۸ئ/ ۷۵-۸۳ // // فکر اقبال کا شارح ___ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم جون۱۹۹۸ئ/ ۲۰-۳۵ غلام دستگیر رشید ’اقبالیاتِ ماجد‘ پر خصوصی اشاعت اپریل۲۰۰۰ئ/ ۳-۴ غلام محمد،مولانا تعلیماتِ اقبال سے لگائو [بیاد بہادر یار جنگ] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۵۴-۵۸ قدیر زماں پاک طینت و پاک باطن پروفیسر سیّد سراج الدین نومبر۲۰۰۶ئ/ ۵۴-۵۹ کریم رضا سیّد خلیل اللہ حسینی‘ بانیِ اقبال اکیڈمی حیدرآباد نومبر۱۹۹۷ئ/ ۲۶-۳۲ گیان چند سیّد شکیل احمد کی دریافت اپریل۱۹۸۴ئ/ xv-ix مالک رام ڈاکٹر سیّد عبداللطیف اپریل۲۰۰۶ئ/ ۵۳-۵۶ مبارز الدین رفعت شاہین سیّد نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۹-۲۴ مجتبیٰ حسین پروفیسر سیّد سراج الدین کی یاد میں نومبر۲۰۰۶ئ/ ۹-۱۳ مجیب الرحمن Allama Iqbal and Umar Qazi [A comparison] اپریل۲۰۰۷ئ/ ۶-۲۲ محسن عثمانی ندوی ہم جام بکف بیٹھے ہی رہے وہ پی بھی گئے‘ چھلکا بھی گئے نومبر۲۰۰۶ئ/ ۳۵-۳۸ محمود حسن انور شیخ، علم و دانش کے نام پر ایک سوالیہ نشان اکتوبر۲۰۰۰ئ/ ۴۰-۸۰ مصلح الدین سعدی اداریہ [صدر اقبال اکیڈمی سیّد خلیل اللہ حسینی کی وفات] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۴-۶ // // باقیؔ اور اقبالیات باقیؔ اپریل۲۰۰۳ئ/ ۹۷-۱۰۲ // // نذرِ سیّد خلیل اللہ حسینی اپریل۲۰۰۳ئ/ ۱۰۸-۱۰۹ مضطر مجاز کیا اقبال منزل ناآشنا تھے؟ [وحید الدین کے خیالات کا محاکمہ] نومبر۱۹۹۵ئ/ ۶۰-۶۴ نعیم الدین پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ[؟] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۴۳-۴۵ یوسف کمال آہ! پروفیسر سراج نومبر۲۰۰۶ئ/ ۴۶-۴۹ نظمیں امتیاز الدین،سیّد ایک نظم بیاد سیّد سراج الدین نومبر۲۰۰۶ئ/ ۶۹-۷۰ جوہی فاروقی Forever Missing you [نظم بیاد سراج الدین] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۴۵ // // Loss [نظم بیاد سراج الدین] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۴۴ شیو کے کمار From Ventilator to Morgue [نظم بیاد سراج الدین] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۴۲-۴۳ // // سراج کی یاد میں ۔___ نظم [مترجم: علی ظہیر] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۶۷-۶۸ این میری شمل میں جانتی ہوں [نظم/ ترجمہ:سیّد سراج الدین] نومبر۲۰۰۳ئ/ ۸۰ بہادر یار جنگ اے کہ ترا سرِ نیاز حد۔ّ۔ِ۔ کمالِ بندگی [نظم] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۸ عبدالحکیم،خلیفہ علامہ اقبال [نظم] اپریل۱۹۹۴ئ/ ۱۰۴-۱۰۸ اداریے ادارہ اپریل۱۹۸۰ئ/ ۳-۷ // // اپریل۱۹۸۰ئ/ ۸ ادارہ اکتوبر۲۰۰۰ئ/ ۳-۴ // // اکتوبر۱۹۷۷ئ/ ۳ // // جنوری۱۹۸۲ئ/ الف // // جنوری۱۹۸۳ئ/ ۳-۴ // // جنوری۱۹۷۸ئ/ ۳-۴ // // جولائی۱۹۷۸ئ/ ۳-۴ // // نومبر۱۹۹۲ئ/ ۴-۶ امتیاز الدین،سیّد اپریل۲۰۰۸ئ/ ۴ // // نومبر۲۰۰۷ئ/ ۵-۶ // // نومبر۲۰۰۸ئ/ ۵ // // نومبر۲۰۰۲ئ/ ۶ بیگ احساس جون۱۹۹۷ئ/ ۳ // // جون۱۹۹۸ئ/ ۳ // // نومبر۱۹۹۷ئ/ ۰ // // نومبر۱۹۹۸ئ/ ۲ وجیہہ الدین احمد اپریل۱۹۹۵ئ/ ۴ // // اپریل۱۹۹۶ئ/ اب // // نومبر۱۹۹۴ئ/ ۱-۲ // // نومبر۱۹۹۵ئ/ ۵-۶ [خصوصی اشاعتیں] ادارے ادارہ [خصوصی اشاعت بر ‘اقبال اور جمال الدین افغانی‘] نومبر۲۰۰۵ئ/ ۵-۶ // // [خصوصی اشاعت بر ‘اقبال اور خواتین دکن‘] اپریل۲۰۰۱ئ/ ۳ // // [خصوصی اشاعت بر ‘اقبال کی شعری زبان کا ارتقا اور نظریۂ زبان] نومبر۲۰۰۴ئ/ ۵-۸ // // [خصوصی اشاعت بر ‘اقبالیاتِ مولانا دریابادی‘ ] اپریل۲۰۰۰ئ/ ۵-۶ // // [خصوصی اشاعت بر ‘اقبالیاتِ مولانا دریابادی‘ ] جنوری۱۹۷۹ئ/ ۳-۴ // // [خصوصی اشاعت انتخاب نمبر ‘اقبال کے سابقہ شماروں سے انتخاب] اپریل۲۰۰۹ئ/۵-۸ // // [خصوصی اشاعت بر ‘شکوہ و جواب شکوہ کا توضیحی مطالعہ‘] نومبر۱۹۹۹ئ/ ۳ امتیاز الدین،سیّد [خصوصی اشاعت بر ‘پروفیسر سیّد سراج الدین‘] نومبر۲۰۰۶ئ/ ۷-۸ // // [خصوصی اشاعت بر ‘مولانا رومی کا ۸۰۰واں سال پیدائش ‘] اپریل۲۰۰۷ئ/ ۵-۶ // // [خصوصی اشاعت بر ‘اقبالیاتِ سعدی‘] اپریل۲۰۰۳ئ/ ۵ ظہیر الدین احمد [خصوصی اشاعت بر ‘اقبال اور قائد ملت بہادر یار جنگ] اپریل۲۰۰۵ئ/ ۵-۷ // // [خصوصی اشاعت بر ‘اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط‘ چند معاصرین حیدرآباد دکن کے نام] اپریل۲۰۰۶ئ/ ۵-۹ مصلح الدین سعدی [باقی اور اقبالیاتِ باقی] جنوری۱۹۸۰ئ/ ۳-۸ // // [خصوصی اشاعت بر ‘آندھرا پردیش آرکائیوز میں علامہ اقبال کے حالات، غیرمطبوعہ خطوط اور تحقیق] اپریل۱۹۸۴ئ/ viii-i // // [خصوصی اشاعت بر ‘مطالعہ اقبال آہنگ غالب کے پس منظر میں‘] اپریل۱۹۹۹ئ/ ۳-۵ وجیہہ الدین احمد [خصوصی اشاعت بر ‘مسجد قرطبہ‘] نومبر۱۹۹۳ئ/ د // // [خصوصی اشاعت بر ‘مجلہ عثمانیہ میں ۱۹۳۸ء تک شائع ہونے والے مضامین‘ کی اشاعت] اپریل۱۹۹۴ئ/ ۱-۲ رپورتاژ؍ سرگرمیاں ادارہ اسلامک ہیرٹیج فائونڈیشن کے زیر اہتمام اجتماعات نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۱۱ ادارہ اسلامک ہیرٹیج فائونڈیشن کے زیر اہتمام اجتماعات اپریل۲۰۰۹ئ/ ۶۲ // // اسلامک ہیرٹیج فائونڈیشن کے زیراہتمام نمایش کا انعقاد نومبر۲۰۰۷ئ/ ۹۶ // // اظہارِ تشکر [شکیل احمد] اپریل۱۹۸۴ئ/ ۷۰ // // اغلاط نامہ شمارہ ہذا اپریل۱۹۸۴ئ/ ۷۱-۷۲ // // اقبال اکیڈمی اور اسلامک ہیرٹیج فائونڈیشن کے زیر اہتمام سیمی نار اپریل۲۰۰۷ئ/ ۶۸-۷۴ // // اقبال اکیڈمی اور اسلامک ہیرٹیج فائونڈیشن کے زیر اہتمام سیمی نار نومبر۲۰۰۶ئ/ ۹۲-۹۴ // // اقبال اکیڈمی سیمی نار نومبر۲۰۰۴ئ/ ۱۱۶-۱۱۷ // // اقبال اکیڈمی کی جنرل باڈی کی میٹنگ نومبر۲۰۰۶ئ/ ۸۹ // // اقبال اکیڈمی کے زیر اہتمام اجتماعات اپریل۲۰۰۶ئ/ ۸۶ // // اقبال اکیڈمی کے زیر اہتمام اجتماعات نومبر۲۰۰۳ئ/ ۶۱ ادارہ اسلامک ہیرٹیج فائونڈیشن کے زیر اہتمام کتاب مسلم سائنس داں، مرتبین ایم اے صدیقی؍ناثرہ صدیقی اپریل۲۰۰۹ئ/ ۶۳ ادارہ اقبال اکیڈمی کے زیر اہتمام اجتماعات نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۱۰ // // اقبال اکیڈمی کے زیر اہتمام اجتماعات اپریل۲۰۰۹ئ/۶۱ // // اقبال اکیڈمی میں مہمانوں کی آمد اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۵ // // اقبال اکیڈمی میں اجتماعات [بعنوان ‘اقبال کا غم ملت‘ اور ‘عالم عرب پر فکر اقبال کے اثرات‘] نومبر۲۰۰۷ئ/ ۹۲-۹۴ // // اقبال اکیڈمی میں تقریب رسم اجرائی [جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ از سیّد سراج الدین ] نومبر۲۰۰۷ئ/ ۸۹-۹۱ // // اقبال اکیڈمی میں لفٹ کی تنصیب کی تقریب نومبر۲۰۰۶ئ/ ۹۰-۹۲ // // اقبال اکیڈمی میں معزز مہمانوں کی آمد اپریل۲۰۰۷ئ/ ۷۶ // // اقبال اکیڈمی میں معزز مہمانوں کی آمد نومبر۲۰۰۷ئ/ ۹۷ // // اقبال ریویواور کتابوں کی اشاعت نومبر۲۰۰۳ئ/ ۶۳ // // اقبال ریویوکا دوبارہ اجرا نومبر۱۹۹۲ئ/ ۹۷ // // اقبالیات پر ویب سائٹ اپریل۲۰۰۶ئ/ ۸۸ // // اکیڈمی اور فائونڈیشن کا غیر رسمی اجلاس [۲۲؍ جنوری۲۰۰۷] اپریل۲۰۰۷ئ/ ۷۴-۷۶ // // اکیڈمی کی نئی مطبوعات اپریل۲۰۰۶ئ/ ۸۷ // // اکیڈمی کی نئی مطبوعات نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۱ // // اکیڈمی کی نئی مطبوعات نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۱۱ // // تصاویر [اقبال اکیڈمی کی سرگرمیاں] اپریل۲۰۰۶ئ/ ۹۴-۹۶ // // تصاویر [اقبال اکیڈمی کی سرگرمیاں] نومبر۲۰۰۷ئ/ ۹۸-۱۰۰ // // تنظیمی اُمور نومبر۲۰۰۳ئ/ ۶۳ // // چند تصاویر نومبر۲۰۰۶ئ/ ۹۶-۹۹ // // حیاتِ اقبال پر تصویری نمایش نومبر۲۰۰۲ئ/ ۵۸ // // خبرنامہ [اکیڈمی کے نئے معتمد ‘سیّد امتیاز الدین ‘ کا تقرر] نومبر۲۰۰۲ئ/ ۴۶ // // خبرنامہ [اکیڈمی کے نئے معتمد ‘وجیہ الدین احمد‘ کا تقرر] نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۱ // // خبرنامہ [طلبا و طالبات کے لیے کلامِ اقبال مقابلہ ترنم] نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۱ // // خطاطی کے چارٹس اور قدیم کتب کا تحفظ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۳ // // رپورٹ تقریب ‘کتب خانہ کی تعمیر جدید‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۵۵-۵۸ // // اقبال اکیڈمی کے زیر اہتمام کتاب اقبال-نئی تشکیل از عزیز احمد کی اشاعت‘ اپریل۲۰۰۹ئ/ ۶۳ // // رپورٹ کارکردگی‘ اکیڈمی [جون۱۹۹۰ء تا دسمبر۱۹۹۲ئ] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۰۲-۱۰۷ // // روئداد اجلاس ارکان تاسیسی [۳؍جنوری۱۹۹۲ئ] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۹۹ // // روئداد اجلاس مجلسِ عاملہ [۲۶؍جنوری۱۹۹۲ئ] اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۰۰-۱۰۱ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں [مع نادر کتب و مخطوطات کا تحفظ] اپریل۲۰۰۶ئ/ ۸۸ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۴ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں نومبر۲۰۰۳ئ/ ۶۲ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۱۱ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں نومبر۲۰۰۶ئ/ ۹۴ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں نومبر۲۰۰۷ئ/ ۹۶-۹۷ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں نومبر۲۰۰۸ئ/ ۸۳ // // کتب خانہ کی سرگرمیاں اپریل۲۰۰۹ئ/ ۶۳-۶۴ // // محمد سہیل عمر (ناظم اقبال اکادمی پاکستان‘ لاہور) کی آمد اپریل۲۰۰۶ئ/ ۸۵-۸۶ // // مدراس میں دعوت ناموں کے عکس اور تصاویر نومبر۲۰۰۴ئ/ ۹۴-۹۸ // // ممبئی اور کیرالا میں ترانۂ ہندی کی صدی تقاریب نومبر۲۰۰۵ئ/ ۱۱۲ // // نئی مطبوعات کا تعارف اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۶ // // توسیعی تقریر ’اختلاف اُمت کے آداب‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۲ // // توسیعی تقریر ’اسلام کو غیرمسلموں کے سامنے کس طرح پیش کرنا چاہیے‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۳ // // توسیعی تقریر ’اقبال ایشیائی بیداری کا شاعر‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۱ // // توسیعی تقریر ’اقبال کی شاعری میں شعائر حج کی تلمیحات‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۱ // // توسیعی تقریر ’جاوید نامہ ، اقبال اور عصرخرابہ ‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۲ // // توسیعی تقریر ’دورِ حاضر کے عصری تقاضے اور علمائے ہندوستان کا نقطہ نظر‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۲ // // توسیعی تقریر ’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۲ // // توسیعی تقریر ’قرآن ارتقائے حیات اور تخلیق انسان‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۳ // // توسیعی تقریر ’گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات‘ اپریل۲۰۰۸ئ/ ۹۱ // // توسیعی تقریر’ ابن خلدون اور اقبال عہد زوال کے عبقری‘ اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۱۶-۱۱۸ // // توسیعی تقریر’ سرسیّد سے اقبال تک، ارتقائے فکرونظر اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۱۹-۱۲۰ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘ادب اور وابستگی‘ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۶-۱۵۸ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘اقبال کی معنویت ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے تناظر میں‘ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۵ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘امریکہ‘ ۱۱؍ستمبر کے بعد‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۴۶-۴۸ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘آج کے مسائل ہندوستانی مسلمانوں کے خصوصی حوالہ سے‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۵۸-۶۱ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘عالمی مستقبل‘ اقبال کے آئینہ ادراک میں‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۶۶-۶۸ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘کلامِ اقبال کی گونج دنیائے عرب میں‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۵۲-۵۴ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘محفل اقبال‘ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۴ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘محفلِ اقبال‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۶۱-۶۴ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘محفلِ اقبال‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۶۸-۷۰ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘مشرق وسطیٰ اور امریکہ کا نیا عالمی نظام‘ نومبر۱۹۹۳ئ/ ۱۵۲-۱۵۳ // // رپورٹ اجتماع بر عنوان ‘۲۰۰ویں خصوصی محفلِ اقبال شناسی‘ نومبر۲۰۰۲ئ/ ۴۹-۵۲ // // سمپوزیم ’جدید سائنس، تکبر سے انکسار تک‘ اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۱۳-۱۱۵ // // سمپوزیم ’محفل اقبال: اقبال کی چند نظموں کا تجزیاتی مطالعہ‘ اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۱۰-۱۱۲ // // سمپوزیم ’موجودہ عالمی نظریاتی تبدیلیاں‘ اپریل۱۹۹۳ئ/ ۱۰۸-۱۰۹ /…//…/ ۱۱۔ اقبالیات٭٭ مزید موضوع اشاریہ اقبالیات و اشاریہ اقبال سوانح اقبال… اقبال اور شخصیات… اقبال شناس… اقبال کے اثرات اقبال کی تصانیف اور تحریریں… اقبالیاتی ادب (جائزے اور تجزیے) حوالہ جاتی مقالات… اقبالیاتی ادارے… علاقائی جائزے اقبال کی غزل… اقبال کا فن… اقبالیاتی کتابوں اور جرائد کا جائزہ… اقبال کے افکار و تصورات اقبالیاتی ادب علمی مجلات کے مقالات کا تعارف ادارہ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، ’’اقبال کی مثنوی اسرار خودی----- چند ابتدائی مباحث‘‘، الاقرباء اسلام آباد، جنوری۔ مارچ ۲۰۰۹ئ، ص ۴۰-۵۶۔ علامہ اقبال کا اساسی فلسفہ ان کی معروف مثنوی اسرار خودی میں ملتا ہے۔ اس اساسی فلسفے کی تکمیل اسرار خودی سے تین برس بعد شائع ہونے والی مثنوی اسرار بے خودی میں ہوتی ہے۔ مثنوی کے مطالب کی اہمیت کے پیش نظر اقبال اسے اپنی زندگی کا مقصد تک قرار دیتے ہیں۔مثنوی کی اشاعت کے بعد فوری رد عمل کے طور پر جس طرح کے مباحث کا آغاز ہوا، اقبال کو ان کی توقع نہ تھی۔ مثنوی کے مخاطب لوگوں نے مثنوی کے معنی و مفہوم پر توجہ کرنے کی بجائے اس پر طرح طرح کے اعتراضات کھڑے کر دیے۔ اعتراضات کی بنیادی وجہ خواجہ حافظ کے بارے میں تنقیدی اشعار تھے۔ صوفی حلقوں میں حافظ کو مذہبی تقدس حاصل تھا لہٰذا اقبال کی اس تنقید کو ایک عظیم صوفی کی توہین قرار دیا گیا۔ اعتراض کی دوسری وجہ مثنوی کا اردو دیباچہ تھا۔ یہ دیباچہ اقبال کے فلسفۂ خودی کو سمجھنے کے لیے متاثر کن دستاویز کا درجہ رکھتا ہے لیکن مخالفین نے اس کو بھی ہدف تنقید بنا لیا۔ ایک اعتراض کتاب کے انتساب پر بھی تھا کہ خودی کی تعلیم دی جا رہی ہے اور خود مصنف کتاب کا انتساب ایک ایسے شخص کے نام کر رہا ہے جس سے دنیاوی مفاد کی توقع ہو سکتی ہے۔ یوں مثنوی اسرار خودی کی اشاعت کے ساتھ ہماری اجتماعی زندگی میں جن مباحث کا آغاز ہونا چاہیے تھا وہ تو نہ ہوا، البتہ ان چیزوں کو موضوع بحث بنا لیا گیا جو اقبال کے پیش نظر نہ تھیں۔ ان معترضین میں خواجہ حسن نظامی کی شخصیت بہت اہم ہے۔ ان کے ایما پر اور لوگوں نے بھی اقبال پر تنقید کا فرض نبھایا۔ بہرحال اقبال نے ان اعتراضات کو یوںرفع کیا کہ آیندہ ایڈیشن میں دیباچہ جو مختصر ہونے کی بناپر غلط فہمی کا سبب بن رہا تھا حذف کر دیا۔ حافظ کے متعلق اشعار کو بھی خارج کر دیا اور سر علی امام کے نام کتاب کا انتساب بھی حذف کر دیا۔مختصریہ کہ اقبال نے ان اعتراضات کا باعث بننے والی چیزوں کو حذف کرکے معترضین کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ اعتراضات کی جنگ سے نکل کر مثنوی کے مطالب پر توجہ کریں۔ ٭٭٭ محمد موسیٰ بھٹو، ’’اقبال کا فلسفۂ عشق اور اس کے اہم اجزا‘‘[۴؍اقساط]، بیداری، حیدر آباد سندھ، شمارہ ۶۸-۷۱، نومبر ۲۰۰۸ء - فروری ۲۰۰۹ئ۔ اقبال کا کہنا ہے کہ عشق ہی وہ قوت ہے جو افراد کی تعمیر کا کردار ادا کرتی ہے۔ عشق سے وہ قوت پیدا ہو جاتی ہے جس سے نفس مادی کثافتوں سے بلند ہو کر جوہر انسانیت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اقبال کی نظر میں شخصیت کی تعمیر کے سلسلے میں عشق سے بڑھ کر سرے سے کوئی قوت ہی موجود نہیں۔ عشق سے جو زندگی نمود میں آتی ہے وہ یقین کی پختگی سے سرشار ہوتی ہے۔ وہ اخلاص و بے لوثی سے بھرپور ہوتی ہے۔ وہ محبوب حقیقی کے لیے فدا کارانہ جذبات کا نمونہ ہوتی ہے۔ وہ معصومانہ جذبات اور پاکیزگی اور پاکبازی سے عبارت ہوتی ہے۔ یہی عشق ہے جسے اقبال نے اپنے کلام کا مرکزی نکتہ بنایا ہے۔ حق و صداقت پر قائم رہنے کی قوت کا حاصل ہونا ، نفس اور شیطانی قوتوں کے خلاف مزاحمانہ کردار کی صلاحیت کا پختہ ہونا، گناہوں سے کراہت و نفرت کا پیدا ہونا، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور احکام الٰہی پر مداومت کا حاصل ہونا حقیقی عشق کے لازمی نتائج ہیں ---- جہاں ایمان کے باوجود یہ قوت حاصل نہیں، وہاں یہ سمجھا جائے گاکہ عشق جو ایمان کا لازمی نتیجہ ہے وہ مضمحل حالت میں ہے۔ عشق کا لازمی نتیجہ اللہ کی محبت کے زیر اثر نفسی قوتوں کی پامالی ہے اور حبِ جاہ و حب مال اور انانیت جیسے بتوں سے نجات ہے۔ اقبال اپنے کلام کے ذریعے مسلم امت میں ایسے افراد کا طاقتور گروہ پیدا کرنا چاہتے تھے جو ایک طرف آتشِ عشق میں جل کر نفسی قوتوں کو حد اعتدال میں رکھنے اور انھیں قابلِ ذکر حد تک مطیع کرنے کے نقطہ نگاہ کے قائل ہوں۔ یعنی جو عشق کے مرکزوں سے کھلے دل سے روحانی استفادہ کے لیے تیار ہوں تو ساتھ ساتھ وہ دور جدید کے علمی ، عملی، نظریاتی اورعالمگیر تہذیبی چیلنج کا شعور بھی رکھتے ہوں۔ جو روایتی تصوف کے زیر اثر لکیر کا فقیر بننے کی بجائے امت کے تہذیبی اداروں سے بھرپور روحانی اور علمی استفادہ کے ساتھ ساتھ جدید کی عقلی و سائنسی ترقی اور جدید نظریات کے مثبت علمی پہلوئوں سے اخذِ فیض کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہوں۔ اقبال کے فلسفۂ عشق میں چند نکات کا بیان اس قدر مربوط و مستحکم ہے کہ انھیں ان کے فلسفہ عشق کے مرکزی نکات قرار دیا جا سکتا ہے: ۱- اقبال کے ہاں عقل کے بجائے دل کا ارتقا و سلامتی زیادہ بامعنی اور مؤثر عمل ہے۔ ۲- اقبال کے فلسفۂ عشق کا دوسرا مرکزی نکتہ حسنِ اعلیٰ کی ہستی کا ذکر و فکر ہے۔ ۳- اقبال کے فلسفۂ عشق کا تیسرا نکتہ صاحبانِ دل کی صحبت ہے۔ ۴- نفس کو مہذب بنانے کی کاوش۔ ۵- دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کی جدوجہد۔ ٭٭٭ امتیاز حسین، ’’اقبال اور تصور زمان و مکان۔ خودی و بے خودے کے تناظر میں‘‘،ادب لطیف، لاہور، مارچ ۲۰۰۹ئ، ص ۱۲-۲۸۔ اقبال کے تصور زمان و مکان کے مطالعہ کے لیے اُن دیگر تمام تصورات کا مطالعہ ناگزیر ہے جن سے یہ تصور مربوط ہے اور اثر پذیر ہوا ہے۔ مسئلہ زمان و مکان سے دلچسپی ان کی پہلی فارسی مثنوی اسرار خودی میں بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اسرار خودی میں مسئلہ زمان و مکان ایک پُر اسرار طاقت کی حیثیت سے پیش ہوتا ہے۔مگر پیام مشرق میں یہ ایک خوف ناک ظالم دیوتا کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ اس ہیبت ناک ظالم دیوتا کی نظر میں بہتے ہوئے خون کا منظر موسم بہار کے حسین منظر سے بھی بہتر ہے۔ جاوید نامہ میں زروان (روح زمان و مکان) کے نام سے اسے موسوم کیا گیا ہے۔ اقبال کو مسئلہ زمان و مکان میں اس قدر دلچسپی لینے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ حسی علوم سے مرعوب لوگوں کے لیے یہ واضح کیا جا سکے کہ حسی فلسفے اور مذہب مزید برآں مذہب اور سائنس میں کسی قسم کا تضاد نہیں پایا جاتا۔ اقبال کو مسئلہ زمان و مکان پر غور و فکر کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ وہ مسلم فلسفیوں کے ان نظریات سے یورپ کو روشناس کرانا چاہتے تھے اور وہ اس کے اچھے اثرات کی توقع بھی رکھتے تھے۔ اقبال نے اپنے خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں متعدد مقامات پر مسئلہ زمان و مکان کو صراحت سے بیان کیا ہے اور اس کی روشنی میں الٰہیات اور مذہب کے مختلف اصولوں کا بڑے غور سے جائزہ لیا ہے۔ اقبال کو پختہ یقین تھا کہ اگرچہ حکمت اور سائنس محدود ہیں اور ہماری روحانی زندگی اور قلبی واردات کی رہنمائی سے قاصر ہیں لیکن پھر بھی سائنس اور حکمت انسانیت کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اقبال نے خطبات میں اشاعرہ، معتزلہ، فرقوں اور اشعری ، طوسی، عراقی، کے ساتھ ساتھ جدید فلاسفروں اور سائنسدانوں ڈیکارٹ، نیوٹن، نطشے کے تصورات کا بھی تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ اقبال کا تصور زمان و مکان ان کے تصور الٰہ، تصور کائنات اور تصور انسان سے اثر پذیر ہوا ہے۔ اقبال نے نوجوان شاعر کی حیثیت سے زمان کو قدرے محدود تصور پیش کیا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں وسعت پیدا ہو گئی اور پھر وہ زمان کی تخلیق اور انفرادیت کے اہم عنصر کی حیثیت دینے لگے۔ اقبال پہلے ایشیائی مفکر ہیں جنھوں نے اس فلسفیانہ مسئلے کو شاعری میں بیان کیا ہے۔ اُن کا یہ تصور کسی حد تک ان کے ادب کو لازوال اور پائیدار بنانے کا موجب ہے۔ ٭٭٭ عبدالرشید عراقی، ’’علامہ اقبال اور حدیث نبویؐ‘‘، میثاق ، لاہور، اپریل۲۰۰۹ئ، ص ۷۷-۸۲۔ بعض لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اقبال منکر حدیث تھے۔ ان کے ہاں دین میں حدیث حجت نہیں تھی۔ یہ پروپیگنڈا صریحاً جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر اقبال کے منظوم اور منثور کلام کو دیکھا جائے اور خود علامہ کی نجی زندگی کے عملی شواہد پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اقبال حدیث کو دین میںحجت تسلیم کرتے تھے ۔ منظوم کلام میں تو بکثرت ایسے اشعار موجود ہیں جن میں آپ نے بعض احادیثِ رسولؐ کو نظم کیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال کے عشق رسول ؐ کے چرچے کا کسے علم نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے مثبت تصور حدیث کی شہادتیں تو اُن کے متعدد اکابر معاصرین نے بھی دی ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، سید عبداللہ، حکیم محمد حسن قرشی اور کلام اقبال کے مشہور شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اقبال کے نظریۂ حدیث پر مثبت رائے دی ہے۔ اقبال کے اردو اور فارسی کلام میں ایسے اشعار کی نشاندہی بعض مصنفین نے اپنی کتب میں کی ہے۔ خود کلام اقبال کا مطالعہ کرنے سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبال نے حدیثِ رسولؐ کو کس خوبی سے اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی، ’’فکر اقبال کے جدید پہلو‘‘، قومی زبان ،کراچی، اپریل۲۰۰۹ئ، ص ۵-۱۴۔ اقبال اور بیدل و غالب کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال نے مشرق و مغرب دونوں فلسفوں کامطالعہ کیا تھا۔ ان کا کلام فلسفیانہ حقائق سے معمور ہے۔ اقبال کے ہاں فلسفے کو اولیت حاصل ہے اور شاعری کا مرتبہ ثانوی ہے جبکہ بیدل اور غالب کے ہاں صورت برعکس ہے۔ اقبال ، کندی، فارابی، ابن سینا، ابن عربی کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں جبکہ بیدل اور غالب کے ہاں کوئی مربوط فلسفۂ حیات نہیں۔ اقبال علم، عشق اور عقل کی طاقتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ علم سے دماغ کو روشن کرتے ہیں اور عشق سے دل کی رہنمائی کا کام لیتے ہیں، وہ عقل اور عشق کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ علم دولت عشق سے بہرہ مند ہو تو زور پکڑتا ہے ورنہ خیالی نیام ہے، علم فقیہ و حکیم بن سکتا ہے مگر دانائے راز نہیں، وہ روشنی کا جویا تو ہو سکتا ہے مگر روشنی نہیں بن سکتا۔ علم اقبال اور رومی کے ہاں بہت اہم ہے۔ عقل و عشق بھی ان کے ہاں ایک دوسرے کی ضد نہیں البتہ دونوں کے طریق الگ الگ ہیں۔ بیدل کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خودی کے متعلق لکھتے وقت اقبال کی نظر بیدل کے کلام پر تھی۔ کیونکہ خودی کے مضامین اور خود شناسی کی تعلیم بیدل کے ہاں ملتی ہے۔ مگر اقبال کی خودی بیدل کی خودی سے مختلف ہے۔بیدل اور غالب کے ہاں خودی کا جو تصور ہے وہ خود داری یا خود نگری کے معنی میں ہے۔اقبال کے ہاں خودی کا تصور بہت وسیع ہے۔ غالب نے بیدل ، ظہوری، صائب، عرفی اور نظیری کے مطالعے سے اپنے لیے ایک جہانِ تازہ پیدا کیا ہے۔ اقبال نے بیدل ، غالب، نطشے، برگساں، ہیگل، رومی اور شوپنہار کے مطالعے سے اپنے لیے الگ راہ استوار کی۔ اقبال کے ہاں مقصد آفرینی برگساں کے تخلیقی ارتقا سے متاثر ہوئی۔ غالب کا فلسفیانہ کلام طرز بیدل کی ارتقائی شکل ہے۔ اقبال بیدل اور غالب دونوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ اقبال کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انھوں نے مشرق و مغرب کی بہترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی۔ مشرقی افکار سے مستفید ہوئے اور مغربی فلسفہ دانوں کا بھی بغور مطالعہ کیا۔ بیدل اور غالب کو مغربی ادبیات تک رسائی نہ ہو سکی۔یہ بات کسی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ غالب اور اقبال ، بیدل کی فکر کی پیداوار ہیں۔ بیدل کے کلام میں جو رفعت تخیل اور حکیمانہ تفکر ہے اس نے دونوں مفکرین کومتاثر کیا۔ ٭٭٭ سیّد شراز علی، ’’مغرب کے سیاسی نظام اقبال کی نظر میں‘‘، قومی زبان، کراچی، اپریل ۲۰۰۹ء ، ص۳۰-۳۵۔ اقبال کومغرب کے سیاسی نظاموں سے خواہ وہ جمہوریت ہو یا ملوکیت یہ شکوہ رہا کہ یہ تمام نظام مذہب کے اخلاقی اور روحانی اصولوں سے علیحدگی کے سبب مادی اغراض کی تکمیل کے لیے کمزوروں کو نشانۂ ستم بناتے ہیں۔ تہذیب کے پردے میں غارت گری اور آدم کشی کرنے والوں کو جب اپنی مادہ پرست اور سامراجی ذہنیت کے سبب پہلی عالمی جنگ کے نتائج بھگتنے پڑے تو انھوں نے لیگ آف نیشن قائم کی جس کا ظاہری مقصد تو آیندہ نسلوں کو جنگ بندی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا تھا مگر حقیقت میں اس لیگ کے قیام میں بھی بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات و عزائم پوشیدہ تھے۔ اس جمعیت اقوام کے تناظر میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کا کردار بھی داشتۂ پیرک افرنگ سے کچھ جدا نہیں اور اقبال نے جمعیت اقوام کے اس کردار پر سخت تنقید کی ہے۔ نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں نے دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے اور سامراجیت کو تقویت دینے کے لیے جو ادارہ قائم کر رکھا ہے امریکا کے ہاتھوں یرغمال بنا نظر آتا ہے۔ باوجو بلند بانگ دعووں کے اقوام متحدہ کی نسلی اور علاقائی عصبیت پوشیدہ نہیں۔ پوری دنیا پر اپنے نظریات اور طرز معاشرت مسلط کرنے کے لیے امریکا نے جمعیت اقوام کو ہتھیار بنا رکھا ہے اور اس کی آڑ میں خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مغرب کے سامراجی نظاموں کے خلاف ہونے والا رد عمل اشتراکیت کی شکل میں سامنے آیا تو اقبال نے شروع میں اس کے مثبت پہلوئوں کو سراہا۔ اقبال کی اس بادی الرائے طرز کی حمایت سے لوگوں نے غلط مفہوم اخذ کیا اور ان پر اشتراکیت کا لیبل لگا دیا۔اقبال نے اپنی پوزیشن صاف کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی اغراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔‘‘ دراصل اقبال نے ایسی آزاد جمہوریت کا خواب دیکھا تھا جس میں معاشی و معاشرتی مساوات قائم ہو، انسانی جذبات و احساسات کا احترام کیا جاتا ہو۔ معاش کے ذرائع سے اعلیٰ طبقوں کی بالادستی ختم ہو اور کسب معاش کے یکساںذرائع عوام کو حاصل ہوں۔ اقبال کی نظر میں ایسی جمہوریت قابلِ قدر نہیں جو صرف چند طبقات کے مفادات کا خیال کرے۔ ٭٭٭ اقبالیاتی ادب کے ضمن میں مزید مقالات کو درج ذیل فہرست میں اختصار کی غرض سے درج کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ مقالات کی طرح پہلے مصنف کا نام ، پھر مقالے کا عنوان، اس کے بعد مجلے کا نام، اس کے بعد ماہ و سال اور پھر صفحات کا اندارج کیا گیا ہے۔ - پروفیسر اکبر حیدری کاشمیری، ’’اقبال اور آل انڈیا مسلم کانفرنس‘‘،حکیم الامت، سری نگر، جنوری۲۰۰۹ئ، ص ۶-۹۔ - ڈاکٹر جاوید اقبال،’’اقبال ایک باپ کی حیثیت سے‘‘ ، حکیم الامت، سری نگر، جنوری۲۰۰۹ئ، ص ۱۰-۱۲۔ - ڈاکٹر سید تقی عابدی، ’’جاوید نامہ‘‘،حکیم الامت، سری نگر، جنوری۲۰۰۹ئ، ص ۱۳-۱۷۔ - خادم حسین، ’’اقبال کا ترانۂ ہندی‘‘، کریسنٹ، ۰۹- ۲۰۰۸ئ، ص ۲۷-۳۲۔ - ایم رمضان گوہر، ’’اقبال اور توحید‘‘،اردو نامہ، لاہور، اکتوبر،دسمبر۲۰۰۸-جنوری -مارچ۲۰۰۹ئ، ص۱۴۱-۱۴۶۔ - رشید احمد رشید تراپ، ’’علامہ اقبال اور تصور مرد مومن‘‘، اردو نامہ، لاہور، اکتوبر،دسمبر۲۰۰۸، جنوری -مارچ۲۰۰۹ئ، ص۱۴۷-۱۵۲۔ - افتخار شفیع، ’’مسئلۂ فلسطین اور علامہ اقبال‘‘،اردو نامہ،لاہور،اکتوبر،دسمبر۲۰۰۸،جنوری-مارچ ۲۰۰۹ئ، ص۱۵۳-۱۶۰۔ - ڈاکٹر سید تقی عابدی،’’علامہ اقبال کی نعتیہ شاعری‘‘حکیم الامت، سری نگر،بھارت، فروری- مارچ ۲۰۰۹ء ، ص۶-۹۔ - عطاء اللہ خان،’’علامہ اقبال کا تصور‘‘، ہمقدم،لاہور،فروری ۲۰۰۹ئ، ص۸-۹۔ - حافظ غلام مرشد مرحوم، ’’علامہ اقبال سے سعادت مندانہ ملاقاتیں‘‘ طلوع اسلام،لاہور، مارچ ۲۰۰۹ء ، ص ۵۴-۶۴۔ - چودھری محمد حسین، ’’جاوید نامہ‘‘، آفاق،لاہور، مارچ۲۰۰۹ئ، ص ۳۲-۳۴۔ - محمد اسحاق، ’’جب اقبال کے خواب کو حقیقت ملی‘‘،نظریۂ پاکستان،لاہور، مارچ۲۰۰۹ئ، ص۳۹-۴۰۔ - نعیم صدیقی،’’اقبال سے ایک ملاقات‘‘،قومی ڈائجسٹ،لاہور، اپریل۲۰۰۹ئ، ص ۵۹-۶۰۔ - روحی طیبی،’’شاعر مشرق علامہ محمد اقبال‘‘،قومی ڈائجسٹ،لاہور، اپریل۲۰۰۹ئ، ص ۱۸-۲۹۔ - ڈاکٹر سید وسیم الدین،’’کتاب اقبال اور عشقِ رسولؐ کا مطالعہ‘‘،قومی ڈائجسٹ،لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۳۶-۳۸۔ - محمد تقی خان،’’اقبال کی قدر و قیمت‘‘،قومی ڈائجسٹ،لاہور، اپریل۲۰۰۹ئ، ص ۳۹-۴۲۔ - علامہ محمد اقبال،’’خطبۂ صدارت سالانہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ مارچ۱۹۴۰ئ‘‘، تہذیب الاخلاق، لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ۹-۳۱۔ - ممتاز حسن، ’’اقبال ایک پیغمبر کی حیثیت سے‘‘[قسط ۱،۲]، آفاق، لاہور، اپریل، مئی ۲۰۰۹ئ، صفحات ۵-۷،۳۲-۳۴۔ - پروفیسر محمد حنیف شاہد، ’’حضرت علامہ اقبال اور حضور اکرمؐ، مکاتیب اقبال کی روشنی میں‘‘، نظریۂ پاکستان،لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۵-۷۔ - ڈاکٹر عبدالحمید، ’’علامہ اقبال بحیثیت مفکر پاکستان‘‘، نظریۂ پاکستان،لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۸-۱۴۔ - محمد غلام ربانی،’’علامہ اقبال کی شاعری میں مکالماتی انداز‘‘، نظریۂ پاکستان،لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۱۵-۱۷۔ - ممتاز لیاقت،’’اقبال کی نگاہِ انتخاب قائد اعظم پر کیوں پڑی؟‘‘، نظریہ، اسلام آباد، اپریل۲۰۰۹ئ، ص۳۔ - ڈاکٹر تاثیر،’’یہ فیضانی لمحہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا‘‘،نظریہ، اسلام آباد، اپریل۲۰۰۹ئ، ص۱۳۔ - رشید اے رشید تراپ،’’شاعر مشرق اور اردو کی قدر دانی‘‘،نظریہ، اسلام آباد، اپریل۲۰۰۹ئ، ص۱۷-۱۹۔ - ڈاکٹر زاہد منیر عامر،’’مصر میں اقبال کی خوشبو‘‘، اخبار اردو، اسلام آباد، مئی ۲۰۰۹ئ، ص ۲۹-۳۰۔ - ڈاکٹر سید محمد فرید، ’’پندنامہ‘‘، اورینٹل کالج میگزین، لاہور، ۲۰۰۹ئ، ص ۸۹-۹۸۔ - ڈاکٹر جاوید اقبال،’’اقبال اور پاکستان کے محمود وایاز‘‘، حکیم الامت، سری نگر، بھارت، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۵-۷۔ - ڈاکٹر سید تقی عابدی،’’علامہ اقبال کی مثنوی سورۂ اخلاص کا ترجمہ‘‘،حکیم الامت، سری نگر، بھارت، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۸-۱۲۔ - ڈاکٹر ہلال نقوی،’’فرہنگ اقبال(فارسی)از نسیم امروہوی‘‘،نظریۂ پاکستان،لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۱۳-۱۷۔ - عرفان ترابی،’’اقبال اور علامہ شیخ زنجانی‘‘، نظریۂ پاکستان،لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۴۶- ۴۸۔ - ڈاکٹر محمد سلیم، ’’علامہ اقبال اور ڈاکٹر تاثیر‘‘، تہذیب الاخلاق، لاہور، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۳۲-۳۹۔ - ڈاکٹر شاہدہ یوسف، پیام مشرق کی نظم’’تسخیر فطرت‘‘ کی ڈرامائی ہیئت‘‘،قومی زبان، کراچی، اپریل ۲۰۰۹ئ، ص ۱۵-۱۷۔ /…//…/